تربیت میں حلال غذا کا کردار
بچوں کی اچھی تربیت والدین پر اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض میں سے ایک ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب کریم نے فرمایا “ایمان والو! بچاو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے۔”آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اہل وعیال کو جہنم سے بچانے کا مطلب ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنا ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :کہ کوئی والد اپنے بچے کو تعلیم وتربیت سے بڑھ کر دنیا میں قیمتی چیز تحفہ میں نہیں دے سکتا۔ اس حدیث سے بھی تربیت کی اہمیت پوری طرح واضح ہورجاتی ہے۔
اچھی تربیت کیا چیز ہے؟ اچھی تربیت کا مطلب یہ ہے کہ والدین کی کوششوں اور دعاوں کے نتیجہ میں بچہ ذہنی، جسمانی ، روحانی، جذباتی اور سماجی طور پر اعلی معیار اور کردار کا حامل بن جائے۔ اچھی تربیت کیلئے جامع اپروچ اپنانا ضروری ہے۔ ورنہ تربیت کے ان ایریاز میں سے بعض کو چھوڑکر بعض کو اپنانے سے بچے کی شخصیت کے بعض پہلو درست طریقے سے نشوونما نہیں پاسکیں گے۔
اس آرٹیکل میں ہم بچوں کی جسمانی اور روحانی تربیت کا ایک اہم کردار بلکہ بنیادی کردار رزق حلا ل وطیب پر بات کرنے والے ہیں۔ کیونکہ یہی رزق حلال وطیب ہے جو بچوں کی جسمانی اور روحانی ہی نہیں بلکہ تربیت کے ہرایریا کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار کا حامل ہے۔
فرض کریں تربیت کے باقی تمام پہلووں پر خوب عمل کیا لیکن بچوں کے لئے رزق حلال وطیب کو نذر انداز کیا گیا۔ حرام وحلال اور مشتبہات سے قطع نظر ان کو جو ہاتھ آیا سب کچھ کھلادیا ۔تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ تربیت پر کی جانے والی باقی ساری محنت بھی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔
ہم نے بارہا اس بات کا مشاہد ہ کیا ہے ۔ کہ کچھ والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دی۔ ان کیلئے اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے، اسکول اور ٹیوشن کا انتظام کیا۔ پھر دینی تعلیم کیلئے مدرسے اور قاری صاحب کا بھی انتظام کیا۔ یہی نہیں بلکہ تربیت کے لئے دیگر تمام اسباب اور پہلووں پر بھی خوب توجہ دی ۔ لیکن جب بچہ بڑا ہواتو دیکھا گیا وہ بگڑگیا ا ور نافرمان ہوگیا۔ اب تربیت کے تمام مقاصد فوت ہوگئے۔ اور بچہ اپنے والدین کیلئے وبال جان بن گیا۔
اب والدین اور دیکھنے والے سبھی لوگ حیران کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ ان کے والدین نے تو اپنے بچے کی تعلیم وتربیت کیلئے ہر ممکن کوشش کی تھی پھر کیا ہوا؟ ذرا گہرائی میں جاکر دیکھا اور جائزہ لیا گیا تومعلوم ہوا ۔کہ ان والدین نے اپنے لئے اور بچوں کیلئے رزق حلال اور طیب کا اہتمام نہیں کیا تھا۔ بہرحال بچوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی میں ر زق حلال وطیب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
رزق حلال کی اہمیت قرآن وحدیث میں
پہلے ہم چندقرآنی آیات اور پھر رزق حلال وطیب پرچند احادیث پیش کریں گے۔ تاکہ یہ بات معلوم ہو کہ قرآن وحدیث میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ چنانچہ فرمایا:
- یاایھا الناس کلوا مما فی الارض حلالا طیبا ولاتتبعوا خطوات الشیطان(بقرہ:168)
اے ایمان والو! زمین میں موجود حلال اور پاکیزہ چیزوں میں سے کھاو اور شیطان کی پیروی مت کرنا۔
اس آیت میں اللہ رب کریم نے حرام سے اجتناب کرنے اور حلال وپاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ حرام سے اجتناب اور حلال وپاکیزہ چیزوں کے اہتمام کرنے والوں سے خیر کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔ اور اگر وہ زیر تربیت بچہ ہے تو اس سے خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔
- یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا۔
اے اللہ کے رسولو! پاکیزہ چیزیں کھاو اور نیک عمل کئے جاو۔
اس آیت مبارکہ میں انبیا اوررسولوں سے خطاب کیا گیا اور حلال وطیب کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
- فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللہ۔ (سورۃ الجمعہ)
جب نماز ختم ہوجائے تو زمین میں پھیل جاو اور اللہ کے فضل میں سے یعنی رزق حلال تلاش کرو۔
اس آیت میں حلال اور پاکیزہ مال کو اللہ کا فضل قرار دے کر نمازوں کی تکمیل اور خاص کر نماز جمعہ کے بعد اسے تلاش کرنے کا حکم دیا۔ جوا س بات کی دلیل ہے کہ اسلام رزق حلال اور طیب کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
- وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ (سورۃ المزمل)
اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں اور اللہ کے فضل یعنی رزق حلا ل وطیب کو تلاش کرتے ہیں۔
اس آیت میں اللہ کے نیک بندوں کی علامت بتائی گئی ہےکہ وہ رزق حلال تلاش کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ رزق حلال کیلئے دیگر فرائض کے بعد کوشش کرنا بھی اہم فریضہ ہے۔
احادیث میں رزق حلال کی اہمیت
احادیث مبارکہ میں بھی رزق حلال وطیب کی اہمیت ملتی ہے ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (الحدیث)
کسب حلا ل کیلئے کوشش کرنا دیگر فرائض کے بعد سب سےاہم فریضہ ہے۔
رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی رزق نہیں۔ اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کما کرکھایاکرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ حضرت داود علیہ السلام زرہیں بنایاکرتے تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام زراعت کیا کرتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔حضرت ادریس علیہ السلام درزی تھے۔ حضرت موسی علیہ السلام بکریاں چرایا کرتے تھے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمام انبیا کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائیں۔ صحابہ نے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ آپ نے فرمایا، ہاں میں بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔
اسلام میں رزق حلا ل کی اہمیت کی وجہ
اسلام نے رزق حلال کمانے کو بہت اہمیت دی ہے۔ کیونکہ جب انسان معاشی طور پر خوشحال ہوتا ہے ۔تو اس سے اس کے عقیدہ وایمان ، سماجی معاملات اور اخلاقی رویوں پر بہت مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ جبکہ معاشی بدحالی انسان پر منفی اثرات چھوڑتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
کاد الفقر ان یکون کفرا۔ فقر اور افلاس انسان کو کفر کے قریب پہنچادیتاہے۔ آپ ﷺ نے دعا مانگی یااللہ مجھے فقر ، بھوک، بدحالی، مال کی کمی، محتاجی اور ذلت سے بچادے۔
قرآن وسنت میں باربار رزق حلال اور طیب کمانے اور حرام ومشتبہات سے بچنے پر زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ انسانی کردار پر رزق حلال کے بڑے دور رس اثرات پڑتے ہیں۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ایک شخص ہے جو طویل سفر کرتاہے۔ اس کے بال پراگندہ اور غبار آلود ہیں۔ وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہتا ہے یا رب یا رب یا رب۔ مگر اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا پینا لباس اور ہر برتنے کی چیز حرام آمدنی سے ہے۔ بتائیے اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔
بچوں کیلئے حلال وطیب غذا کا اہتمام والدین کی ذمہ داری
بچوں کو حلال غذا کھلانے کے حوالے سے والدین پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ کہ وہ بچے کی پیدائش سے پہلے سے ہی اس کے لئے حلا ل وطیب غذا کا انتظام کریں۔ اس سے اولاد نیک اور صالح ہوجائے گی۔
ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ تم اپنی اولاد کی تربیت ماں کے پیٹ سے ہی شروع کردیا کرو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ بچہ ابھی پیداہی نہیں ہوا۔ آپ ﷺنے فرمایا اس کی ماں کو حلال غذا کھلاو۔ پس ماں باپ کے جس نطفے سے بچہ پیدا ہوا اگر وہ نطفہ خود حلال وطیب رزق سے بنا ہے۔ تو یقین رکھیے کہ بچہ نیک اور صالح ہوگا۔
ایک روایت میں ہے کہ نیک بخت انسان کی نیک بختی کی بنیاد شکم مادر میں ہی رکھی جاتی ہے۔ جبکہ بدبخت انسان کی بدبختی کی بنیاد بھی شکم مادر میں ہی رکھی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ نیک بخت انسان حلال وطیب رزق سے بننے والے نطفے سے جنم لیتا ہے۔ اور بدبخت انسان حرام رزق سے بننے والے نطفے سے جنم لیتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: لایدخل الجنۃ جسد غذی بحرام۔
ایسا جسم جو حرام غذا سے پروان چڑھا ہو اس پر جنت حرام ہے۔
حرام رزق کے نقصانات
حرام یا مشتبہ رزق کھانے سے انسان میں بہت ساری روحانی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ جیساکہ کام چوری، والدین اور بزرگوں کی نافرمانی، جھوٹ، بے ایمانی، چوری، دغا اور فریب وغیرہ۔ رزق حرام کھانے والا ہمیشہ دل میں ندامت وپشیمانی محسوس کرتا ہے۔ اور رزق حلال کھانے والا ہمیشہ طبیعت میں انشراح محسوس کرتاہے۔
تقوی کی پہلی سیڑھی ہی رزق حلا ل وطیب سے شروع ہوتی ہے۔ کیونکہ غذا کا اثر انسان کے قلب ودماغ، جذبات واحساسات اور سوچ وافکار پر پڑتاہے۔جب انسان زرق حلال کا اہتمام کرتاہے تو اس کے جذبات واحساسات اور سوچ وخیال میں نکھار پیدا ہوجاتاہے۔ اس کی نیتیں پاکیزہ ہوجاتی ہیں اور آرزوئیں نفیس ہوجاتی ہیں۔
فطری طور پر اس کے دل میں اچھے خیالات جنم لیتے ہیں ۔ جبکہ اس کے برعکس حرام اور مشتبہ غذا کے استعمال سے دل میں اچھے جذبات اور دماغ میں اچھے خیالات جنم نہیں لیتے۔ پھر اس کی نیتیں پاکیزہ رہتی ہیں اور نہ ہی اس کی آرزوں میں نفاست پیدا ہوجاتی ہے۔ خوداحتسابی کا عمل اس کے لئے بہت مشکل بن جاتاہے۔ اور خداکی موجودگی کا احساس اس کے دل سے تقریبا غائب ہونے لگتا ہے۔ یہ سب حرام اور مشتبہ غذا کی کارستانیاں ہیں۔
حلال اور طیب میں فرق
رزق حلال یہ ہے کہ انسان کسی جائز کا م پر اپنی جسمانی یا ذہنی محنت استعمال کرکے مال کمائے۔ اور اس مال سے کسی دوسرے کا حق متعلق نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے حلال کیلئے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ پہلی چیز وہ کام یا مقام جہاں کام کو شروع کرنا چاہتے ہو شریعت کی رو سے جائز ہو۔ اور دوسری چیز یہ ہے کہ اپنی جسمانی یا ذہنی محنت کے عوض میں وہ مال حاصل کیا جائے۔ان دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک بھی مفقود ہو وہ مال حلا ل نہیں رہے گا۔
اور طیب کی تعریف یہ ہے کہ وہ مال پاکیز ہ ہو ، فطر ت سلیمہ اسے قبول کرتی ہو اور جسم وجان کیلئے مفید ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جنک فوڈز یعنی ایسی غذائیں جو جسم وجان کیلئے مفید نہ ہوں یا نقصان دہ ہوں ۔ وہ طیب نہیں کہلائیں گی ۔ اور ان کو استعمال کرنا اپنے لئے اور بچوں کیلئے بھی درست نہیں ہوگا۔
ان دونوں میں یہ فرق بھی کیا جاسکتا ہے کہ حلال رزق سے انسان کی روح پروان چڑھتی ہے۔ اور طیب سے انسان کا جسم اور جوارح پروان چڑھتے ہیں۔
بعض اوقات کوئی چیز حلال ہوسکتی ہے لیکن جسم کیلئے مفید نہ ہونے کی وجہ سے وہ طیب نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایسی چیز کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ مثلا مجبوری یا علاج کے بغیر پتے کھانا ۔ اب پتے بذات خو د حرام تو نہیں بلکہ حلال ہیں ۔ لیکن طیب نہیں کیونکہ وہ مغذی اور جسم کیلئے مفید نہیں ہوتے۔
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ زرق حلال اور طیب کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ والدین اپنے لئے بھی اور خاص کر اپنے بچوں کیلئے حلال کا اہتمام کرنا نہایت ضروری ہے۔
مزید پڑھنے کیلئے کلک کیجئے۔