پاکستان کا چار دروازوں والا شہر برہمن آباد جسے ایرانی بادشاہ نے آباد کیا
نوید نقوی
سندھ بر صغیر کے قدیم ترین ورثے اور صنعت کا مرکز
سلسلہ “رب کا جہاں” میں آئیے اس بار سندھ کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان کے پانچ صوبوں میں سے یہ ایک ایسا صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ سندھ پاکستان کا جنوب مشرقی حصہ ہے۔ سندھ کی صوبائی زبان سندھی اور صوبائی دار الحکومت کراچی ہے۔سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔
اس کا کل رقبہ140,914 مربع کلومیٹر ہے۔جبکہ اس کی کل آبادی تقریباً 47,886,051 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ پاکستان کا ایسا صوبہ ہے جہاں قدم قدم پر تاریخ بکھری پڑی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خطہ اپنی قدیم تہذیبوں کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔
اگر آپ بذریعہ ٹرین لاہور سے کراچی کی طرف جا رہے ہیں تو ٹنڈوآدم ریلوے سٹیشن کے بعد شہدادپور سٹیشن آتا ہے، اس سے کوئی 18 کلومیٹر دور برہمن آباد یا منصورہ کے قدیم شہر کے آثار موجود ہیں۔یہاں ایک سٹوپا بھی موجود ہے جس کو بعض مؤرخ بدھ سٹوپا یا عبادت گاہ قرار دیتے ہیں جبکہ آس پاس سرخ اینٹوں کی ڈھیریاں لگی ہوئی ہیں اور یہ چار کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
سنہ 1854 میں پہلی بار برہمن آباد کے آثار قدیمہ کی دریافت
محکمہ آثار قدیمہ اور نوادرات کا کہنا ہے کہ برصغیر میں یہ مسلمانوں کا پہلا مضبوط مرکز تھا، جو دریا میں جزیرہ نما شہر تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ برہمن آباد کی کھدائی کب ہوئی؟بیلاسس اور رچرڈسن نے سنہ 1854 میں پہلی بار ان آثار قدیمہ کی کھدائی کی۔ اس کے بعد ہینری کیزنز نے اس کو آگے بڑھایا۔ قیام پاکستان کے بعد قومی وزارت آثار قدیمہ کی جانب سے سنہ 1962 میں کھدائی کی گئی جس کی ابتدائی رپورٹ تو شائع ہوئی لیکن جامع رپورٹ آج تک شائع نہیں کی گئی۔اس رپورٹ میں ڈاکٹر ایف اے خان نے قرار دیا کہ یہ منصورہ شہر کے آثار ہیں اور یہاں سے مسجد کے آثار ملے ہیں جبکہ اسلام سے قبل کے آثار دستیاب نہیں ہیں۔
شاہ عبد اللطیف یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کی 20 رکنی ٹیم ازسر نو تحقیق میں مصروف
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی سے منسلک ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں عمارتوں کی سطح، یا ادوار پر کوئی بات نہیں کی گئی۔اب حکومت پاکستان دوبارہ اس پر تحقیق کروا رہی ہے لیکن حالیہ تحقیق کا مقصد کیا ہے؟
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کی سربراہی میں اساتذہ اور طالب علموں پر مشتمل 20 افراد کا گروپ حالیہ دنوں برہمن آباد کے آثار کی تحقیق کر رہا ہے، ابتدائی طور پر چھ مقامات پر یہ تحقیق جاری ہے جسے اگلے مرحلے میں وسیع کیا جائے گا۔
کیا محمد بن قاسم کی آمد سے پہلے آبادی موجود تھی ؟
