ذہن ،شعور اور لا شعور
سید عرفان احمد
دماغ اور ذہن کا فرق آپ کو بتایا جا چکا اب کچھ باتیں اس کتاب کے موضوع کی مناسبت سے ذہن کے بارے میں کر لیتے ہیں ہیں۔
ذہن کے بنیادی طور پر دو حصے ہوتے ہیں۔ شعور اور لاشعور(Unconscious )۔ یا تحت الشعور ( Subconscious )۔
آپ کو بعض کتابوں میں ” تحت الشعور” کی اصطلاح ملے گی توبعض مصنفین لا شعورکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر لا شعور کی اصطلاح کو اس کے کام اور مفہوم کے زیادہ قریب سمجھتا ہوں یعنی جو شعور میں ہے وہ شعور ہے اور جو کچھ شعور میں نہیں ہے وہ” لاشعور” ہے۔ اس لئے اس کتاب میں لاشعور کی اصطلاح ہی استعمال کی جائے گی۔
ذہن میں شعور اور لاشعور کے کام کو سمجھنے کے لئے باغ کی مثال لیجیے! اگر آپ ایک مالی ہیں تو سارا دن اپنے لاشعور کے باغ میں خیالات کے بیج بوتے ہیں ،یہ خیالات آپ کی سوچ کے ڈھپ کے مطابق ہوتے ہیں ۔یعنی جیسا سوچنے کی عادت آپ کو پڑی ہوئی ہے۔ چنانچہ آپ اپنے لاشعور میں جیسے خیالات کے بیج بوئیں گے اپنے جسم اور ماحول سے ویسی فصل کاٹیں گے۔
جب آپ درست سوچتے ہیں ،جب آپ سچ سمجھتے ہیں، جب آپ کے لاشعور میں جمع ہونے والے خیالات تعمیری اور پرسکون ہوتے ہیں تو آپ کے لاشعور کی کرشماتی قوت آپ کو پر سکون اور فرحان ماحول دیتی ہے۔جب آپ اپنے خیالات کے عمل کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوتے ہیں تو آپ لاشعور کی قوت کو کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے استعمال کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
شعور کے ذریعے لاشعور کو پیغام رسانی
اگر آپ کو یہ پتہ ہے کہ شعور اور لاشعور کیسے کام کرتے ہیں تو اللہ تعالی کے فضل سے آپ اپنی زندگی کی تقریبا ہر شے قابو کرنے اور تشکیل دینے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے حالات کو بدلنے کے لیے ان حالات پر کام کرتے ہیں۔ مشکل، پریشانی اور مسئلہ ختم کرنے کے لئے آپ کو اس کا اصل سبب دور کرنا ہوگا ہوگا اور سبب شعور کے استعمال کے انداز میں پوشیدہ ہے۔ بہ لفاظ دیگر آپ کس انداز سے اپنے ذہن میں اس مسئلہ کے بارے میں سوچتے اور اس کی تصویر بناتے ہیں۔ ایسے میں یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے شعور کے ذریعے اپنے لاشعور کو کیا پیغام دیتے ہیں۔
شعور کا انسانی ذہن میں وہی کردار ہے جو بحری جہاز میں کپتان کا ہے
کیا آپ نے کبھی بحری جہاز کا سفر کیا ہے؟ فلموں میں تو ضرور دیکھا ہوگا ۔ لاشعور انسانی ذہن میں ایک نیویکیٹر یا کیپٹن کے طور پر کام کرتا ہے ۔کپتان جہاز پر موجود عملے کو ہدایات اور اشارے دیتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ یہ عملہ جہاز کے نچلے حصوں میں موجود ہے اور اسے جہاز کے پشتے پر کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ انہیں نہیں معلوم کہ اس نچلے حصے سے اوپر جہاز کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ کس حالت میں ہے۔ چنانچہ وہ عملہ اپنے کپتان یعنی شعور پر پورا بھروسا کرتا ہے اور پھر اس کے حکم کے عین مطابق عمل کرتا ہے۔ کپتان چونکہ انچارج ہے اس لئے جو بھی حکم وہ دے گا جہاز کا زیریں عملہ اسے بہرحال مانے گا۔ جہاز کا عملہ کپتان سے کوئی بات نہیں کرتا ، کوئی بحث نہیں کرتا بس جو حکم دیا گیا ہے اسے من و عن مانتا رہتا ہے ۔
لاشعور ، شعور کے حکم پر بے چون وچرا عمل کا پابند ہے
کپتان اس جہاز کے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔اسی طرح آپ کا کا شعوری ذہن یا شعور آپ کے بحری جہاز کا کا کپتان اور مالک ہے۔اس جہاز میں آپ کا جسم، ماحول اور آپ کے تمام تر چھوٹے بڑے معاملات شامل ہیں۔ آپ کا لاشعوری ذہن جو کام اسے شعور دیتا ہے ،بے چون وچرا تسلیم کرتا اور ان پر عمل کرتا ہے ۔ وہ سوال کرتا ہے اور نہ کوئی رائے قائم کرتا ہے ۔ اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ حکم درست ہے یا غلط ہے ۔ حقیقت کے مطابق ہے یا نہیں ہے ۔ یہ تو بس حکم پر عمل کرنے کا پابند ہے، اس کے ذمے ہے کہ اسے شعور نے جو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرے ۔
آپ لاشعور کو جو پیغام دیں گے وہ آپ کو اسی کے مطابق ڈھالے گا
چنانچہ ہم مسلسل اپنے لاشعور سے جو کچھ کہتے ہیں وہ وہی کرتا ہے ۔مثلا اگر آپ اپنے تئیں کہتے رہتے ہیں کہ میں فلاں کام نہیں کر سکتا تو آپ کے لاشعور کو یہی پیغام ملے گا کہ آپ کے جسم اور ماحول کو اس کام کے قابل نہیں کرنا ۔یوں آپ کبھی وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہو پائیں گے ۔
لاشعور کی صورت میں آپ کے پاس ایک طاقت ور اوزار ہے اس سے فائدہ اٹھائیں یا نقصان!
آپ کا لاشعور ایک بہت ہی طاقت ور اوزار ہے۔اسے جو حکم دیا جاتا ہے اس پر خوب عمل کرتا ہے ۔اس لئے اب یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس اوزار کو درست طور پر استعمال کرنا سیکھیں ۔ یعنی ہم اس اوزار سے وہ کام لیں جو ہم اپنی زندگی میں چاہتے ہیں ۔چونکہ ہم لاشعور کا استعمال نہیں جانتے ،نہیں سیکھتے ،اس لئے ہم اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل نہیں رہتے ۔
آپ کے پاس اگر نئے ماڈل کی مرسیڈیز ہو مگر آپ اسے چلانا نہ جانتے ہوں تو کیا یہ قیمتی اوزار آپ کے کسی کام کا ہوگا ؟ لاشعور کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔جو لوگ اسے چلانا اور کام میں لانا جانتے ہیں وہی اس سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں ۔بہ صورت دیگر یہ نقصان بھی کرتا ہے ۔ فائدہ یا نقصان دونوں آپ کی مہارت اور عدم مہارت پر منحصر ہے ۔
اگر آپ کسی کام کے بارے میں کہتے رہیں کہ یہ نہیں کر سکتا تو کبھی نہیں کر پائیں گے
ایک اور مثال لے لیتے ہیں ۔ اگر آپ بار بار یہ کہتے رہتے ہیں کہ آپ کو انڈا پسند نہیں تو کسی جگہ آپ نے بے خیالی میں انڈا کھا لیا اور بعد میں پتہ چلا کہ آپ نے انڈا کھا لیا ہے تو آپ کے پیٹ میں درد شروع ہو جائے گا اور بد ہضمی ہو جائے گی ۔کیونکہ آپ کے لاشعور میں ” مجھے انڈا پسند نہیں” کا حکم موجود ہے ۔اب انڈا جسم میں گیا تو لاشعور اسے باہر نکالنے کے جتن کرے گا ۔اب آپ سمجھے کہ آپ لاشعوری سطح پر جو نہیں چاہتے وہ آپ کو کیوں نہیں ملتا ۔ آپ بار بار کہتے رہتے ہیں کہ ” میں یہ کار نہیں خرید سکتا” یا ” میں اپنا کاروبار نہیں کر سکتا” تو آپ کا لاشعور اس بات کو یقینی بنانے کی تگ و دو میں رہتا ہے ،یوں آپ ساری زندگی کار حاصل کر پاتے ہیں اور نہ کاروبار کر پاتے ہیں ۔
انسانی لاشعور چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے اور اسے جو احکام وصول ہوتے ہیں ان پر عمل کرتا رہتا ہے ۔یوں آپ جو کچھ سوچتے ہیں اسی بنیاد پر وہ عمل کرتا ہے ۔اس طرح مخصوص سوچ کی عادت پختہ ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں