Wednesday, November 20, 2024
HomeFundamentalsاولاد سے پہلے والدین کی تربیت

اولاد سے پہلے والدین کی تربیت

تحریر : ڈاکٹرمحمد یونس خالد

کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی نے نئی گاڑی خریدی ہو۔ اور اسے کسی ایسے شخص کے حوالے کی ہو جو ڈرائیونگ نہ جانتا ہو؟ جی نہیں! لیکن اگر کوئی شخص یہ غلطی کر بیٹھے۔ اور ڈرائیونگ سیٹ پر کسی نااہل آدمی کو بٹھادے گا، تو کیا ہوگا؟جواب واضح ہے۔ کہ گاڑی کا اکسیڈنٹ ہو جا ئے گا۔ اور گا ڑی تباہ ہوجائے گی۔ بلکہ خودگاڑی چلانے والے نااہل شخص کی ہلاکت بھی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح پائیلٹ کی ٹریننگ لئے بغیر کیا کوئی شخص جہاز اڑانا شروع کرسکتا ہے؟ یقینا ایسے شخص کے ہاتھ میں جہاز دینا اسے تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔

جس شخص کو ڈرائیونگ کرنے یا پائیلٹ بن کر جہاز اڑانے کا شوق ہو اسے پہلے لازمی ان کاموں کی ٹریننگ لینی پڑتی ہے۔اور اس کے لئے وہ تمام تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں۔ جو اس کے لئے بنیادی اہمیت کے حامل  ہیں۔ بالکل اسی طرح اولاد کی تربیت کو ( جس پر نسلوں کے مستقبل کا دارومدار ہوتاہے) ایک قیمتی گاڑی یا جہاز سے تشبییہ دی جائے۔ توڈرائیونگ سیٹ پر والدین ہی ہونگے۔ جن کا پہلے سے تربیت یافتہ ہونا ضروری ہوگا۔

تربیت اولاد اور جدید ٹیکنالوجی

 تربیت اولا د کا عمل بذات خود کوئی آسان کام نہیں، بلکہ یہ نہایت صبرآزما اور چیلنجنگ کام ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دور حاضر میں ہمیں جدید ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، موبائل فون، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جیسی چیزوں کی شدید مداخلت کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ نئی نسل کے اندراس وقت آزادی کا شدید رجحان پایا جاتا ہے۔ جس سے اس عمل کی مشکلات کا ہم اندازہ کرسکتے ہیں۔

ایسے چیلنجنگ دورمیں کیا والدین بغیر تربیت لیے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرپائیں گے؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنا والدین کے لئے ضروری ہوگا۔

پروفیشنلزم کے اس  دور میں والدین پہلے خود تربیت حاصل کئے بغیر اولاد کی تربیت کرنا چاہیں۔ او رتربیتی عمل کو پچھلے دورپر قیاس کریں تو یقینا یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اوپرہم نے تربیت اولاد کے عمل کو سمجھانے کے لئے ڈرائیونگ سیٹ سے تشبیہ دی ہے۔

تاہم تربیت اولاد کی سیٹ گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے کہیں زیادہ حساس ہے۔ کیوں کہ گاڑی یا جہاز کا سفر گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ جبکہ تربیت اولاد کا سفر برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ اور بچوں کا تابناک یا موہوم خطرات سے دوچار مستقبل والدین کی اچھی یا بری تربیت کاہی نتیجہ ہوتا ہے۔

 تربیت سے متعلق چند اہم سوالات

بچوں کی تربیت شروع کرنے سے پہلے والدین کے لئے ضروری ہے۔ کہ وہ بچوں کے لئے باقاعدہ تربیہ پروگرام بنائیں۔ لیکن تربیہ پروگرام سے پہلے والدین یہ سیکھنے کی باقاعدہ کوشش کریں، کہ تربیت کا درست مطلب کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ عموما ہم تعلیم وتربیت کا لفظ ایک ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم کر نا ہوگا کہ تربیت تعلیم سے کتنی مختلف چیز ہے؟بچوں کے  تربیہ پروگرام کا پورا ڈھانچہ کیا ہوسکتا ہے؟ جامع تربیت کے لئے کتنے ایریاز پر کام کرنا پڑتا ہے؟ بچوں کی نفسیات کیا ہوتی ہیں؟ عمر کے مختلف مراحل میں بچوں کی نفسیات میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟

بچوں کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہوتاہے؟  والد اور والدہ میں سے ہرایک کا کردارکیا ہے؟ والدین کے آپس کے تعلقات کیسے ہونے چاہییں؟ والدین کی آپس کی گفتگو اور بچوں کے ساتھ ان کی گفتگو کیسی ہونی چاہیے؟ گھر کاماحول اور ارد گرد کا ماحول بچے کی تربیت پرکس طرح اثرانداز ہوتاہے؟ ایسے میں والدین کی کیا ذمہ داری ہوتی ہے؟ غرض اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جن کا درست جواب معلوم کرنا تربیت اولاد کے ضمن میں نہایت ضروری ہے۔

والدین کی چاہت کے باوجو د تربیت نہ ہونا

اگر ان جیسے سوالوں کے درست جوابات خودوالدین کو معلوم نہ ہوں۔ تو تربیت اولاد کا عمل ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ مباداکہ والدین ان سوالات پر سنجیدہ غور وفکر اوراچھی طرح سیکھے بغیر بچوں کی تربیت کرناشروع کردیں۔ جبکہ بعد میں نتائج توقعات کےبالکل برعکس نکل آئیں۔ یہی وجہ ہوتی ہے کہ بعض والدین خود نمازی پرہیز گار ہونے کے باوجود اور اپنے بچوں کو نمازی بنانے کی شدید خواہش رکھنے کے باوجود ان کو نمازی بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔

اسی پر قیاس کرکے دیکھا جائے تو بعض اوقات والدین خود پڑھے لکھے ہونے اور بچوں کے لئے اچھی تعلیم وتربیت کی خواہش رکھنے کے باوجود وہ ان کی اچھی تعلیم وتربیت نہیں کرپاتے۔ اچھے اچھے والدین تربیت اولاد کے فن سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے بسااوقات بچوں کی تربیت کے نام پر ایسی حرکت کر بیٹھتے ہیں ۔ جس پر بعد میں وہ نادم ہوجاتے ہیں۔ اور اولاد باغی ہوکر الگ درد سر بن جاتی ہے۔

 اسلام اور مغرب کے تربیتی معیار میں فرق

دورجدید میں یہ صورت حال مزید مشکل ہوتی جارہی ہے۔ کیونکہ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی، ٹی وی پروگرامز، انٹرنیٹ، موبائل، واٹس ایپ، فیس بک ودیگر اپلی کیشنز کی بچوں کی زندگی میں مداخلت بڑھتی جارہی ہے۔ اور دوسری طرف اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے آزادخیال مغربی تہذیب وتمدن کے سائے نئی نسل پر گہرے ہوتے جارہے ہیں۔

جس سے ان میں اسلامی تہذیب وتمدن کی جگہ مغربی افکاروخیالات اور مغربی تہذیب کی خصوصیات پروان چڑھ رہی ہیں۔ ہماری اسلامی تہذیب میں ادب آداب، اخلاقیات اورلحاظ ومروت کی جڑیں پیوست ہیں۔ جس میں بڑے چھوٹے کی تمیز، شرافت وشائستگی،  ماں باپ، اساتذہ اور بڑوں کا ادب واحترام موجود ہیں۔

جبکہ مغربی تہذیب ایک خالص مادہ پرست تہذیب ہے، جس کے اخلاقی معیارات ہی بالکل مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل میں ان اخلاقی معیارات کی طرف رجحان کی سطح کم ہوتی جارہی ہے۔ آج سے دودہائی پہلے بچوں میں والدین اور بڑوں کے لئے جو ادب واحترام اورلحاظ ومروت کے جذبا ت پائے جاتے تھے۔ آ ج کی نسل میں وہ جذبات مفقود ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں والدین کے لئے اپنے ہی بچوں سے کوئی بات منوانا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں رہا ۔ اور اساتذہ کے لئے اپنے طلبہ سے کوئی بات منوانا تو اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔

مغربی تہذیب بچوں کی اسلامی تربیت میں رکاوٹ

دورحاضر میں ٹیکنالوجی کی بچوں کی زندگی میں مداخلت اور مغربی تہذیب کے حصا ر کی وجہ سے نئی نسل خواہشات نفس کی تنگنائیوں میں گم ہوتی جارہی ہے۔ نفسانی خواہشات ہیں جو کم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے ،کہ تساہل پسندی نئی نسل میں سرایت کرتی جارہی ہے۔ محنت، جفاکشی، حوصلہ مندی، قربانی وایثار کے جذبات کم ہوتے جارہے ہیں۔ الوالعزمی، کسی بڑے مقصد کے لئے ثابت قدمی کے ساتھ کھڑے رہنے اور اسے حاصل کرنے کے لئے عزم وحوصلے مفقود ہوتے جارہے ہیں۔

اگر کہیں زندگی کے اہداف بنائے بھی  جارہے ہوں، توان میں بھی  مادہ پرستی کا  رجحان غالب نظر آتا ہے۔ جبکہ بندہ مومن کے اہداف دنیا وآخرت دونوں کو پیش نظر رکھ کر ترتیب پاتے ہیں۔ اوران دونوں میں بھی آخر ت کے اہداف پہلے نمبر پر جبکہ دنیا کے اہداف ثانوی درجے کے ہوتے ہیں۔

لیکن اس کے برعکس مادہ پرستی کے جذبات کے تحت جب اہداف بنائے جائیں۔ تو ان میں خدا اور آخر ت کی جگہ سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ یہ سب کچھ صرف کیش دنیوی فائدے کے تحت ترتیب پاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ وہی ہونکلتا ہے جو آج مغربی معاشرہ میں ہمیں نظرآتا ہے۔ اور اسی کے اثرات آج ہمارے معاشرے پر  گہرے ہوتے جارہے ہیں۔

!اچھی تربیت کے لئے کمرکس لیں

چنانچہ اس صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے ضروری ہے۔ کہ موجود ہ زمانے اور حالات کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرے کاموں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں زیادہ اہم کام سمجھتے ہوئے والدین بچوں کی تربیت کے درست طریقہ کار کو سیکھیں۔ اس کو اہمیت دیں۔ ذہنی طور پر اس چیلنج کو قبول کریں ۔

اور اس کے لئے اپنے کردار کا اچھی طرح ادارک کریں۔ نیز اس کے لئے خدا کے سامنے جوابدہی کے لئے بھی تیار رہیں۔ آج کے زمانے میں اللہ کے فضل سے اس کام کے لئےادارے وجود میں آگئے ہیں۔ جو والدین اور اساتذہ کو تربیت اولاد کا باقاعدہ کورس کرواتے ہیں اور ٹریننگز دیتے ہیں۔

چنانچہ میری تجویز ہوگی کہ والدین بچوں کی تربیت کو وہ اہمیت دیں جواس کا حق ہے۔ اسے باقاعدہ طور پر سیکھیں۔ اس موضو ع پر لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اور اس موضوع پر ورکشاپس میں شرکت کرتے رہا کریں۔ کیونکہ یہ سدابہار سیکھتے رہنے کا موضوع ہے۔

اس طرح سیکھ کر اور سیکھتے رہنے کے ساتھ جب والدین اپنی اولاد کی تربیت کریں گے۔ تو اللہ تعالی  سے امید ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اور مستقبل کی دنیا کو اچھی نسل دے سکیں گے۔ پڑھیے۔ تربیت اولاد کیلئے ذہنی آمادگی

والدین کی رول ماڈلنگ

یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ والدین خود اپنے بچوں کے لئے رول ماڈل بنیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بچہ وہی کرتا ہے جو اپنے والدین اور گھروالوں کو کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں کرتا جو والدین اسے بتاتے ہیں۔ یعنی بچوں کی تربیت میں رول ماڈلنگ بہت اہم ہے۔ اگر والدین کی رول ماڈلنگ اچھی ہے، اور بچوں کو والدین کی طرف سے اچھا اسوہ، اچھا قدوہ اور اچھی اخلاقیات دیکھنے کو ملیں۔ تو امید قوی ہے کہ بچوں کو کچھ نہ بھی بتایاجائے۔ تو وہ اس بہترین رول ماڈلنگ کی وجہ سے اچھی شخصیت کے حامل ہونگے۔

لیکن اگر بدقسمتی سے اس کے برعکس معاملہ ہوا۔ کہ والدین کی رول ماڈلنگ اچھی نہیں تھی۔ انہیں اچھا دکھانے کے بجائے صرف اچھی اچھی باتیں بتانے پرہی اکتفاکرتے رہے۔ یا ڈانٹ ڈپٹ اوربہت زیادہ سختی وترشی سے برتاو شروع کیا ۔ توپھر اچھی تربیت کی امید نہیں رکھی جاسکتی۔ اس سے بچوں کی شخصیت کے دوسرے سب پہلومتاثر ہوجائیں گے۔

پہلے اپنی پھر بچوں کی تربیت پر کام 

اب سوال یہاں پر یہ ہے۔ کہ کیا خود والدین کی رول ماڈلنگ اچھی ہے؟ یہ والدین کے لئے سوچنے اور غوروفکرکرنے کا مقام ہے۔ کئی والدین اس سوال کو سوچنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ کہ ان کے بچپن میں خود ان کو بھی اچھی رول ماڈلنگ دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ یا ان کے والدین نے بچپن میں ان کی کوئی اچھی تربیت نہیں کی تھی۔ اب بڑے ہوکر والدین بن کر اور شعور کی سطح پر یہ محسوس ہورہا ہے۔ کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تربیت کریں۔

جب یہ خواہش دل میں اٹھے تو والدین کے لئے کرنے کا پہلا کام یہی ہے۔ کہ پہلے اپنی شخصیت ، عادات واطوار اور تربیت پرتوجہ دیں، اپنی اولاد کو اچھا اسوہ اور اچھی رول ماڈلنگ پیش کریں۔ انشا اللہ اولاد خود تربیت یافتہ ہوتی چلی جائے گی۔ مزید پڑھئے

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی