پٹرول بم اور مہنگائی کا نیا طوفان
(تحریر: لطیف الرحمن لطف)
عوام کا سب سے بڑا مسئلہ یقیناً مہنگائی ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جو کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کا آسان پیمانہ ہوتا ہے عوام سروے رپورٹس ،معاشی اشاریوں اور الفاظ کے گورکھ دھندوں پر نہیں جاتے وہ اپنے کچن کی صورت حال کو دیکھتے ہیں اگر ان کے کچن کے حالات بہتر ہوں تو آنکھ بند کرکے کہتے ہیں ہماری حکومت سہی کام کر رہی ہے ،ملکی معیشت مضبوط ہے. عوام کے کچن کے حالات کی یہ بہتری چاہے حکومتی سبسڈیز کی مرہون منت ہو یا حکم رانوں کی مثبت معاشی پالیسیوں اور اچھی طرز حکم رانی کا نتیجہ ہو ۔
عوام لمبے چوڑے فلسفوں پر یقین رکھتے ہیں نہ ہی معیشت کی تکنیکی پیچیدگیوں پر کان دھرتے ہیں اور دھریں بھی کیوں؟ خود سیاست دانوں نے اپنے رویوں سے ان کا ذہن ایسا بنایا ہے کہ وہ پیچیدہ معاشی معاملات اور حساس سیاسی ایشوز کو گہرائی اور گیرائی سے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے سیاست دانوں کا یہ غیر ذمے دارانہ رویہ اور اپنے کارکنوں کی غلط ذہن سازی شاید مہنگائی سے بھی بڑا مسئلہ ہے
آپ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا معاملہ ہی دیکھ لیں جب بھی کوئی حکومت قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو حزب اختلاف اس پر احتجاج کرتی ہے حکومت کو عوام دشمن قرار دے ڈالتی ہے اس اقدام کو ظلم اور غریب کشی سے تعبیر کرتی ہے جب باری پلٹتی ہے اور یہی حزب مخالف اقتدار میں اتی ہے تو وہ بھی وہی سب کچھ کرنے لگتی ہے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں وہ بھی بڑھا دیتی ہے اب سابقہ حکم ران عوام کے خیر خواہ بن کر میدان میں آتے ہیں حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور اس کی “عوام دشمنی” کو طشت از بام کرنا قومی فریضہ گردانتے ہیں
دور جانے کی ضرورت نہیں گزشتہ چار سالوں کے سیاسی حالات ہی کا تجزیہ کیجیے 2018 کو عمران خان صاحب کی جماعت اقتدار میں آئی اور لگ بھگ پونے چار سال حکومت میں رہی خان صاحب پہلے آیف ایم ایف کے سخت ناقد تھے بلکہ اس حوالے سے ان کا قول بہت مقبول ہوا” آئی ایم ایف جانے کے مقابلے میں خودکشی کو ترجیح دوں گا” لیکن مشکل معاشی حالات کی وجہ سے خان صاحب نے آئی ایم ایف جانے کو خود کشی پر ترجیح دی اچھا ہوا ایک قیمتی جان بچ گئی
آئی ایم ایف کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت اچھا معاہدہ کرنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں پاکستان کو قرضہ تو مل گیا لیکن ملک میں مہنگائی کا ریکارڈ ساز طوفان آیا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مہنگائی کی شرح میں 13 فیصد اضافہ ہوا جو نواز دور حکومت میں 5 فیصد تھی عمران خان کے دور حکومت میں تیل اور گھی کے نرخ 150 سے 450 تک پہنچ گئے ان ہونے چار سالوں میں ڈالر کی قیمت 100 روپے سے بڑھ کر 185 تک جا پہنچی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 60فیصد تک بڑھیں پٹرول 90 روپے فی لیٹر سے 160 روپے فی لیٹر اور ڈیزل 98 روپے فی لیٹر سے 154 روپے فی لیٹر تک پہنچا ظاہر ہے یہ سب کچھ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدوں کے تحت سبسڈی کی شرح کم کرنے کے سبب ہو رہا تھا ہی ٹی آئی کی حکومت وقتاً فوقتاً پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کرتی رہی جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا رہا
پی ٹی آئی کے دور میں جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پانچ،دس روپے کا اضافہ ہو جاتا تو نون لیگ کی پوری قیادت خان صاحب کی حکومت کے خلاف مورچہ زن ہوجاتی ، مریم نواز صاحبہ کا ٹویٹر اکاؤنٹ حرکت میں اجاتا اور بنی گالا پر بے دریغ ٹوئٹس برساتا ،بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے تمام رہنما تحریک انصاف حکومت کو آئنہ دکھاتے اس کے عوام دشمن فیصلوں پر ماتم کرتے،
جے یو آئی عمران خان کی ملک اور عوام دشمنی پر بے چین ہو جاتی اور مولانا فضل الرحمان صاحب پی ٹی آئی حکومت پر کسی شیر کی طرح دھاڑتے اب منظر نامہ اس کے برعکس ہے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اقتدار میں ہیں اور تحریک انصاف سڑکوں پر ہے اتحادی حکومت ایک ہفتے کے اندر دو دفعہ عوام پر پٹرول بم گرا چکی ہے جس کے نتیجے میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دو سو کے ہندسے کو عبور کر چکی ہیں اور ملک میں مہنگائی کے ایک نئے اور تباہ کن طوفان کے خطرات منڈلا رہے ہیں
ایسے میں عمران خان اور ان کی جماعت کے قائدین کے دلوں میں عوام کی ہمدردی کا جذبہ شدت سر اٹھا چکا ہے خان صاحب کا ٹویٹر اکاؤنٹ حکومتی ایوانوں پر مسلسل گولہ باری کر رہا ہے پی ٹی آئی کے رہنما بڑے اخلاص کے ساتھ حکومت پر یلغار کئے ہوئے ہیں شہباز حکومت کو عوام دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہونے دیتے
آخر ہمارے سیاست دان اور ارباب اقتدار کب تک حساس معاشی اور سیاسی معاملات پر سیاست کرتے رہیں گے اور عوام کو اندھیرے میں رکھ کر ایک دوسرے کے خلاف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی پالیسی اپنائیں گے؟اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تیل کی عالمی مارکیٹ کے حساب سے اور آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کے تحت بڑھتی رہتی ہیں چاہے حکومت کسی کی بھی ہو تو اس معاملے میں حزب مخالف کی جماعتیں سیاست بازی سے احتراز نہیں کر سکتیں؟کیا عوام کو سیاسی شعور دینا سب کے مفاد میں ہے یا انہیں اندھیرے میں رکھنا؟
کیا آج کی حکومت میں شامل جماعتوں کے قائدین گزشتہ پونے چار سالوں کے دوران دئے گئے اپنے سیاسی بیانات کا جائزہ لیں گے اور اپنی غلطیوں کا احساس کریں گے؟ کیا ملک کی تمام سیاسی جماعتیں عوام کو پر فریب سیاسی نعروں سے بے وقوف بنانے کی بجائے انہیں زمینی حقائق سے روشناس کرانے کی سنجیدہ پالیسی اپنائیں گے؟ آخر ہمارے سیاست دان اور ارباب اقتدار عوام سے ایسے وعدے کرتے ہی کیوں ہیں جو وہ پورے نہیں کر سکتے عوام کو توقعات کے ہمالیہ پر چڑھاتے ہی کیوں ہیں جب انہیں یقینی طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ اتنی بلندی سے گرنے والے کو تکلیف ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا بدن کرچی کرچی ہوجاتا ہے۔