پاکستان کے عظیم ترین پہاڑ کے ٹو پر کچرا۔ ذمہ دار کون ؟
نوید نقوی
پاکستان لفظ لکھتے ہی ایک عجیب روحانیت کا احساس ہوتا ہے ، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے دنیا میں ہمارے ملک کا نام سب سے بلند ہو، ہر میدان میں پاکستان فاتح ہو ، پوری دنیا پاکستان کی عزت کرے، ہم امداد لینے کی بجائے دینے والے بن جائیں، بڑی بڑی سلطنتوں کے سربراہ ہمارے ملک میں کشکول لے کر آئیں، کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ 2030 کا فیفا فٹبال ورلڈ کپ بھی پیارے وطن پاکستان میں منعقد ہو، کشمیر سے انڈیا بھاگ جائے اور ہم تاجکستان کی سرحد کے ساتھ افغانستان کی وا خان کی پٹی سستے داموں خرید لیں تاکہ وسطی ایشیا کے ساتھ ہماری تجارت بلا روک ٹوک جاری رہ سکے۔
خواب سمجھیں یا حقیقت
آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کیا فضول خواب دیکھ رہا ہوں اور ان خوابوں کی تعبیر کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگی، لیکن آپ غلط سوچ رہے ہیں میرا وطن دنیا کے ان سات ممالک میں شامل ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں، دنیا کی سب سے خوبصورت وادی کاغان بھی ہمارے پاس ہے، نامعلوم گہرائی والی پریوں کی جھیل سیف الملوک بھی، دنیا کا دوسرا بلند پہاڑ کے ٹو بھی ہمارے ملک میں ہے، کے ٹو کے علاوہ بھی سربہ فلک برف پوش چوٹیاں موجود ہیں، پرہیبت اور وسیع وعریض صحرا بھی یہاں موجود ہیں اور سرسبز وادیاں بھی پاکستان میں موجود ہیں اور یہاں دنیا کے قدیم ترین جنگلات بھی پائے جاتے ہیں۔
دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں موجود ہیں
کیا آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند صرف چودہ چوٹیاں ہیں، جن میں سے پانچ پاک سرزمین کا حصہ ہیں؟ جن میں کے ٹو، نانگا پربت، گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ ایسی کوئی بھی نعمت نہیں جو ہمارے ملک میں موجود نہ ہو ، لیکن افسوس ہم ان نعمتوں کی قدر نہیں کر رہے اور اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔
پہلی بار 1954 کو اطالوی کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سر کیا
کے ٹو پہاڑ ایک خوبصورت اور عظیم الشان اثاثہ ہے اس کی وجہ سے ہمارے ملک میں لاکھوں ڈالرز کا سرمایہ آتا ہے اور پوری دنیا اس کو جانتی ہے۔یہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے۔ یہ سلسلہ کوہ قراقرم، پاکستان میں واقع ہے۔ اس کی بلندی 8611 میٹر/28251 فٹ ہے۔ اسے پہلی بار 31 جولائی 1954ء کو دو اطالوی کوہ پیماؤں لیساڈلی اور کمپانونی نے سر کیا۔کے ٹو کو ماؤنٹ ایورسٹ کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ کے ٹو پر 246 افراد چڑھ چکے ہیں جبکہ ماؤنٹ ایورسٹ پر 2238 افراد چڑھ چکے ہیں۔ کے ٹو جہاں بلند چوٹیوں کو تسخیر کرنے والے کوہ پیماؤں کے دلوں میں ’ایڈونچر‘ یا مہم جوئی کے جذبات جگاتی ہے وہیں یہ چوٹی دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ سے بھی زیادہ خوفناک سمجھی جاتی ہے۔
ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کو موت کی وادی میں دھکیلنے والی چوٹی
اس چوٹی کو سر کرنے کی جستجو کرنے والے ہر چار میں سے ایک کوہ پیما کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ کے ٹو پر اموات کی شرح 29 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بلند چوٹی ایورسٹ پر یہی شرح چار فیصد ہے۔چین اور پاکستان کے درمیان حائل آسمان سے باتیں کرتی ہوئی چوٹیوں پر مشتمل قراقرم پہاڑی سلسلے کی اس چوٹی پر حالات اتنے غیر موافق ہیں کہ اسے ایک طویل عرصے سے ’خونخوار چوٹی‘ کہا جاتا ہے۔
کے ٹو کا ڈیتھ زون
سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے۔لیکن کیا ہم اس عظیم ترین اثاثے کی حفاظت کر رہے ہیں؟
کوہ پیماؤں کی عطیات کی اپیل
گزشتہ دنوں ایک ویڈیو دیکھی جو صرف چند ماہ پرانی ہے لیکن مجھے مجبور کر دیا کہ آپ سے شئیر کروں ہو سکتا ہے ارباب اختیار تک بھی یہ معلومات پہنچ جائے،اس ویڈیو میں سوشل میڈیا اور کوہ پیمائی سے وابستہ گروپس میں نیپالی کوہ پیما اور ایلیٹ ایکسپیڈیشن کمپنی کے بانی نرمل پرجا کی ’نمز دائی فاؤنڈیشن` کی شئیر کی کردہ ایک فوٹیج ہے جس میں وہ کے ٹو پر جمع کچرے کا پہاڑ دکھاتے ہوئے اس کی صفائی کے لیے عطیات مانگ رہے ہیں۔
یاد رہے اس سے قبل بھی مارچ 2021 میں بھی انھوں نے ایسی ہی صفائی مہم اور گو فنڈ می پیج کا اعلان کیا تھا اس ویڈیو میں بیس کیمپ سے سمٹ تک پورے کلائمنگ روٹ پر کچرا ہی کچرا تھا۔مگر اس کچرے کی جانب توجہ دلوانے والے نرمل اکیلے نہیں۔
رواں سیزن میں کے ٹو سر کرنے کے لیے آنے والی امریکی کوہ پیما سارہ سٹریٹن کا کہنا تھا کہ وہ اس سال کے ٹو پر کچرے کے ڈھیر سے حیران رہ گئیں، جہاں ’تقریباً پورے راستے پر‘ ملبے اور کوڑے کے ڈھیر پھیلے ہوئے تھے۔اپنے انسٹاگرام پر سارہ نے لکھا کہ کیمپ ون اور کیمپ ٹو انتہائی گندے ہیں اور ہر طرف گذشتہ اور حالیہ ایکسپیڈیشن میں آنے والوں کا فضلہ پڑا ہے۔کوہ پیما پرانے سامان، فضلے، خیموں اور استعمال شدہ کھانے کی پیکیجنگ اور ایندھن کے کینوں کے اوپر کیمپ لگا رہے تھے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ہائیر کیمپ تھری اور فور جو 7162 میٹر اور 7620 میٹر پر واقع ہیں، وہاں صورتحال قدرے بہتر تھی لیکن پہلے جیسی صاف نہیں تھی اور بیس کیمپ سے سمٹ تک پورے کلائمنگ روٹ پر کچرا ہی کچرا تھا۔سارہ کے مطابق یہ چڑھائی میں بھی خطرے کا باعث بنا کیونکہ پرانی اور خراب ٹوٹی ہوئی فکسڈ لائن رسیوں کے ڈھیر میں سے صحیح رسی کا انتخاب ناممکن تھا۔
انھوں نے سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان (سی کے این پی) اہلکاروں کا ذکر کیا تاہم سارہ کے مطابق یہ بیس کیمپ تک محدود رہے اور اصل مسئلہ ہائی آلٹیٹیوڈ یعنی انتہائی بلند کیمپوں سے کچرا نیچے لانا ہے۔
کوہ پیمائی کرنے والی کمپنیاں کچرا پھیلانے کے ذمے دار
دوسری طرف پیرو کی کوہ پیما فلور کوئنکا، جنھوں نے 27 جولائی 2022 کو کے ٹو سر کیا نے، پاکستان کے قراقرم سلسلے میں واقع اس پہاڑ کو ’پگسٹی‘ یعنی غلاظت سے بھرپور مقام کہا۔ فلور نے کوہ پیمائی کرنے والی بڑی کمپنیوں کو اس تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔انھوں نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں لکھا کہ میں نے کمپنیوں کو اپنے کلائنٹس کو آرام پہنچانے کے لیے بہت سامان لاتے دیکھا ہے۔فلور نے انتہائی دکھی دل کے ساتھ سوال کیا کہ ہم کوہ پیما پہاڑوں کے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اور کیا ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ سارا فضلہ جادو سے غائب ہو جائے گا یا پھر کوئی اور آ کر اس کی صفائی کرے گا؟ یہ سوال ان سے بھی پوچھنا چاہئیے جو ان کوہ پیماؤں سے ٹیکس لیتے ہیں۔
سی کے این پی اس صفائی کے لیے ہر غیر ملکی کوہ پیما سے 150 ڈالر فیس لیتا ہے، اور اس سال پاکستانی کوہ پیماؤں اور ٹریکرز سے بھی فیس چارج کی گئی ہے۔حال ہی میں کے ٹو سر کرنے والی پاکستانی کوہ پیما نائلہ کیانی بھی کے ٹو پر گندگی کے بارے میں بتاتی ہیں ان کے مطابق کیمپ ون اور ٹو انتہائی گندے ہیں اور انسانی فضلے کا ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ وہاں جگہ نہیں کہ زیادہ دور جائیں مگر زیادہ تر لوگ ماؤنٹین ہارڈ ویئر اور گئیر مثلاً پرانے ٹینٹ اور بیگ وغیرہ بھی چھوڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کے سب سے کم عمر کوہ پیما شہروز نے بھی کے ٹو پر ٹینٹس، آکسیجن کے خالی سلنڈر اور اے پی آئی گیس اور پرانی رسیاں دیکھیں۔وہ بتاتے ہیں کہ کچھ نیپالی کمپنیاں اپنے ٹینٹ چھوڑ گئیں تھیں جنھیں شہروز، ساجد سدپارہ اور اپنے شرپا کے ساتھ مل کر اکھاڑ کر نیچے لائے۔
سنہ 1954 سے 94 تک صرف 30 فیصد ،22 جولائی کو ایک ہی دن 97 فیصد مصنوعی آکسیجن استعمال ہوئی
پاکستان میں واقع دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو پر جمع ہونے والے کچرے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’سنہ 1954 سے لے کر 1994 تک 40 سال میں 100 سے زائد سمٹس ہوئیں جن میں سے صرف 30 فیصد میں مصنوعی آکسیجن کا استعمال ہوا۔ سال 2022 میں 22 جولائی کو صرف ایک دن میں 141 سمٹس ہوئیں جن میں سے 97 فیصد میں مصنوعی آکسیجن استعمال ہوئی۔
یوں کے ٹو پر ایک دن میں پہلی 100 سمٹس اور پہلے 40 سال سے دُگنا کچرا جمع ہوا ہے۔ یہ اسلام آباد میں کسی پارک کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ یہ صورتحال دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کی ہے جو سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر ہے۔
وہی پہاڑ جن سے نکلنے والے گلیشیئر (خاص طور پر پاکستان میں) لاتعداد ندی نالوں، چشموں اور جھرنوں کی صورت میں ہمیں پانی فراہم کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مگر جن پہاڑوں پر جانا زندگی کو خطرے میں لانے کے مترادف ہے اگر وہ بھی گندگی کے ڈھیروں میں تبدیل ہو جائیں تو کیا کیا جائے؟
پہاڑوں کی کمرشلائزشن کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت
ایسا لگتا ہے کہ اونچے پہاڑوں کی کمرشلائزیشن جو ایورسٹ پر برسوں پہلے ہوئی تھی، اب اس کے اثرات 8000 میٹر سے بلند دیگر چوٹیوں تک بھی پہنچ گئے ہیں۔کے ٹو پر جمع ہونے والے کچرے کی صفائی کس کی ذمہ داری ہے۔اور کیا پاکستان میں اس حوالے سے کوئی قوانین ہیں بھی یا نہیں؟بدقسمتی سے پاکستان میں اس حوالے سے اب تک کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔عموماً جن ممالک میں 8000 میٹر سے بلند چوٹیاں موجود ہیں وہاں یہ ذمہ داری پرمٹ جاری کرنے والی اتھارٹی کی ہوتی ہے کہ وہ ایکو ٹورازم کے ساتھ ساتھ پہاڑوں کی صفائی کے حوالے سے کوہ پیمائی کے بین الاقوامی معیارات کو برقرار رکھیں۔
پاکستان میں موجود پہاڑوں پر سے کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری حکومتی سطح پر محکمہ ٹورازم گلگت بلتستان کی ہے اور کوہ پیمائی کی کسی بھی کمپنی کو پرمٹ جاری کرتے وقت ان سے ایک مقررہ رقم وصول کی جاتی ہے تاکہ سیزن کے بعد کچرا صاف کیا جا سکے جو ڈائریکٹوریٹ آف سینٹرل قراقرم نیشنل پارک گلگت بلتستان (سی کے این پی) کا کام ہے۔اس مرتبہ 2022 میں ریکارڈ تعداد میں کوہ پیما کے ٹو اور دوسرے پہاڑ سر کرنے آئے جن میں سے بہت سے کوہ پیما اور کمپنیاں اپنا کچرا چھوڑ کر چلے گئے۔
نیپال میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے آٹھ موجود ہیں، وہاں ہر سال ہزاروں کوہ پیما ان چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے آتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں سیاح اور ٹریکرز بھی بیس کیمپوں تک پہنچتے ہیں۔ وہاں ان چوٹیوں سے صفائی کا انتظام ڈاٹ (ڈیپارٹمنٹ آف ٹورازم) کے پاس ہے۔
پہاڑوں پر جمع ہونے والے کچرے کی قسمیں
آخر پہاڑوں پر کس قسم کا کچرا پیدا ہوتا ہے ؟ پہاڑوں پر دو قسم کا کچرا جمع ہوتا ہے۔پہلی قسم میں انسانی کھانا اور فضلہ شامل ہے، اس کچرے اور اس کی صفائی کا انتظام بیس کیمپ پر ہوتا ہے۔انٹرنیشنل سٹینڈرز کے مطابق غیر ملکی سیاح کوشش کرتے ہیں کہ بائیو ڈی گریٹ ایبل سامان لائیں جو کچھ عرصے بعد تحلیل ہو کر ماحول کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کھانے کا سامان وہ پکا ہوا لاتے ہیں اور کچھ وہاں بیس کیمپ میں پکایا جاتا ہے۔
دوسری قسم ماؤنٹین ہارڈ ویئر ہے۔ جس میں پہاڑ پر چڑھنے والی رسی اور ٹینٹ سے لے کر پروٹون، آئس بارز، آئس سکروز اور ٹینٹوں کو باندھنے والی رسیاں وغیرہ شامل ہیں۔اوسطاً ہر کوہ پیما ان پہاڑوں پر دورانِ سمٹ 15-25پاؤنڈ تک کچرا پیدا کرتا ہے جس میں لاوارث خیمے، آکسیجن کے ڈبے، خوراک اور پانی کے برتن، بچا ہوا سامان اور انسانی فضلہ شامل ہیں۔کوہ پیماؤں کو ٹینٹوں کے ساتھ لگنے والی رسیاں اس طرح لگانے کی تربیت دی جاتی ہے کہ واپسی پر آخری کوہ پیما انھیں بآسانی اکھاڑ سکے لیکن پھر بھی کچھ کوہ پیما اپنے ٹینٹ وہیں لگے چھوڑ آتے ہیں۔
اسی طرح سپلیمنٹری آکسیجن کے سلنڈر فراہم کرنے کا ٹھیکہ بھی ایک پاکستانی کمپنی کے پاس ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ جتنے سلنڈر فروخت کیے گئے اتنی ہی تعداد میں واپس حاصل کرے۔
کوہ پیما ذاتی استعمال کی اشیاء واپس کیوں نہیں لاتے
کوہ پیمائی میں بھی ذاتی اخلاقیات کی بات ہے جیسے زمین پر رہنے کے اصول ہیں ویسے ہی پہاڑوں پر کوہ پیمائی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور فکسڈ رسی تو کمپنی کی ذمہ داری ہے لیکن شرپا ہو یا کوہ پیما، انھیں چاہیے اپنے ذاتی استعمال کا سامان واپس لائیں۔کےٹو کے ہائی آلٹیٹیوڈ پر صفائی کا تجربہ اور مہارت پاکستانیوں کے پاس نہیں ہے پاکستان کی کوئی کمپنی ایسی نہیں ہے جو کیمپ فور یا ڈیتھ زون میں صفائی یا رسی لگانے کی سہولیات فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہو اور اصل مہارت کیمپ فور سے سمٹ تک کے علاقے میں ہی چاہیے۔
اس لیے حکومت کو چاہیئے کہ فوری طور پر اس عظیم اثاثے کی حفاظت کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے تاکہ ہماری قومی آمدنی کا یہ عظیم ذریعہ برباد ہونے سے بچ سکے، کے ٹو سر کرنے کے لیے فیس کو دگنا کر دینا چاہئیے تاکہ ہر کوئی اس کو سر کرنے کے لیے نہ چلا آئے، دوسرا صفائی کے حوالے سے ہمارے پاس اعلیٰ تربیت یافتہ ٹیمیں ہونی چاہئیں تاکہ کے ٹو پر اگر کسی قسم کا سامان رہ جائے تو فوری طور پر نیچے لانے کا انتظام کیا جاسکے۔ اب وقت آ گیا ہے کے ٹو جیسے عظیم اثاثے ہوں یا دور دراز گاؤں ہیڈ ملکانی میں موجود نہر کنارے درخت ہوں ان کی حفاظت کرنا ہم سب کی قومی ذمہ داری ہے۔