Tuesday, November 19, 2024
HomeArticlesکربلا کے بعد اور دربار یزید

کربلا کے بعد اور دربار یزید

61 ہجری دس محرم یوم عاشور کو  شام کا اندھیرا چھا جانے کے بعد کربلا کے مقام پر نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو کربلا کے میدان میں بھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا اور اس کے بعد ان کی لاش کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالا گیا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے بہتر اصحاب کے ساتھ کوفے کی جانب سفر کے لئے تیار ہو گئے کیونکہ کوفیوں نے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھ لکھ کہا تھا کی یز ید نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور دین اسلام کو بگاڑ رہا ہے ان خطوط کے ملنےکے بعد  اور بار بار آنے والے وفود نے بھیامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی نصرت کا یقین دلایا تو اسکے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے یہ فیصلہ کیا کہ یزید کو اگر اس فعل بد کے بعد چھوڑ دیا گیا تو وہ دین اسلام کی بنیاد کو کھوکھلا کر ڈالے گااس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اعلان کردیا کہ ہم یزید کی جانب جارہے ہیں  تاکہ اسے نصیحت کی جائے حالانکہ اس وقت کے کئی جلیل القدر اصحاب نےامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہسے کہا بھی کہ کوفے والوں کا کوئی بھروسہ نہیں وہ  پہلے امام علی اور اس کے بعد امام حسن سے بھی کئی مرتبہ عہد شکنی کرچکے ہیںان لوگوں سے کچھ بعید نہیں کہ وہ آپ کے ساتھ بھی کوئی سازش کر جائیں لیکن چونکہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہاپنے نانا کے دین کے اکیلے وارث تھے اور  نا نا کے بعد دین کو بچانا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی ذمہ داری تھی اس لئے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی  بھی بات کی پرواہ کئے بنا  کربلا جانے کی تیاری شروع کردی

بہتر مرد وزن کا قافلہ ترتیب دے ڈالا

یعنی نظام کرب وبلا ترتیب دے ڈالا

راستے کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد بلاآخرامام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہاپنی شہادت گاہ کربلا کے مقام پر جاپہنچےجہان امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے تاریخ اسلام کی وہ قربانی پیش کرنی تھی کہ جس کو قرآن کریم نے وفدینہ بذبح عظیم قرار دیا تھا جس کے متعلق اقبال کہتے ہین کہ

غریب وسادہ ورنگیں ہے داستان حرم

ابتداء ہے اس کی اسمعیل انتہا ہے حسین

کربلا پہنچنے کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے لشکر نے وہیں پر پڑاؤ ڈالا یزیدی فوج سامنے موجود ہے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس سامان حرب اور ساتھیوں  کی قلت ہے لیکن اس کے بعد بھی امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہکو اپنے خالق ومالک پر پورا بھروسہ ہے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جانتے تھے کہ آج اگر مقتل نہ سجایا گیا تو اس کے بعد رہتی دنیا تک کسی نے بھی اسلام خاطر قربانی نہیں دینی

جس شان سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

اس جان کا رونا کیا ہے آخر جان تو اک دن جانی ہے

عمرو بن سعد کے حکم پر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر پر پانی بند کردیا گیا جس کے بعد خیام حسینی سے العطش العطش کی آوازیں بلند ہونے لگیں

حاکم کا حکم یہ ہے کہ پانی بشر پیئیں

گھوڑے پیئں سوار پیئں اور شتر پیئں

جو تشنہ لب جان ہیں سب آن کر پیئں

حیواں پیئں چرند پیئں جانور پیئں

کافر طلب کئیں تو توں منع نہ کیجئو

بس فاطمہ کے لال کو پانی نہ دیجئو

امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ جنگ کی نیت سے گھر سے نہ نکلے تھےبلکہ سوچی سمجھی سازش کے تحت  جنگ ان پر مسلط کردی گئی نومحرم کی رات چھا جانے کے بعد کربلا کے مقام پر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیون کو عشاء کی نماز پڑھائی اور

اپنے بڑے بیٹےعلی اکبر سے کہا کہ بیٹا علی اکبر چراغ گل کردوحضرت علی اکبر نے چراغ گل کردیا تو اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں کربلا جنگ کرنے کی نیت سے نہ آیا تھا تم لوگوں  کا بڑا شکریہ کہ مجھ غریب کا اتنا ساتھ دیا یہ لشکر صرف اور صرف میرے خوں کا پیاسا ہے.

میں تم سب سے راضی ہوں اللہ بھی تم سے راضی ہو تم رات کی تاریکی  مزید چھا جانے کے بعد تم نکل جاؤ  اور اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ تمہیں طعنے ملیں گے تو تم عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر چلے جاؤ وہان پہنچ کر لوگوں سے کہہ دینا کہ ان کی وجہ سے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں واپس بھیج دیا اس کے بعد صبح جو جو ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔

اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت علی اکبر کو حکم دیا کہ چراغ روشن کریں  چراغ روشن کیا گیا تو تمام ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ کہنے لگے کہ اے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ہم اس لئے تو آپ کے ساتھ نہیں آئے تھے کہ پریشانیا ں اور مصیبت دیکھنے کے بعداپ کو تنہا چھوڑ جائیں ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑہیں گے جب تک کہ دشمن ہمیں قتل کرنے کے بعد  ہمیں قینچیوں سے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر ڈالے ۔امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ساتھیوں کی اس جانثاری اور وفاداری پر سجدہ شکر بجا لائے دس محرم یوم عاشور کی صبح کا سورج طلوع ہونے کے بعد کربلا کے میدان میں امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ دس محرم یوم عاشور کا سورج طلوع ہونے کے بعد حر نے یزیدی لشکر کو چھوڑ کر امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر میں شمولیت اختیار کرلی امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے دشمن فوج کے سامنے دس محرم یوم عاشور کربلا کے میدان  میں طلوع آفتاب کے بعد خطبہ دیا پہلے اہل بیت کے مناقب بیان کیے پھر کے بعد اپنے بارے میں بنی ؑ کی احادیث بیان کی فرمایا کہ ہم شباب اہل جنت ہیں حضورﷺ کے نواسے اور بتول و علی کے فرزند ہیں تمہارے لیے کسی طرح بھی جائز نہیں کہ میرے خون سے اپنے ہاتھ رنگ دو۔ کیا میں نے کسی شخص کو قتل کیا ہے جس کے قصاص میں تم  لوگ مجھےکیوں  قتل کر رہے ہو ؟کیا میں نے کسی کا مال لوٹا یا کسی کو زخم لگایا ؟

اس کے بعد امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہنے ایک ایک کوفی  فوج کے لشکریوں کو نام لیکر پکارا اور کہا اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے فلاں بن فلاں اے بلاں بن فلاں کیا تم لوگون نے مجھے خط لکھ کریہاں  نہیں بلایا تھا  کیا مجھے یہاں آنے کا نہیں بولا تھا یہ تمام  لوگ یزیدی فوج میں موجود تھے لیکن وہ لوگ مکر گئے

جو کربلا میں شاہ شہیداں سے پھر گئے

کعبے سے منحرف ہوئے قرآن سے پھر گئے

امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اس کے بعد وہ تمام خطوط کے تھیلے عمر بن سعد اور شمر کو دکھائے جو ان  کوفے والون نے لکھے تھے جو کہ اب بھی کربلا کے میدان  میں موجود تھے لیکن کیا کہیں کہ بدبختی ولعنت فوج یزید کا مقدر ہوچکی تھی آآنکھوں پر اقتدار کی پٹی بندھی ہو تع سامنے کھڑا امام حسین بھی بندے کی سمجھ میں نہیں آتا سمجھانے کے باوجود بھی اقتدار اور زر کی ہوس نے انہیں اندھا کردیا تھا کوفیوں نے ایک نہ سنی فوج کے عہدے داروں کو یہ معلوم تھا کہ اگر یزید کو خبر ہوگئی کہ ہم نے امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا ہے تو وہ ہمیں قتل کردے گا یہی وجہ تھی کہ حسین  رضی اللہ عنہ کو یزید تک نہ پہنچنے دیا گیا۔

سب سے پہلے عمر بن سعد نے حسینی لشکر کی جانب تیر چلایا اور کہنے لگا گواہ رہنا پہلا تیر چلانے والا اب باقاعدہ جنگ کا آغاز ہوا امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہکے سپاہی ایک کے بعد ایک کر کے اپنی بہادری اور شجات کے جوہر دکھاتے ہوئے  کربلا کے میدان  میں جام شہادت نوش کرگئے اہل بیت اطہار میں حضرت عباس کے بازو قلم کردیے گئے حضرت قاسم امام علی اکبرکربلا کے میدان  میں لڑتے لڑتے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے عون و محمد شہید ہوئے پھر چھ ماہ کے امام علی اصغر کو حسین کے ہاتھوں پر حلق میں تیر مار کر شہید کردیا گیا 10 محرم کی شام پھیلنے  کے بعدمیدان کربلا  میں آخری باری امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہبن علی کی آئی حسین میدان جنگ میں پہنچے ہیں علی کا شیر حیدری جب حضور ؑ کا امامہ اور پٹکا باندھے علی کی زوالفقار لیکر میدان کربلامیں پہنچے اور ایک ایک کو بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹنے لگا اور کہنے لگا آؤ تین دن کے بھوکے اور پیساے کی جنگ دیکھو علی کے بیٹے کی جنگ دیکھو

میدان دشت کربلا الٹنے فوج اشقیاء

بڑھا جو شاہ کربلا اٹھا کے تیغ لافتح

لگی جو سر اتارنے کہا یہ ذوالفقار نے

غضب کا سورما حسین ہے

دشمن کی فوج میدان چھوڑ کر گھر بھاگنے لگی جب شمر نے یہ منظر دیکھا تو کہا کہ تم سب مل کرحسین پر حملہ کردو  اکیلے اکیلے اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے  چشم زدن میں سینکڑوںنیزے بھالے اور تلواریں میدان کربلا میں حسین کی جانب بڑھنے لگیں

دم لینے دو نہ فاطمہ زہرا کے چین کو

سینے پر نیزے رکھ کر گرادو حسین کو

میدان کربلا میں امت رسول ﷺ نے رسوؒلﷺ کے بعدان کے نواسے امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کوبھوکا اور پیاسا شہید کردیا

کو شہید کردیا گیا شمر نے سر اقدس کو جسم ببارک سے معصوم سکینہ کی نظروں کے سامنے جدا کیا اس کے بعد کربلا میں ایک کہرام چ گیا قتل کے بعد حسین کے سر کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور لاش کو گھوڑوں سے روندا گیاکربلا میں ایک قیامت بپا ہو گئی خیام حسینی کو آگ لگاد ی گئی حسین کا سر جب عمرو بن سعد نے ابن زیاد کے دربار بھیجا تو اس لعین نے دربار میں سراقدس حسین کے ہونٹوں پر چھڑی ماری اور اس کے بعد ہنسنے لگا صحابی رسولﷺ زید بن ارقم صحابی رسول جو اس موقع پر دربار میں موجود تھے انہوں نے کہا او بدبخت چھڑی ہٹالے میں نے نبی ؑ کو دیکھا کہ وہ ان ہونٹوں کو چوما کرتے تھے یہ  سن کر عبداللہ بن زیاد کو بڑا طیش آیا اور کہنے لگا کہ اے بڈھے  اگر تیری عقل نہ سٹھیا گئی ہوتی تو میں تجھے قتل کردیتا حضرت زید بن ارقم دربار سے یہ کہ کر روتے ہوئے نکلے کہ اے لوگوں آج کے بعد تم غلام ہوگئے کیونکہ تم نے فاطمہ زہرا کے لخت جگر کو قتل کرکے ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور شریروں کو نوازتا ہے اس کے بعد ابن زیاد نے اسیران کربلا اور شہداء کے سر یزید کے دربار بھیج دیئے جہان پر اہلبیت اطہار پر اور ظلم توڑے جانے تھے  اہلبیت کے خواتین جن کا آنچل کبی آسمان نے بھی نہ دیکھا تھا برہنہ سر دمشق اور شام کے بازاروں میں انہیں پھرایا گیا فتح کے جشن کے تیاریاں عروج پر تھیں جب یہ حسینی قافلہ شام کے بازار پہنچا گھرون کی چھتوں پر چڑھ کر لو گ تماشہ دیکھنے لگے اور قافلے والوں کو مختلف چیزین پھینک پھینک کر مارنے لگے بازار کے ہر چوراہے اور چوک پر ہجوم لگا تھا شراب کے نشے میں بدمست اوباش اور بدمعاش بازار میں موجود تھے جو ڈھول پیٹ رہے تھے اور رقص کررہے تھے شہر میں نقارے بجائے گئے اور عوام کو یہ کہا گیا کہ چند باغی لوگ تھے جنہوں نے بغاوت کی تواس کے بعد  حکومت نے سر کچل دیئے یہ لشکر جب یزید کے دربار میں پہنچا تو انہیں محل کے باہر تین روز تک ٹہرایا گیا کیونکہ فتح کا جشن منانے کے خاطر محل کی تزئیں وآرائش کی جارہی تھی تین دن انتظار کرانے کے بعد جب یہ لشکر یزید کے دربار میں پہنچا تو شہداء کے سر بھی پیش ہوئے یزید نے امام حسین کے سر اقدس کو نیزے سے اتروایا اور لب ہائے مبارک پر چھڑی مار کر کہنے لگا آخر میں کامیاب ہوا اسی لمحے دربار میں زینب عالیہ کی آواز گونجی او بدبخت میرے نانا کی آزاد کردہ کی اولاد بس یہ سننا تھا کہ دربار میں سناٹا چھا گیا کون نانا ؟ کس کو آزاد کیا ؟ یہ لڑکی کون ہے ؟اب حضرت زینب نے ایک ایک کر کے ساری بات اہل دربار کو بتائی یزید کی بیوی ہندہ بنت عبداللہ نے جب یہ خبر سنی کہ یزید نے امام حسین کو شہید کردیا ہے تو وہ دربار میں جا پہنچی اور یزید کو لعن طعن کرنے لگی یزید نے پینترا بدلا اور کہنے لگا خدا غارت کرے ابن زیاد کو کہ اس نے جلدی جلدی میں امام حسین کو قتل کردیا میرا ہر گز یہ مقصد نہیں تھا کہ امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کروں یہ سب ابن سعد ابن زیاد اور شمر کا کیا دھرا ہے (ان للہ واناالیہ الراجعون)

خوشبوئے خلد دب گئی خاک شفاء کے بعد

جنت کا نام آنے لگاکربلا کے بعد

بعد از حسیں اور نہ کوئی حسین ہے

نہ اور کوئی کربلا اس کربلا کے بعد

ہوتا اگر حسین بھی دنیا میں دوسرا

پھر اور ہوتی کربلا اس کربلا کے بعد

ازخود غلط ہےحضرت جوہر کا یہ کہا

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

تسلیم روح جوہر مرحوم یہ کرے

اسلام زندہ ہو چکا بس کر بلا کے بعد

یہ بھی پڑہیں: دس محرم الحرام یوم عاشور اور پیغام کربلا

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی