کربلا کے بعد اور دربار یزید

61 ہجری دس محرم یوم عاشور کو  شام کا اندھیرا چھا جانے کے بعد کربلا کے مقام پر نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کربلا کے میدان میں بھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد ان کی لاش کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالا گیا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بہتر اصحاب کے ساتھ کوفے کی جانب سفر کے لئے تیار ہو گئے کیونکہ کوفیوں نے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھ لکھ کہا تھا کی یز ید نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور دین اسلام کو بگاڑ رہا ہے ان خطوط کے ملنےکے بعد  اور بار بار آنے والے وفود نے بھیامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی نصرت کا یقین دلایا تو اسکے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے یہ فیصلہ کیا کہ یزید کو اگر اس فعل بد کے بعد چھوڑ دیا گیا تو وہ دین اسلام کی بنیاد کو کھوکھلا کر ڈالے گااس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان کردیا کہ ہم یزید کی جانب جارہے ہیں  تاکہ اسے نصیحت کی جائے حالانکہ اس وقت کے کئی جلیل القدر اصحاب نےامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہسے کہا بھی کہ کوفے والوں کا کوئی بھروسہ نہیں وہ  پہلے امام علی اور اس کے بعد امام حسن سے بھی کئی مرتبہ عہد شکنی کرچکے ہیںان لوگوں سے کچھ بعید نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ بھی کوئی سازش کر جائیں لیکن چونکہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہاپنے نانا کے دین کے اکیلے وارث تھے اور  نا نا کے بعد دین کو بچانا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ذمہ داری تھی اس لئے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی  بھی بات کی پرواہ کئے بنا  کربلا جانے کی تیاری شروع کردی

بہتر مرد وزن کا قافلہ ترتیب دے ڈالا

یعنی نظام کرب وبلا ترتیب دے ڈالا

راستے کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد بلاآخرامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہاپنی شہادت گاہ کربلا کے مقام پر جاپہنچےجہان امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے تاریخ اسلام کی وہ قربانی پیش کرنی تھی کہ جس کو قرآن کریم نے وفدینہ بذبح عظیم قرار دیا تھا جس کے متعلق اقبال کہتے ہین کہ

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

ابتداء ہے اس کی اسمعیل انتہا ہے حسین

کربلا پہنچنے کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے لشکر نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا یزیدی فوج سامنے موجود ہے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سامان حرب اور ساتھیوں  کی قلت ہے لیکن اس کے بعد بھی امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہکو اپنے خالق ومالک پر پورا بھروسہ ہے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جانتے تھے کہ آج اگر مقتل نہ سجایا گیا تو اس کے بعد رہتی دنیا تک کسی نے بھی اسلام خاطر قربانی نہیں دینی

جس شان سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

اس جان کا رونا کیا ہے آخر جان تو اک دن جانی ہے

عمرو بن سعد کے حکم پر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر پر پانی بند کردیا گیا جس کے بعد خیام حسینی سے العطش العطش کی آوازیں بلند ہونے لگیں

حاکم کا حکم یہ ہے کہ پانی بشر پیئیں

گھوڑے پیئں سوار پیئں اور شتر پیئں

جو تشنہ لب جان ہیں سب آن کر پیئں

حیواں پیئں چرند پیئں جانور پیئں

کافر طلب کئیں تو توں منع نہ کیجئو

بس فاطمہ کے لال کو پانی نہ دیجئو

امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جنگ کی نیت سے گھر سے نہ نکلے تھےبلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت  جنگ ان پر مسلط کردی گئی نومحرم کی رات چھا جانے کے بعد کربلا کے مقام پر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیون کو عشاء کی نماز پڑھائی اور

اپنے بڑے بیٹےعلی اکبر سے کہا کہ بیٹا علی اکبر چراغ گل کردوحضرت علی اکبر نے چراغ گل کردیا تو اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں کربلا جنگ کرنے کی نیت سے نہ آیا تھا تم لوگوں  کا بڑا شکریہ کہ مجھ غریب کا اتنا ساتھ دیا یہ لشکر صرف اور صرف میرے خوں کا پیاسا ہے.

میں تم سب سے راضی ہوں اللہ بھی تم سے راضی ہو تم رات کی تاریکی  مزید چھا جانے کے بعد تم نکل جاؤ  اور اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ تمہیں طعنے ملیں گے تو تم عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر چلے جاؤ وہان پہنچ کر لوگوں سے کہہ دینا کہ ان کی وجہ سے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں واپس بھیج دیا اس کے بعد صبح جو جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔

اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی اکبر کو حکم دیا کہ چراغ روشن کریں  چراغ روشن کیا گیا تو تمام ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہنے لگے کہ اے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ہم اس لئے تو آپ کے ساتھ نہیں آئے تھے کہ پریشانیا ں اور مصیبت دیکھنے کے بعداپ کو تنہا چھوڑ جائیں ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑہیں گے جب تک کہ دشمن ہمیں قتل کرنے کے بعد  ہمیں قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر ڈالے ۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ساتھیوں کی اس جانثاری اور وفاداری پر سجدہ شکر بجا لائے دس محرم یوم عاشور کی صبح کا سورج طلوع ہونے کے بعد کربلا کے میدان میں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ دس محرم یوم عاشور کا سورج طلوع ہونے کے بعد حر نے یزیدی لشکر کو چھوڑ کر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے دشمن فوج کے سامنے دس محرم یوم عاشور کربلا کے میدان  میں طلوع آفتاب کے بعد خطبہ دیا پہلے اہل بیت کے مناقب بیان کیے پھر کے بعد اپنے بارے میں بنی ؑ کی احادیث بیان کی فرمایا کہ ہم شباب اہل جنت ہیں حضورﷺ کے نواسے اور بتول و علی کے فرزند ہیں تمہارے لیے کسی طرح بھی جائز نہیں کہ میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دو۔ کیا میں نے کسی شخص کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں تم  لوگ مجھےکیوں  قتل کر رہے ہو ؟کیا میں نے کسی کا مال لوٹا یا کسی کو زخم لگایا ؟

اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے ایک ایک کوفی  فوج کے لشکریوں کو نام لیکر پکارا اور کہا اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے بلاں بن فلاں کیا تم لوگون نے مجھے خط لکھ کریہاں  نہیں بلایا تھا  کیا مجھے یہاں آنے کا نہیں بولا تھا یہ تمام  لوگ یزیدی فوج میں موجود تھے لیکن وہ لوگ مکر گئے

جو کربلا میں شاہ شہیداں سے پھر گئے

کعبے سے منحرف ہوئے قرآن سے پھر گئے

امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس کے بعد وہ تمام خطوط کے تھیلے عمر بن سعد اور شمر کو دکھائے جو ان  کوفے والون نے لکھے تھے جو کہ اب بھی کربلا کے میدان  میں موجود تھے لیکن کیا کہیں کہ بدبختی ولعنت فوج یزید کا مقدر ہوچکی تھی آآنکھوں پر اقتدار کی پٹی بندھی ہو تع سامنے کھڑا امام حسین بھی بندے کی سمجھ میں نہیں آتا سمجھانے کے باوجود بھی اقتدار اور زر کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا تھا کوفیوں نے ایک نہ سنی فوج کے عہدے داروں کو یہ معلوم تھا کہ اگر یزید کو خبر ہوگئی کہ ہم نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا ہے تو وہ ہمیں قتل کردے گا یہی وجہ تھی کہ حسین  رضی اللہ عنہ کو یزید تک نہ پہنچنے دیا گیا۔

سب سے پہلے عمر بن سعد نے حسینی لشکر کی جانب تیر چلایا اور کہنے لگا گواہ رہنا پہلا تیر چلانے والا اب باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہکے سپاہی ایک کے بعد ایک کر کے اپنی بہادری اور شجات کے جوہر دکھاتے ہوئے  کربلا کے میدان  میں جام شہادت نوش کرگئے اہل بیت اطہار میں حضرت عباس کے بازو قلم کردیے گئے حضرت قاسم امام علی اکبرکربلا کے میدان  میں لڑتے لڑتے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے عون و محمد شہید ہوئے پھر چھ ماہ کے امام علی اصغر کو حسین کے ہاتھوں پر حلق میں تیر مار کر شہید کردیا گیا 10 محرم کی شام پھیلنے  کے بعدمیدان کربلا  میں آخری باری امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہبن علی کی آئی حسین میدان جنگ میں پہنچے ہیں علی کا شیر حیدری جب حضور ؑ کا امامہ اور پٹکا باندھے علی کی زوالفقار لیکر میدان کربلامیں پہنچے اور ایک ایک کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹنے لگا اور کہنے لگا آؤ تین دن کے بھوکے اور پیساے کی جنگ دیکھو علی کے بیٹے کی جنگ دیکھو

میدان دشت کربلا الٹنے فوج اشقیاء

بڑھا جو شاہ کربلا اٹھا کے تیغ لافتح

لگی جو سر اتارنے کہا یہ ذوالفقار نے

غضب کا سورما حسین ہے

دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر گھر بھاگنے لگی جب شمر نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ تم سب مل کرحسین پر حملہ کردو  اکیلے اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے  چشم زدن میں سینکڑوںنیزے بھالے اور تلواریں میدان کربلا میں حسین کی جانب بڑھنے لگیں

دم لینے دو نہ فاطمہ زہرا کے چین کو

سینے پر نیزے رکھ کر گرادو حسین کو

میدان کربلا میں امت رسول ﷺ نے رسوؒلﷺ کے بعدان کے نواسے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کوبھوکا اور پیاسا شہید کردیا

کو شہید کردیا گیا شمر نے سر اقدس کو جسم ببارک سے معصوم سکینہ کی نظروں کے سامنے جدا کیا اس کے بعد کربلا میں ایک کہرام چ گیا قتل کے بعد حسین کے سر کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور لاش کو گھوڑوں سے روندا گیاکربلا میں ایک قیامت بپا ہو گئی خیام حسینی کو آگ لگاد ی گئی حسین کا سر جب عمرو بن سعد نے ابن زیاد کے دربار بھیجا تو اس لعین نے دربار میں سراقدس حسین کے ہونٹوں پر چھڑی ماری اور اس کے بعد ہنسنے لگا صحابی رسولﷺ زید بن ارقم صحابی رسول جو اس موقع پر دربار میں موجود تھے انہوں نے کہا او بدبخت چھڑی ہٹالے میں نے نبی ؑ کو دیکھا کہ وہ ان ہونٹوں کو چوما کرتے تھے یہ  سن کر عبداللہ بن زیاد کو بڑا طیش آیا اور کہنے لگا کہ اے بڈھے  اگر تیری عقل نہ سٹھیا گئی ہوتی تو میں تجھے قتل کردیتا حضرت زید بن ارقم دربار سے یہ کہ کر روتے ہوئے نکلے کہ اے لوگوں آج کے بعد تم غلام ہوگئے کیونکہ تم نے فاطمہ زہرا کے لخت جگر کو قتل کرکے ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور شریروں کو نوازتا ہے اس کے بعد ابن زیاد نے اسیران کربلا اور شہداء کے سر یزید کے دربار بھیج دیئے جہان پر اہلبیت اطہار پر اور ظلم توڑے جانے تھے  اہلبیت کے خواتین جن کا آنچل کبی آسمان نے بھی نہ دیکھا تھا برہنہ سر دمشق اور شام کے بازاروں میں انہیں پھرایا گیا فتح کے جشن کے تیاریاں عروج پر تھیں جب یہ حسینی قافلہ شام کے بازار پہنچا گھرون کی چھتوں پر چڑھ کر لو گ تماشہ دیکھنے لگے اور قافلے والوں کو مختلف چیزین پھینک پھینک کر مارنے لگے بازار کے ہر چوراہے اور چوک پر ہجوم لگا تھا شراب کے نشے میں بدمست اوباش اور بدمعاش بازار میں موجود تھے جو ڈھول پیٹ رہے تھے اور رقص کررہے تھے شہر میں نقارے بجائے گئے اور عوام کو یہ کہا گیا کہ چند باغی لوگ تھے جنہوں نے بغاوت کی تواس کے بعد  حکومت نے سر کچل دیئے یہ لشکر جب یزید کے دربار میں پہنچا تو انہیں محل کے باہر تین روز تک ٹہرایا گیا کیونکہ فتح کا جشن منانے کے خاطر محل کی تزئیں وآرائش کی جارہی تھی تین دن انتظار کرانے کے بعد جب یہ لشکر یزید کے دربار میں پہنچا تو شہداء کے سر بھی پیش ہوئے یزید نے امام حسین کے سر اقدس کو نیزے سے اتروایا اور لب ہائے مبارک پر چھڑی مار کر کہنے لگا آخر میں کامیاب ہوا اسی لمحے دربار میں زینب عالیہ کی آواز گونجی او بدبخت میرے نانا کی آزاد کردہ کی اولاد بس یہ سننا تھا کہ دربار میں سناٹا چھا گیا کون نانا ؟ کس کو آزاد کیا ؟ یہ لڑکی کون ہے ؟اب حضرت زینب نے ایک ایک کر کے ساری بات اہل دربار کو بتائی یزید کی بیوی ہندہ بنت عبداللہ نے جب یہ خبر سنی کہ یزید نے امام حسین کو شہید کردیا ہے تو وہ دربار میں جا پہنچی اور یزید کو لعن طعن کرنے لگی یزید نے پینترا بدلا اور کہنے لگا خدا غارت کرے ابن زیاد کو کہ اس نے جلدی جلدی میں امام حسین کو قتل کردیا میرا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا کہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کروں یہ سب ابن سعد ابن زیاد اور شمر کا کیا دھرا ہے (ان للہ واناالیہ الراجعون)

خوشبوئے خلد دب گئی خاک شفاء کے بعد

جنت کا نام آنے لگاکربلا کے بعد

بعد از حسیں اور نہ کوئی حسین ہے

نہ اور کوئی کربلا اس کربلا کے بعد

ہوتا اگر حسین بھی دنیا میں دوسرا

پھر اور ہوتی کربلا اس کربلا کے بعد

ازخود غلط ہےحضرت جوہر کا یہ کہا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تسلیم روح جوہر مرحوم یہ کرے

اسلام زندہ ہو چکا بس کر بلا کے بعد

یہ بھی پڑہیں: دس محرم الحرام یوم عاشور اور پیغام کربلا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top