لاہور کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو لاہور پاکستان کا دوسرا بڑاشہر اور اس وقت صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے۔ یہ پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی شہر ہے ۔ جسے دیکھنے کیلئے پاکستان اور دنیا بھر سے سیا ح یہاں آتے ہیں۔ لاہور کوپاکستان کا دل اور باغوں کا شہربھی کہاجاتاہے۔اس کے بارے مشہور کہاوت ہے کہ ” جنے لاہور نئی دیکھیا او جمیا ای نہیں” یعنی جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے آباد ہے۔ جس کی آبادی اس وقت تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ لاہور کا کل رقبہ 550 مربع کلومیٹر ہے۔
لاہور کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بعض روایات کے مطابق یہ قبل از مسیح دور کا ہے۔ ہندووں کی مقدس کتابوں میں لکھا ہے کہ لاہور کو ہندو راجہ رام کے بیٹے لوہ نے سب سے پہلے آباد کیا تھا۔ لیکن اس کا ذکر 982 میں شائع ہونے والی کتاب ” حدود العالم” میں پہلی مرتبہ ہمیں ملتا ہے۔
ہندومذہب کی اہم ترین کتاب وید میں اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ چونکہ راجہ رام کے بیٹے لوہ نے شہرلاہور کی بنیادرکھی۔ اور یہاں ایک قلعہ بنوایا تھا۔ لہذا راجہ لوہ کے نام سے ہی اس شہر کا نام لاہور یا لہور پڑگیا۔ پرانی تاریخ کے مطابق یہ شہر دوسری صدی سے دسویں صدی عیسوی تک ہندو راجاوں کے زیر تسلط رہا ہے۔
لاہورکی تاریخ اور شہر میں دیکھنے کے اہم مقامات
لاہو کے مختصر تعارف کے بعد تفصیل کی طرف سے جانے سے پہلے ہم لاہور کی سیر میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کیلئے لاہور کے چند اہم اور تاریخ نوعیت کے مقامات میں نشاندہی کریں گے۔ تاکہ اس سے رہنمائی لے کر وہ لاہور شہر کی سیر کیلئے اپنی تیاری کرسکیں۔ اور ان اہم مقامات کی سیر کو اپنی لسٹ میں شامل کرسکیں۔ کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ لاہور کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اور اس شہر کی ہردرودیوار دیکھنے، پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے۔
چنانچہ لاہور کے اہم سیاحتی مقامات مندرجہ ذیل ہیں۔
بادشاہی مسجد۔
پرانا لاہور
اولڈ سٹی کے مختلف دروازے
شاہی قلعہ۔
مینار پاکستان۔
لاہور عجائب گھر
شالامار باغ
مقبرہ علامہ اقبال
گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ
لاہور چڑیاگھر
لاہور رنگ روڈ
لاہور مال روڈ
پنجاب یونیورسٹی
لاہور میٹرو
اورنج لائن
قدیم اندرون شہر لاہور
انارکلی بازار
شاہی حمام
مسجدوزیر خان
سنہری مسجد
جہانگیر مقبرہ
واہگہ بارڈر
جناح پارک
قائد اعظم لائبریری
قذافی اسٹیڈیم
پاک ٹی ہاوس
اندروشہر کے بارہ دروازے
شیش محل
وغیرہ۔
لاہور شہرمختصرا تاریخ کے آئینے میں
سالوں کی تعداد | دورانیہ | خاندانی دور حکومت | لاہور کے حکمران |
125 سال | 250 تا 375 عیسوی | ہندوراجاوں کا دور | راجہ لوہ |
135 سال | 375 تا 510 عیسوی | گپت خاندان کا دور حکومت | چندرگپت |
511 سال | 510 تا 1021 عیسوی | راجپوت دور حکومت | راجہ جے پال |
165 سال | 1021 تا 1186 عیسوی | غزنوی (مسلمان) دورحکومت | محمود غزنوی |
20 سال | 1186 تا 1206 عیسوی | غوری دور حکومت | سلطان شہاب الدین غوری |
84 سال | 1206 تا 1290 عیسوی | خاندان غلاماں دور حکومت | قطب الدین ایبک |
30 سال | 1290 تا 1320 عیسوی | خلجی دور حکومت | جلال الدین خلجی |
92 سال | 1320 تا 1412 عیسوی | تغلق دور حکومت | غیاث الدین تغلق |
38 سال | 1412 تا 1450 عیسوی | سادات دورحکومت | خضر خان سادات |
76 سال | 1450 تا 1526 عیسوی | لودھی دور حکومت | ابراہیم لودھی |
231 سال | 1526 تا 1757 عیسوی | مغل دور حکومت | مغلیہ حکمران |
2 سال | 1757 تا 1759 عیسوی | مرہٹہ دور حکومت | رگو ناتھ راو |
8 سال | 1759 تا 1767 عیسوی | ابدالی دورحکومت | احمد شاہ ابدالی |
82 سال | 1767 تا 1849 عیسوی | سکھ دور حکومت | رنجیت سنگھ |
98 سال | 1849 تا 1947 عیسوی | انگریز دور حکومت | ماونٹ بیٹین |
75 سال | 1947 تا حال | حکومت پاکستان | محمدعلی جناح |
لاہورکی تاریخ مغلیہ دور میں
لاہور چونکہ نہایت پرانا تاریخی اور ثقافی شہر ہے۔ اس کی ترقی میں اوپر ذکرکئے گئے مختلف حکمران خاندانوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ کسی نے اسے بنانے میں کردار ادا کیا تو کسی نے اسے کھنڈر بنانے میں کردار اداکیا۔ لیکن موجود دور میں جو خوبصورت لاہور ہمیں نظر آرہا ہے۔اور خاص کر لاہور کا جو تاریخی ورثہ لوگوں کو اپنی طرف کشاں کشاں کھینچتا ہے۔ اس میں زیادہ اہم کردار مغل حکمرانوں کا رہا ہے۔ لہذا ہم یہاں پر پہلے مغلیہ دور حکومت میں لاہور کی ترقی پر مختصر روشنی ڈالیں گے۔
مغلیہ سلطنت اور لاہور کا رشتہ
مغلیہ سلطنت کا آغازبرصغیر میں 1526 میں ہوتا ہے۔ جب مغل شہزادہ بابر نے ایک مسلمان حکمران ابراھیم لودھی کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کیا۔ چنانچہ قبضے کے بعد بابر نے لاہور کو اپنا سرمائی دارالحکومت قراردیا۔ بعد میں شہنشاہ اکبر اور پھرجہانگیر وشاہجہاں کے دور حکومت میں لاہور کو باقاعدہ دارالحکومت بنایا گیا۔ جب لاہور مغل دارالحکومت بنا تواس کی ترقی اپنے عروج کو پہنچ گئی۔ اور شاہ جہاں کے دور حکومت میں اس شہر کی زیادہ تر اہم عمارات تعمیر کی گئیں۔
لاہور کی تاریخ:پندرہ سو پچھتر عیسوی میں اکبر نے لاہور قلعہ کی ازسرنو تعمیر شروع کروائی اور اس کو اپنا دارالحکومت قرارد دیا۔ جلال الدین اکبر نے اس شہر کے بارہ دروازوں میں اپنے نام پر ایک مستقل دروازہ “اکبری دروازہ” کے نام سے بنوایا۔ اس کے علاوہ دہلی دروازہ، موچی دروازہ اور موری دروازہ بھی جلال الدین کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں۔اکبر کے بیٹے اور تیسرے مغل حکمراں نورالدین محمدسلیم جہانگیر تھے۔
جہانگیر کو لاہور سے عشق تھا۔ جہانگیر نے اپنی محبوبہ اور ملکہ نورجہاں کیلئے 1620 میں شالیمار باغ تعمیرکروایا۔ جہانگیر اور اور ملکہ نورجہاں کے مقبرے بھی اسی شہر میں قابل دید مقامات ہیں۔ جہانگیر کے بعد اس کے بیٹے شاہ جہاں نے لاہور قلعہ کی تعمیر مکمل کروائی۔ جس سے لاہور کے حسن میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کے بعد اورنگزیب عالمگیر نے شاہی قلعہ کے سامنے ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی جو شاہی مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسجد کوعرصہ دراز تک دنیا کی سب سے کشادہ اور خوبصورت مسجد ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔
اورنگزیب نے ہی مسجد کے مشرقی دروزاے کے سامنے اپنے نام کا ایک خوبصورت دروازہ بنوایا جسے عالمگیری دروازہ کہا جاتاہے۔ یہ دروازہ آج بھی لاہور کی پہچان ہے۔اونگزیب کی وفات کے بعد اس خاندان کا تنزل شروع ہوا۔ مغلیہ خاندان کے تقریبا 20 افراد نے یہاں پر حکمرانی کی۔ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادرشاہ ظفر تھے۔ جن کو 1857 کی جنگ آزادی میں (جسے انگریز نے غدر قراردیا تھا ) گرفتارکرکے رنگون برما بھیج دیا گیا تھا۔ 1862 میں جیل میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ اور وہیں مدفون ہوئے۔اپنی قید تنہائی کے دوران کہے گئے بہت سارے اشعار میں سے بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر بہت زیادہ مشہور ہوا۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کیلئے
دوگززمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
لاہورکی تاریخ سکھ دور میں
لاہور کی تاریخ کا اہم دور وہ ہے جب سترہ سو سڑسٹھ میں راجہ رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا۔ اور اس کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ شاہی قلعہ کو اپنا مرکز بناکر سکھوں نے پشاور اور کشمیر تک اپنا تسلط قائم کیا۔ جب 1799 میں افغانون نے سکھوں پر حملہ کیا تو رنجیب سنگھ نے بھرپور مقابلہ کیا اور جنگ میں افغانوں کو شکست دی۔ سکھوں کے دور میں مغل دور کی عالی شان عمارتیں کھنڈر بن گئیں۔ کیونکہ سکھوں نے اس شہر کو انتہائی بے دردی سے لوٹا تھا۔
سکھوں نے مغل حکمرانوں کی قیمتی یادگاروں کو اکھاڑا اور ختم کیا۔ قیمتی مرصع پتھر اور سفید سنگ مرمر اکھاڑ کر اپنے سکھ علاقوں میں بھجوادیا۔ اسی لوٹ مار میں شاہی قلعہ، مقبرہ آصف خان، مقبرہ نورجہاں اور مقبرہ انارکلی وغیرہ کو نقصان پہنچایا گیا۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے مساجد کی نہایت بے حرمتی کی۔ بادشاہی مسجد کو گھوڑوں کے اصطبل میں تبدیل کردیا گیا۔
سنہری مسجد کو گوردوارے میں تبدیل کیا گیا۔ اور بعد میں تو اس پر گوبر کی لپائی کروائی گئی۔ جبکہ مریم زمانی بیگم مسجد کو بارود فیکٹری میں تبدیل کیا گیا۔
سید احمد بریلوی شہید کی تحریک
سکھوں کی ان حرکات کی وجہ سے سید احمد بریلوی شہید نے ان کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ شاہ صاحب کی جدوجہد سے مجاہدین کی تحریک وجود میں آئی۔ اس تحریک نے مسلمانوں کے اندر کافی پذیرائی حاصل کی اور کئی علاقے سکھوں سے واپس چھین لئے ۔ جن علاقوں پر قبضہ ہوتا گیا ان میں اسلامی قوانین نافذ کرتے گئے۔
یہ تحریک کافی بڑھی اور شاہ صاحب نے باقاعدہ مجاہد فورس تشکیل دیدی۔ 1831 میں بالاکوٹ کے مقام پر مہاراجہ رنجیت سنکھ کی فوجوں سے ایک بڑامعرکہ پیش آیا۔ جس میں سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنے اہم رفقا سمیت جام شہادت نوش فرمایا۔
انگریز دور میں لاہور کی تاریخ
لاہور کی تاریخ:مہاراجہ رنجیت سنگھ نہایت ذہن آدمی تھا۔ اس نے اپنی حکومت لاہور سے پشاور اور جموں وکشمیر تک بڑھادی تھی۔ اس کی فراست کو جان کر انگریز بہت احتیاط سے کام لے رہا تھا۔ چنانچہ اس کے دور میں 40سال سے زائد عرصے تک انگریز کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملا۔1839 میں راجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کے جانشین سکھوں اور کئی ہندوراجاوں میں اختلافات ہوئے۔
اور اندرونی خانہ جنگی کی کیفیت ہوئی۔ اس موقع سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور سکھ علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کیا۔انگریزوں نے اپنے دورحکومت میں شاہی قلعہ کو چھوڑ کر سول اسٹیشن کو اپنا مرکز بنایا۔ جو شہر کے جنوب میں واقع تھا۔ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اندرون لاہور کو بالکل نظر انداز کیا۔ بلکہ حصار یعنی شہر کی حفاظتی دیوار کو بھی غیر موثربنایا۔ تاکہ یہاں کوئی قلعہ بند ہوکر ان کو نقصان نہ پہنچاسکے۔
انگریزوں نے انپے دور میں شہر کے مضافاتی علاقوں اور شہر سے باہر زرخیز زمینوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ تاکہ ان کو خوب آمدن حاصل ہوسکے۔انگریزوں نے قدیم لاہور سے باہر مختلف بڑی عمارات تعمیر کروائیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔۔لاہور میوزیم۔ گنگارام ہسپتال۔ پنجاب یونیورسٹی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن۔ ایچیسن کالجوغیرہ۔
لاہورکی تاریخ اورآزادی کی تحریکات
لاہور نے ہندوستان کی آزادی کی تحریکوں کیلئے اہم کردار اداکیا ہے۔1929 میں آل انڈیا کانگریس کا اجلاس لاہور میں منعقدہوا۔ جس میں پنڈٹ جواہر لال نہرو نے بھارت کی آزادی کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔ اور اسی موقع پر ہندوستان کا قومی پرچم پہلی بار پیش ہوا جس کو ہزاروں افراد نے سلامی دی۔
اس کے بعد 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ ( جس کانام بعد میں پاکستان مسلم لیگ ہوگیا) کا اجلاس بھی قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں لاہور منٹو پارک میں منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان کے نام پر مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ یہ مطالبہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پیش کیاگیاتھا اور بالاخر یہی مطالبہ پاکستان کی تخلیق کا سبب بنا۔