اولاد کی تعلیم وتربیت دینی فریضہ بھی اور ذخیرہ آخرت بھی
شیخ احمد اویس
اسلام میں تربیہ بہت اہم ہے، کیونکہ درحقیقت تمام دین کی بنیاد تربیہ (یعنی لوگوں کی تعلیم و تربیت) پر ہے۔ یہ سب سے پہلے ہماری اپنی ذات کی تعلیم و تربیت سے شروع ہوتا ہے، پھر اپنے خاندانوں کی، اور پھر بڑے پیمانے پر کمیونٹی کی۔ لیکن یہ تربیہ ہمارے بچوں کے حوالے سے سب سے اہم ہے، تاکہ وہ اسلام کے صحیح راستے پر پرورش پائیں۔ اسی بنا پر بہت سے اہل علم تربیہ کے اس پہلو پر بحث کرنے میں دوسروں کی نسبت زیادہ احتیاط کرتے ہیں۔
اولاد کے دنیاوی اور اخروی فائدے
اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جو کسی بھی انسان کے دنیاوی اور اخروی مفاد کی ضامن ہے ۔ جہاں تک اس دنیا کے فائدے کا تعلق ہے تو جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے اور روزی کمانے کے قابل نہیں رہتا ہے تو اس کے تمام دوست اور ساتھی اسے اکیلا چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے بچے ہی اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت کرتے ہیں، اس کے مسائل اور بوجھ اٹھاتے ہیں۔
وفات کے بعد آدمی اپنی اولاد سے استفادہ کرتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب ابن آدم فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال بند ہو جاتے ہیں سوائے تین کے۔ صدقہ جاریہ ، وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں، صالح بچہ جو اس کے لیے دعا کرے۔”
جوان بچوں کی فوتگی پر صبر کرنے پر اخروی انعام
اگر اولاد بچپن میں ہی فوت ہو جائے تو وہ اپنے والدین کی شفاعت کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے مروی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی مسلمان مرد یا عورت ایسا نہیں ہے جس کے تین بچے جوان ہو کر فوت ہو جائیں اور وہ اس پر صبر کرے، سوائے اس کے کہ وہ آئیں اور اس کی شفاعت کریں۔ قیامت کے دن۔” حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، ‘دو بچوں کا کیا ہوگا؟’ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دو بچوں کے لیے یکساں ہے۔ (مسند البزار، الحاکم۔ شیخ البانی نے اپنی کتاب ،کتاب الجنۃ میں اس کا ذکر کیا ہے)
نابالغ بچے کی وفات پر صبر کرنے والے کے لئے عظیم بشارت
رہا وہ شخص جس کا ایک بچہ فوت ہو جائے اور وہ اس پر صبر کرے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر طلب کرے تو اسے بھی اس کے ہاں بڑا اجر ملے گا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بیٹھنے کی جگہ بیٹھتے تھے اور آپ کے صحابہ آپ کے سامنے بیٹھتے تھے تاکہ آپ سے فائدہ حاصل کریں اور سیکھیں۔ آپ کی خدمت میں بیٹھنے والوں میں ایک شخص تھا جس کا ایک چھوٹا لڑکا تھا۔ وہ شخص اس چھوٹے بچے کو بھی اپنے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لاتا، پھر یوں ہوا کہ اس بچے کا انتقال ہو گیا اور وہ شخص اتنا غمگین ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چھوڑ دیا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا اور غیر حاضری کی وجہ دریافت کی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی کہ اپنے ہاں آنے والوں کی عدم حاضری کے بارے میں دریافت فرماتے اور ان کے حال احوال کے بابت آگاہی حاصل کیا کرتے ۔صحابہ کرام اس شخص کے بارے میں بتایا کہ اس کا چھوٹا بیٹا فوت ہوگیا ہے اور اس کی وجہ سے وہ غمگین ہے۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص سے ملنے تشریف لے گئے ،اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛
“کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا بیٹا یہاں تمہارے ساتھ وقت گزارے، یا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہارا بیٹا تم سے پہلے جنت میں پہنچ جائے اور جنت کے دروازے تمہارے لیے کھولنے کا انتظار کرے؟ اس شخص نے عرض کیا ؛یا رسول اللہ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے پہلے نکلے اور مجھ سے آگے جنت میں جائے ۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے لیے ہے۔(یعنی تمہارا فوت ہوئے والا یہ بچہ جنت میں تمہارا انتظار کرے گا) اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ پر قربان ہو جاؤں کیا یہ (ثواب) صرف اس آدمی کے لیے ہے یا تمام لوگوں کے لیے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ اجر تمام لوگوں کے لیے ہے (یعنی ان لوگوں کے لیے جن کا کوئی بچہ فوت ہوجائے اور وہ اس صدمے پر صبر کریں)۔ (مستدرک الحاکم، علامہ ذہبی نے اسے صحیح قرار دیا ہےجیسا کہ علامہ البانی نے کہا ہے)
بیٹیوں کی پرورش اور تربیت پر جنت کی بشارت
اولاد پیدا کرنے کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کسی کی بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور ان کی صحیح پرورش کرے تو اس کے لیے اللہ کی طرف سے بہت بڑا اجر ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت میرے دروازے پر آئی جس کی دو بیٹیاں تھیں اور وہ بہت غریب تھی، صدقہ کرنے کے لیے میرے پاس تین کھجوریں تھیں ، میں نے وہ کھجوریں اس عورت اور اس کی دو بیٹیوں کو دے دیں۔ اس نے اپنی بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک اپنے لیے رکھ لی لیکن جب دونوں بیٹیاں اپنی کھجوریں کھا لیں اور دوبارہ اپنی ماں کی طرف دیکھنے لگیں تو اس عورت نے وہ کھجور بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے بیٹیوں میں بانٹ دی۔ اس کے بعد وہ عورت چلی گئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ کو یہ سارا واقعہ بتا دیا ، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کی بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی پرورش کرے، قیامت کے دن وہ بچیاں اپنے ماں باپ اور جہنم کے درمیان رکاوٹ بنیں گی۔(بخاری ومسلم)
والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کریں کیونکہ ان کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “تم سب چرواہے ہو اور اپنے ریوڑ کے ذمہ دار ہو”۔ بدقسمتی سے بہت سے لوگ بچوں کی صحیح پرورش کے اس معاملے کو حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اور اسے ایک چھوٹا اور غیر اہم معاملہ سمجھتے ہیں۔
قرآن وحدیث کی نظر میں اولاد کی تربیت کی اہمیت
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
“اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔” [سورہ تحریم 66:6]
دوسری جگہ ارشاد ہے
“اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو، اور ان (یعنی نمازوں) کی ادائیگی میں استقامت اختیار کرو۔” [سورہ طہ 20:132]
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انہیں اس پر مارو (یعنی نماز پڑھنے پر مجبور کرو) اور انہیں سونے کی جگہ پر الگ کر دو۔ “
خاندان کی درست نہج پر تربیت کے لئے کچھ عملی اقدامات
صالح اولاد کی تلاش
جب کوئی فرد شادی کے بندھن میں بندھنے کا ارادہ کرے تو صالح اولاد کا حصول اس کی نیت میں شامل ہونی چاہیے ، ایسے میں اللہ تعالیٰ سے صالح اولاد کے لئے دعا بھی کرنی چاہیے ۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ان عورتوں سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی اور زرخیز ہوں، کیونکہ میں قیامت کے دن ان (انبیاء) میں شامل ہونا چاہتا ہوں جن کے سب سے زیادہ پیروکار ہوں گے۔” لہٰذا جب کوئی شخص شادی کرے تو اسے اس نیت سے اولاد کی تلاش کرنی چاہیے کہ بہت سے بچے پیدا ہوں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف بڑھیں اور یہ بچے اللہ کے نیک بندے بنیں تاکہ وہ دنیا و آخرت میں ان سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیت کو نتائج کے حوالے سے ایک خاص اور اہم مقام حاصل ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک ہر عمل کا دار و مدار اس کی نیت پر ہوتا ہے۔” پس اگر عمل کے شروع میں نیت صحیح ہو تو آخر میں اس کا صحیح نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
والدین بچوں کے لئے نمونہ بن جائیں
والدین کو اپنے بچوں کے لیے اچھا اور بہترین نمونہ ہونا چاہیے۔ انہیں ہر نیکی میں جلدی کرنی چاہیے اور اسی طرح تمام برائیوں کو چھوڑنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے اپنے والدین کی دیکھا دیکھی عمل کرتے ہیں جیسا کہ وہ ان سے پیار کرتے ہیں اور ان کی عزت اور تعریف کرتے ہیں۔ پس ماں باپ اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑی مثال ہیں۔ والدین جس چیز پر ہوں، اولاد اس میں ان کی پیروی کرتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے بچوں کے لیے اچھی مثال بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دین کو اہمیت دینا
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے بچے کی زندگی کا سب سے اہم معاملہ دین کو بنائیں۔ انہیں اپنے بچے کی اس طرح پرورش کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں وہ جان لے کہ اس کی زندگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں درست راستے پر ہو، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
اور یہ وصیت (اسلام قبول کرنے کی) ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو کی تھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمہارے لیے (حقیقی) دین کو چن لیا ہے، اس کے سوا تمہیں موت نہ آئے۔ اسلام کے عقیدے میں۔” [سورہ بقرہ 2:132]
ایک اور جگہ ارشاد ہے ؛
“اور اس نے لا الہ الا اللہ کو ایک ایسا کلمہ بنایا جو ان کی اولاد کے درمیان باقی رہے گا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی اللہ کی طرف توبہ کریں یا نصیحت حاصل کریں)۔ [سورہ زخرف 43:28]
اس لیے اپنے بچوں کے حوالے سے ہماری سب سے بڑی فکر یہ ہونی چاہیے کہ ہم ان پر ان کے مذہب کی اہمیت اور ان کے سیدھے رہنے کی اہمیت کو واضح کریں۔ ہمیں ان کی دنیا سے زیادہ ان کے راست باز مسلمان ہونے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے ،قران کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
“اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد میں سے ایسی اولاد عطا فرما جو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو اور ہمیں متقیوں کا پیشوا بنا دے۔” [سورہ فرقان 25:74]
قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا یوں مذکور ہے
“اے میرے رب! مجھے پوری طرح نماز پڑھنے والا بنا دے اور میری اولاد کو بھی۔ [سورہ ابراہیم 14:40]
بچوں کے ساتھ محبت اور مہربانی کا رویہ
والدین کو چاہیے کہ اپنے معاملات میں پیار، مہربانی اور نرمی کا رویہ اختیار کریں ،بچوں کی پرورش میں ہمیشہ سختی اور مار پیٹ سے گریز کریں۔ البتہ اگر حالات کا تقاضا ہو کچھ سختی بھی کریں اور شدید ضرورت کی صورت میں مارنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ لیکن ہر وقت سختی کا معاملہ بھی بچوں کو بگاڑ دیتا ہے،اس لئے درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے ، ہمیشہ سختی اور مارپیٹ بھی نہیں کرنی چاہیے اور اہل مغرب کی طرح اولاد کو بالکل بے لگام بھی نہیں چھوڑنی چاہئے ۔
اچھے کردار کی تعلیم دینا
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے اچھے کردار کا عادی بنائیں۔ وہ انہیں قرآن، سیرت رسول اور صحابہ کرام (رض) کی سیرت سے روشناس کرائیں۔اپنے بچوں کو یہ کہتے ہوئے غلطیاں کرنے کی آزادی نہیں دینی چاہیے کہ جب وہ بڑے ہو جائیں گے تو ان کی اصلاح کر لیں گے، کیونکہ جب انسان غلط کاموں اور بُری خصلتوں کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے ’’جو کسی چیز پر پروان چڑھتا ہے وہ اسی چیز پر بوڑھا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی صحیح عقیدہ اور درست اعمال سکھانے چاہئیں۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بیان ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کیا اور فرمایا کہ اس کھجور کو منہ سے نکال دو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا کہ کھجور صدقہ کے ہیں، اور صدقہ نبی یا ان کے اہل خانہ کے لیے جائز نہیں ہے۔
ایک روایت میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے بیٹے کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھانے کے دوران ان سے فرمایا؛ اے لڑکے! بسم اللّٰہ پڑھ کر کھانا شروع کرو، اپنے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی غلطیوں کی نشاندہی کر کے ان کی اصلاح فرماتے تھے۔
اپنے بچوں کے ساتھ انصاف کیجئے
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر ظلم و زیادتی نہ کریں۔ بچوں میں سے کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ نہ نوازیں ، کسی ایک بچے کی دوسرے بچوں سے زیادہ تعریف بھی نہ کریں ۔ اس قسم کا غیر منصفانہ اور طرفداری کا معاملہ تربیت کے حوالے سے مسائل پیدا کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کرو۔ درحقیقت، عادل ہونا بچوں کی تربیہ پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے، جس طرح ناانصافی ان کی تربیہ پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ ان منفی اثرات میں سے یہ ہے کہ بچہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اگر وہ اپنے والدین سے انصاف نہیں پا سکتا تو پھر وہ کس سے انصاف کی توقع رکھے ؟ وہ زندگی بھر اس پریشانی اور اس احساس کو اپنے دل میں لئے کڑھتا رہتا ہے۔
اپنے بچوں پر خرچ کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے
ماں باپ دونوں کو اپنی اولاد پر خرچ کرنا چاہیے۔ انہیں پیسہ کمانے اور اپنے بچوں پر صحیح طریقے سے خرچ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ انسان کوئی بھی چیز اپنے اہل و عیال پر صحیح نیت سے خرچ کرے، اس کا اس کو اجر ملتا ہے۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے اہل و عیال پر جو کچھ خرچ کرتے ہو حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اس کا تمہیں اجر ملتا ہے ۔”
ایک اور حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے”دو دینار جو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، یا دو دینار جو تم صدقہ میں خرچ کرتے ہو، یا دو دینار جو تم مسکین کو دیتے ہو، یا دو دینار۔ جو تم اپنے اہل و عیال کو دیتے ہو، ان میں سے سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