گھانا: شریر بچوں کو شیطان قرار دیکر قتل کیا جاتا ہے
ضیاء چترالی
زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کے بارے میں آپ نے سنا ہی ہوگا۔ مغربی افریقہ کی عیسائی ریاست ”گھانا“ میں آج بھی کچھ اس قسم کی روایت عام ہے۔ گھانا کے بعض گاﺅں دیہات میں ایک مقامی مذہب Aremiao کے پیروکاروں کے یہاں بچوں کو اس بنا پر قتل کیا جاتا ہے کہ وہ شریر اور ”شیطانی روح“ کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔
کوئی بچہ شریر لگے تو شیر خوارگی میں ہی زہر ملا دودھ پلا کر مار دیا جاتا ہے
شیرخوارگی کے زمانے میں اگر کوئی بچہ شرارتی معلوم ہو تو والدین اپنے لخت جگر کو زہر ملا دودھ پلا کر ہمیشہ کے لئےخاموش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ”شیطانی روح“ کا حامل بچہ مستقبل میں ان کے لئے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے، اس لئے اسے فوراً ختم کرنے میں ہی عافیت سمجھی جاتی ہے۔
جسمانی طور پر معذور بچے شیطانی چیلے قرار پاتے ہیں
عام طور پر جسمانی معذور بچوں کو شیطان کا ”چیلہ“ قرار دیا جاتا ہے، ایسے بچوں کو شرارتی نہ ہونے کے باوجود بھی قتل کردیا جاتا ہے۔یہ روایت زمانہ قدیم سے گھانا میں عام ہے، شمالی گھانا میں سالانہ ہزاروں بے گناہ بچے اس شیطانی روایت کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔
حکومتی پابندی کے باوجودجاہلانہ روایت ختم نہ ہوسکی
گھانا کی عیسائی حکومت اور بعض حقوق انسانی کی تنظیموں کو اب خیال آیا ہے کہ یہ روایت بند ہو جانی چاہئے۔حکومت نے اس پر پابندی کا اعلان کیا ہے، تاہم پابندی کے باوجود دیہات میں یہ روایت نہ صرف یہ کہ قائم ہے، بلکہ اس پر عمل نہ کرنے والوں کا معاشرے میں جینا حرام کر دیا جاتا ہے۔ اگر کسی ایسے بچے کو جس کے بارے میں ایک بار یہ بات مشہور ہو جائے کہ اس کے اندر ”شیطانی روح“ ہے، والدین اسے قتل نہ بھی کریں تو کسی شخص کو بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایسے بچے کا کام تمام کر دے اور والدین اس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کر سکتے۔
کسی بچے کے شیطانی ہونے کا فیصلہ جادوگر کرتے ہیں
یہ انسانیت سوز اور وحشی عمل دیہات کے ساتھ ساتھ بعض اہم شہروں میں بھی قائم ہے۔ ان دیہات میں کسی بھی بچے کو شیطانی ثابت کرنے میں سب سے اہم کردار جادوگروں کا ہوتا ہے۔ جادوگر کسی بھی بچے کو شیطانی قرار دیں تو اس کا زندہ بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ گھانا سمیت بعض افریقی ممالک میں جادوگروں کا راج ہے۔ شمالی گھانا میں تو کوئی شخص جادوگروں کے خلاف ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاسکتا۔
سن 1960 کے بعد گھانا کو زبردستی عیسائی اکثریتی ملک میں تبدیل کیا گیا
واضح رہے کہ گھانا پہلے برطانوی استعمار کے زیر تسلط تھا، 1957ءمیں آزاد ہونے کے بعد وہاں کے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو زبردستی مسیحی بنانے کا سلسلہ عروج پر ہے، 1960ءکی مردم شماری کے مطابق، گھانا میں عیسائیوں کی تعداد صرف 41 فیصد تھی، جبکہ 2000ءمیں یہ تعداد بڑھ 78 فیصد ہوگئی۔ بے شمار مسلمانوں کو بھی زبردستی مرتد کیا گیا، 1960ءمیں مسلم آبادی کی شرح 14 فیصد تھی، جو کہ 2000ءتک صرف 5 فیصد رہ گئی تھی۔
مغربی عیسائی مشنریوں کی ترجیح انسانی حقوق کے بجائے زبردستی مذہب کی تبدیلی رہی
حکومت اور مغربی عیسائی مشنریوں نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو عیسائی بنانے پر تو خوب توجہ دی ہے، مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جہالت اب بھی وہاں عروج پر ہے۔ معروف برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے اپنی عربی سروس میں افریقی ملک ”گھانا“ میں زمانہ قدیم سے جاری ایک وحشی روایت پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، شمالی گھانا کی بعض حقوق انسانی کی تنظیموں نے ملک میں صدیوں سے جاری اس وحشی اور انسانیت سوز روایت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہے۔ ان تنظیموں کے مطالبے پر حکومت نے بھی مختلف قبائل اور دیہات میں جاری بچوں کے قتل کی روایت پر پابندی لگائی ہے۔
شیطانی بچہ بڑا ہو کر والدین کے لیے مسئلہ پیدا کرے گا ، مقامی مذہب کے پیروکاروں کا نظریہ
گھانا میں ایک مقامی مذہب Aremiaoکے پیروکاروں میں یہ روایت زمانہ قدیم سے جاری ہے کہ وہ ایسے بچوں کو زہر ملا دودھ پلا کر ہلاک کردیتے ہیں، جو زمانہ طفولیت میں ہی کچھ زیادہ شرارتی ہوتے ہیں۔ ان توہم پرستوں کا خیال ہے کہ ایسے بچے کے اندر شیطان کی روح ہوتی ہے، اس لےے وہ زیادہ شرارتیں کرتا ہے اور شیطانی روح کا حامل بچہ بڑا ہوکر والدین اور خاندان والوں کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ جبکہ اس کی وجہ سے دوسروں کو بھی خطرات کا اندیشہ ہے، لہٰذا اسے بڑا ہونے سے پہلے ہی ختم کرنے میں عافیت جانی جاتی ہے۔
بچے کو والدین قتل نہ بھی کریں تو کوئی بھی اسے ٹھکانے لگانے کا حق رکھتا ہے
اگر کسی بچے کے بارے میں گاﺅں میں مشہور ہوجائے کہ اس کے اندر شیطانی روح ہے تو والدین اسے قتل نہ بھی کریں تو کوئی بھی شخص اسے ٹھکانے لگا سکتا ہے۔ بی بی سی کی ایک ٹیم نے شمالی گھانا کے ان دیہات کا دورہ کیا ہے، جہاں یہ ظالم روایت قائم ہے۔ شمالی گھانا میں اس گھناﺅنی روایت کے خلاف کام کرنے والی ایک تنظیم کے اہلکاروں نے بی بی سی کو بتایا کہ Aremiao مذہب کے پیروکار سالانہ ہزاروں بچوں کو اپنی اس ظالم روایت کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔
بی بی سی کے رپورٹرز کے سامنے ایک معذور بچے کو شیطانی قرار دے کر قتل کیا گیا
ایسے ہی معذور بچے کو بی بی سی کے صحافیوں کے سامنے ہی قتل کیا گیا، جس کے بارے میں جادوگروں نے کہا تھا کہ اس کے اندر شیطانی روح بسی ہوئی ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ ہم ایک گاﺅں سے گزر ہے تھے کہ بہت سارے جادوئی سامان ہاتھ میں لیے ایک جادوگر بچوں کے پیچھے پڑ گیا، اس نے ایک بچے کو شیطانی قرار دیا، پھر فوراً ہی اسے قتل کردیا گیا۔
مقتول کی لاش جادوگر ساتھ لے جاتے اور مخصوص مارکیٹ میں اعضاء فروخت کرتے ہیں
رپورٹ کے مطابق، جادوگر ایسے بچے کی لاش کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر افریقہ کی اس مارکیٹ میں اس کے اعضا فروخت کئے جاتے ہیں، جسے دنیا کی سب سے بڑی جادوئی مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ اس مارکیٹ میں جادو سے متعلق تمام چیزیں دستیاب ہیں اور دنیا بھر کے جادوگر متعلقہ اشیا کی خریداری کے لےے اس مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں شیطانی روح کے حامل قرار دئے گئے بچوں کو بچانے کے لئے سرگرم
انسانی حقوق کی مذکورہ تنظیم کے اہلکاروں نے بتایا کہ ہم نے ایک بیداری مہم چلا رکھی ہے اور تمام دیہات میں اعلان کیا ہے کہ جس بچے کو معلوم ہوجائے کہ اس کے بارے میں گاﺅں والوں نے شیطانی روح کا حامل ہونا مشہور کر رکھا ہے، وہ ہمارے پاس آجائے۔ پھر ہم ایسے بچوں کو پولیس کے حوالے کرتے ہیں اور پولیس انہیں حکومت کی جانب سے معذور بچوں کے لئے بنا مرکز لے جاتی ہے۔
خواتین ڈلیوری کو بھی چھپاتی ہیں تاکہ ان کے لخت جگر کا شیطانی ہونا مشہور نہ ہو جائے
افریقی بچوں کے حقوق کے تحفظ کرنے والی تنظیم کے عہدیدار ”اینی“ نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم اس وحشی روایت کی وجہ سے سخت پریشان ہیں، ایک معصوم بچے کو صرف اس لےے زندگی سے محروم کیا جاتا ہے کہ اس کے اندر شیطانی روح بسی ہوئی ہے۔ لیکن چونکہ لوگوں کے اندر علم کی کمی کی وجہ سے شعور نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایسی گھناﺅنے امور انجام دیتے ہیں۔ اینی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس ظالم روایت کی وجہ سے بہت سی خواتین ڈلیوری کے وقت کسی ڈاکٹر، نرس، آیا حتیٰ کہ پڑوسی خاتون کو بھی نہیں بلاتیں، کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کے لخت جگر کے بارے میں آنے والی خواتین یہ مشہور کردیں گی کہ اس کے اندر شیطانی روح موجود ہے۔ اس لیے ولادت کی تکلیف وہ خود ہی سہہ لیتی ہیں، انہوں نے کہا کہ شمالی گھانا کے مختلف علاقوں میں گزشتہ 3 برسوں میں بے شمار بچوں کو اس روایت کی وجہ سے قتل کردیا گیا۔
سن 1960 میں گھانا میں عیسائی ابادی 41 فیصد تھی اب 78 فیصد ہے
”اینی“ کا کہنا ہے کہ اس وحشی روایت کی واحد وجہ، لوگوں میں تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم کو عام کرے۔ لیکن اس کے برعکس گھانا کی تمام حکومتیں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو عیسائیت میں تبدیل کرنے پر اپنا سارا زور لگاتی رہی ہیں، جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ گھانا 1957ءمیں برطانوی استعمار سے آزاد ہوا تھا، جس کے بعد پہلی مردم شماری 1960ءکو ہوئی تھی، اس مردم شماری کے اعداد وشمار کے مطابق، ملک میں عیسائیوں کی تعداد صرف 41 فیصد تھی، جبکہ 2000ءمیں یہ تعداد بڑھ 78 فیصد ہوگئی۔ مسلمانوں سمیت دیگر کئی مذاہب کے پیروکاروں کو زبردستی عیسائی بنایا گیا، 1960ءمیں مسلم آبادی کی شرح 14 فیصد تھی، جو کہ 2000ءتک صرف 5 فیصد رہ گئی۔ حکومت اور مغربی عیسائی مشنریوں نے مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو عیسائی بنانے پر تو خوب توجہ دی ہے، مگر تعلیم انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ نہیں کیا، جس کی وجہ سے اب بھی گھانا میں بچوں کا قتل عروج پر ہے۔