ڈاکٹر غلام محی الدین ویسر کا کہنا ہے کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ جو مفروضہ ہے کہ جب محمد بن قاسم آیا تھا اس وقت یہ آبادی بنی تھی یہ درست ہے کہ نہیں، یہاں عمارتوں کی سطح کیا ہے، کس قسم کے مٹی کے برتن مل رہے ہیں اور وہ کس صدی اور ادوار کی عکاسی کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ محمد بن قاسم نے مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف کے حکم پر 712 ہجری میں سندھ پر حملہ کیا تھا، اس وقت یہاں یہاں راجہ داہر کی حکومت تھی۔ برہمن آباد پر عربی، فارسی سمیت مختلف زبانوں میں تاریخی مواد شامل ہے، جن سے اس شہر کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔سندھی زبان کے تاریخ اور ڈرامہ نویس مرزا قلیچ بیگ ’قدیم سندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ ہندو راجاؤں کے زمانے میں برہمن آباد سات بڑے قلعوں والے شہروں میں شامل تھا۔
راجہ داہر کیسے حکم ران بنا ؟
برہمن راجہ چچ کی حکومت میں اگھم لوہانہ یہاں کا حاکم تھا، لاکھا، سما اور سھتا برداری اس کے زیر اثر تھیں۔ اس کا حکم سمندر تک یعنی دیبل بندر گاہ تک چلتا تھا۔ چچ نے اگھم سے لڑائی کر کے اس کو شکست دی اور شہر پر کنٹرول کر کے اگھم کی بیوہ سے شادی کر لی۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ چچ کا بیٹا راجہ داہر جب حکمران ہوا تو اس نے اپنے بھائی داہر سیئن کو یہاں کا حاکم مقرر کیا اور اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کو حکمرانی دی گئی۔
مولائی شیدائی ’جنت السندھ‘ میں لکھتے ہیں کہ یہاں بدھ مت کا ایک بڑا عبادت خانہ تھا اور علم جوتش کے ماہر یہاں موجود تھے۔ چچ نے سخت گیر برہمن ہونے کے باوجود بدھوں کی عبادت گاہ برقرار رکھی تھی۔جنت السندھ‘ میں مولائی شیدائی لکھتے ہیں کہ راجہ داہر کے قتل کے بعد ان کے بیٹے جیسئین کے پاس محمد علافی (محمد علافی نے عمان میں خلیفہ کے خلاف بغاوت کی تھی اور ناکامی پر راجہ داہر نے اس کو پناہ دی تھی) سمیت 15 ہزار کا لشکر تھا۔ دونوں کو وزیر سیاسگر نے برہمن آباد کی طرف جانے کا مشورہ دیا، جہاں بے شمار خزانہ دفن تھا۔
محمد بن قاسم سے سندھیوں کی آخری جنگ اور شکست
برہمن آباد کے قلعے کے چار دروازے تھے جر بیڑی (کشتی) ساہتیا، منھڑو اور سالباہ۔ جن پر جئسین نے چار سپہ سالار فوجوں سمیت مقرر کیے تھے، بقول ان کے محمد بن قاسم سے سندھیوں کی یہ آخری جنگ تھی۔ماہ رجب میں عرب لشکر برہمن آباد کے قریب پہنچا، محمد بن قاسم کے حکم پر خندقیں کھودی گئیں، جئسین نے گوریلا جنگ شروع کر دی اور سارے علاقے کو ویران کر دیا تاکہ اسلامی لشکر کو سامان کی رسد اور جانوروں کو گھاس نہ ملے، چھ ماہ کے گھیراؤ کے بعد شکست ہوئی اور شہریوں نے قلعے کے دروازے کھول دیے۔
برہمن آباد ایرانی ساسانی بادشاہ گشتسب کے ہوتے کی طرف منسوب ہے ؟
محمد بن قاسم نے ان پر جزیہ مقرر کیا، یہ فتح محرم سنہ 94 ہجری میں ہوئی۔ اس شہر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایرانی بادشاہ کا شہر ہے کیونکہ برہمن آباد کے بارے میں بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ شہر ایرانی بادشاہ نے آباد کیا تھا، سندھ کے تعلیم دان اور تاریخ دان غلام علی الانا مہران میگزین میں اپنے مضمون ’منصورہ پر اسماعیلی حکومت‘ میں لکھتے ہیں کہ ساسانی گھرانے کے حکمران گشتسپ نے وادی سندھ کی حکومت اپنے پوتے بہمن کے حوالے کی تھی، جو ایران کی تاریخ میں ’ہمن اردشیر دراز دست‘ سے مشہور ہے۔ بھمن نے سندھ میں بھمنو نام سے شہر آباد کیا جو پھر ’برہم آباد‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
برہمنوں کا اثرو رسوخ کب بڑھا ؟
بعض محققین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ برہمن آباد بہمن اردشیر کے حکم سے تعمیر ہوا اور غالبا کافی عرصے کے بعد جب سندھ میں برہمنوں کا اثر و رسوخ بڑھا تو بھمن آباد کے نام کو برہمن آباد پکارا جانے لگا۔ یہ تبدیلی برہمنوں کے تسلط یا پھر سندھی زبان کی مقامی ادائیگی کی وجہ سے وجود میں آئی۔جبکہ بعض محققین کا خیال ہے کہ عسکری اور سیاسی ضروریات کے پیش نظر سندھ میں عربوں کو اپنے شہر آباد کرنے پڑے جن میں محفوظہ، بیضا اور منصورہ مشہور ہوئے۔
سندھ کے تاریخ نویس ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں کہ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے برہمن آباد اور منصورہ ایک ہی شہر کے دو نام ہیں، یزید ال قلبی کے زمانے میں سندھ کا دارالحکومت الور سے منصورہ منتقل کیا گیا۔بشاری المقدسی جس نے 961 عسیوی میں سندھ کا دورہ کیا نے اپنی کتاب ’احسان التقسیم معارف الکلیم‘ میں لکھا کہ منصورہ ایک کلومیٹر طویل اور دو کلومیٹر چوڑا شہر ہے جس کے چاروں اطراف میں دریا ہے اور چار دروازے ہیں۔بقول اس کے منصورہ اپنی اراضی میں دمشق کے برابر ہے۔ مکانات مٹی اور لکڑی کے ہیں لیکن جامع مسجد پتھروں اور اینٹوں سے بنی ہوئی ہے اور اچھی ِخاصی بڑی عمارت ہے جو وسط شہر میں ہے۔ عرب سیاحوں میں سے کچھ نے برہم آباد اور منصورہ کو ایک ہی شہر بیان کیا۔ وہ یاقوت لحومی، حمزہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں المنصورہ، برہمن آباد کا دوسرا نام ہے۔ عرب سیاح البیرونی کی رائے کے مطابق برہمن آباد کا نام بھمنوا ہے، مسلمانوں کی حکومت سے قبل اس شہر کو برہم آْباد پکارا جاتا تھا۔
محمود غزنوی کا برہمن آباد پر حملہ
برہمن آباد پر محمود غزنوی نے بھی حملہ کیا تھا۔ ایم ایچ پنہور لکھتے ہیں کہ سومنات مندر پر حملے کے بعد محمود غزنوی نے منصورہ پر حملہ کیا، یہاں خفیف سومرو کی حکومت تھی جو حملے سے پہلے فرار ہو گیا، یہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت ہوئی اور شہر کے کچھ حصے کو نذر آتش کیا گیا۔پنہور لکھتے ہیں محمود غزنوی کے درباری شاعر فرخی نے اپنے دس سطروں کے قصیدے میں خفیف کے کھجور کے باغوں میں فرار ہونے، زندگی بچانے کے لیے دریا میں کود کر جانیں گنوانے والے لوگوں اور قتل عام کا ذکر کیا ہے۔
ہینری کینز کا حوالہ دیتے ہوئے پنہور لکھتے ہیں کہ جس طرح گلیوں میں سے سکے پڑے ملے ہیں اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سے لوٹ مار کی گئی ہے۔پہلے تحقیق میں یہ کہا گیا کہ یہاں بدھمت کا سٹوپا بھی ہے لیکن اس کی خصوصیات یا علامات کا متعلقہ مواد دستیاب نہیں کیونکہ بدھ سٹوپا کی الگ خصوصیات ہوتی ہیں، اس قدر کہ بدھا کا کوئی مجمسہ یا مورت بھی نہیں ملتی۔
ساسانی دور کی باقیات
برہمن آباد پر ہونے والی پہلے کی تحقیق میں ایک جامع مسجد کا ذکر ملتا ہے اس لیے چار گڑھے، مسجد ایریا میں لگائے گئے ہیں جو 15 فٹ نیچے تک گئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جو موجودہ شہر ہے اس سے پہلے بھی ایک آبادی تھی۔ یہاں جو عمارتوں کی سطح مل رہی ہے یا مٹی کے برتن مل رہے ہیں اس میں بھی فرق نظر آ رہا ہے اور اس میں اسلامی دور کی نشانیاں بھی ہیں اور قبل از اسلامی ادوار بھی شامل ہیں۔یہاں سے ملنے والے مٹی کے برتن تیسری صدی عیسوی سے مشہابت رکھتے ہیں جو ساسانی دور (اسلام سے قبل ایران کا آخری بادشاہی دور) سے تعلق رکھتے ہیں اسی نوعیت کے برتن بھنبور کے آثار قدیمہ سے بھی مل چکے ہیں۔اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے یہ شہر تیسری صدی سے آباد تھا۔
محمد بن قاسم سے پہلے شہر آباد تھا
اس کا پھیلاؤ دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن قاسم جب یہاں آئے تو انھوں نے اس کو فتح کیا لیکن لوگ یہاں پہلے سےآباد تھے۔برہمن آباد پر کی گئی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہو گا۔اس سے پہلے کی گئی تحقیق میں یہاں سے سکے اور دیگر نوادرات ملے تھے جو قیام پاکستان سے قبل برٹش میوزیم اور بمبئی منتقل کر دیے گئے تھے۔
حالیہ تحقیق میں مٹی کے برتنوں کے علاوہ قیمتی پتھر، نیلم، روبی، زمرد بھی پائے گئے ہیں اس کے علاوہ ان کی پالش کرنے کے آلات اور سانچے بھی برآمد ہوئے ہیں۔جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی یہاں صنعت موجود تھی۔ اس کے علاوہ ہاتھی دانت کے زیورات، شیل اور سکے بھی ملے ہیں اور سکوں کی صفائی کے بعد یہ معلوم ہو گا کہ یہ کس دور کے ہیں۔
کیا یہ قدیم شہر زلزلے کی وجہ سے اجڑا؟
موئن جو دڑو اور بھنبھور کی طرح برہمن آباد سے بھی پینے کے پانی کے کنویں ملے ہیں لیکن یہ اُن سے منفرد ہیں۔ مٹی کے برتنوں کی طرح بھٹی میں بنی ہوئِے پائپ کے رنگ کی ایک لائن پندرہ فٹ سے بھی نیچے جا رہی ہے ان رنگوں کو آپس میں ملا کر یہ لائن بنائی گئی۔ زیر زمین پانی کے حصول کے لیے یہ لائن عمودی چل رہی ہے، یہ اپنی طرز کی منفرد ٹیکنالوجی ہے، اس سے پہلے کی تحقیق میں اس لائن کو نکاسی آب کی لائن قرار دیا گیا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا جدید اور منظم شہر کیسے تباہ ہوگیا یا اجڑ گیا؟ بیلاسس اور رچرڈسن جنھوں نے یہاں پہلے کھدائی کی تھی کا خیال ہے کہ زلزلے کی وجہ سے شہر اجڑ گیا تھا۔
باکڑا دریا کا سوکھنا اور دریائے سندھ کا رخ تبدیل کرنا شہر کے اجڑنے کی وجہ ہو سکتی ہے
شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے شعبے آرکیالوجی کے سربراہ غلام محی الدین زلزلے کی تھیوری تو مسترد کرتے ہیں کیونکہ دیواریں سلامت ہیں اور کہیں بھی جھکی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ اس مؤقف سے بھی اتفاق نہیں کرتے کہ شہر پر حملہ کر کے نذر آتش کیا گیا ہو، بقول ان کے آگ کے نشانات یا جلی ہوئی لکڑیاں وغیرہ برآمد نہیں ہوئی ہیں۔ایم ایچ پنہور کا خیال ہے کہ تاریخی ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ ہاکڑا دریا سوکھ گیا اور دریائے سندھ نے بھی اپنا رُخ تبدیل کیا، یہ تبدیلیاں اس خطے میں 10 صدی عیسوی میں آئیں۔ڈاکٹر ویسر کا بھی خیال ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ دریائے سندھ نے اپنا رخ تبدیل کیا ہو، جس کے مواصلات اورسہولیات متاثر ہوئی ہوں۔ان کے مطابق بعد میں ملنے والا عمارتی ڈھانچہ اتنا اچھا نہیں جو اس سے پہلے والوں کا مل رہا ہے جنھوں نے بعد میں گھر بنائے ہیں ان میں اینٹوں کا دوبارہ استعمال ہوا ہے جیسے موئن جو دڑو میں کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں