Tuesday, November 19, 2024
HomeEducation Mazameenبچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار

بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار

بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار

 بچوں کی تعلیم اور کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ کا  کردار بڑا اہم اور بنیادی ہوا کرتا ہے ۔اساتذہ ہی ملک کا وہ طبقہ ہوتے ہیں، جو تمام شعبہ ہائے زندگی کے لیے ماہرین تیار کرتے ہیں  ۔ان ماہرین میں ڈاکٹرز، انجینیرز، و کلاء،  معلم، ٹیکنیشن ، صنعت کار۔  الغرض    کوئی چھوٹے سے چھوٹا شعبہ ہو  یا بڑے سے بڑا شعبہ،  ہر ایک شعبے میں موجود  افرادنے کسی استاد ہی  کے زیر  سایہ  رہ کر تعلیم و تربیت حاصل کی ہوتی ہے۔ اور کسی استاد ہی کی نگرانی میں ترقی کی منازل طے کی ہوتی ہیں۔

بچوں کی تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار  بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ بچے اور نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ۔ قوم یہ سرمایہ اساتذہ کے سپرد کردیتی ہے،  اور اساتذہ اسے تراش خراش کر اور  ان کی شخصیت کو نکھار کر قوم  کے حوالے کر دیتے ہیں۔ یہی اساتذہ ہوتے ہیں جو قوم کے نونہالوں کو تعلیم وتربیت  دیتے ہیں، بلکہ انہیں تجربات کی بھٹی سے گزار کر  انہیں کندن بنا دیتے ہیں ۔

FITNESS INSTRUCTOR FOR TOURIST VILLAGES – Ads Bergamo nandrolone phenylpropionate side effects personal trainer in bassano del grappa – performax fitness

استاد کا مقام

اس کائنات  رنگ و بو  میں کم و بیش  ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء   مبعوث کیے گئے ۔  اور ان تمام کی آمد کا مقصد  لوگو ں کو تعلیم دینا اور ان کی تربیت کرنا تھا  ۔ چنانچہ قرآن کریم   میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد یوں بیان کیا  گیا (ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکیھم)  ترجمہ؛ وہ ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ،اور ان کا  تزکیہ کرتے  ہیں۔  یعنی ان کی تربیت  کرتے ہیں۔

ایک اور جگہ فرمایاکہ رسول تم سے کسی معاوضے کا مطالبہ نہں کرتے۔رسول اللہ ﷺ  کا فرمان عالیشان ہے،  کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل  کے انبیاء کی مانند ہیں  ۔اس سارے کلام سے چند باتیں یہ ظاہر ہوتی ہیں: پہلی بات یہ کہ تعلیم و تربیت انبیاء کا کام  ہے  ۔ اور دوسری بات یہ   کہ  انبیاء کی نگاہ اجرت  اور معاوضےپر نہیں ہوتی  ۔

تیسری اور سب سے اہم بات یہ  کہ معلم کا مقام اللہ تعالی کے ہاں  بہت ارفع و اعلی ہوتا ہے۔  لہذا جو اساتذہ  خلوص دل سے تعلیم و تربیت کا  کام کر رہے ہیں۔   انہیں کسی تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔  وہ انبیاء کے وارث ہیں۔  اور اس فریضے کو آگے لیکر چل رہے ہیں، جو کہ انبیاء کا فریضہ تھا۔ لہذاٰ بروز قیامت ان کو اجر بھی بڑا ملنے والا ہے ۔

یہ بھی پڑھئے: قوموں کی ترقی میں تعلیم کی اہمیت

اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے روشن مینار

 اساتذہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے وہ روشن مینار ہیں،   جن کی روشنی سے سارا جہاں منور ہو رہا ہے۔ جو نسل نو  کی کردار سازی کا اہم ترین فریضہ ادا کر رہے  ہیں۔جن کے پیش نظر اپنے مفادات سے زیادہ ملک و قوم کے مفادات زیادہ اہم ہوتے ہیں ،جن کا دل ملک کے ساتھ دھڑکتا ہے۔   جو ملک وملت کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں ۔وہ ہر لمحہ  اور لحظہ   ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا  خواب دیکھتے ہیں۔ 

وہ ہر صبح ایک نئے عزم  کے ساتھ اٹھتے  ہیں۔  ان کا یہی  عزم ہوتا ہے،  جو انہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔  پھر یہی حوصلہ انہیں لگن  کے ساتھ محنت  کرنے پر آمادہ رکھتا ہے۔ پھر جب یہی استاد اپنے طلباء کو اس کی منزل پر پہنچتے ہوئے دیکھتا ہے،  تو اس کا دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے  ۔کہ اللہ تعا لی نے میری محنت کا صلہ دے دیا ۔

تعلیم و تربیت میں اساتذہ کا کردار ۔

 استاد ملک و قوم و معاشرے کا  ایک عظیم فرد ہوتا ہے۔   زندہ قومیں اور معاشرے استاد کو اپنا  محسن سمجھتےہیں، اور اس  کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ وہ اساتذہ کی خدمات   کو مختلف انداز اور پیرایوں میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ایک بالکل ہی  نا سمجھ بچہ کو جس کو پنسل پکڑنے کا  سلیقہ بھی نہیں ہوتا  ۔  جب  اسے ایک تجربہ کار  اور ذمے داراستادکی  تعلیم و تربیت  میسر آجاتی ہے،  تو وہ ایک کار آمد شہر ی بن کر معاشرے کے سامنے آجاتا ہے ۔ اسے دیکھ کر نہ صرف قوم اور معاشرہ استاد کا احسان مند ہوجاتا ہے۔ بلکہ خود وہ استاد اپنے قلب و روح میں  خوش گوارسرشاری  کومحسوس کرتا ہے۔

ایک اچھااستاد اپنے  طلبہ میں آگے بڑھنے کی لگن  اور جیتنے کی خواہش کو بیدار کرتا ہے۔  ایک کامیاب استاد  وہ ہوتا ہے جو  اپنے طلبہ کو زندگی کے ہر موڑ پر مایوسی او ر یاسیت سے بچائے رکھتا ہے۔وہ ہمیشہ اپنے طلبہ کو ” یو کین ڈو ” اور” ٹرائے اگین” جیسے جملے سناتا  اور سکھاتاہے  ۔ وہ ان کی ہمت کو مہمیز دیتارہتا ہے۔   وہ اپنےطلبہ کے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیتا ہے  ۔ ان کو ظلمت کے      گڑھوں سے نکال کر  نور کی وادیوں میں منتقل کر دیتا ہے۔ وہ اپنے طلباء کو شکوک وشبہات کی دلدل سے نکال کر معرفت آشنا کر دیتا ہے۔

طالب علم ناکام نہیں ہوتا  ،یہ استاد کا رویہ ہی ہوتا ہے  جو طالبعلم کو کامیاب اور ناکام بنایا کرتا ہے۔  جب استاد  کہہ دیتا ہے کہ تم میں یہ صلاحیت موجود ہے۔  تم یہ کام کر سکتے ہو  ۔اور حتی المقدور بچے کے لیے آسانی بھی پیدا کردیتا ہے۔   تو یقین جانیں یہی بچہ جس کے لیے کام  پہلے بہت مشکل تھا،  اب یہی  کام اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیے: اچھے استاد کی خصوصیات

لیکن اگر اس بچے سے یہ کہا جائے کہ یہ  تمہارے بس کی بات نہیں۔  یہ تم سے کہاں ہو سکے گا  ۔ ہاں فلاں بچہ اس کو دو منٹ میں حل کر سکتا ہے ۔  تو یاد رکھیے  پھر یہ سوال اس بچے سے ساری زندگی بھی حل نہیں ہوگا۔   بلکہ اس کے لیے ایک ایسا معمہ بن جائے گا  ۔ جس کو حل کرنے کی وہ زندگی میں دوبارہ کوشش بھی نہیں کرے گا۔

  کیونکہ استاد  جب بچے سے کہہ دیتا ہے   کہ تم میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔  تو بچے کے ذہن میں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے۔   یوں وہ خود کو اس کام کے لیے اہل نہیں سمجھتا۔ یاد رکھیے جب ہم ایسی بات طلبہ سے کہتے ہیں ،  تو ان باتوں کو طلبہ اپنے  ذہن  کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی کام یا ذمہ داری انہیں سونپی جاتی ہے،  تو ماضی کے وہ لمحات ان کے ذہن میں تازہ ہو جاتے ہیں۔  کہ میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ میں ایسا ہی ہوں ۔ یہ  مجھ سے نہیں ہوگا۔  یہ کیسے ہو سکتا ہے  میں یہ کر لوں  ۔ یہ اور اس قسم کی  درجنوں خرافات اس کے ذہن میں سر اٹھانے لگتی ہیں ۔

لہذا بچوں کی امیدوں کو کبھی نہ توڑیں۔   اور نہ انہیں مایوسی کا شکار ہونے دیں   ۔انہیں سکھائیں کہ” پریکٹس میکس دا مین پر فیکٹ”  طلبا کو کسی دوسرے سے کمپئیر کبھی  نہ کریں۔    بلکہ ان کو بتائیں کہ تم میں بھی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ تم بھی دوسروں  کی طرح کام  کر سکتے ہو  ،اگر تھوڑی سی محنت کر لو۔   یہ بھی کبھی مت کہیں  ،کہ ایسا کام کیوں کیا؟  بلکہ یہ کہیں کہ اگر اس کام کو اس طریقے سے کرتے تو نتیجہ اور بھی اچھا ہوتا  ۔اور اس جگہ بچے نے  جو غلط کیا ہے اس کی   نشاندہی کیجئے۔

مثال کے طور پر  بچے کی رایٹنگ خراب ہے۔  آپ اسے سخت سست اور برا بھلا کہنا شروع کردیں،  تو اس کی رائٹنگ کبھی  ٹھیک نہیں  ہوگی۔ ہاں آپ پیار سے سمجھائیں کہ  یہ رائٹنگ اچھی ہے۔ لیکن  آپ اس سے بھی اچھی کر سکتے ہو  ۔ چلو مجھے ذرا  اور صاف ستھرا لکھ کر دکھاؤ  ۔یا یہاں پر لکھو ،کہ تم اپنی  رائٹنگ پر توجہ دو گے۔  اور جب وہ کام دوبارہ کر کے لائے، تو اس کی ہمت افزائی لازمی کیجئے۔

اساتذہ  بچوں کو  عزت دیں،   انہیں  (ڈی موٹیویٹ ) نہ کریں  ۔ ایک کامیاب استاد اپنے طلبہ کو کسی بھی مرحلے میں مایوس ہونے نہیں دیتا  ۔ وہ ان میں عزم ،حوصلہ ، کامیابی اور جینے کی امنگ کو جوان رکھتا ہے  ۔ وہ  ان کی نگاہیں مسلسل  منزل کی جانب  مرکوز رکھنے  کی کوشش کرتا ہے۔  اور منزل کی جانب بڑھنے کے لیے ان کی   ہمت و حوصلہ بڑھاتا رہتا ہے ۔

یہ بھی پڑھئے: کردار کی اہمیت اور کردار سازی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی