تعلیم مادری زبان میں
تحریر :قراۃالعین کامران
یحیی کا آج رزلٹ تھا وہ منہ لٹکائے بیٹھا تھا ۔ ابا کی ڈانٹ پھٹکار کی گونج کے اثرات ابھی بھی اس کی سماعتوں میں واضح تھے۔
“اتنی مہنگی فیس جاتی ہے اور یہ رزلٹ لایا ہے”
“اپنا پیٹ کاٹ کر ، اس کے اسکول کا خرچہ برداشت کرتے ہیں “
“لڑکے تو ہوتے ہی نکمے ہیں “
“اگر یہی حال رہا تو کسی مکینک کی دکان پر بٹھانا پڑ ے گا اسے، جب ڈنڈے پڑیں گے سر پر تو سدھرے گا”
ابا تو اپنی بھڑاس نکال کر جاچکے تھے لیکن وہ بچہ ان جملوں کی تاب نہ لاکر اپنے ہاتھ دونوں کانوں پر رکھے سر ڈال کر بیٹھا تھا۔ امی نے شفقت سے معلوم کرنا چاہا تو رقت آمیز لہجے میں کہنے لگا مجھے مس کا لیکچر بالکل سمجھ میں نہیں آتا ۔
اس نئے اسکول میں ہر بات انگریزی زبان میں کرنی ضروری ہوتی ہے۔اسی وجہ سے میرا کوئی دوست بھی نہیں بن پاتا۔نہ ہی مجھے یاد ہوتا ہے انگریزی زبان میں ، نہ ہی پیپر میں لکھ پاتا ہوں”
انگریزی ذریعہ تعلیم کا نتیجہ
یہ صرف یحیی کا ہی کیس نہیں ہے ، انگریزی زبان میں تعلیم کئی دہائیوں سے ہائی اسٹینڈرڈ کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔والدین اپنے بچوں کو اس دوڑ میں شامل کرتے وقت بچہ کا وہ حال کردیتے ہیں کہ وہ نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔ آئیے مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
مادری زبان سیکھنے کے عمل کو مہمیز دیتی ہے
تعلیم اور تربیت کے ضمن میں انسان کی شخصیت سازی اور روحانی کردار کو بلند کرنے کے لیے مادری زبان بنیادی اہمیت رکھتی ہے
،عام حالات ہوں یا خاص معاملات ان کے متعلق گفتگو اور بحث و تجزیے اگرمادری زبان میں ہوں تو اس سےعلم سیکھنےکے عمل کو مہمیز ملتی ہے۔
ماحول دوست عوامل
فطرتِ انسانی کے مدِ نظر انسان ،وعظ و نصیحت اور اخلاقی مدارج طے کرنے کے لیے ماحول دوست عوامل کا خواہاں ہوتا ہے ۔ جس میں سر فہرست مادری زبان ہے۔
جذبات کی تعلیم بذریعہ مادری زبان
انسانی ذہن ، اردگرد کے ماحول سے زبان کے ذریعے ہی رویوں ، ان کے اثرات اور اظہار کا تقابل کرنا سیکھتا ہے ۔ جیسے سخت و درشت لہجے اور غصّےبر ملا اظہار ، صبر و تحمل کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں ۔
علم کی تدریس کا موثر ذریعہ
علم کو جامع و مختصر اور دل نشین اندازمیں متعلم تک پہنچانے میں مادری زبان اہم ذریعہ ہے ۔ استادموقع محل کی مناسبت سے تشبیہات و استعارات کا استعمال اور موضوع کے مطابق معاشرے میں رائج رجحانات کے فائدے اورنقصانات کو جب مادری زبان میں بیان کرتا ہے تو تلامذہ کو سجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یہ آسان فہمی اور سہولت تعلیمی عمل کو بہتری کی جانب گامزن کرتی ہے۔
مادری زبان کی ہمہ جہتی
مادری زبان میں جو ہمہ جہتی موجود ہوتی ہے وہ ایک تحریک کا کام کرتی ہے۔ معلم موثر اظہاراور تمثیل کا سلیقہ مندانہ استعمال مادری زبان کوبروئےکارلاکر ہی کرسکتا ہے ۔ دانشورانہ اپروچ اور علم کا بہتر ابلاغ اسی صورت میں ترقی کرے گا جب تعلیم مادری زبان میں دی جائےگا۔
تعلیم کا مقصد اور مادری زبان
تعلیم کا مقصد شعوری ارتقاء ہے جو بالاخر متعلم کو تحقیقی انفرادیت تک لے جاتا ہے۔ یہ شعوری ارتقاءمعلومات کی روانی کو سمت مہیا کرتا ہے ۔تعلیم فنی اور اخلاقی اقدار کی محافظ ہوتی ہے مادری زبان میں تعلیم معاشرے میں خودی ، سچ ، وسعتِ قلبی اور بلند فکری پید کرتی ہے۔ تعلیم اپنا مقصد حاصل کرتی ہے تو قومیں سنورتی ہیں اور ترقی کی منزلوں سے آشنا ہوتی ہیں۔
مادری زبان اور تحقیق کے طالب علم :
مادری زبان میں پختگی ،تسہیل ، تقلید ، جامعیت ، وضاحت اور طبعی میلان کی آمیزش ہوتی ہے۔ مادری زبان میں تحقیق کرنے والے طالب علم وسعتِ مطالعہ اور تجزیے کی قوّت کے فوائد حاصل کرتے ہیں۔
تحقیق کے تناظر میں( پی ایچ ڈی) اور( ایم فل) کے طالب علم مشاہدے کی شدت اور اردو زبان کے متاثر کن اسلوب سے مستفید ہوسکتے ہیں۔
تعلیم کا ہمہ گیر قومی مفاد اور مادری زبان :
مادری زبان ہی اگر تعلیمی زبان بھی بن جاۓتوتعلیمی مقامہ محدود تر علاقیت سے نکل کر ہمہ گیر قومی سانچے میں داخل ہوسکتے ہیں ۔
زبان ایک وسیع تر علامتی اور جمالیاتی صلاحیت ہوتی ہے جو ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل سے بھی ہم آہنگ ہوتی ہے۔مادری زبان تعلیم کو عصری تقاضوں سے منسلک کرتی ہے۔
مادری زبان اور نفسِ مضمون :
مضمون خواہ کوئی بھی ہو مادری زبان میں عبارت کا نفسِ مضمون با آسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔سبق کا عنوان کس خاص بات یا نکتے کو سمجھانے کی کوشش کررہا ہےطالب علم کو سمجھ آجاتا ہے۔معاشرتی علوم جیسے مضامین جس میں قومی شنا خت سے بحث کرتے ہوئے عنوانات کو پڑھایا جاتا ہے ۔
اگر قومی زبان میں پڑھائےجائیں تو قومی تشخص پر طالب علم فخر محسوس کریں گے۔اسباق میں قومی کھیل ،قومی جانور، قومی پرندہ اور قومی لباس سے بات شروع ہو کر ہی تاریخ پر ختم ہوتی ہے ۔ان موضوعات کی مرکزیت قومی زبان سے ہی موثر ہوگی ۔
حاصلات تعلم کا جائزہ اور امتحان :
جس زبان میں تعلیم دی جاتی ہےاسی زبان میں طلبہ کی تعلیمی استعداد اور عبارت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ طلبہ کو سکھائے گئے نظریات کی جانچ لیے ان مثالوںکا سہارا لیا جاتا ہےجو انہوں نے پہلے نہ پڑھے ہوں۔
پہلے سے پڑھی ہوئی اور یاد کی ہوئی معلومات کو بیان کرنے میں طلبہ کی صحیح قابلیت کا اندازہ نہیں ہوتا اس لیے کہ اس میں صرف حافظے کا عنصر غالب رہتا ہے ۔ لیکن نئی اور غیر خواندہ عبارت کا مطلب بیان کرنے میں طلبہ کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملتا ہے ۔
ذخیرہ الفاظ میں اضافہ و تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما
امتحانات میں کتاب کی عبارت کے اصل فقرے نقل کردینے کے بجائے طالب علم ہمیشہ اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔اور ممتحن بھی الفاظ کی مٹھاس پر امتحانی کاپی پر کامیابی کے نشانات ثبت کرتا ہے۔
بقول الطاف حسین حالیّؔ
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زبان سے
نہیں لگتی کچھ اس میں دولت زیادہ
تعلیم تہذیب اور مادری زبان :
زبان قوموں کی تہذیب و تمدن اور ترقی و ترویج کا اہم ستون ہے ۔اگر مادری زبان کو تعلیمی زبان بنایا جائے تو تعلیمی عمل منظم اور مستقل بنیادوں پر نتیجہ خیزہوگا ۔
تہذیبی ورثے ،قومی دساتیر اور تاریخی خط و کتابت میں مستعمل زبان اگر تعلیمی زبان ہوگی تو تعلیم کا رابطہ تمدن سے بحال ہوتا جائے گا اور حصول علم احساس کمتری کے بجائے وقار اور شائستگی کا معیار بن جائے گا ۔
ہماری اردو زبان صدیوں کے تجربات و مشاہدات ، صداقتوں اور حقائق کی اساس ہے۔ تاریخی و فن اور تخلیق وادب کی چشم دید گواہ ہے۔مملکتِ خداداد پاکستان کا طالب علم اسی زبان کے دامن میں پناہ پاسکتا ہے۔