تحریر نگار: راشد حسین رضوی
کربلا عراق کا ایک مشہور شہر ہے اوریہ ایک ایسی عظیم درس گاہ ہے کہ جس کے مرکزی کردارحسین ابن علی ہیں۔ کربلا کی اس درس گاہ میں حسین ابن علی نے سارے زمانے کو جو درس دیا وہ درس تاریخ میں سنہری الفاظ سے رقم ہے۔ کربلا کی وجہ شہرت وہاں پر حسین ابن علی کی شہادت اور ان کے روضہ مبارک کا ہونا ہے جہاں 61 ھجری کو نواسہ رسولﷺ نور عین بتول اور علی کے معصوم پھول کو دس محرم الحرام کو یزید کے ایماء پر بھوکا اور پیاسا ان کے بہتر اصحاب سمیت شہید کردیا گیا۔حسین ابن علی نے کربلا میں اپنے اور اپنے پیاروں کی جان کی قربانی دے کر وہ تاریخ رقم کی کہ آج تک تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی اور اس کربلا کے میدان میں حسین ابن علی نے زمانے کو یہ درس دیا کہ دین اسلام کے لئے سب کچھ قربان کیا جاسکتا ہے لیکن دین اسلام کو کسی بھی چیز پر قربان نہیں کیا جاسکتا ۔اور جب بات اسلام کی عزت وحرمت کی آجائے تو پھر کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارنا ہے اور دین اسلام کے علم کو سربلند رکھنا ہے اور اسی کا نام سنت حسین ابن علی ہے۔
درس کربلا یہی ہے زمانے کو بتادو
جب دین پکارے توتم سب کچھ لٹادو
کربلا کے میدان ریگزار میں حسین ابن علی کی یہ قربانی اپنی ذات یا کسی ذاتی فا ءددے کے لئے نہ تھی بلکہ یہ قربانی دین کی بقا اور امت کی اصلاح کے لئے تھی حسین ابن علی جب مکے سے کو فے کی جانب عازم سفر ہوئے تو انہوں نے پیچھے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے لئے جو خط چھوڑا اس میں واضح طور پر امام نے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ
إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب
ترجمہ:میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکلا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میں صرف اپنی جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ارادہ رکھتا ہوں، میں اپنے جد اور باپ کی سیرت پر چلوں گا ۔کربلا کی درس گاہ نے زمانے کو ایک نہیں کئی درس دیئے اور کربلا کے دیئے درس ہی کے سبب آج ساری دنیا کے باطل کے ایوانوں میں لرزہ برپا ہے آج پوری دنیا کے مظلوم حسین زندہ باد کا نعرہ مستانہ لگا کر یہ دعوی کر رہے ہیں کہ جب تک روئے زمیں پر یزیدیت ظلم وستم کے پہاڑ توڑتی رہے گی تب تک حسینیت کے علمبردار سنت حسین کے مطابق اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہیں گے۔
کربلا کا پہلا درس
کربلا کا پہلا درس ہے آزادی وحریت
کربلا کا درس ہے آزادی وحریت باطل کے سامنے خود کو نہ جھکا نا اللہ تعالی نے انسان کو عقل وشعور دیا ہے اور اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے اس کی آزادی کو کسے طور پر سلب نہیں کیا جاسکتا یزید نے چونکہ لوگوں پر ظرح طرح کی پابندیاں لگائی ہوئی تھیں اور وہ طلم وجبر کے ہتھکنڈوں سے عوام کی مسلسل تذلیل جاری رکھے ہوئے تھا اسلئے حسین ابن علی نےامت کو اس کے طلم وستم سے نجات دلانے کے لئے نعرہ حق بلند کیا اور کربلا کا پہلا درس بھی یہی ہے کہ اپنی آزادی پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔
کربلا کا دوسرا درس امن وسلامتی
کربلا ہمیں امن وسلامتی کا درس دیتی ہے اور اس کی لئے باطل قوتوں کے سامنے برسر پیکار رہنے کا حکم دیتی ہے اور اس بات کا درس دیتی ہے کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں اس کے کسے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم کانپ اٹھتا ہے (مفہوم حدیث )حسین ابن علی نے اپنے بہتر ساتھیوں کے ساتھ کربلا کی سنہری تاریخ رقم کی گو کہ انہیں بار بار منع کیا جاتا رہا کہ کوفے والے اس سے پہلے بھی حضرت علی حضرت حسن اور مسلم بن عقیل سے بے وفائی کر چکے ہیں وہ لوگ قول وفعل کے پکے نہیں اور آپ کا وہان جانا خطرے سے خالی نہیں لیکن حسین ابن علی کا یہی موقف تھا کہ یزید نے امن واماں کو تباہ کر رکھا ہے اس کی اگر سرکوبی نہ کی گئی تو تاریخ لکھے گی کہ دین کو نقصان پہنچایا جارہا تھا اور امن وامان داؤ پرلگا تھا حسین ابن علی اس کی اصلاح کے لئے گھر سے نہ نکلے کربلا کا دوسرا درس امن وسلامتی ہے جس کی خاطر حسین ابن علی نے خدا کے حضور اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کی قربانی دی۔
