شہید ذوالفقار علی بھٹو ، عالمی لیڈر جسے ہم سے چھین لیا گیا
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
قائد اعظم کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے رہنما
اللّٰہ تعالیٰ نے قائداعظم کے بعدپاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک بین الاقوامی، ذکی، فہیم، بہادر، دوراندیش اور سیاسی شعور رکھنے والا لیڈر دیا تھا جس نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی اور اسے پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنایا۔ یہ شہید بھٹوکا ہی کارنامہ تھا جنہوں نے مسلم امہ کے اتحاد کیلئے 1975ء میں لاہور میں تیسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے 38ممالک کے سربراہوں کو اکٹھا کیا جس کے نعرے ’’تیل بطور ہتھیار‘‘ نے مغربی ممالک کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ شہید بھٹو کو مغرب کیلئے خطرہ سمجھنے لگے۔
بھٹو شہید کی 44 ویں برسی اور بینظیر بھٹو کی کتاب “دختر مشرق” سے اہم اقتباسات
زندہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ میں آج شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 44ویں برسی پر اُن کی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی کتاب ’’دختر مشرق‘‘ سے کچھ اقتباسات پیش کرنا چاہوں گا۔
جیل میں 2 اپریل 1979 کو بینظیربھٹواور نصرت بھٹو کی آخری ملاقات میں 24 گھنٹے کی توسیع
وہ لکھتی ہیں کہ ’’میں 2 اپریل کی صبح فوج کی طرف سے فراہم کردہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی جب میری والدہ اچانک کمرے میں داخل ہوئیں اور کہا کہ پنکی باہر فوجی افسران کا کہنا ہے کہ ہم دونوں بھٹو صاحب سے ملاقات کرلیں حالانکہ آج کا دن ملاقات کا نہیں ہے۔ دونوں کو اکٹھے ملاقات کیلئے بلانے کا مطلب کیا یہ آخری ملاقات ہے؟
جنرل ضیاء الحق نے میرے والد کے قتل کا فیصلہ کرلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ہمیں عالمی رائے عامہ اور عوام تک یہ خبر فوراً پہنچانا چاہئے، میں نے والدہ سے کہا کہ انہیں بتادیں کہ میری طبیعت ناساز ہے لیکن اگر یہ آخری ملاقات ہے تو ہم جانے کیلئے تیار ہیں۔جب میری والدہ ان سے بات کرنے گئیں تو میں نے پہلے سے تحریر شدہ خفیہ پیغام اپنے ایک دوست کو بھجوایا اور بتایا کہ وہ ہمیں آخری ملاقات کیلئے لے جارہے ہیں، تم فوراً غیر ملکی سفیروں تک یہ پیغام پہنچاو اور عوام کو متحرک کرکے سڑکوں پر لائو۔ میری طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے ملاقات اگلے روز کیلئے ملتوی ہوگئی اور اس طرح ہمیں اپنے والد کی جان بچانے کیلئے مزید 24گھنٹے مل گئے۔
لیکن بی بی سی اردو سروس نے اپنی خبروں میں بتایا کہ 3اپریل کو بھٹو صاحب کیساتھ ہماری آخری ملاقات ہوگی لیکن عوامی احتجاجی کال نہیں دی گئی جس سے ہماری آخری امید ختم ہوگئی۔
تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ کال کوٹھری سے قائد عوام کا بیٹی اور اہلیہ سے استفسار
اگلے روز ہم جیل پہنچے۔ میرے والد نے کال کوٹھڑی سے پوچھا کہ تم دونوں آج اکٹھی کیوں آئی ہو؟ میری والدہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے پوچھتے ہیں کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ ہاں۔ ’’کیا تاریخ کا تعین ہوگیا ہے؟‘‘ ’’کل صبح‘‘ جیل سپرنٹنڈنٹ نے جواب دیا۔’’کتنے بجے؟‘‘ ’’جیل قواعد کے مطابق صبح 5 بجے۔‘‘ ’’یہ اطلاع تمہیں کب ملی؟‘‘ ’’کل رات‘‘ اس نے رکتے رکتے جواب دیا۔
اہل وعیال سے الوداعی ملاقات کے لیے صرف نصف گھنٹے کا وقت
’’اپنے اہل و عیال سے ملاقات کا کتنا وقت دیا گیا ہے؟‘‘ ’’نصف گھنٹہ‘‘’’جیل قواعد کے مطابق ہمیں ایک گھنٹہ ملاقات کا حق ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ سپرنٹنڈنٹ دہراتا ہے۔’’ یہ میرے احکامات ہیں۔ ’’صرف نصف گھنٹہ‘‘ اس شخص سے ملاقات کیلئے۔ صرف نصف گھنٹہ جو مجھے زندگی کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ سینے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ مجھے رونا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے میرے والد کی اذیت بڑھ جائے گی۔
میرے بعد ملک میں رہو یا باہر، میں تمہیں اپنی مرضی پر چھوڑتا ہوں ،آخری گفت گو
وہ چند سگار جو انکے وکلاء چھوڑ گئے تھے میرے حوالے کرتے ہیں۔ ’’میں آج شب کیلئے صرف ایک رکھ لیتا ہوں۔‘‘ شالیمار پرفیوم کی شیشی بھی رکھ لیتے ہیں۔ وہ اپنی انگوٹھی مجھے دینا چاہتے ہیں لیکن میری والدہ انہیں کہتی ہیں ’’اسے پہنے رکھیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں ’’اچھا ابھی میں رکھ لیتا ہوں لیکن بعد میں انگوٹھی بینظیر کو دے دینا۔ ’’تم دونوں نے بہت تکالیف اٹھائی ہیں۔ وہ آج مجھے قتل کرنے جارہے ہیں، میں تمہیں تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں، اگر چاہو تو پاکستان سے باہر چلے جائو اور اگر زندگی نئے سرے سے گزارنا چاہتی ہو تو یورپ چلی جائو، میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘ ممی کہتی ہیں۔ ’’نہیں نہیں،ہم کبھی نہیں جائیں گے، ہم ملک چھوڑ کر چلے گئے تو اس عوامی پارٹی جس کی بنیاد آپ نے رکھی ہے، کی رہنمائی کیلئے کوئی نہیں ہوگا۔
“کوٹھری کا دروازہ کھولیں والد کے جسم کو چھونا چاہتی ہوں ” بیٹی کی آخری خواہش بھی ٹھکرا دی گئی
‘‘سپرنٹنڈنٹ پکارتا ہے۔ ’’وقت ختم ہوچکا۔‘‘ میں سلاخوں کو پکڑتے ہوئے اسے کہتی ہوں۔’’برائے مہربانی کوٹھڑی کا دروازہ کھول دو۔میں اپنے پاپا کو چھوکر الوداع کہنا چاہتی ہوں۔‘‘سپرنٹنڈنٹ انکار کردیتا ہے۔ پھر میں سلاخوں کے درمیان سے اپنے والد کے جسم کو چھونے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ کافی نحیف و ناتواں ہوچکے ہیں لیکن سیدھا اٹھ بیٹھتے ہیں اور میرے ہاتھ کو پکڑ کر کہتے ہیں کہ آج شب میں دنیا سے آزاد ہوجائوں گا‘‘ میں والد کی طرف دیکھ کر پکار اٹھتی ہوں،’’ الوداع پاپا۔
ہم پھر ملیں گے اس وقت تک خدا حافظ! سلاخوں کے پیچھے سے قائد عوام کی الوداعی آواز
‘‘ اس دوران میری امی بھی انہیں سلاخوں سے پکڑلیتی ہیں اور اس طرح یہ ہماری آخری ملاقات ختم ہوجاتی ہے ۔ ’’ہم پھر ملیں گے، اس وقت تک کیلئے خدا حافظ‘‘ مجھے ان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں جاتے وقت مڑکر دیکھنا نہیں چاہتی کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں ضبط نہیں کرسکوں گی ۔
4اپریل 1979ء کوراولپنڈی سینٹرل جیل میں انہوں نے میرے والد کو قتل کردیا۔ خوفزدہ جیلر نے ہمیں بتایا کہ وہ انہیں دفنانے کیلئے لے جاچکے ہیں لیکن ان کا کچھ بچا کھچا سامان لے آیا ہوں۔ میں نے جیلر سے پوچھا کہ ان کی انگوٹھی کہاں ہے؟تو اس نے انگوٹھی میرے حوالے کی۔ بھٹو جیسے عظیم لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن افسوس عالمی سازشوں کے تحت انہیں ہم سے چھین لیا گیا۔
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)