موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی کانفرنس اور انسان کی بقا
نوید نقوی
میں حیرت زدہ ہوں ایک ایسے ملک میں جہاں اگلے سال گندم کی پیداوار اپنے ٹارگٹ سے بہت کم ہوگی اور اس وجہ سے لاکھوں لوگوں کو بھوک کے عفریت کا سامنا کرنا پڑے گا۔افغانستان ،ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا اور مڈغاسکر کے بچوں کی طرح ہمارے بچوں کو بھی فاقے کرنا پڑیں گے، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل سر اٹھائے کھڑے ہیں،ہمارا ملک دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے، حال ہی میں آدھا ملک پانی سے ڈوب گیا تھا، انرجی کے بحران کا سامنا ہے اور مہنگائی نے جینا مشکل کر دیا ہے تب بھی ہر کوئی سیاست سیاست کھیل رہا ہے اور جو حقیقی معنوں میں چیلنج ہیں ان پر کسی کا دھیان نہیں اور جو ان چیلنجوں سے جگانے کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی طرح محسوس ہو رہی ہے۔
کوپ کانفرنس اور 1992 کا یو این معاہدہ
دنیا پریشان ہے کہ ان مصیبتوں سے کیسے نمٹا جائے اور ہم خواب غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے، کلائمیٹ چینج کے موضوع پراقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سربراہی کانفرنس ہر سال منعقد کی جاتی ہے جس کا مقصد رکن ممالک کی حکومتوں کے مابین ان اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے جن سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔اس کانفرنس کو ’سی او پی‘ یا ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ یا کوپ کہا جاتا ہے۔ یہاں پارٹیز سے مراد وہ ممالک ہیں جو کانفرنس میں شریک ہوتے ہیں اور جنھوں نے آب و ہوا میں تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے سنہ 1992 کے پہلے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔
مصر میں شروع ہونے والی کانفرنس 18 نومبر تک جاری رہے گی
اس سال مصر میں ہونے والی اس کانفرنس کو ’کوپ 27‘ کہا جا رہا ہے کیونکہ یہ اس موضوع پر اقوام متحدہ کی 27ویں کانفرنس ہے۔ یہ کانفرنس شرم الشیخ کے مقام پر 6 نومبر کو شروع ہو چکی ہے اور 18 نومبر تک جاری رہے گی گی۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے علاوہ دنیا بھر سے ماحولیات پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں، مقامی تنظیموں کے نمائیندے، تھِنک ٹینکس، کاروباری ادارے اور مذہبی گروپس بھی کانفرنس میں شرکت کریں گے۔
ہم ماحولیاتی تباہی کے راستے پر ہیں ، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
6نومبر 2022 کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے مصر کے خوبصورت سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ہونے والی اس کلائمیٹ چینج کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ماحولیاتی تباہی کی شاہراہ پر ہیں اور رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
عالمی حدت بڑھنے کی بڑی وجہ تیل ،گیس اور کوئلہ جیسے ایندھنوں کا جلانا ہے
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام یہ کلائمیٹ کانفرنس ایسے وقت ہو رہی ہے جب پچھلے ایک برس میں پاکستان میں شدید سیلاب جیسی قدرتی آفت کے علاوہ خطرناک انرجی بحران بھی سر پر کھڑا ہے اس کے علاوہ عالمی حدت کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں عالمی حدت (زمین کا درجۂ حرارت) میں اضافے کی وجہ وہ آلودگی ہے جو انسان پیدا کرتے ہیں اور اس میں سب سے بڑا حصہ اس آلودگی کا ہے جو فوسل فیول یعنی تیل، گیس اور کوئلے جیسا ایندھن جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔
زمین کا درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے 1.5 فیصد بڑھ چکا ہے
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ تمام انسانیت کو مل کر عالمی حدت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تعاون کرنا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوا تو انسان فنا ہو جائے گا اور اس کی فکر کسی بھی عالمی رہنما کو نہیں ہے،اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس گلاسگو میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس کے بعد سےعالمی حدت کا سبب بننے والے اخراج کو کم کرنے کے حوالے سے پیشرفت انتہائی ناکافی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت سے ایک اعشاریہ پانچ فیصد بڑھ چکا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب کا سد باب نہ ہوا تو سن 2100 تک عالمی حدت دوگنا ہوجائے گی
سائنسدان کہ رہے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب کا سدباب نہ کیا گیا تو سن 2100 تک درجہ حرارت مزید دو اعشاریہ آٹھ فیصد تک بڑھ سکتا ہے اور یہ ہمارے کرے کی یقینی تباہی کا باعث ہوگا،تاہم، کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ عالمی رہنماؤں نے بہت دیر کر دی ہے اور اس کانفرنس میں جس بات پر بھی چاہے اتفاق ہو جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ایک اعشاریہ پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف پھر بھی حاصل نہیں ہوگا۔
برا اعظم افریقہ گرین ہاسز کا صرف چار فیصد پیدا کرتا ہے ،صدرافریقن یونین
اس کانفرنس میں متعدد عالمی رہنماؤں نے خطاب کیا اور دنیا میں انسان کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں، افریقن یونین کے صدر نےکہا ہے کہ جو ماحول کو سب سے زیادہ آلودہ کر رہے ہیں انھیں ماحول کی بہتری کے لیے سب سے زیادہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔انھوں نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ تباہی کے اسی راستے پر چلیں گے یا اس سے بچنے کے لیے دوسرے راستہ اختیار کریں گے۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ یا تو تاریخ رقم کریں یا تاریخ کا نشانہ بن جائیں۔ افریقہ سب سے کم کاربن پیدا کر رہا ہے،پورا براعظم گرین ہاؤسز کا صرف چار فیصد پیدا کرتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی ،وزیر اعظم پاکستان
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہونے والی اس کوپ 27 کانفرنس میں ہمارے وزیراعظم نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوپ 27 کانفرنس موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کے خلاف سنگ میل ثابت ہوگی، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت ہوگی۔
خبر رساں ادارے AFP کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ چند ماہ کے دوران قدرتی آفات نے دنیا بھر میں ہزاروں افراد کو ہلاک ، لاکھوں کو بے گھر اور اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچایا ہے ۔یہ کانفرنس ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب گذشتہ ایک برس کے دوران دنیا میں کئی قدرتی آفات آئیں اور کئی ملکوں میں بلند ترین درجۂ حرارت کے پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے اور اس کے نتیجے میں پاکستان جیسے ممالک کو شدید تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے نائجیریا کا بھی بڑا حصہ سیلاب نے تباہ کیا، افریقہ اور مغربی امریکہ میں شدید خشک سالی ہوئی، سمندری طوفانوں نے کیریبین جزائر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یورپ سمیت تین براعظموں کو گرمی کی سخت لہروں کا سامنا رہا۔
موسمیاتی تبدیلی کیا ہے ؟
اب سوال یہ ہے کہ موسمی تبدیلی کہتے کس کو ہیں،فضا میں ایک گرین ہاؤس گیس جو کاربن ڈائی اکسائیڈ ہے اُس کی مقدار میں انیسویں صدی کے بعد سے تقریباً 50 فیصد اور گذشتہ دو دہائیوں میں اس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کی ایک اور وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔
جب درختوں کو جلایا جاتا ہے یا انھیں کاٹا جاتا ہے تو عام طور پر ان میں کاربن کا ذخیرہ ہوتا ہے اُس کا اخراج ہوجاتا ہے کسی ایک علاقے کی آب و ہوا اُس کے کئی سالوں کے موسم کا اوسط ہوتی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اس اوسط میں تبدیلی کو کہتے ہیں۔
جانوروں کی کئی اقسام ناپید ،آبی حیات شدید خطرات سے دوچار
زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے اور عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ جانوروں کی بہت سی اقسام کے ناپید ہونے کا امکان ہے۔قطبی ریچھوں کے غائب ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ برف جس پر وہ انحصار کرتے ہیں تیزی سے پگھل رہی ہے۔بحر اوقیانوس کی سالمن مچھلی کی آبادی تباہ ہو رہی ہے کیونکہ جن دریاؤں میں اُن کی افزائش ہوتی ہے اُن کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔کورل ریف غائب ہو رہی ہیں کیونکہ زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی وجہ سے سمندر میں تیزابیت بڑھ رہی ہے۔ حتئ کہ مچھلیوں کی عام اقسام کا خاتمہ بھی تیزی سے ہو رہا ہے ایک تو سمندر تیزی سے تیزابیت اور آلودگی کا شکار ہو رہے ہیں دوسرا انسان بڑی بے رحمی سے ان کا شکار کر رہا ہے۔
جنگلات کی بے رحمانہ کٹائی گلیشیرز کے تیزی سے پگھلنے کی اہم وجہ
انسان نے جنگلات کا اس بے رحمی سے صفایا کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کے بڑے بڑے گلیشئیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سنہ 2000 سے 2022 تک ان کے پگھلنے کی رفتار دگنی ہو گئی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلنے والا ہے ان کروڑوں لوگوں کو خشک سالی کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا جو ایشیا کے بڑے دریاؤں کے ساتھ بستے ہیں۔ اب دنیا کے بڑے ممالک جو کریں سو بھریں، یہ ان کا کام ہے ہمیں بحیثیت مجموعی ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آنے والی آفات کا مقابلہ کیا جاسکے اب ماہرین یہ تک کہ رہے ہیں کہ وقت گزر چکا ہے اب کوئی بھی کوشش بار آ ور ثابت نہیں ہوگی لیکن ہمیں ایمرجنسی ڈکلیئر کر کے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں بد دعا نہ دیں۔
منظم منصوبہ بندی کے ساتھ بڑے پیمانے پر شجر کاری وقت کی ضرورت
ہمیں چاہیئے کہ ہر سرکاری عمارت چاہے وہ وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہو یا صوبائی حکومت کے اس کے 50 فیصد رقبے پر درخت لگانے کا قانون پاس کریں اور سختی سے عملدرآمد بھی کروائیں ، دریاؤں، نہروں کے کناروں پر نئے درخت لگائیں اور جو موجود ہیں ان کی حفاظت کا فول پروف انتظام کریں، سڑکوں کے کناروں پر بھی درخت لگائیں، بھٹوں، فیکٹریوں، پرانی ٹرانسپورٹ کو جدید بنایئں، سمندری پٹی پر کثیر تعداد میں مینگروز کے درخت لگائیں، غرض ہر وہ کام کریں جس سے آلودگی میں کمی واقع ہو اور ملک سرسبز ہو اگر ہم ایسا کر لیں تو نہ صرف ہمارے لوگوں کا آفات کا سامنا کرنے سے بچاؤ ممکن ہوگا بلکہ ہم وافر مقدار میں اناج بھی پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں گے، ہماری طاقت میں اضافہ ہوگا اور ہم مظلوموں کی بہتر انداز میں نہ صرف مدد کر سکیں گے بلکہ ان کے لیے آواز بلند بھی کر پائیں گے۔ یہ تمام اقدامات اکیلے کوئی بھی حکومت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی اس کے لیے پوری قوم کو کمٹڈ ہونا پڑے گا اور آپس کے اختلافات بالائے طاق رکھ کر صرف وطن کی خاطر ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