کربلا کا تیسرا درس امر بالمعروف ونہی عن المنکر
یزید نے چونکہ حلال وحرام کی تمیز ختم کر دی تھی اور آعلانیہ گناہوں میں ملوث رہا کرتا تھا شراب کو اس نے جائز قرار دے رکھا تھا اور دین میں طرح طرح کی بدعات کو رواج دے رکھا تھا اس لئے اب یہ ضروریہو چکا تھا کہ اسے لگام ڈالی جائے کیونکہ جس دین کی بنیاد رسول اللہﷺ نے رکھی تھی یزید اسے پامال کرنے کے درپے تھا ایسے میں چونکہ حسین ابن علی اپنے نانا کے دین کے وارث تھے اس لئے ان کا یہ فرض بنتا تھا کہ وہ یزید کو اس فعل بد سے روکیں اور حسین ابن علی نے اپنے اس فرض کو بخوبی پورا کیا سپاہ یزید کے سامنے دیئے گئے حسین بن علی کے تمام خطبے اس بات کے گواہ ہیں کہ کربلا میں حسین ا بن علی نے ہر ہر منزل ہر ہر قدم ہر ہر گام پر فوج یزید کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتے رہے حسین ا بن علی نے انہیں وہ خط بھی دکھائے جو کہ کوفے والوں نے انہیں لکھے تھے حسین ابن علی نے کربلا کے میدان میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا درس دیتےہوئے کہا کہ تم کیون مجھ بے گناہ کے خون کے درپے ہوئے ہومیں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے آلغرض حسین کے خطبون اور کربلا میںدیئے جانے والے درس نے فوج یزیدکے دل کی کایا پلٹ دی اور قریب تھا کہ فوج میں بغاوت پھیل جاتی امر بن سعد ملعون نے لشکر حسینی کی جانب تیر چلا دیا اور کہنے لگا کہ تم سب گواہ رہنا کہ میں نے لشکر حسینی کی جانب پہلا تیر چلایا ۔
کربلا کا تیسرا درس دین سے وفاداری
واقعہ کربلا سے جہان ہمیں اور بہت سے درس ملتے ہیں وہیں ایک درس دین سے وفاداری کا درس بھی ہے کہ حسین ابن علی پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے لیکن حسین ابن علی نے اپنے نانا کے دین پر کوئی آنچ نہ آنے دی حسین ابن علی جب مکے سے نکلے تھے تو اس وقت بھی عبداللہ ابن زبیر سے کہا تھا کہ اے عبداللہ ابن زبیر اگر دین پر کوئی کڑا وقت آئے تو کعبے کے سامنے ڈھال بن جانا کعبے کو اپنی ڈھال نہ بنانا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ جب دین پر کڑا وقت آیا تو حسین بن علی دین کے سامنے ڈھال بن گئے اپنے سارے کنبے اور اصحاب کی قربانی دے کر دیں کو بچایا حسین ابن علی نے لہذا کربلا کا ایک اہم درس یہ بھی ہے کہ جب بات دین کی سربلندی کی ہو تو پھر بناء کسی چیز کی پرواہ کئے دین پر قربان ہو جانا چاہیئے۔
میدان کربلا میں شاہ خشک سال نے
سجدے میں سر کٹا کے محمد کے لال نے
زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچالی
وہ محمد کا پیارا نواسہ جس نے سجدے میں گردن کٹالی
یہ حسین ا بن علی کی دین سے وفاداری ہی تھی کہ اپنا سب کچھ دین کی راہ میں لٹا کر بھی کہ رہے ہیں کہ یا اللہ تو مجھ حسین بن علی سے راضی ہوجا مینں نے تیرے دین کی بقاء کے لئے جو قربقنی دی یا الہی اسے تو قبول فرمالے۔
شاہ است حسیں بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا الہ است حسین
تسلیم ورضا کے پیکر حسین ا بن علی نے کربلا کے میدان میں اپنی جان کی قربانی دے کردین اسلام کو وہ سربلندی ورفعت عطاء کی جس پر دین اسلام کی پوری تاریخ نازاں ہے کربلا سے قبل تاریخ اسلام میں اس سے بڑی قربانی نہ دی گئی اور نہ ہی کربلا کے بعد یہ کبھی ممکن ہو سکے گا حسین ابن علی نے زمیں کربلا کو اپنے لہو سے رنگین کیا کیا کہ کربلا کی خاک شفاء شفاء بن گئی۔
خوشبوئے خلد دب گئی خاک شفاء کے بعد
جنت کا نام آنے لگا کربلا کے بعد
بعد از حسین اور نہ کوئی حسین ہے
نہ اور کوئی کربلا اس کربلا کے بعد
ہوتا اگر حسین بھی دنیا میں دوسرا
پھر اور ہوتی کربلا اس کربلا کے بعد
از خود غلط ہے حضرت جوہر کا یہ کہا
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تسلیم روح جوہر مرحوم یہ کرے
اسلام زندہ ہو چکا بس کربلا کے بعد
یہ بھی پڑہیں : شہادت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور سانحہ کربلا