Thursday, November 21, 2024
HomeColumnsقدرتی آفات یا بد انتظامی؟

قدرتی آفات یا بد انتظامی؟

قدرتی آفات یا بد انتظامی؟

تحریر: عاطف مرزا

کسی نے کیا خوب لکھا کہ جسے ہم قدرتی آفات کہتے ہیں گورا اِسے بد انتظامی کا نام دیتا ہے اور اِس بد انتظامی کے جرم میں سب ہی شریک ہیں۔ ڈیم نہ بنانے والے، انہیں منتخب کرنے والے، دریاؤں، ندی نالوں کا رخ موڑنے والے، تجاوزات کرنے والے، غلط تعمیرات کرنے والے، ایسی تعمیر نہ روکنے والے، دریاؤں کے کنارے پر غیر قانونی طریقے سے ہوٹل اور ریسٹورنٹس بنانے والے، ان ہوٹلوں میں جا کر ٹھہرنے والے، بھتہ مافیا والے، غلط ووٹ دینے والے، جھوٹے فتوے دے کر کرپٹ مافیا کو سپورٹ کرنے والے اور بہت سے عاقبت نا اندیش اِس میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔

کالا باغ ڈیم

سوشل میڈیا پر وڈیو گردش کر رہی ہے، جس میں شکوہ تھا کہ کالا باغ ڈیم کیوں نہیں بنا۔ تو صاحبانِ فکر و نظر عرض ہے کہ کالا باغ ڈیم پر بڑی سیاست کی گئی۔ حتیٰ کہ اِن علاقوں کے اکثر فوجی اور سول افسروں، تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے کچھ استادوں، دینی تعلیمات بیچنے والےمولویوں،حرام کھانے والے سیاست دانوں اور مختلف شعبوں کے لوگوں کی تعصب بھری گفتگو سنتے سنتے ہم بھی بڑھاپے کی قطار میں لگ چکے ہیں۔

آج وہی متعصب لوگ ڈیم نہ بنانے کا شکوہ کرتے نظر آ رہے ہیں، حالانکہ اُن کی سیاسی جماعتوں اور اُن کی لگائی گئی انتظامیہ کو اچھا خاصا وقت بھی ملا۔ ہم پاکستانیوں نے اپنی کئی کئی روز کی تنخواہیں، چندے، عطیات اور جانیں تک دیں مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ شکایت کرنے والوں کو تنبیہہ کی جانی چاہئیے کہ وہ اب حقیقت سے منہ موڑنے کی بجائے اصل بات تسلیم کریں۔ اپنے اپنے کرپٹ رہنماؤں، دوغلے مولویوں، بد عنوان افسروں، کج فہم استادوں، قصائی نما معالجوں، بد انتظام حکومتوں سے کنارہ کریں۔

ڈیم پر سیاست بازی

کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے نوشہرہ اور نواحی علاقوں کے زیرِ آب آنے کی شکایت کرنے والے اب یہ جان لیں کہ کئی برسوں سے یہ علاقے پانی میں ڈوبتے ہیں۔ یہاں ڈیم ہوتا تو یہ آفت نہ آتی۔ جو لوگ ڈیمز پر سیاست کر رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ تعصب سے جان چھڑائی جائے۔ ایک نام نہاد دانشور نے مہمند ڈیم کی تباہی کے منظر پر اپنی سیاسی خنس کا مظاہرہ کیا۔ یہ ڈیم کتنا عرصہ پہلے بن جانا چاہئے تھا۔ اگر تاخیر ہوئی تو اِس میں اُن صاحب کے فکری اور معاشی آقا کی بھیانک بے توجہی اور مطلب پرستی شامل ہے۔

سیلاب سے عملاً پورا ملک متاثر ہے

ہم جو غیر متاثرہ علاقوں میں بیٹھے مطمئن ہیں کہ سیلاب نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا تو یہ ہماری خام خیالی ہے۔ منافع خور اور بد دیانت تاجروں نے سیلابی علاقوں کی امداد کے لیے جانے والے سامان پر اپنی بے حسی کا ٹیکس لگا کر قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔مزید یہ کہ سیلاب سے فصلیں تباہ ہو گئی ہیں، گوداموں اور ذخیروں میں پڑی خوراک خراب ہو چکی ہے۔ یہ معاشی نقصان اگلے دس برس میں بھی شاہد ہی پورا ہو سکے۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ اپنی دکان داری چمکا رہے ہیں۔ ہر سیاسی گُرگا تصویر بنوا کر اپنی حاضری ثابت کر رہا ہے۔ ایک فرعون 50 روپے فی کس بانٹ کر حاتم طائی کو شرمندہ کر رہا ہے۔ ایک شداد سیلاب کو عوام کے گناہوں کا شاخسانہ قرار دے رہا ہے۔ کچھ مقامات پر تو یہ بھی ہوا کہ وڈیرے یا جاگیر دار کی زمین بچانے کے لیے نہروں کے پشتے بھی توڑے گئے۔ جس سے گاؤں کے گاؤں زیرِ آب آ گئے۔

ہزاروں انسان لا پتہ ہیں، جو لاپتہ تو نہیں مگر سانسوں کے بغیر ہیں اُنہیں دفن کرنے کے لیے زمین نہیں مل رہی ہے۔ جن کے سانس چل رہے ہیں وہ کھلے آسمان کے نیچے مصائب کا شکار ہیں۔اُن سب کو بسانے میں بہت سے لوگ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ جن میں پاکستان کے تقریباً ہر شعبے کے دیانت دار، دردِ دل رکھنے والے اور سخی افراد شامل ہیں۔فی زمانہ لوگوں کا اعتبار سرکاری فنڈز سے بھی اُٹھ گیا ہے اب تو لوگ ببانگِ دہل یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ سرکاری فنڈ میں چندہ دینے کی بجائے خود ڈھونڈ کر متعلقہ متاثرہ افراد تک پہنچیں یا یہ رقم کسی اعتبار والی تنظیم یا بندے کے حوالے کریں۔یہاں اگر اداروں کی کار کردگی پر بات نہ کی جائے تو فکری بد دیانتی ہو گی۔

قدرتی آفات میں فوج کا کردار

فوج جس پر آج کل تنقید کرنے والے اِس کی تمام قربانیوں کو بھول چکے ہیں۔ فوج کا کردار ہمیشہ ایسی آفات میں مثالی رہا۔ ایف سی اور سکاؤٹس نے اپنی صلاحیت سے بڑھ کر کام کیا۔ مختلف فلاحی تنظیموں، کاروباری اداروں اور عام لوگوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر سیلاب زدگان کی مدد کی۔ ریسکیو 1122، کچھ علاقوں کی پولیس، زراعت اور نہری محکوں، واپڈا اور واسا کے کچھ اہل کار، پہلے سے موجود ڈیمز پر اپنے فرائض ادا کرنے والے لوگ، چند دینی اور سیاسی جماعتوں کے ارکان، چند اچھے صحافی، دردِ دل رکھنے والے کچھ اساتذہ اور اُن کے حوصلہ مند شاگرد، بہت سے فرض شناس معالجین، محدود تعداد میں دیانت دار تاجر اور بہت سے خاموش مجاہدوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا میرا فرض بھی ہے اور مجھ پر قرض بھی۔

حکومتی ریلیف فنڈ پر عوام کا عدم اعتماد

اپنی نوکری کے دوران 1995، 1999 اور 2010 کے سیلابوں، 2005 کے زلزلے کے ریلف آپریشنز میں حصہ لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔ پورے ملک نے دل کھول کر فنڈز اور عطیات جمع کرائے۔ اِس دوران یہ خبر ہوئی کہ سرکاری فنڈز میں جمع شدہ رقم اصل مقام پر پہنچی ہی نہیں۔ اِن آپریشنز کے دوران کسی بھی فوجی کو کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملا کیونکہ وہ سارا پیسہ سیلاب فنڈ میں رکھے جانے کی اطلاع دی گئی مگر فنڈ کہاں گیا اِس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ اُسی فنڈ میں سرکاری ملازمین کی ایک دن کی تنخواہ بھی شامل تھی۔۔ اِس لیےلوگوں نے براہِ راست فوجی اور فلاحی اداروں سے رابطہ کر کے سامان اُن تک پہنچایا۔ عوام ک ایک کثیر تعداد نے اپنے گھروں سے کپڑے، راشن اور برتن بھی بھیجے۔ جن سے کچھ روز کے لیے تو سیلاب زدگان کا بھلا ہوا۔ مگر ڈیم بنائے گئے نہ سیلاب روکنے کا کوئی بندوبست کیا گیا۔

متاثرین کی امداد میں ریا کاری کا رجحان

ہمیں اِس بات کا آج تک افسوس ہے کہ ڈونیشن، عطیات وغیرہ غریب اور سفید پوش ہی جمع کراتے ہیں، چند ایک اہلِ دل مخیر حضرات کو چھوڑ کر باقی امیروں کو کبھی اس نیک کام میں حصہ لیتے نہیں دیکھا گیا، اگر انہوں نے کچھ ہدیہ یا عطیہ کیا تو بس ایک تصویر بنوانے کے لیے۔ ریا کاری صرف اس لیےکی جاتی رہی کہ لوگ اُنہیں سخی کہیں۔ یقین کیجئیے کہ اللہ کی راہ میں خاموشی سے دیے ہوئے 10 روپے، ڈھنڈورا پیٹ کر دیے گئے 10 کروڑ روپوں سے ہزار گنا بہتر ہوتے ہیں۔ اپنی بات سمیٹتے ہوئے آخرمیں اِس نکتے پر مرکوز کرنا مقصد ہے کہ سیلاب اور زلزلے باقی ممالک میں بھی آتے ہیں، بس اُنہوں نے دیانت داری سے ایسی تمام قدرتی آفات کے لیے مناسب انتظام کر رکھا ہے۔ کسی علاقے میں ایسے تمام انتظامات میں رخنہ، سقم، غلطی، کوتاہی یا کمی سامنے آنے کی صورت میں اُس کے ذمہ داران کے ساتھ نرمی نہیں برتی جاتی ہے اور اُنہیں قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔

جمہوری ادوار میں ڈیموں پر کام نہیں ہوا

پورا پاکستان پانی کی کمی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ ٹنوں کے حساب سے پانی ہر بارش میں آسمان سے برس کر نالیوں سے ہوتا ہوا گٹروں میں جا گرتا ہے۔اِسی طرح پہاڑوں پر برف پگھلنے کے بعد لاکھوں کیوسک پانی ندی نالوں، دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں غرق ہو جاتا ہے۔ ہماری کسی بھی حکومت سے یہ نہ ہو سکا کہ مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے تالاب یا ذخیرے بنا لیے جاتے۔ ندی نالوں پر چھوٹے ڈیم تعمیر کر لیے جاتے۔ مگر ہم آج تک ایسے معاملات میں الجھے رہے جن کی وجہ سے دنیا میں ہمارا مقام ہی بن سکا نہ ہم ترقی کی دوڑ میں شامل ہوئے۔

ہمارے پاس اگر کچھ ڈیمز اور ہیڈ ورکس ہیں تو وہ بھی دورِ ایوبی کے ہیں اور ایوب ڈکٹیٹر تھا۔ اُس کے بعد مشرف دور میں پھر صفائی ہوئی۔ مشرف دور میں دیے گئے “واٹر وژن 2016″میں ایوب دور کے پروگرامز کو تازہ کر کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کے منصوبے پش کیے گئے تھے۔ مگر وہ بھی ایک ڈکٹیٹر تھا۔جمہوری ادوار میں ہر سال مون سون میں ہمارے ندی نالے بپھرکر راہ میں آنے والی ہر جان دار و بے جان رکاوٹ کو ساتھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ ہزاروں جانیں، مال مویشی، عمارات، سڑکیں، فصلیں تباہ ہونے کی وجہ سے ہمارا معاشی مقام گزشتہ سال کے مقابلے میں گر جاتا ہے۔

ڈیم بنانے کے لئے قوت فیصلہ کی ضرورت

یہ بات جان لیں کہ ڈیمز بنانے کے لیے فنڈز کے ساتھ ساتھ درست قوتِ فیصلہ اور تعمیری صلاحیت درکار ہے۔ ہمیں غیر ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے اپنے ذرائع سے یہ کام کرنا ہوں گے، اور اِس کا اک ہی مستند حل ہے کہ اپنے نمائندے اُن لوگوں کو بنایا جائے جنہیں انتظام کرنے کا شعور، حوصلہ اور ہمت ہو۔بد دیانتوں، بد خصلتوں، بد کرداروں سے جان چھڑائی جائے وگرنہ ان کی پھیلائی ہوئی بد انتظامی کی سزا ہمیں قدرتی آفات کی صورت میں ملتی رہے گی۔ اگر اب بھی ہم نے اپنی سیاسی، مسلکی، علاقائی، لسانی اور ہر قسم کی جہالت کا سہارا برقرار رکھا تو ہمیشہ ہم سیلابوں ، زلزلوں کی خوراک بنتے رہیں گے۔

قدرتی آفات، اسلام اور سائنس

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی