پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں اور معیشت کے استحکام کا چیلنج
نوید نقوی
میں پانچویں جماعت سے اخبارات کا مطالعہ کر رہا ہوں اور میں حلفاً یہ گواہی دیتا ہوں ایسا کوئی دن کوئی ہفتہ ، کوئی مہینہ یا سال نہیں گزرا جب ہمارے حکمرانوں نے کہا ہو الحمدللہ سب ٹھیک ہے پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور عوام کو ہر وہ آسائش میسر ہے جو دوسرے ممالک کے عوام کو حاصل ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہر وقت یہی سننے کو ملتا ہے کہ ملک نازک حالات سے گزر رہا ہے مہنگائی بڑھ رہی ہے اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔
ایک زرعی ملک میں عوام آٹے کی لائن میں لگنے پر مجبور کیوں ؟
اب سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ایسا رہے گا؟ ہمارے ملک کے شہری کب سکھ کا سانس لیں گے ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران و افغانستان میں دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہی ہیں لیکن ہم تو زرعی ملک ہیں اور ہمارے پاس دنیا کا بہترین آبپاشی کا نظام ہے اور ہم دنیا میں ایک ایسی سرزمین رکھتے ہیں جو اپنی زرخیزی میں اپنی مثال آپ ہے۔ پھر کیا وجہ ہے ہمارا کسان ہو یا عام شہری سب آٹا چینی اور مرغی کا گوشت لینے کے لیے بھی لائن میں لگنے پر مجبور ہیں ؟ یہ سب بحیثیت مجموعی ایک قوم ہم سب کا قصور ہے ہم اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے ہیں ہم اس ملک میں نہ تو خود ترقی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو ترقی کرتا دیکھ سکتے ہیں۔
مرغی کے نرخوں کو پر لگ گئے ،مزید اضافے کا خدشہ
ہم سب چاہے عوام ہوں یا حکمران اپنے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کے عادی ہو چکے ہیں ہم امداد لینے کے عادی ہو گئے ہیں اور جو قوم امداد لینے پر فخر کرتی ہو کیا وہ دنیا کی باقی قوموں کے سامنے سر اٹھا کر چل سکتی ہے؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہم سب کو ایک نیا عمرانی معاہدہ کرتے ہوئے اپنے طور طریقے بدلنے ہوں گے۔ معاشی بحران اور مہنگائی کے اس دور میں دیگر اشیا خرد و نوش کی طرح پاکستان میں مرغی کی قیمت پہلے ہی کافی بڑھ چکی تھی مگر گذشتہ دو ہفتوں کے دوران فی کلو مرغی کے نرخ میں ڈیڑھ سے دو سو روپے تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ اسی دوران قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری بند ،اندرونی سرمایہ کاری جامد
وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام جس طور ختم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اقتدار کے بھوکے تا حال باہم برسرِ پیکار ہیں وہ کوئی ایسا میکینزم تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکےجسے اپنا کر ملکی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ انویسٹرز اور کاروباری طبقہ پریشان ہے اور عوام بے چارے تو پہلے ہی کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے بلبلا رہے ہیں۔دو صوبوں میں انتظامیہ گومگو کی کیفیت کا شکار ہے، شمال مغربی سرحد پر خطرات منڈلا رہے ہیں۔ملک کی سیاسی اور مذہبی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عزم نظر نہیں آتا۔ کے پی کے میں تحریک طالبان آزادانہ کارروائیاں کر رہی ہے جبکہ صوبائی حکومت اس کو روکنے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے بلکہ کئی معاملات میں اس نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے بیرونی سرمایہ کاری بھی رک چکی ہے اور اندرونی سرمایہ کاری بھی جامد ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ملکی برآمدات بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
ورلڈ بینک کی خوف ناک رپورٹ
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق موسمی اثرات کی وجہ سے پاکستان کو 2050 تک قومی پیداوار میں مسلسل کمی کا سامنا رہے گا اس تنزلی کا تخمینہ اٹھارہ سے بیس فیصد تک لگایا گیا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس بار پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سیاست اور معیشت بحرانی کیفیت سے گزر رہی ہیں ۔ معاملات دگر گوں ہونے کی وجہ سے عوام شدید پریشان ہیں اور ان کے شب و روز انتہائی مشکل سے گزر رہے ہیں۔ آٹا ، دال، چاول ، چینی ہی نہیں بجلی گیس تیل کے علاوہ مرغی کا گوشت بھی اس کی دسترس سے نکل چکے ہیں۔ افراط زر دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے عام انسان کی قوت خرید انتہائی کم ہو چکی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشی حالات کی فوری بہتری نہ ہونے کی ایک اہم وجہ روس یوکرین جنگ بھی ہے جس نے عالمی منظر پر بے یقینی پیدا کر رکھی ہے۔
پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہے ؟
پاکستان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟ ملک دیوالیہ ہو چکا یا ہونے جا رہا ہے، پاکستان میں سیاسی رسہ کشی کے کیا نتائج نکلیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کی زبان پر ہیں۔ چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بد ترین سیلاب سے ایک محتاط اندازے کے مطابق تین کروڑ افراد شدید متاثر ہوئے۔ سندھ اور بلوچستان میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی اور متاثرین کا ایک بڑا حصہ سردی کی شدت میں اضافے کے باوجود کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ زیر آب آنے والا کثیر زرعی رقبہ ناقابل کاشت ہونے کی وجہ سے آنے والے چند ماہ میں شدید فوڈ کرائسس کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ہمارے اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں نے بروقت اقدامات نہ کیے تو ایک المیہ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اگر سیاسی استحکام آ جائے تو اس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اگر حکمران اپنے اخراجات میں کمی کر لیں اور سیاسی و معاشی استحکام لانے کے لیے متفق ہو جائیں تو پاکستان میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور ہماری آئی ایم ایف اور عربوں کے قرض سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں