آج ہر معاشرے میں بچوں کا جنسی استحصال جاری ہے لیکن انگریزی اخبار “ٹریبیون” کے مطابق پاکستان معاشرے میں روزانہ 12 بچے جنسی بدسلوکیاور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ 55 فیصد جنسی استحصال کے کیسسز بچیوں اور 45 فیصد کیسز بچوں کے ہیں۔ سال 2022 میں 1656 بچے اغوا، 422 ریپ، 537 ببچوں سے زیادتی کی کوشش، 75 بچے اجتماعی زیادتی اور جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ 39 بچے اور 29 بچیاں جنسی زیادتی کا شکار کر کے قتل کر دیے گے۔ ایک”این جی او کے مطابق مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 4253 کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔ پاکستانی معاشرے کے یہ اعداد و شمار اصل اعداد و شمار سے بہت کم ہیں۔
بچوں کا جنسی استحصال
حقیقت تو یہ ہے ہمارے معاشرے میں جنسی استحصال کے دس میں سے بمشکل تین کیس رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ یعنی بچوں سے بدسلوکی اور جنسی زیادتی کے اصل اعداد و شمار پندرہ سے بیس ہزار کے درمیان ہوں گے۔ میرے لئے سب سے تکلیف دہ بات یہ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے ہو رہی ہے کہ بچوں سے پاکستانی معاشرے میں ہونے والے بدسلوکی اور جنسی استحصال کے کیسسز میں 13 فیصد ملزم سگے رشتہ دار ، 32 فیصد ملزم اجنبی لوگ اور 55 فیصد ملزم آس پڑوس کے لوگ ہوتے ہیں۔
یہ اعداد و شمار “اے این آئی”کی ویب سائٹ پر شائع کئے گے ہیں۔ آخر وہ کون سے ایسے محرکات ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے ہی بچوں کےلئے غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ ہم تو دشمن کے بچوں کو بھی پڑھانے نکلے تھے مگر اپنے بچے ہم نے بھیڑیے نما درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے ہیں آج ہمارے اس معاشرے کے ماتھے پر یہ بدنما داغ لگ چکا ہے کی پاکستانی معاشرے میں بچوں کا جنسی استحصآل ہوتا ہے ۔ آئیے کچھ تاریخی واقعات پر نظر ڈالتے ہیں
بچوں کا جنسی استحصال
:زینب انصاری کیس
نو جنوری 2018 کو پورے پاکستان میں غم و غصے کی شدید لہر اٹھی ، وجہ تھی ایک سات سالہ معصوم بچی زینب جو مدرسہ سے واپسی پر اغوا ہوئی اور تین سے چار دنوں تک سفاک ملزم اسے بےدردی سے جنسی استحصال کا شکار بناتا رہا اور بے رحمانہ تشدد کر کے شہید کر دیا۔ زینب کے والد نے جب رپورٹ درج کروائی تو پولیس نے خاطر خواہ کاروائی نہ کی۔
لاش برآمد ہونے کے بعد سوشل میڈیا پرایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور ملک بھر میں پرتشدد واقعات ہوئے جن میں دو افراد بھی ہلاک ہوئے۔ ملزم عمران کو 23 جنوری کو بذریعہ ڈی این اے ٹیسٹ گرفتار کر لیا گیا ، ملزم لواحقین کا محلہ دار تھا اور ذینب کی گمشدگی کے دورانیے میں اس کے والد کے ساتھ مل کر ڈھونڈنے کا بھی ڈرامہ کرتا رہا۔ ملزم نے متعدد ایسے ریپ کا اعتراف کیا اور اسے 17 اکتوبر 2018 کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ زینب کے سانحے کے بعد زینب الرٹ ایکٹ پاس کیا گیا جس کے اہم نکات یہ ہیں۔
پولیس بچوں کی گمشدگی کا مقدمہ دو گھنٹوں کے اندر درج کرنے کی پابند ہو گی۔
بروقت کاروائی نہ کی گئی تو متعلقہ تھانہ قصور وار ہو گا۔
پاکستان سیٹزن پورٹل پر ذینب الرٹ سسٹم بنایا گیا۔ اگر وہاں بچوں کی گمشدگی درج کر دی جائے تو متعلقہ انتظامیہ اعلی سطح تک الرٹ ہو جاتی ہے۔
جنسی استحصال کی سزا دس سال تک بڑھائی گئی۔
اس قانون سے کیا کوئی واقعی اثر پڑا ہے؟ اعداد و شمار کے مطابق تو ذینب کیس کے بعد بچوں سے بدسلوکی اور جنسی زیادتی کے واقعات میں 33 فیصد اضافہ آیا ہے تاہم ایک بات مثبت دیکھی گئی ہے کہ والدین اب ایسے کیسسز کو رپورٹ کرنے لگے ہیں اور ان کے اندر ایک موہوم سی امید جاگی ہے کہ ریاست اور پاکستانی معاشرہ ان کے بچوں کےلئے فکر مند ہے۔
بچوں کا جنسی استحصال
:قصور سیکنڈل
دوہزار پندرہ میں قصور میں ایک ایسے گروہ کا انکشاف ہوا جنہوں نے کم از کم 300 بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور استحصال کی تصاویر و وڈیو بنا رکھی تھیں اور وہ اس کا مکروہ کاروبار کرتے تھے۔ اس گینگ کا سرغنہ مبینہ سیاسی شخصیت ملک احمد سعید خان تھا جو قصور شہر سے ممبر پنجاب اسمبلی بھی تھا۔ انکشاف میں بتایا گیا کہ ان بچوں کی 400 سے زائد وڈیوز بین الاقوامی ڈارک سائٹس پر فروخت کی گئیں اور کئی بچوں کو اغوا کر کے اس بچوں کا جنسی استحصال اور ان کا قتل کر کے پھینک دیا گیا۔ ڈارک سائٹس وہ ویب سائٹس ہیں جن تک عام افراد کی رسائی نہیں ہے ، ہزاروں ڈالر خرچ کر کے ان ویب سائٹس تک رسائی حاصل کی جاتی ہے اور وہاں ڈالر دے کر من پسند جرائم لائیو دیکھے جاتے ہیں۔جب معاشرے کے محافظ ہی اس معاشرے کو تباہ کرنے پر تل جائیں تو پھر جرائم پیشہ افراد سے کاہے کا گلا ۔یہ ہے پاکستانی معاشرے کی وہ گندی جھلک کہ جس کا زکر کرتے ہوئے انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے
:جاوید اقبال
سو بچوں کا قاتل 1999 میں جاوید اقبال نے لاہور پولیس اور اخبارات کو خط لکھا ہے وہ سو بچوں کا قاتل ہے۔ پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا ، جہاں انھیں جابجا خون اور کئی بچوں کی باقیات اور تیزاب ملا جس میں وہ بچوں کو ڈال کر ان کے جسم پگھلا دیتا تھا۔ پاکستانی پولیس اس کو پکڑنے میں ناکام رہی ، جاوید کی گرفتاری ایک ماہ تک پولیس کےلئے سر درد بنی رہی۔ تاہم بعد ازاں جاوید اقبال نے خود جنگ نیوز کے دفتر میں آ کر گرفتاری دے دی تھی۔
جاوید اقبال کے بقول اس کی والدہ کی موت بچوں کی وجہ سے ہوئی تھی اس لئے اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ سو بچوں کو رلائے گا۔ گرفتاری کے بعد کیس کا ٹرائل شروع ہوا تو چند ہی ہفتوں کے اندر 72 بچوں کا قتل ثابت ہو گیا اور مجرم جاوید اقبال اور مجرم ساجد کو اللہ بخش رانجھا نے سزائے موت سناتے ہوئے حکم دیا کہ دونوں کی لاش کے سو ٹکڑے کئے جائیں اور مینار پاکستان کے سامنے تیزاب میں ڈال دیے جائیں۔ تاہم اس سزا پر کبھی عمل درآمد نہ ہو سکا کیونکہ جاوید اقبال اور ساجد نے اجتماعی خودکشی کر لی تھی۔
بچوں کا جنسی استحصال
:وہ وجوہات جن کا سدباب کرنا ضروری ہے
:تاخیر سے شادی
جنسی استحصال کے جرم میں ملوث اکثریت ان ملزموں کی ہوتی ہیں جن کی شادیاں تاخیر سے ہوتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں شادی کو مشکل اور مہنگا بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کروڑوں نوجوان وقت پر شادی نہیں کر پاتے ہیں اور نتیجتاً بچوں سے بدسلوکی اور جنسی استحصال کی وجوہات بڑھتی ہیں۔
:جنسی تعلیم کی کمی
