Sunday, November 24, 2024
HomeColumnsلیلۃ القدر  _ ایک ہزار مہینوں سے بہتر رات

لیلۃ القدر  _ ایک ہزار مہینوں سے بہتر رات

لیلۃ القدر  _ ایک ہزار مہینوں سے بہتر رات

ڈاکٹر طفیل ہاشمی

آج سے رمضان کا آخری عشرہ شروع ہونے کو ہے، معتبر روایات کے مطابق اسی عشرے میں وہ رات بھی آتی ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، سراپا سلامتی ہے، جس میں روئے زمین پر جبریل امین فرشتوں کے جلو میں نزول فرماتے ہیں، اگلے سال کے لئے ہر فرد کا مکمل زائچہ تیار کر دیا جاتا ہے پھر متعین ٹائم لائن کے مطابق اسے بروئے کار لایا جاتا ہے. رب کائنات کی طرف سے رحمت کا نزول جاری رہتا ہے.

شب قدر حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات

بکثرت ایسے لوگ ہوتے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ ہماری قسمتوں کے فیصلے ہو رہے ہوں اور ہم خواب غفلت میں ڈوبے ہوئے ہوں اس لیے لیلۃ القدر کی تلاش کی جاتی ہے لیکن لیلۃ القدر کی جستجو میں آیات و روایات کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں میں متعدد سوالات گردش کرتے رہتے ہیں، جن کا جواب مدت العمر نہیں ملتا۔

لیلۃ القدر مقامی ہوتی ہے یا آفاقی؟ ایک اہم سوال کا جواب

مثلاً یہ سوال کیا لیلۃ القدر مقامی ہوتی ہے یا آفاقی؟
ساری دنیا میں تو ایک ہی وقت میں رات نہیں ہوتی بلکہ کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات۔نیز ساری دنیا میں ایک ہی رات طاق رات نہیں ہوتی. جو رات ایک علاقے میں طاق ہوتی ہے وہی دوسرے ممالک میں جفت ہوتی ہے.
پھر مطابقت کیسے ہو؟
یاد رہے کہ قرآن عالمی اور آفاقی کتاب ہے. روئے زمین میں اوقات کے تعین اور کیلنڈر سازی کے لیے ایک ہی سورج اور ایک ہی چاند تخلیق کئے گئے ہیں. ہر خطے کا چاند الگ الگ نہیں ہے اور جب قرآن یہ کہتا ہے کہ “ھی مواقیت للناس” یعنی چاند لوگوں کے لیے اوقات کے تعین کا آلہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے روئے زمین کے باسیوں کے لیے تقویم کے تعین کا ذریعہ ہے. اس کے ذریعے مہینے کا آغاز اور اختتام ہوتا ہے.
گویا کرہ ارض پر جہاں کہیں بھی پہلی تاریخ کے چاند کا ظہور ہو گیا وہ پہلی تاریخ کی پہلی رات ہے وہی رات جوں جوں آگے چلتی جائے گی ان ممالک میں پہلی تاریخ آتی جائے گی.

فقہ حنفی چاند کے حوالے سے خبر صادق پر اعتماد کرتی ہے

اسی لئے فقہ حنفی رویت یا امکان رویت کے بجائے خبر صادق پر اعتماد کرتی ہے اور فاصلوں کو نظر انداز کر دیتی ہے.گویا جزائر موسی یا جاپان میں جب رمضان شروع ہو گیا تو وہی آگے بڑھتا چلا جائے گا اور واپس وہیں پہنچ کر پہلی تاریخ ختم ہو گی. اس اعتبار سے یہ امر انتہائی مناسب ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی قمری کیلنڈر رائج ہو جو سائنسی تحقیق پر مبنی ہو.

طاق رات کا اعتبار حقیقی کیلنڈر کے حساب سے ہوگا

اس حوالے سے جہاں تک طاق رات کا تعلق ہے تو اس اصلی اور حقیقی کیلنڈر کے مطابق طاق رات مراد ہو گی نہ کہ مقامی طاق رات. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی رات ہو گی.اگر ہمارے حساب سے وہ طاق رات نہیں ہے تو یہ ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے اپنا کیلنڈر خالق کائنات کے کیلنڈر سے ہم آہنگ نہیں کیا.
اہل علم فقہاء کے نزدیک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے کہ ساری دنیا میں ایک ہی قمری کیلنڈر رائج ہو جائے بلکہ یہ قرآنی تقاضوں کے زیادہ مطابق ہے.

کہیں دن ہوتا ہے کہیں رات تو رات کا تعین کیسے ہو؟

رہی یہ بات کہ کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات تو اس میں بھی کوئی پریشانی نہیں کہ جہاں دن ہے وہاں وہ رات جو جزائر فجی سے طاق رات کے طور پر شروع ہوئی تھی پہنچ جائے گی اور اس سے استفادہ کیا جا سکے گا.

حضرت عمر کا قرآن کی آیت سے عجیب استدلال

دن اور رات کے فرق میں ایک اور پہلو بھی ہے جسے عوام الناس سے چھپا کر رکھا گیا ہے اور وہ یہ کہ قرآن میں ہے
وجعل اللیل والنھار خلفۃ لمن اراد ان یذکر اور أراد شکورا
(ترجمہ)اللہ نے رات اور دن کو ایک دوسرے کا متبادل بنایا ہے ہر اس شخص کے لیے جو نصیحت حاصل کرنا چاہے یا شکر ادا کرنا چاہے.
اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ استدلال کیا تھا کہ کسی بھی واقعی سبب سے رات کی عبادت دن میں اور دن کی عبادت رات میں کی جا سکتی ہے. یعنی اگر کوئی تہجد نہیں پڑھ سکا تو اشراق یا چاشت پڑھ لے.
اس ضابطے کے تحت رات کی عبادات اور دعائیں دن میں کر لی جائیں تو بھی رائیگاں نہیں جائیں گی.

ایک عام سی رات اتنی با برکت کیسے ہوئی؟

خیال آتا ہے.. ایک رات جو عام سی رات ہوتی ہے، سیاہ پوش، بے برگ و بار آخری عشرے کی رات، جس میں اداسی اور بے سکونی کی دبیز چادر سارے ماحول پر تنی ہوتی ہے لیکن اسی رات میں جب اللہ کی کتاب کا نزول ہوتا ہے تو وہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہو جاتی ہے
انسانی زندگی میں ایک سنگ میل برسوں کی سوغات لمحوں میں سمیٹنے کا موقع ،سراپا سلامتی ،فرشتوں کےنزول کی شب ،روح القدس کی امد کا موقع ،اگلے سال کو پرکشش، باثمر اور اور نتیجہ خیز بنانے کا چانس،
اگر کتاب اللہ کے نزول سے ایک بے جان رات اتنی با برکت ہو جاتی ہے تو جس قلب اطہر پر کتاب نازل ہوئی ،جس وجود مسعود سے وابستہ رہی ،جن سینوں میں محفوظ ہے ،جن اعضاء و جوارح پر محو خرام رہی ،جس دماغ میں گردش کناں رہی ،ان کے مقام اور مرتبے کو کیسے ماپا یا تولا جا سکتا ہے ۔

یہی کتاب ہے جو بلندیوں سے نوازتی ہے (ولو شئنا لرفعناہ بھا القرآن )”یرفع اللہ بہ أقواما و یضع بہ آخرین “(الحدیث)

قطعی چیزوں پر عمل کیجئے مشکوک چیزوں میں وقت ضائع مت کیجئے

محبت رسول کا تقاضا یہ ہے کہ جو اشیاء قطعی طور پر رسول اللہ سے وابستہ ہیں یعنی___کتاب اللہ اور سنت قطعیہ متواترہ ،انہیں قلب و نگاہ کی توجہ اور پورے وجود کی مضبوطی سے تھام لیں ۔مشکوک یا ظنی باتوں کے پیچھے لگ جانا اپنے آپ کو ضائع کرنے کے مترادف ہے
“ان الظن لا یغنی من الحق شئیا”

بہر حال ساری دنیا میں ایک ہی رات ہوتی ہے یا ہر علاقے کے مقامی کیلنڈر کے حساب سے کوئی طاق رات ہوتی ہے تاہم رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس رات کا خاص عمل سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بتایا تھا کہ “اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی”کے الفاظ سے دعا کریں ،

اگلی دس راتیں ہر شب یہ دعا کرلینا بہت ہی آسان کام ہےدعا دل کی گہرائیوں سے کریں.تعداد پر نہ جائیں اللہ گنتا نہیں ہے، تولتا ہے۔
ہر نماز کے بعد یہ مفہوم ذہن میں رکھ کر کہ اے اللہ، تو سب گناہوں، خطاؤں، کوتاہیوں کے نشانات تک مٹا دینے والا ہے، اور درگزر کرنےسے محبت کرتا ہے میرے سب برے کام محو کر دے “تین بار پڑھ لیں، کافی ہے۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعداد کے اعتبار سے اذکارایک بار، تین بار، سات بار، دس بار، سو بار اور آخری تین سو بار بتایا ہے
کیا مجھے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں گے؟

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے خصوصی فضائل

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی