کابل ، افغانستان کا دارالحکومت جس کے رنگ ہی نرالے ہیں
رب کا جہاں
نوید نقوی
افغانستان ہمارا پڑوسی برادر اسلامی ملک ہے، پاکستان میں چاہے کوئی بھی پارٹی برسرِ اقتدار ہو افغان پالیسی یہ رہی ہے کہ افغان بھائیوں کا دوست ہمارا دوست اور ان کا دشمن ہمارا دشمن ہوگا۔ پر یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کا نام سنتے ہی عموماً ایک جنگ زدہ اور پسماندہ خطے کا نقشہ ذہن میں ابھرتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
افغانستان کا محل وقوع
میں جدید خطوط پر استوار ایسے کئی خوبصورت شہر، وادیاں اور علاقے ہیں جن کی دلکشی کا موازنہ ہم دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک اور شہروں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے۔ یعنی اس ملک کو کوئی سمندر نہیں لگتا۔ اس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین، شمال میں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان ہیں۔اس کی ایک قیمتی پٹی وا خان پاکستان اور تاجکستان کے درمیان حائل ہے اگر پاکستان یہ راہ گزر برادر اسلامی ملک سے خرید لے تو ہماری تاجکستان سے ڈائریکٹ سرحد مل جائے گی۔
ایرانیوں ،یونانیوں،عربوں،ترکوں، منگولوں ،انگریزوں اور روسیوں کا قبضہ اور مزاحمت کرنے والے افغان
اردگرد کے تمام ممالک سے افغانستان کا تاریخی، مذہبی اور ثقافتی تعلق بہت گہرا ہے اس کی بیشتر آبادی مسلمان ہے۔ یہ ملک بالترتیب ایرانیوں، یونانیوں، عربوں، ترکوں، منگولوں، انگریزوں، روسیوں اور امریکہ کے قبضے میں رہا ہے۔ مگر یہاں کے غیور عوام بیرونی قبضہ کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے مسلمانوں نے اس جدوجہد میں افغان بھائیوں کا ہمیشہ ساتھ دیا ہے۔
بیسویں صدی میں افغان پرچم 22 مرتبہ تبدیل ہوا جو ایک ریکارڈ ہے
افغانستان کا بطور ملک آغاز اس کے بانی احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں کیا۔ اس دور میں افغانستان کا پرچم سبز اور سفید رنگوں پر مشتمل تھا۔ آج سے تقریباً 100 سال قبل 19 اگست 1919 کو انگریزوں اور افغانوں کے درمیان معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت افغانستان کو انگریزوں کی طرف سے مکمل آزادی ملی تھی اور یہ ملک انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ ہو گیا۔ 20 ویں صدی میں کسی بھی ملک کے پرچم میں سب سے زیادہ تبدیلی کرنے کا ریکارڈ افغانستان کے پاس موجود ہے۔ جو 22 مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے۔
امیر عبد الرحمن نے افغانستان کو یکجا کیا
امیر عبدالرحمان افغانستان کے ان بادشاہوں میں شامل تھے، جنہیں افغانستان کو یکجا کرنے کا اعزاز دیا جاتا ہے اور جنہوں نے وہاں خانہ جنگی کا خاتمہ کیا تھا۔ عبدالرحمان نے انگریزوں کے ساتھ 1893 میں ڈیورنڈ لائن معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ اس وقت بر صغیر میں برطانیہ کی حکومت تھی۔
آبادی کا 42 فیصد پشتون ،27 فیصد تاجک،10فیصد ہزارہ ،9 فیصد ازبک ہے
افغانستان کا کل رقبہ 652,864 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی تقریباً 31,390,200 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس ملک میں مختلف نسلی گروہ صدیوں سے مل جل کر رہتے آ رہے ہیں جن میں 42 فیصد پشتون، 27 فیصد تاجک، 10 فیصد ہزارہ، 9 فیصد ازبک، 4 فیصد ایماق، 4 فیصد ترکمان، 2 فیصد سے زائد بلوچ اور باقی دیگر گروہ بھی رہتے ہیں۔
افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہاتھوں ہوئی اور کبھی خانہ جنگی سے یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانستان کے پاس تیل یا دوسرے وسائل کی کمی ہے لیکن ماہرین یہ بھی مانتے ہیں کہ اس سرزمین میں کئی پوشیدہ ذخائر موجود ہیں جن کو زمین سے باہر نکالنے سے افغانستان کی تقدیر بدل جائے گی۔
جغرافیائی اہمیّت
اس کی جغرافیائی حیثیت ایسی ہے کہ وہ وسطی ایشیاء، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا نسلی، مذہبی اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور علاقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔
افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریلا پہاڑی علاقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مشکل ہے اور لوگ زیادہ تر قبائلی ہیں اس لیے کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے، نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے لیے امن نصیب نہیں ہو سکا۔ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی مارچ 2022 میں جاری ایک رپورٹ کے مطابق طالبان کے آنے کے بعد خراب معاشی حالات کی وجہ سے 82 فیصد آبادی کی یومیہ اجرت متاثر ہوئی ہے جبکہ وہ گھرانے جن کا خرچہ ایک خاتون برداشت کرتی تھی، ایسے 100 فیصد گھرانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور اس میں زیادہ تر گھرانے گھر کی اشیا فروخت کر کے خوراک کا انتظام کرنے پر مجبور ہیں۔
خشکی میں گھرا ہوا ملک ،سمندری تجارت پاکستان کے راستے سے ہوتی ہے
افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت اسی لیے پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور ھریرود ہیں ۔ افغانستان کی درآمدات و برآمدات بہت کم ہیں اور زیاد تر انحصار ان کا پاکستان، انڈیا یا ایران پر ہے۔
کابل 5000 سالہ تاریخ رکھنے والا مختلف روپوں کا شہر
افغانستان اورپاکستان کے درمیان ایک طویل اور مشکل ترین سرحد ہے،جو 2640 کلومیٹرہے۔ کابل اس کا دارالحکومت ہے۔ کابل کی معلوم تاریخ تقریباً 5000 سال پرانی ہے۔ یہ بیک وقت ہندو مت اور بدھ مت کا مرکز رہا ہے۔ عربوں نے اس علاقہ کو ساتویں صدی میں فتح کیا۔ کابل نے کئی روپ دیکھے ہیں اور خود یہ بھی کئی روپ رکھتا ہے۔اس شہر نے بہت کم امن دیکھا ہے لیکن مشہور ہے کہ امن کے دنوں میں سہانا روپ نکل آتا ہے اور ہر طرف پھول ہی پھول نظر آتے ہیں۔
یہاں کا موسم بہت ہی پیارا اور خوشگوار ہے کابل میں دو سے تین ماہ برف پڑی رہتی ہے۔اس شہر کے دامن میں ایسے سحر انگیز لمحے موجود ہیں جو کسی کو بھی اپنا دیوانہ اور اسیر بنانے کے لیے کافی ہے۔ اس شہر کے کئی سٹیک ہولڈرز اور فریق ہیں جن کے پاس اپنا اپنا ایجنڈا ہے جس وجہ سے اس شہر کو دنیا کا خطرناک دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔
دریائے کابل کے ساتھ تنگ وادی میں یہ شہر افغانستان کا معاشی و ثقافتی حب سمجھا جاتا ہے۔ یہ افغانستان کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ اس شہر میں ملک کے تقریباً تمام نسلی گروہ رہتے ہیں۔ صدیوں سے یہ شہر مختلف ثقافتوں کا حب رہا ہے اس شہر نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں کہتے ہیں جتنے حکمران کابل نے دیکھے ہیں شاید ہی کسی شہر نے دیکھے ہوں۔ اس لیے کابل کو دنیا بھر میں ایک خطرناک شہر بھی سمجھا جاتا ہے۔
کابل کے ثقافتی اور سیاحتی مراکز
شہر کے ثقافتی مراکز میں افغان قومی عجائب گھر، بابر کا مزار، نادر شاہ کا مزار، تیسری افغان جنگ کے بعد 1919ء میں تعمیر کیا جانے والا مینار استقلال، تیمور شاہ کا مزار اور 1893ء میں قائم ہونے والی عید گاہ مسجد شامل ہیں۔ 1879ء میں برطانوی جارحیت کے دوران تباہ ہونے والا قلعہ بالاحصار اب عسکری کالج میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ دیگر دلچسپ مقامات میں کابل شہر کا مرکز شامل ہے جہاں افغانستان کا پہلا شاپنگ مال قائم ہے، وزیر اکبر خان کا علاقہ، کابل چڑیا گھر، بابر باغ، شاہ دو شمشیرا اور دیگر معروف مساجد، افغان قومی گیلری، افغان نیشنل آرکائیو، افعان شاہی خاندان کا قبرستا، بی بی مہرو پہاڑی، کابل کا مسیحی قبرستان اور پغمان باغ بھی دیگر دلچسپ مقامات ہیں۔
ٹپے مرنجان قریبی پہاڑی ہے جہاں سے بدھ مجسمے اور دوسری قبل مسیح کے سکے برآمد ہوئے ہیں۔ شہر کے شمال اور مشرق کی جانب پغمان اور جلال آباد کی وادیاں ہیں۔
کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ شہر کو دنیا بھر سے منسلک کیے ہوئے ہے۔ کابل کی سرکاری بسیں ملی بس کہلاتی ہیں۔کابل کا مرکز پہاڑوں کے درمیان واقع ہے جہاں شمال جنوب اور مشرق سے مغرب کی جانب کئی تجارتی شاہراہیں گزرتی ہیں۔
ایک ملین سال پہلے کابل کا علاقہ لوگر اور پغمان کے پہاڑوں، چریکار شمال اور ننگرہار کے پہاڑی سلسلے میں گھرا ہوا تھا۔ اس وقت یہ برفانی علاقہ تھا اور یہاں برف کے بہت بڑے تودے یا گلیشئیر ہوا کرتے تھے۔ یہ تودے بتدریج پگھلتے رہے اور یہاں بارشوں اور سیلابوں کے سبب وادی میں پانی بھر گیا۔ کئی گہرے کنویں جو اب بھی شہر کے مشرقی حصے میں موجود ہیں اس وقت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
وادی کابل مشرق میں کوہ پغمان، کوہ قروغ جنوب مغرب، کوہ شیر دروازہ شمال مشرق میں گھری ہوئی ہے۔ یہاں ایک ہی دریا بہتا ہے جو دریائے کابل کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دریا کوہ پغمان سے بہتا ہوا شہر کے جنوب کی جانب 70 کلومیٹر تک بہتا ہے جو مغرب کی جانب ہے۔ یہ مشرقی سمت میں بہتا ہے اور کابل سے ہوتا ہوا جلال آباد اور پھر پاکستانی علاقہ میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں یہ اٹک کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
امریکی انخلاء کے بعد کا افغانستان
افغانستان میں گزشتہ سال امریکی انخلاء، طالبان کی فتح اور وسیع البنیاد حکومت کے بعد امید ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ افغانستان جوبھارتی خفیہ ایجنسی را کے لیے جنت بن گیاتھا اب اس کے لیے جہنم ثابت ہوگا۔ افغان طالبان اورداعش کے درمیان نظریاتی اورعسکری اختلافات موجود ہیں۔ماضی میں دونوں میں کئی جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔ افغان طالبان کواب القاعدہ اوردیگرعالمی دہشت گردگروپوں سے تعلقات بنانے میں بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ طالبان اب عالمی برادری کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں۔ چین، پاکستان، ایران، افغانستان اورترکی مل کر اس خطے کومغربی ممالک کے مقابلے میں ایک نئی معاشی قوت بناسکتے ہیں افغانستان میں امن کے بعد سنٹرل ایشیاتک ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ پاکستان نے خودمختار پالیسی اختیارکی، دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی اورخطے میں امن بھی قائم کیا ہے، اگر آپ کا کابل جانا ہو تو طالبان انتظامیہ کی اجازت کے بغیر کہیں بھی سفر نہ کریں کیونکہ افغان دارالحکومت میں ابھی تک دہشت گرد تنظیم داعش کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا ہے اور وہ پاکستانی سمجھ کر نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئیے