Saturday, November 9, 2024
HomeInstitutionsپرائیوٹ سکول کیسے کھولیں ؟ مکمل گائیڈنس

پرائیوٹ سکول کیسے کھولیں ؟ مکمل گائیڈنس

پرائیوٹ سکول کیسے کھولیں

پاکستان میں پرائیویٹ ایجوکیشن سیکٹر ملک کے ان چند کاروباری اداروں میں ایک ہے جہاں سرمایہ کاری میں کامیابی کی شرح 60 فیصد سے زائد ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ چوبیس کروڑ کی آبادی کےلئے ملک بھر میں لاکھوں سرکاری تعلیمی ادارے قائم کر سکے۔اعداد و شمار کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی ادارے مجموعی طور پر 37.9 فیصد ہیں جہاں 42 فیصد سے زائد طالب علم زیر تعلیم ہیں ۔ اس کے باوجود 19 فیصد بچے سکولوں سے مکمل باہر ہیں۔پاکستان میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو سرکاری تعلیمی اداروں سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے حالانکہ سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم ، مفت کتابیں اور بہت سارے دیگر وسائل فراہم کئے جاتے ہیں جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ٹیوشن فیس ، کتابیں ، کاپیاں یہاں تک کہ ٹائی تک کی بھی دوگنا فیس وصول کرتے ہیں۔مگر صرف بہتر تعلیمی معیار کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ایک مڈل کلاس شخص کی آمدنی میں سے براہ راست 30 سے 40 فیصد رقم اس کے بچوں کی تعلیم پر خرچ ہو رہی ہے ۔آخر ایک نیا تعلیمی ادارہ کیسے قائم کیا جائے؟ کون سے قانونی و کاغذی مراحل ہیں؟ سٹاف کیسے ہائر کیا جائے اور اشتہاری مہم کیسے چلائی جائے ۔آج کے اس مضمون میں ہم آپ کو ایک نیا پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی مکمل معلومات فراہم کریں گے۔آج کے اس مضمون میں ہم آپ کی مکمل رہنمائی کریں گے کہ اگر آپ کے پاس سرمایہ ہے تو آپ ایک نیا تعلیمی ادارہ کیسے قائم کر سکتے ہیں۔ تمام مراحل درج ذیل ہیں۔

پرائیوٹ سکول

:نئے تعلیمی ادارے کےلئے لوکیشن کا انتخاب

آپ کے سکول کی لوکیشن کا پرائم ہونا انتہائی اہم ہے۔ آپ کا سکول شہر کے وسط میں یا رہائشی آبادیوں کے قریب ہونا چاہیے ۔ لوکیشن کا انتخاب کرتے وقت یہ بات مد نظر رکھیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کتنا قریب ہے۔ علاقے کی امن و امان کی صورتحال کا جائزہ بھی لے لیں اور دیگر سہولیات جیسے پانی ، بجلی وغیرہ بھی دیکھ لیں۔ پرائیویٹ سکول کی کامیابی کا 50 فیصد انحصار اس کی لوکیشن پر ہے۔
:نئے سکول کےلئے درکار جگہ
ایک پرائمری سکول کم از کم دس مرلہ رقبہ پر مشتمل ہونا چاہیے۔ پانچ مرلہ پر عمارت اور پانچ مرلہ کا گراؤنڈ ہونا چاہیے ۔ کوئی بھی سکول جس کے پاس گروانڈ نہیں ہے اس کی رجسٹریشن پر ریگولیٹری اتھارٹی اعتراض کرتی ہیں۔ ہائی سکول و انٹر کالج کےلئے درکار رقبہ 3 سے 4 کنال ہے ۔ کم از کم ایک کنال کا گروانڈ لازمی ہونا چاہیے۔

پرائیوٹ سکول کیسے کھولیں

:نئے سکول کے قیام کےلئے درکار بجٹ

سکول کی لوکیشن جتنا پرائم ہو گی بجٹ بھی اسی حساب سے ذیادہ ہو گا۔ اگر آپ کے پاس بلڈنگ خریدنے کا بجٹ نہیں ہے تو آپ مالکان سے لیز معاہدہ کر لیں۔کوشش کریں معاہدہ کرایہ داری نظام کے بجائے لیز پر کریں۔ لیز کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ کرایہ داری نظام میں آپ کو مالکان کسی بھی وقت ایک یا دو ماہ کے نوٹس پر عمارت خالی کرنے کا کہہ سکتے ہیں جبکہ لیز کی منسوخی عدالتی کارروائی اور مکمل شرائط و ضوابط پوری کئے بغیر مشکل ہوتی ہے۔کم از کم دس سال کی لیز کریں جس کےلئے آپ کو سیکورٹی ڈیپازٹ جمع کروانا پڑتا ہے جو کمرشل علاقوں میں فی مربع اور رہائشی علاقوں میں فی مرلہ بھی ہو سکتا ہے۔ایک کنال کی پراپرٹی کی دس سال کی لیز کےلئے سیکورٹی ڈیپازٹ 15 سے 20 لاکھ تک ہو سکتا ہے ۔ یہ قابل واپسی رقم ہے ۔ اس کے علاؤہ ماہانہ کرایہ الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے جو ایک کنال کے رقبے کا پچاس ہزار سے اسی ہزار تک بن جاتا ہے سکتا ہے ۔ کمرشل علاقوں میں یہ کرایہ لاکھوں میں بھی ہو سکتا ہے۔اگر آپ ہائی سکول کےلئے عمارت لیں گے تو اس کا ماہانہ کرایہ ڈیڑھ سے دو لاکھ تک بن سکتا ہے۔

پرائیوٹ سکول

:نئے سکول کے قیام کےلئے رجسٹریشن کا پراسیس

یہ خاصا وقت طلب پراسیس ہے۔ سب سے بہترین طریقہ یہ ہے آپ ایک ایک فنانشل کنسلٹنٹ اور ایک وکیل کی خدمات حاصل کریں جو پیچیدہ پروسیس آپ کےلئے آسان بنا دیں گے۔
اگر آپ خود یہ سارا پراسیس کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل اداروں سے آپ کو منظوری لینی پڑے گی۔
نمبر 1: سب سے پہلے آپ کو لوکل میونسپل کونسل سے بلڈنگ فٹنس سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑے گا۔
نمبر 2: اپنے سکول کو ( ایف بی آر  ) اور سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ کروانا ہے۔ آپ کے سکول کو ایک کمپنی کی حثیت حاصل ہو جائے گی اور کوئی بھی ادارہ آپ کے سکول کا نام استعمال نہیں کر سکتا ہے۔
نمبر 3: کریکولم کی منظوری
آپ کو یہ طے کرنا ہو گا کہ آپ کے سکول کا نصاب کس نصاب پر مبنی ہو گا۔ جیسے پاکستان میں آفاق پبلی کیشن ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، امریکن کریکولم اور نیشنل کریکولم پڑھائے جاتے ہیں ۔ آپ نے جو بھی نصاب منتخب کرنا ہے ان سے لائسنس حاصل کرنا پڑے گا۔
ہر کریکولم بورڈ کی اپنی شرائط و ضوابط ہیں ، عموماً پرائیویٹ کریکولم ادارے فیس وصول کرتے ہیں اور آپ کو اپنے کریکولم سے منسلک کر دیتے ہیں۔

پرائیوٹ سکول

:امتحانی بورڈ سے رجسٹریشن

اگر آپ ہائی سکول قائم کر رہے ہیں تو آپ کو میٹرک امتحانات کےلئے امتحانی بورڈ آفس سے بھی رجسٹریشن درکار ہے ۔ ہر بورڈ آفس کی اپنی رجسٹریشن فیس ہے ۔ بورڈ آفس کی ٹیم بھی آپ کے سکول کا معائنہ کرتی ہے اگر آپ کا اپنا ہال امتحانات کےلئے کافی ہے تو وہ اپرول دے دیتے ہیں نہیں تو آپ کے بچوں کو کسی اور پرائیویٹ یا سرکاری تعلیمی ادارے میں امتحانات دینے ہوں گے۔

:ماہر اساتذہ کی بھرتی

اپ کا سکول تب ہی کامیاب ہو گا جب آپ کے پاس ایک اعلی قابلیت پر مشتمل سکول سٹاف ہو گا۔ اگر آپ کا اپنا تجربہ ایجوکیشن میں ہے تو بہتر ہے نہیں تو سب سے پہلے ایک پرنسپل کی تقرری کریں جو کم از کم دس سال تک انتظامی امور پر تجربہ رکھتا ہو۔ پرنسپل سبجیکٹ سپیشلسٹ اور دیگر سٹاف اپنے تجربے کی روشنی میں ہائر کر لے گا۔ایک سکول ٹیچر کی ایوریج سیلری چالیس سے پچاس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ پرنسپل کی سیلری اسی ہزار سے ایک لاکھ تک کے ہوتی ہے۔

:مارکیٹنگ اور پروموشن

اکثر تعلیمی ادارے لاکھوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود بھی سٹوڈنٹس نہ ہونے کی وجہ سے خسارے میں چل رہے ہوتے ہیں کیوں کہ ان سکولوں کی مناسب انداز سے مارکیٹنگ نہیں کی گئی تھی۔اگر ممکن ہو سکے ایک مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہائر کریں جو ایڈوائزمنٹ کا تجربہ رکھتا ہو۔ بل بورڈ و اخباروں میں اپنے سکول کو زینت بنائیں۔ لوکل کیبل چینلز پر بھی اشتہارات نشر کریں۔
پہلے کچھ سو داخلے بالکل فری کر دیں، اچھے نمبرز لینے والے بچوں کو سکالرشپ آفرز کریں ، ذہین بچے آئیں گے تو سکول کا اچھا رزلٹ آئے گا جس سے مارکیٹنگ بھی بہتر ہو گی۔ ڈیجٹل مارکیٹنگ سے بھی مستفید ہوں۔

پرائیوٹ سکول

:سکول کی کامیابی

سکول کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ آپ اچھے اساتذہ ہائر کریں ، اعلی معیار کا نصاب منتخب کریں ، اپنے تعلیمی ادارے میں ڈسپلن قائم کریں ۔ بچوں کو بہترین تعلیمی ماحول فراہم کریں ، فیسسز کم سے کم رکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کا تعلیمی ادارہ چند ہی برسوں میں شہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں شامل ہو گا۔

پرائیوٹ سکول

یہ بھی پڑہیں
پاکستان کے دس بہترین اسکول

RELATED ARTICLES

2 COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی