Wednesday, November 20, 2024
HomeCharacter Building & Tarbiyahبچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی ذمہ داری

بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی ذمہ داری

بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی ذمہ داری

اچھی تعلیم وتربیت ویسے ہی جان جوکھون کا کام ہے جبکہ چھوٹے بچوں کی تعلیم وتربیت اور بھی مشکل کام ہے جس کی کلی ذمہ داری والدیں پر عائدہوتی ہےوالدین اگر اپنی ذمہ داری سے صحیح  طور پر واقف ہوں تو بچوں کی تعلیم وتربیت کوئی مشکل کام نہیں .بچے ہمارے مستقبل کے معمار ، ہمارا سرمایہ، ہمارا فخرو افتخار ہیں۔ انہوں نے ہی آگے چل کر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال لینی ہے۔ اور اپنی جدا جدا مہارتوں سے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے۔ والدین اگر آج بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گے۔ اور انہیں احسن طریقے سے پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو کل ہمارے یہ مستقبل کے معمار اور وطن کی سرحدوں کے محافظ بھی ہوں گے۔

انجینیر بھی، ڈاکٹر بھی، وکیل بھی اور معلم بھی ہوں گے، گویا ملکی ترقی وخوشحالی بھی والدین کی جانب سے بچوں کی تعلیم و تربیت سے وابستہ ہے، والدین اگر بچوں کی تعلیم و تربیت بہترین طریقے سے کریں گے۔ تو ہمارا یہ سرمایہ آگے چل کر ہمارے لیے پڑا مفید ثابت ہوگا۔

والدین اور بچوں کی تعلیم و تربیت

کسی بھی بچے کی تعلیم و تربیت اس کے والدین کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے۔ جس سے کسی بھی طور پر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے “قواانفسکم و اھلیکم نارا(خود کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ)۔ اور حدیث میں ہے ” الا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ” (تم میں سے ہر کوئی اپنی رعیت پر نگہبان ہے۔ اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا)۔ اس حدیث میں والدین کو نگہبان کہا گیا ہے۔ اور بچوں کو رعیت، مذکورہ آیت اور حدیث دونوں والدین کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔

اولاد کی تربیت والدین کی ذمہ داری

ماں باپ کا بہترین ورثہ

ویسے بھی ماں باپ کی طرف سے بچے کو دیا جانے والا بہترین ورثہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کے حوالے سے ماں اور باپ دونوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ماں اور باپ دونوں کو اس معاملے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان میں سے کوئی ایک یہ ذمہ داری دوسرے کے کھاتے میں ڈال دے اور خود کو بری الزمہ قرار دے۔

آج ہمارے معاشرے کے اکثر والدین یا تو ان معاملات سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ یا یہ سمجھ لیتے ہیں کہ بس بچے کو اسکول داخل کرادیا اب اس کی تعلیم و تربیت ہوجائے گی۔ گویا والدین اپنی ذمہ داری بس یہیں تک سمجھتے ہیں کہ بچے کو کسی اچھے میں اسکول میں داخل کرادیا جائے۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔۔ ذمے دار والدین بچے کو کسی اچھے اسکول میں داخل کرانے کے بعد بھی اپنی ذمے داریوں سے کنارہ کش نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ان کو برابر نبھاتے رہتے ہیں ۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کا نقطہ آغاز

حقیقت یہ ہےکہ اسکول میں داخلہ تو بچے کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہے۔ اس مرحلے میں آکر والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اس سے قبل وہ بچے کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھر میں غیر رسمی طور پر جو کچھ بھی کرتے تھے۔ وہ اسکول کی نسبت زیادہ آسان بھی تھا اور والدین کو اس کی جانچ پڑتال کی ضرورت بھی نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ گھر پر جو غیر رسمی تعلیم دی جا رہی تھی، اس میں وہ خود استاد اور خود ہی مربی بھی تھے۔ اب اسکول میں داخل کرانے کے بعد بچہ جن ہاتھوں میں دیا گیا ہے، وہ بچے کی تعلیم و تربیت میں کیا رول کردار ادا کرہے ہیں۔ اس کا جانچنا اور روزانہ کی بنیاد پر جانچنا ایک نئی ذمے داری ہے، جس سے سے ان کو عہدہ بر ہونا پڑے گا۔ لہٰذا بچے کو اسکول داخل کراکر یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری کردی کسی بھی طرح سے مناسب نہیں۔

اسکول سے متعلق والدین کی ذمہ داریاں

اسکول میں ایڈمیشن کے بعد والدین کی ذمہ داریاں مزید بڑھ جایا کرتی ہیں۔ مثلا بچے کی کتابوں اور کاپیوں کا خیال رکھنا اور پیریڈ کے مطابق ان کو بیگ میں رکھنا، پینسل، کلر،ربڑ اور اسکیل وغیرہ کی دیکھ بھال کرنا کہ بچے نے یہ چیزیں بیگ میں رکھی ہیں یا نہیں؟ اسی طرح بچے کو اسکول چھوڑنا ، اسکول سے واپس لے کر آنا، روزانہ کی بنیاد پر بچے کی ڈائری چیک کرنا اور اسکول کا ہوم ورک بچے کو کروانا، اس کے یونیفارم کا خیال رکھنا ، ہر ہفتے بعد ٹیچر  سے مل کر ان سے بچے کی کارکردگی کے متعلق معلوم کرنا، بچے کے سونے اور جاگنے کو ٹائم ٹیبل کے مطابق رکھنا تاکہ اس کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ یہ سب کچھ والدین کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔

بچوں کو کس عمر میں اسکول میں داخل کرایاجائے؟

تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت

تربیتی پہلو سے بھی یہی کہہ کرجان چھڑالی جاتی ہےکہ بچہ اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ پڑھ لکھ جائے گا تو ساتھ ہی تربیت بھی ہوجائے گی۔ یہ بہت بڑی غلط  فہمی ہے۔ یاد رکھیے تعلیم الگ عمل ہے اور تربیت بالکل الگ عمل ہے۔ دونوں پر مستقل کام کرنا پڑتاہے۔  کسی بھی ایک پہلو کو بھی اگر نظرانداز کر دیا گیا تو بچے کی شخصیت تباہ ہوکر رہ جائے گی ۔

تعلیم یہ ہے کہ بچے نے پڑھ لیا، لکھ لیا، سیکھ لیا اور یاد کرلیا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ اور تربیت یہ ہے کہ وہ پاک صاف ستھرا رہ کر اپنے نصف ایمان کو بچانے کی خود سے کوشش بھی کرے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ضروری ہے، اور اس سلسلے میں والدین کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے ۔

بچوں کو اپنے عمل سے سکھائیں

مثال کے طور پر بچے میں مطالعے کی جستجو پیدا کرنی ہے۔ تو والدین کو خود مطالعے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ اس دوران بچوں کو بھی ان کی ذہنی استعداد کے مطابق کوئی کتاب پڑھنے کے لیے فراہم کرنی چاہیے۔ اسی طرح آپ نمازوں کا اہتمام کریں گے، تو بچہ آپ کی دیکھا دیکھی نماز کی طرف آجائے گا۔ عموما چھوٹے بچے بات کہنے سے زیادہ حرکات و سکنات سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا والدین کو بھی گھر میں نشست و برخاست، آنے جانے اور آپس میں بات کرتے ہوئے ان باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ کہ بچے انہیں دیکھ رہے ہیں اور وہ وہی کریں گے، جو والدین کو کرتا ہوا دیکھیں گے۔

ماں باپ کی عادات بچوں میں منتقل ہوتی ہیں

والدین اگر چیخ چیخ کر بات کریں گے، اور بات بے بات غصے کا اظہار کریں گے۔ تو بچے انہیں دیکھ کریہی رویہ سیکھ جائیں گے۔  یہ سیکھنے کے لیے انہیں کاپی ،پینسل ، اسکیل کی ضرورت ہے۔ نہ ہی کچھ یاد کرنے کی ضرورت۔ بس اس ننھے اور کچے ذہن کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ میرے والدین ایسا کررہے ہیں۔ لہٰذا مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔

اس طرح والدین کی عادات ،حرکات و سکنات ، نشست و برخاست اور بات چیت کا انداز بچوں کا مزاج بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لئے والدین کا بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں فکر مند ہونا اور اس کے تمام مراحل سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ کہتے ہیں کہ بچہ ایسا کورا کاغذ ہوتا ہےکہ اس پر جو بھی تحریر کیا جائے وہ ہمیشہ نقش رہتا ہے۔ اب یہ فیصلہ والدین کو کرنا ہے کہ وہ اس کورے کاغذ پر کیا لکھتے ہیں ۔

مزید پڑھیے

بچے والدین کی پہچان

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں میں آپس میں مل بیٹھیں۔ اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرکے انہیں احسن طور پر نبھانے کی بھر پور کوشش کریں۔ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی سستی یا کوتاہی نہ کریں۔ کیونکہ یہ صرف ایک فرد کی تربیت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ خاندان کی تربیت کا مسئلہ ہے۔
اگر آپ ایک بچے کی اچھی تعلیم و تربیت کر دیتے ہیں۔ تو آپ معاشرے کو ایک تربیت یافتہ خاندان فراہم کرنے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ کیونکہ کل اس بچے کی ذات سے ایک نئے خاندان کا آغاز ہوگا۔ اور وہ خاندان بھی اعلیٰ اخلاق و کردار کی صفات سے مزین ہوگا۔
والدین کا اولین فرض ہے کہ ان ننھے پھولوں اور کلیوں کو مرجھانے سے بچائیں اور اپنا کردار بخوبی نبھائیں تاکہ ان کے بچے مثالی بن جائیں۔ یاد رکھیں بچے والدین کی پہچان ہوتے ہیں۔ اور اپنے ماں باپ کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔ اب یہ والدین پر ہے کہ وہ اپنی کس طرح کی پہچان بنانا چاہتے ہیں ۔

پتھروں کا نگر ہے بچا آئنہ
کررہا ہے یہی التجا آئینہ
دیکھ کرلوگ تجھ کو سنورنے لگیں
اپنے کردار کو تو بنا آئینہ

بچوں کی تربیت پر کتاب تحفہ والدین پڑھیے

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی