مہنگائی کا 47سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا
ضیاء چترالی
ملک میں مہنگائی کا 47سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے، ادارہ شماریات کے مطابق 1975 کے بعد پہلی مرتبہ مہنگائی کی سالانہ شرح 27.3 فیصد پر پہنچ گئی۔ جبکہ معاشی ماہرین کے مطابق مہنگائی کی شرح سرکاری ادارہ کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار سے دگنی ہے۔
ڈالر بھی ملکی تاریخ کی بد ترین تنزلی کا شکار
گزشتہ چند ماہ کے دوران جس تیزی سے بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں حکومت نے بڑھائی ہیں، اس نے پورے معاشی نظام کی جڑیں ہلادی ہیں، اوپر سے رہی سہی کسر ڈالر کی قیمت نے نکال دی ہے، جو چار ماہ کے دوران 175 روپے سے بڑھ کر 225 تک آگیا ہے، روپے کی قدر میں اتنی تیزی سے تنزلی بھی ایک ریکارڈ ہے، ڈالر کی قدر میں اس قدر اضافے کا نتیجہ درآمدی مہنگائی کی صورت میں نکلا ہے، ہم تیل اور گیس درآمد کرتے ہیں، جب ڈالر کی قدر بڑھتی ہے، تو ان دونوں کی قیمت میں از خود اضافہ ہو جاتا ہے، پھر تیل اور گیس سے بجلی بنتی ہے، اس کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے، یہ پورا ایک سرکل ہے، جو گزشتہ چار ماہ سے چل رہا ہے اور عام آدمی کو مہنگائی کے جاری اس سرکل نے کچل کر رکھ دیا ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنے کے باوجود عوام کو فائدہ نہیں دیا گیا
پہلے حکومت کا موقف تھا کہ تیل عالمی منڈی میں مہنگا ہے، اس لئے قیمتیں زیادہ ہیں، اب گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں مسلسل کم ہو رہی ہیں، تیل کی فی بیرل قیمت 130 ڈالر سے کم ہو کر 85 سے 90 ڈالر کے قریب آگئی ہے، یعنی فی بیرل قیمت میں تقریباً45 ڈالر کی بڑی کمی آئی ہے، لیکن حکومت نے یہ ریلیف عوام کو نہیں دیا، بلکہ گزشتہ روز تیل کی قیمت میں مزید 3 روپے سے لے کر 10 روپے تک کا اضافہ کر دیا گیا اس کا نتیجہ مزید مہنگائی کی صورت میں ہی نکلے گا۔
ایل بی جی ریٹیلرز فی کلو 50 سے 70 روپے اضافی وصول کر رہے ہیں
اسی طرح ایل پی جی سلنڈر جو ملک کی اکثریتی آبادی کھانا پکانے کے لئے استعمال کرتی ہے، اس کی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے، اس کے ساتھ بلیک مارکیٹنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے، چیئرمین ایل پی جی ڈسٹری بیوٹرز ایسوسی ایشن عرفان کھوکھر نے بتایا ہے کہ ایل پی جی ریٹیلرز نے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 100 روپے اور کمرشل سلنڈر کی قیمت میں 400 روپے کا اضافہ کردیا ہے، سیلاب کی آڑ میں ایل پی جی کی قیمت میں تیسری بار بلاجوز 10 روپے فی کلو گرام کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اوگرا نے ماہ ستمبر کیلئے ایل پی جی کی قیمت میں 6 روپے فی کلو کی کمی کی تھی اور فی کلو گرام قیمت 212 روپے مقرر کی گئی تھی، لیکن ایل پی جی پر 50 سے 70 روپے فی کلو گرام اضافی قیمت وصول کی جا رہی ہے اور اس کی بلیک مارکیٹنگ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، ایل پی جی ایسوسی ایشن نے حکومت کو الٹی میٹم بھی دیا ہے کہ اگر اس نے قیمت کنٹرول نہ کی تو 10 ستمبر کو ملک گیر ہڑتال کریں گے۔
حکومت کو ریٹیلرز کی من مانیوں کا نوٹس لینا ہوگا
اصولی طور پر تو حکومت کو خود اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا، جب اوگرا نے قیمت مقرر کی ہے تو ایل پی جی کے پروڈیوسر اور تقسیم کنندگان اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے؟ ایل پی جی کے کاروباری افراد بھی پاکستان میں بہت بااثر سمجھے جاتے ہیں اور ماضی میں ایل پی جی کے کاروبار پر کئی اسکینڈل سامنے آچکے ہیں، اس وقت بھی اوگرا کی مقرر کردہ قیمت سے کہیں زیادہ نرخ وصول کئے جا رہے ہیں، تو یہ حکومتی اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے، حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہئے۔
اگر ادارہ شماریات کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں 2008 میں مہنگائی کی شرح 25.3 فیصد تک گئی تھی، لیکن اب اگست 2022 میں مہنگائی کا یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور یہ شرح 27.3 فیصد کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے، ادارہ شماریات کے مطابق ایک سال میں بجلی 123 فیصد اور پیٹرول 84 فیصد مہنگا ہوا، گزشتہ برس سے اگر موازنہ کیا جائے تو اگست 2021 میں مہنگائی کی شرح 8.3 فیصد تھی۔ یعنی صرف ایک برس کے دوران مہنگائی میں 19 فیصد اضافہ حکومت خود تسلیم کررہی ہے، جبکہ اس دوران عوام کی آمدن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا یا اگر کسی کی آمدن بڑھی بھی ہے، تو معمولی اضافہ ہوا ہے۔
بجلی کے 300 یونٹس پر وزیر اعظم کا ریلیف قابل تحسین
بجلی ایک سال میں 123 فیصد مہنگی کی گئی ہے، اور اب عوام بل بھرنے کے لئے بھی پریشان ہیں، ملک بھر میں مہنگی بجلی پر مظاہرے ہو رہے ہیں، جن کی آمدن بیس بیس ہزار ہے، ان کے بجلی بل ہی پندرہ سے بیس ہزار آگئے ہیں، ایسے میں خدشہ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد بل نہیں بھر سکے گی، اگر ایک ماہ کا بل لوگوں نے کسی طرح بھر بھی دیا، تو اگلے ماہ ان کے پاس بل بھرنے کے لئے رقم نہیں ہوگی، جس کے نتیجے میں بجلی کمپنیاں بھی مالی بحران کا شکار ہوسکتی ہیں، اب وزیر اعظم شہباز شریف نے 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز میں ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے، جو قابل ستائش ہے اور اس سے کم ازکم نچلے طبقے کو کچھ ریلیف ملے گا، لیکن یہ کافی نہیں ہے، حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کے لئے بنیادی اقدامات کرنے ہوں گے۔
ڈالر کی قدر کنٹرول ،عالمی منڈی کے مطابق تیل کی قیمتیں کم کرنا ہوں گی
حکومت کو ڈالر کی قدر کنٹرول کرنی ہوگی، اسی طرح تیل کی قیمت عالمی منڈی کے لحاظ سے کم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ نقل و حمل کے اخراجات کم ہوں، اسی طرح حکومت نے پیاز اور ٹماٹر کی کمی دور کرنے کے لیے 13 ہزار ٹن پیاز درآمد کرنے کے لیے پرمٹ بھی جاری کرد یئے ہیں، اور ان دونوں اشیا پر ٹیکس بھی عارضی طور پر ختم کردیا ہے۔ اس وقت مہنگائی کی جو صورت حال ہے، اسے دیکھتے ہوئے کھانے پینے کی دیگر اشیا بالخصوص کوکنگ آئل پر بھی ٹیکس رعایت دینے کی ضرورت ہے۔
ضیاء چترالی کا یہ مضمون بھی ملاحظہ فرمائیے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے