جنگ اور بچے
سن2012کی ایک دل دہلا دینی والی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ بچے 1990 سے 2012 تک مختلف جنگوں کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہارے۔ جبکہ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2022 میں اڑھائی کروڑ بچے جنگ زدہ علاقوں میں خوف و دہشت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہزاروں بچوں کو دہشتگرد گروہوں کی جانب سے انسانی بم کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور انھیں خودکش حملے کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کا ہر دسواں بچہ جنگ زدہ ماحول میں پرورش پا رہا ہے اور وہ خوف ، دہشت ، بھوک اور استحصال کا شکار ہے۔
جنگ کیا ہے؟
جنگ دو گروہوں کے درمیان پرتشدد واقعات کا نام ہے۔ گروہوں کے سربراہان و افراد اپنے تعصبات کو گروہی مفاد سے جوڑ دیتے ہیں اور جب دو قوموں ، ملکوں ، یا افراد کے درمیان مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے تو جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔
جنگ میں سب سے مظلوم طبقہ وہ ہے جو براہ راست تو جنگ میں شرکت نہیں کرتا لیکن متاثر براہ راست ضرور ہوتا ہے مثلاً بچے ، خواتین ، بوڑھے ، معذور اور بیمار افراد۔
آئیے اس مضمون میں جانتے ہیں کہ جنگوں کی وجہ سے کیسے کروڑوں بچوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں اور کیسی کیسی المناک داستانوں نے جنم لیا۔
زندگی کیا ہے؟
جنگ عظیم اول اور بچے :
پہلی جنگ عظیم میں بھی لاکھوں بچوں نے مختلف طریقوں سے حصہ لیا۔ مثلاً برطانیہ میں ایک بوائے سکاوٹ ایسوی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ دس سے پندرہ سال کے بچوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد حساس تنصیبات کی حفاظت کرنا تھا۔
بوائے سکاوٹ ٹیلی گراف لائنز ، ریلوے پل ، پٹریوں اور دیگر تنصیبات کی حفاظت کرتی تھی اور اکثر جرمن فضائی حملوں کانشانہ بن جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عالمی جنگ کی وجہ سے خوراک کی ترسیل بند تھی۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کےلئے گرلز سکاؤٹ اور بوائے سکاوٹ کے دستے بنائے گے جو کاشتکاری کا کام کرتے تھے۔
یہ بچے تباہ شدہ جنگی جہازوں ، ٹینکوں اور گاڑیوں میں سے کارآمد چیزیں بھی نکالتے تھے۔ 1917 میں برطانیہ میں 6 لاکھ بچے ہتھیاروں کی فیکٹریوں میں چائلڈ لیبر کا کام کرتے تھے۔ پہلی جنگ عظیم میں لاکھوں بچے قتل ہوئے جبکہ کروڑوں بچے یتیم اور مفلوک الحال ہوئے۔
جنگ عظیم دوم اور بچے:
جنگ عظیم دوم پہلی عالمی جنگ سے کہیں زیادہ تباہ کن تھی اور یہ بچوں کےلئے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئی۔ اس جنگ میں دو ملین عام بچے اور ڈیڑھ ملین یہودی بچے ہلاک ہوئے۔
یہودی بچوں کی ہلاکت سب سے دردناک تھی ، جرمنی کے آمر ہٹلر نے تمام جرمن نژاد یہودی خاندانوں کو کنسڑیشن کیمپوں میں قید کر لیا۔
ہزاروں افراد کو بڑے بڑے ہالوں میں ڈال کر زہریلی میتھین گیسسز چھوڑی جاتی تھیں۔ یہاں تک کہ بچوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا انھیں مختلف تجربوں کےلئے بغیر بےہوش کیے چیرا جاتا تھا یا پھر زہریلی گیس دے کر ہلاک کر دیا جاتا اور ان کی لاشوں کو تیز آگ سے جلا دیا جاتا اور ان کی ہڈیوں سے تیل نکال کر صابن جیسی چیزیں بنائی جاتی تھیں۔
ہٹلر نے اپنے جرمن بچوں کو بھی نہ چھوڑا اور انھیں جنگی ایندھن کے طور پر استعمال کیا۔ ہٹلر نے بچوں ہر مشتمل ایک تنظیم بنائی۔ پندرہ سال کی عمر کے بچوں کو پکڑ کر محاز جنگ پر روانہ کر دیا اور ہزاروں بچوں کو خودکش مشن کےلئے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ ٹینکوں کی ایک مکمل بریگیڈ 15 سے 20 سال کے لڑکوں پر مشتمل تھی۔
جاپانی بھی اپنے قوم کے بچوں کا استحصال کرنے سے باز نہ آئے انھوں نے لڑکوں کو ہوائی جہازوں کی تربیت دی اور انھیں کامی کازی خودکش مشنوں پر روانہ کیا۔ یہ لڑکے اپنے لڑاکا طیاروں کو امریکی بحریہ کے جنگی بحری جہازوں کے اوپر گراتے تھے اور اپنی جان کھو دیتے تھے۔
سویت یونین نے بھی بچوں کا خوب جنگی استعمال کیا۔ انھوں نے چودہ سال کے کم عمر بچے اپنی زیر تسلط سنٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں سے بزور طاقت جمع کیے اور انھیں سرخ فوج کا حصہ بنا کر استعمال کیا۔
یہاں تک کہ امریکہ نے ایک دستے ہوم گارڈ کا قیام عمل میں لایا جس میں امریکی لڑکوں کو بھرتی کیا گیا تاہم ان کا جنگی محاذ پر کم ہی استعمال کیا گیا۔
پولینڈ نے تو 12 سال کے بچوں کو بھی بالغ قرار دیتے ہوئے انھیں جنگی تربیت اور بعدازاں جنگی محاذ پر روانہ کر دیا تھا۔
ویت نام جنگ اور بچے:
آپ نے دیکھا ہو گا سکول ہمیشہ دن کے اوقات میں کھلتے ہیں مگر ویت نام جنگ کے دوران کئی سکول ایسے تھے جو صرف رات کی تاریکی میں جنگلوں کے اندر چلتے تھے۔ کیوں کہ دن کے وقت ان سکولوں پر امریکی فضائیہ بمباری کر دیتی تھی۔
ویت نامی تیرہ سالہ بچوں کو گوریلا افواج میں شامل کرتے تھے۔ ان کی ٹریننگ کی جاتی تھی اور پھر محاز جنگ پر انھیں لڑنے اور جاسوسی جیسے خطرناک مشن کےلئے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان بچوں کو ان کی بہادری کے کارنامے پر ” آہنی بچے ” ، ” یانکوں کا بہادر تباہ کن” کے میڈل پہنائے جاتے تھے۔
اعدادوشمار کے مطابق ویت نام جنگ میں نو لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بچوں کی تعداد 85 ہزار تھی۔
افغان خانہ جنگی اور بدقسمت افغانی بچے:
آپ اپنے ارد گرد کئی بدقسمت افغان بچوں کو دیکھتے ہیں جو کچرا چنتے ہیں اور ایسے کام کرتے ہیں جو ہم اپنے بچوں کےلئے پسند نہیں کرتے ہیں۔
پچھلے پچاس سالوں سے افغانستان مسلسل خانہ جنگی کا شکار ہے۔ سویت افعان جنگ کے دوران تین لاکھ بچے معذور ہوئے ، ہلاک ہونے اور دربدر ہونے والے بچوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ امریکہ طالبان جنگ میں افغانستان میں ایک لاکھ بچے معذور ہوئے۔
بی بی سی کے مطابق 2001 سے اب تک 33 ہزار افغانی بچے جنگ میں مارے گئے۔ 2017 سے 2019 تک صرف دو سال میں 300 سکولوں پر طالبان نے حملہ کیا۔ طالبات کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد ہے۔
افغانستان میں شدید غربت ہے، کئی خاندانوں نے اپنے دودھ پیتے بچے تک فروخت کر دیے۔ انھی خاندانوں میں بلخ صوبے کا رہائشی محمد خان بھی شامل ہے جس نے اپنے چالیس دن کے بچے کو ستر ہزار ڈالر افغانی کے عوض پڑوسی کو فروخت کر دیا تھا تاکہ وہ دوسرے چھ بچوں کو کھانا فراہم کر سکے۔
37 لاکھ افغانی بچے اور بچیاں سکول کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسے ہی کئی لاکھ افغانی بچے باپ کی سرپرستی سے محروم ہیں۔
افریقہ کی خانہ جنگیاں اور چائلڈ آرمی:
براعظم افریقہ کی کئی ریاستوں میں اقتدار کی کسشمکش کےلئے سول وار ہوتی رہتی ہیں جن میں کرائے کی چائلڈ فورس استعمال کی جاتی ہے۔
لائبیریا کی خانہ جنگی میں 60 ہزار مسلح افراد نے شرکت کی ۔ ان میں دس ہزار مسلح فوج بچوں پر مشتمل تھی۔ یونائٹڈ نیشن کے مطابق 1995 سے 2015 تک مختلف افریقی خانہ جنگیوں کے نیتجے میں 31 لاکھ بچے جنگوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ یہ دل دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں۔
یونیسف نے انکشاف کیا ہے کہ موجودہ وقت میں بھی 21 ہزار افریقی بچے مغربی اور سنٹرل افریقہ کی حکومتوں اور دہشت گردوں کی تنظیموں میں چائلڈ فورس کے طور پر کام کر رہے ہیں جن کی عمریں سات سے سترہ سال کے درمیان ہیں۔
روس یوکرین جنگ:
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق روس یوکرین جنگ میں 1.5 ملین یوکرینی بچے دربدر ہوئے ہیں۔ 500 کے قریب بچوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور ایک ہزار سے زائد بچے معذور ہو گئے ہیں۔ ابھی جنگ جاری ہے ، جنگ کے خاتمے تک کتنی ہی مائیں اپنے لخت جگروں کو کھو بیٹھیں گی۔
انسان نے بڑے بڑے عالمی ادارے جیسے اقوام متحدہ ، یورپی یونین ، ہیومن رائٹس کمیشن ، جینوا کنونشن جیسے معائدے اور ادارے تشکیل دے دیے ہیں مگر دنیا سے ابھی تک جنگ اور تشدد کا خاتمہ دور دور تک نظر نہیں آتا ہے۔ کروڑوں بچے اس وقت وار زون میں ہیں ، ابھی بھی یہ مضمون تحریر کرتے وقت دس بچے کسی نہ کسی جنگ یا تشدد کا شکار ہو چکے ہوں گے۔