باقی دنیا میں بچوں کو باقاعدہ جنسی تعلیم اور شعور دیا جاتا ہے ، انھیں “بیڈ ٹچ” کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دی جاتی۔ بچوں کو اپنے ساتھ بدسلوکی کی نوعیت کی سمجھ نہیں آتی اس ظرح وہ جلد ہی کسی کا شکار بن جاتے ہیں اور یوں معاشرے میں جنسی زیادتی کے کیسز بڑھ جاتے ہیں ۔
:پورن گرافی
پاکستان کا شمار ان سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے جہاں پورنو گرافی بہت زیادہ دیکھی جاتی ہے۔ غیر حقیقی نفسی خواہشات کی تکمیل کےلئے ایسے راستے منتخب کئے جاتے ہیں جو سراسر غلط ہیں یہ ہمارے پاکستانی معاشرے کی وہ گندی تصویر ہے کہ جس کا زکر کرتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے ۔
:اسلامی تعلیمات سے دوری
اسلام نے پہلے سے ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ نکاح جلدی اور سادگی سے کریں۔ رشتوں کا تقدس رکھیں اور غیر فطری اور غیر شرعی جنسی تعلقات کی سخت ترین سزائیں متعین ہیں۔ لیکن ان اسلامی تعلیمات اور قوانین کا اطلاق نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے معاشرے میں بچوں سے بدسلوکی اور جنسےی استحصال کے کیسز بڑھتے ہیں ۔
:کمزور قانون
پاکستان میں قانون کی عملداری انتہائی کمزور ہے۔ بااثر لوگ قانون پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح زینب الرٹ بل سے پہلے بچوں سے بدسلوکی کا کوئی جامع اور موثر قانون موجود نہیں تھا۔ قانون کی کمزوری سے جرائم پیشہ افراد ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ ایک وجہ بھی بچوں سے بدسلوکی کی ہے۔ یورپین ممالک کی طرح یہاں بھی قانون کی سخت عملداری کی ضرورت ہے تبھی پاکستانی معاشرے سے اس قبیح جرم کی بیخ کنی ممکن ہو سکے گی ۔
بچوں کا جنسی استحصال
:والدین کی خاموشی
پاکستان میں اوسطاً 12 کیسز بچوں سے جنسی استحصال کے ہوتے ہیں جن میں بمشکل تین سے چار کیسز کو پولیس کے علم میں لایا جاتا ہے اور رپورٹ درج کی جاتی ہے۔ بیشتر کیسسز میں والدین اس لئے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ اس سے ان کے بچوں کی معاشرے میں عزت نہیں رہے گی۔ زیادہ تر مڈل کلاس لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
:جنسی استحصال کی سزائیں
بچوں کا جنسی استحصال
بچوں سے اگر جنسی زیادتی ثابت ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ سزا پھانسی ، عمر قید اور کم سے کم سزا دس سال کی جیل ہے۔ دس لاکھ تک جرمانہ الگ سے ادا کرنا ہو گا۔ مجرم کا نام ایک لاگ بک میں رکھ دیا جائے گا اور جب بھی کوئی ایسا کیس خدانخواستہ ہوا تو اسے پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑے گی۔ اس کے علاوہ میڈیا پر اس کا نام اور تصویر جاری کی جائے گی۔ بچوں کی تربیت: اپنے بچوں کو ذہنی طور پر اتنا مضبوط بنائیں کہ اگر ان کا واسطہ کسی ایسے شخص سے پڑے تو وہ الرٹ ہو جائیں۔
انھیں جنسی تعلیم خود دیں۔ انھیں”بیڈ ٹچ” کے بارے میں بتائیں۔ کوشش کریں بچے زیادہ وقت آپ کے پاس گزاریں۔ رشتہ داروں کے گھر بھیجنے سے پہلے تسلی کر لیں۔ بچوں کو ہر رشتہ سے ادب سے پیش کرنے آنے کی تربیت دیں تاہم انھیں بتا دیں کہ کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کرنا اور نہ کسی کی باتوں میں بہلنا ہے۔ سب سے اہم اپنے بچوں کو اعتماد میں لیں ، ان سے دوستی کریں تاکہ وہ اپنا ہر مسلہ آپ کو بروقت بتا سکیں اور آپ اور آپ کا بچہ بعد کے زہنی صدمے اور آزمائش سے محفوظ رہے۔