دینی اور عصری تعلیم کی یکجائی وقت کی اہم ضرورت
محمد راشد رضا
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کسی طور پر بھی انکار ممکن نہیں تعلیم وہ زیور ہے جو ہر آنےوالے دن کے ساتھ انسان کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے، قوموں کا عروج و زوال اسی تعملیم سے وابستہ ہے ۔ جو قومیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل رکھتی ہیں وہ ترقی کی بلندیوں پر پہنچتی ہیں ۔
تعلیم چاہے دینی ہو یا عصری ،وہ انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے اور اسے جہالت کی قیدو بند سے آزاد کرکے سیکھنے اور سیکھانے کی فضاء میں پرواز کرنے کے لئے بال و پر عطا کرتی ہے، مہد سے لحد تک کی صعوبتوں کو برداشت کرنے اور ان سے لڑنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے، اسے جہالت کی پر خار وادیوں سے نکال کر رب کی معرفت عطا کرتی ہے۔
دنیا کی موجودہ ساری ترقی تعلیم کی ہی مرہوں منت ہے، تعلیم سے ہی انسان نے ستاروں پر کمندیں ڈالیں ، چاند پر جا پہنچا ، سمندر کو چیرتے ہوئے راستے بنا دیے ، دیوہیکل پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے سطح زمیں کے برابر کر ڈالا اور پھر زمین پر رہنے اوراس پر حکومت کرنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیم کی اقسام
آج جتنی بھی ترقی ہمیں اپنے گردو پیش دکھائی دیتی ہے یہ سب تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ اگر رب کریم نے انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت اور عقل سلیم سے نہ نوازا ہوتا تو حصول تعلیم نا ممکن ہوتا ۔ اگر انسان نے انسان کو تعلیم نہ دی ہوتی تو آج دنیا کا نقشہ کسی جنگل کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ، آج جو کچھ بھی حضرت انسان کے پاس ہے اور جو کچھ بھی اسے مستقبل میں میسر آسکتا ہے وہ سب تعلیم کے ذریعے ممکن ہے ۔
تعلیم کی دو بڑی اقسام ہیں ؛عصری تعلیم اور دینی تعلیم ، پھر ان کی آگے چل کر مزید ذیلی اقسام ہیں لیکن آج ہمارا مقصد بس انہی دو بنیادی اقسام کی وضاحت ہے۔
عصری تعلیم
موجودہ تعلیم جو آج ہمارے اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور کوچنگ سینٹرز میں فراہم کی جا رہی ہے اسے عصری تعلیم کہتے ہیں۔
معاشرتی توازن کو بر قرار رکھنے کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلقہ ماہرین کی ضرورت ہوا کرتی ہے جس میں انجینیر ڈاکٹرز ، قانون دان اور معلم وغیرہ سرفہرست ہیں، یہ تمام متعلقہ ماہرین عصری تعلیم یافتہ ہوا کرتے ہیں جو کہ معاشرے میں اپنے کردار کو بخوبی نبھاتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک میں ترقی اور خوشحالی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں، یہ تمام متعقہ ماہرین جو اعلی یونیورسٹیوں پڑھ کر نکلتے ہیں اپنی بہترین صلاحیتوں سے نہ صرف یہ کہ ملک میں افرادی قوت میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک سے غربت و جہالت کے خاتمے کا بھی باعث بنتے ہیں۔
جب چراغ سے چراغ جلتا ہے اور ہر شخص اپنا کردار اور فراض منصبی بہتر طور پر ادا کرتا ہے تو معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جاتا ہے جہاں ترقی ،خوشحالی ،امن و امان جیسی اقدار پروان چڑھا کرتی ہیں ۔ عصری تعلیم کے چھوٹے بڑے ادارے ملک کے طول عرض میں جا بجا قائم ہیں جو قوم کے نو نہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا
کرتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: بر صغیر کے تین بڑے نظامِ تعلیم
دینی تعلیم
دین اسلام اپنے ماننے والوں کو جہاں ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے وہیں انہیں ان ضابطوں اور قوانین کی پابندی کا بھی درس دیتا ہے تاکہ ان کی زندگی کامیابیوں سے مزیں ہو ، دین اسلام چونکہ تمام ادیان پر غالب آنے کے لیے آیا ہے اس لیے اللہ تعالٰی اس کے پیرو کاروں کو کامل، اکمل اور اطاعت کا حامل دیکھنا چاہتا ہے ، اس بنا پر حق تعالیٰ نے وہ تمام لوازمات اس دین کو ودیعت فرما دئے جو اس نظام کو چلانے کے لیے درکار تھے ۔
کامل کتاب ، کامل شریعت اور کامل نبی ﷺ اس زمانے کی طرف بھیج دیے گئے ، اسلام میں منظم دینی تعلیم کا آغاز مسجد نبوی میں قائم ایک چبوترے سے ہوتا ہے جہاں ہادی عالم دنیا کی مقدس ترین درسگاہ کے خوش قسمت طلبہ کو دین کی تعلیم دیتے ہیں، جہاں” لاالہ الا اللہ ” کی صدائیں گونجتی ہیں۔
صفے کی درس گاہ سے تعلیم و تربیت پانے والے صحابہ کرام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئے اور انسانیت کو دین کے علم سے بہرہ ور کیا ۔
صحابہ کرام کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین نے علم دین کی ترویج کا علم اٹھایا، ان کی کوششوں پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح صعوبتیں برداشت کرکے دین کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا ۔
علوم دینیہ کی ترویج میں مدارس کا بنیادی کردار ہے آج بھی وہ یہ فریضہ نبھا رہے ہیں، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلباء فارغ التحصیل ہوتے ہیں ، یہ مدارس اسلامی معاشرے کو علماء ،فقہاء، مفتی ،مدرس، خطیب ،قاری اور دیگر رجال کار پیدا کرکے دیتے ہیں۔
مدارس میں سب سے پہلے قاعدہ ،ناظرہ اور پھر حفظ کی تعلیم دی جاتی ہے ، اس کے بعد جن طلباء کو دل چسپی ہوتی ہے وہ درس نظامی میں داخلہ لے لیتے ہیں جو میٹرک شدہ طلباء کے لئے آٹھ سال پر محیط ہوتا ہے، اس کے بعد حسب ذوق طلباء مختلف شعبوں میں تخصص کرتے ہیں جیسے فقہ،قرات وغیرہ، فقہ میں تخصص کرنے والے مفتی کہلاتے ہیں۔
مدارس کے فضلاء دین اسلام کی سربلندی اور علوم دینیہ کی اشاعت میں سر گرم کردار ادا کرتے ہیں، فضلاء مدارس قرآن و سنت ، حدیث ،فقہ، اصول فقہ،عربی ادب، تاریخ اسلام اور دیگر اسلامی علوم کی تدریس اور نشر و اشاعت میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں ۔
دینی و عصری تعلیم وقت کی اہم ضرورت
دین اسلام اپنے ماننے والوں کوم دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا بلکہ دنیا سے لاتعلقی سے منع کیا گیا ہے جسےئ رہبانیت کہا جاتا ہے ۔
قرآن کریم کے سورہ حج میں معاشی تگ و دو کی یوں ترغیب دی گئی ہے ” فاذا قضیت الصلاۃ فاانتشروا فی الا رض وابتغوا من فضل اللہ”(اور جب نماز جمعہ ادا کر چکو تو زمیں میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل(معاش) کو تلاش کرو)۔ ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے ” الکاسب حبیب اللہ” ( حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے) قرآن کریم نے ہمیں دعا سکھائی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد اہتمام سے مانگا کرتے تھے “رپنا آتینا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرتہ حسنتہ “( اے اللہ ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما) ان سب سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کسب معاش اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو اکھٹا کرنے سے نہیں روکتا جب کہ وہ حدود قیود کے دئرے میں رہتے ہوئے حاصل کی جائیں بلکہ وہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھلائیوں کو بھی حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے۔
دین و دنیا کی بھلائیاں ں تبھی حاصل کی جا سکتی ہیں جب دین اور دنیا دونوں کے علوم کو حاصل کیا جائے۔ جب ہم ماضی قریب کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تعلیمی نظام کے حوالے سے ہمیں سر سید احمد خان اور علماء کا ایک بڑا اختلاف نظر آئے گا، سر سید مغربی و عصری علوم کہ اپنانے کے پر زور داعی تھے جبکہ علماء کرام اس خاص ماحول میں مسلمانوں کو صرف دینی تعلیم حاصل کرنے کی طرٖ ف راغب کرتے تھے۔
حضور ﷺ حدیث کے مطابق امت کا یہئ اختلاف رحمت ثابت ہوا سر سید کی کوششوں کی نتیجے میں عصری تعلیمی ادارے وجود میں آئے تو علماء کی کاوشوں سے مدارس اور مکاتب وجود میں آئے یعنی ایک طرف قدرت نے دینی تعلیم کے حصول کی راہیں ہموار کیں تو دوسری طرف عصری تعلیم کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ حقیقت میں مسلمانوں کے لئے دونوں ہی تعلیم ناگزیر ہیں اور دونوں کے باہمی امتزاج سے ہی ایک مثالی اسلامی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیم نسواں اور اسلام
دینی و عصری تعلیم کا امتزاج
آج کے ترقی یافتہ دور میں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کا حصول بھی ضروری ہے جب یہ دونوں ایک مسلمان میں یکجا ہوجاتے ہیں تو اس کی شخصیت کو کامل بناتے ہیں اور اسے اعلی صفات اور مضبوط کردار کا حامل بناتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے طول عرض میں اب دینی تعلیمی اداروں نے عصری علوم بھی پڑھانے کا انتظام کیا ہوا ہے تو دوسری طرف عصری تعلیمی اداروں نے بھی قرآن کریم کی تعلیم کو اہمیت دینا شروع کیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں اور اکثر نجی اداروں میں بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اللہ تعالی ان تمام لوگوں کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے اس عمل کو آخرت میں ان کے لیے نجات کا باعث بنائے، سرکاری سطح پر دینی تعلیم کو عام کرنے کے لیے جو کوششیں کی جار رہی ہیں انہیں بیان نہ کرنا نا انصافی ہوگی ، سرکاری اسکولوں میں عربی کی تعلیم دی جاتی ہے اور باقاعدہ دورانیہ مقرر کرکے عربی پڑھائی جاتی ہے اس حوالے سے ماہرین کی تقرری کی جاتی ہے ان اداروں میں دینی اور قرانی علوم کی تدریس مدارس کے فضلاء ہی انجام دے رہے ہیں ۔
آج دینی و عصری دونوں طرح کی تعلیم ہماری اولین ضرورت ہے اس سلسلے میں کی جانے والی تمام کوششوں کاوش سراہا جانا چاہیے اللہ تعالی سے یہ دعا ہے کہ وہ ہمیں دین و دنیا کی تعلیم حاصل کرنے اور اسے اگلی نسلوں تک پہنچانے کا ذریعہ بنائے (آمیں)