پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
(دوسری قسط)
تحریر ؛ضیاء چترالی
پہلا قسط ملاحظہ فرمائے:
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
فریڈم پارٹی کے ایک اور بڑے رہنما کا قبول اسلام
ہالینڈ کی اسلام دشمن ”فریڈم پارٹی“ کے رہنما ”ارناﺅڈ وانڈورن“ (Arnoud van Doorn) کے بعد اس جماعت کے ایک اور سرکردہ سیاستدان نے بھی اسلام قبول کیا۔ یہ بھی گیرٹ ولڈرز کا دیرینہ ساتھی اور دست راست تھا۔ محترم جورم وان کلیویرین (Joram Jaron van Klaveren) صاحب اب اسلام کے بہت بڑے داعی ہیں۔ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر بڑے متحرک ہیں۔ خصوصاً ٹیوٹر پر چونکہ ان کے فالورز کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لئے وہ اس پلیٹ فارم کو دعوت کیلئے بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ کبھی کبھار وہ ایسے نکات اٹھاتے ہیں کہ ہم پیدائشی مسلمان بھی اش اش کر اٹھتے ہیں۔ وہ یوٹیوب پر بھی دعوتی چینل چلاتے ہیں۔
جورم وان کلیویرین برقع اور مساجد کے میناروں پر پابندی کے حامی تھے
تین برس قبل جب جورم صاحب نے اسلام قبول کیا تو ہالینڈ سمیت دنیا بھر کے لوگ حیران ہوگئے۔ وہ ڈچ پارلیمان کے انتہائی دائیں بازو کے سابق رکن رہ چکے ہیں اور ماضی میں گیرٹ ولڈرز کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ جورم وان کلیویرین گیرٹ ولڈرز کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کی طرف سے ڈچ پارلیمان کے ایوان زیریں کے سات سال تک رکن رہے تھے اور اس دوران انہوں نے سیاسی سطح پر ایک مذہب کے طور پر اسلام پر سخت تنقید کرتے ہوئے اس کی ہر ممکنہ حوالے سے مخالفت کی تھی۔ جورم وان کلیویرن نے بیسیوں بار یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ ہالینڈ میں برقع اور مساجد کے میناروں پر پابندی ہونی چاہیے۔
اسلام مخالف کتاب لکھنے کے دوران ذہن بدل گیا
جورم نے کہا کہ وہ ایک اسلام مخالف کتاب لکھ رہے تھے کہ اس عمل کے تقریباً وسط میں ان کا ذہن ہی بدل گیا، پھر جو کچھ انہوں نے لکھا کہ وہ ان اعتراضات کی تردید اور جوابات تھے۔ جورم صاحب نے اسلام سے متعلق اپنے سابق بیانات پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا۔ ایک اخبار نے لکھا کہ ان کی طرف سے تبدیلی مذہب کے انکشاف سے ان کے دشمن اور دوست دونوں ہی ششدر رہ گئے۔واضح رہے کہ جورم کلورین محض ایک عام سا سیاست دان نہیں، ہالینڈ کی ایک اہم اور نمایاں شخصیت ہیں۔ انہوں نے وی یو یونیورسٹی ایمسٹرڈیم (VU University Amsterdam) کے شعبہ علوم مذاہب سے تعلیم حاصل کی۔ 2006ءسے 2009ءتک وہ پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی یا وی وی ڈی کی طرف سے المرے میونسپل کونسل (Muncipal Council of Almere) کے ممبر رہے۔2010ءکے عام انتخابات میں گیرٹ ولڈرز کی پارٹی دی پارٹی فار فریڈم یا پی وی وی کی جانب سے ہالینڈ کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یا ایوان ِنمائندگان (House of Representatives) کے رکن منتخب ہوئے۔2011ءکے صوبائی انتخابات میں وہ اسٹیٹس آف فلیوولینڈ (Flevoland) کے رکن بنے۔ مارچ 2014ءمیں انہوں نے پارٹی فار فریڈم کو چھوڑ کر لوئیس بونٹس (Louis Bontes) سے مل کر اپنی الگ پولیٹیکل پارٹی فار دی نیدر لینڈ کی بنیاد رکھی، تاہم 2017ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد انہوں نے سیاست چھوڑ دی۔
کلاورین گیرٹ ولڈرز کا دست راست تھے اور اس کے ولی کہلاتے تھے
کلاورین گیرٹ ولڈرز کا دست راست تھے اور اس کے ولی عہد (Crown Prince) کہلاتے تھے۔ کلورین اپنے لیڈر گیرٹ ولڈرز کی طرح بڑھ چڑھ کر اسلام کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ جورم کلاورین رسالت مآب کی شان میں گستاخی کے ساتھ اسلام کو کذب و افترا اور قرآن کو زہر قرار دیتے تھے۔ اسلام پر پابندی، قرآن کو پارلیمنٹ سے نکالنے، مسجدوں کو بند کرنے اور مسلم خواتین کو حجاب سے منع کرنے وغیرہ ایسے مطالبات کیا کرتے تھے۔
ایک مسیحی کی حیثیت سے اپنے مذکورہ نوعیت کے اسلام مخالف افکار و خیالات کو تقویت پہنچانے کے لیے انہوں نے اسلام پر ایک تنقیدی کتاب لکھنا شروع کی۔ اپنی تحقیق کے دوران ان پر ایسی چیزیں منکشف ہوئیں، جنہوں نے اسلام سے متعلق ان کے نظریئے کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کہتے ہیں: ”اس تحریر کے دوران میرا مسلسل ایسی چیزوں سے سابقہ پیش آتا رہا، جو اسلام سے متعلق میرے گزشتہ تصور کو غلط ثابت کرتی رہیں۔ میں نے اپنے اس ذاتی اور مذہبی تجربے کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس ارتقا کو نمایاں کیا ہے، جو اس مطالعے اور تحقیق کے دوران اس کے روایتی نظریات میں وقوع پذیر ہوا۔ اپنے اس سفرِِ تحقیق میں میں نے جن سوالات کو ایڈریس کیا ہے، وہ کچھ اس طرح کے ہیں: کیا خدا کا وجود ہے؟ کیا قرآن کا خدا وہی ہے، جو بائبل کا خدا ہے؟ کیا اسلام کفار کو برداشت نہ کرنے کا درس دیتا ہے؟ کیا اسلام عورتوں پر ظلم کو روا رکھتا ہے؟ جورم کلاورین تک اسلام کا منفی تصور کیسے پہنچا؟ اس سے نمٹنے کے لیے اسے کس کس نوعیت کی جذباتی اور معاشرتی کوششیں کرنا پڑیں؟ اس سفرِ تحقیق نے جورم کو کہاں پہنچایا؟“
یورپ اور امریکا میں اسلام کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے ، نو مسلم ڈچ سیاست دان
قبولِ اسلام کے بعد کلاورین نے اسلام سے متعلق مغرب کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے واضح کیا کہ یورپ اور امریکہ میں لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی اسلام کی غلط تصویر ہے، وہاں لوگ اسلام کے حوالے سے خوف، پروپیگنڈے اور میڈیا کی گمراہ کن معلومات کے زیر اثر ہیں۔ جیسا کہ قبل ازیں میرا خیال تھا، وہ لوگ قرآن کو زہر اور پیغمبر اسلام کے بارے میں نہایت منفی خیالات رکھتے ہیں۔ لیکن فی الوقع قرآن ایک مثالی روحانی زندگی کا منشور ہے، اور پیغمبر اسلام انسانیت کی آزادی کے بانی ہیں۔ کلاورین جرمن سیاست دان آرتھر ویگنر سے بہت متاثر ہیں، جو پہلے انہی کی طرح اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کیا کرتے تھے، لیکن اب مسلمان ہو چکے ہیں، اپنے پیج پرویگنر کی تصویر لگا کر کلاورین نے لکھا ہے: میں جرمنی کے اس شخص آرتھر ویگنر سے بہت متاثر ہوں، جو اسلام لانے سے قبل میری طرح پروٹسٹنٹ تھا۔ اس نے 2018ءمیں اسلام قبول کیا اور احمد نام اختیار کیا۔ وہ میری طرح اسلام اور مسلم مخالف تھا، لیکن خدا نے ہم دونوں کے دل بدل دیئے۔ مغرب میں اسلام سے متعلق عام غلط فہمیوں کو کیسے دور کیا جائے؟ اس سلسلے میں کلاورین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اب اسلام اور قرآن کو زیادہ گہرائی سے پڑھیں گے اور اس کے روحانی پیغام کو لوگوں میں پھیلائیں گے۔ چنانچہ اب وہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ جورم ہالینڈ کے علاوہ امریکا سمیت مختلف ممالک کے دورے کرتے ہیں اور اسلام کا پیغام امن پھیلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرے فہم اور مشاہدے کے مطابق کسی مغربی شخصیت کے قبول اسلام پرعمومی طور پر دو طرح کے مغربی رویے سامنے آتے ہیں، ایک کومثبت رویہ قرار دیا جا سکتاہے اور دوسرے کو منفی۔پہلا رویہ ہے کہ موجودہ اہلِ مغرب کے یہاں غیر جانب دار انہ علمی تحقیق اور اس کے نتائج کے مطابق اپنے رائے قائم کرنے اور اس کا اظہار کرنے کے حوالے سے جو توسع اور کھلا پن ہے، وہ مسلم مشرق، بالخصوص عرب اور برصغیر پاک و ہند میں دکھائی نہیں دیتا۔ یہاں اور تو اور روایتی مسلم فکر سے ہٹ کر بات کرنے پر لوگوں کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔محقق کو بہت دفعہ اپنی تحقیق کو شائع کرنے ہی کے حوالے سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے مطابق اپنے رویے کی استواری تو دور کی بات ہے۔کچھ فطری سی معاشرتی مشکلات تو ظاہر ہے مذہب کی تبدیلی سے ہر جگہ پیش آتی ہی ہیں ، لیکن مغرب میں معاشرتی اور مذہبی سطح پرکوئی سخت قسم کا جبر بہر حال دکھائی نہیں دیتا۔ آدمی کھلے عام اپنے قبول ِاسلام کا اعلان کرتا ہے، معاشرہ اس کو قبول کرتا ہے، میڈیا اس کی خواہش کے احترام میں اس پر خبریں نشر کرتا ہے۔ دوسرا رویہ اسلام قبول کرنے والی مغربی شخصیت سے متعلق مغرب کے انکار اور اس معاملے میں شکوک و شبہات کے اظہار سے عبارت ہے۔
اہم شخصیات کے قبول اسلام کے حوالے سے مغرب کا منفی رویہ
میری تحقیق کے مطابق اہم شخصیات کے قبولِ اسلام پر مغرب میں ایک روایت سی ہے کہ وہاں یا تو اس بات کا انکار ہی کر دیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص نے اسلام قبول کر لیا ہے یا پھر اس پر شکوک و شبہات ظاہر کیے جاتے اور اسلام قبول کرنے والے کی نیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ برسوں پہلے فرنچ میڈیکل ڈاکٹر اور سائنس دان اور دی بائبل دی قرآن اینڈ سائنس جیسی شہرہ آفاق کتاب کے مصنف محترمہ موریس بکائیؒ کے قبولِ اسلام سے متعلق مغربی آرا کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی اس طرح کی چیزیں نظر سے گزری تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ بکائی نے محض شہرت اور اپنی مذکورہ کتاب کی مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر اشاعت کی غرض سے قبولِ اسلام کا دعوی کیا ہے، ورنہ فی الوقع وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حالانکہ ڈاکٹر بکائی نے کئی مقامات پر اقرار کیا کہ وہ دل کی گہرائی سے جناب رسول اکرم کوخدا کے رسول اور قرآن کو وحی الٰہی سمجھتے ہیں۔ نامور محقق ڈاکٹر حمید اللہ مرحومؒ نے بھی ان کے قبولِ اسلام کی تصدیق کی تھی۔ ان کے تفصیلی احوال پر ہم عنقریب روشنی ڈالیں گے۔