Wednesday, November 20, 2024
HomeLatestنرمی اور نرم دل

نرمی اور نرم دل

نرمی ایک ایسا وصف ہے کہ یہ جس انسان میں ہواس کی عزت وعظمت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔   حدیث  رسول ﷺ ہے کہ جو دل کی نرمی سے محروم رہا وہ کل خیر سے محروم رہا ۔نرم دلی  کے حامل انساں کو  دیگر دوسرے تمام انسان قدر ومنزلت  کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔نرم مزاج  کے حامل انسان کو اپنو ں بیگانوں سب میں یکساں  مقبولیت حاصل رہا کرتی ہے۔جس شخص کی طبیعت میں نرم دلی  کا عنصر موجود ہو تو وہ یہ سمجھ جائے کہ اسے اللہ پاک نے ایک  عظیم نعمت سے نوازا گیا ہے

نرم  دلی کی صفت جس انسان کے اندر موجود ہو تو وہ اس صفت کے ذریعے بڑے سے بڑے پہلوان کو زیر کرسکتا ہے۔ نرم دلی  و مزاج کی نرمی قدرت کی جانب سے انسان کو عطا کیا جانے والا وہ  تحفہ ہے کہ یہ جس کو مل جائےگویا اس کو دنیا بھر کی بھلائی مل جاتی ہے۔نرمی کا حامل انسان کبھی ناکامیوں سے دوچار نہیں ہو سکتا۔ دل کی نرمی ونرم مزاجی سے انسان  مشکل سے مشکل تریں حالات کا مقابلہ بڑی آسانی کے ساتھ کر سکتا ہے۔

نرم مزاجی اور ہمارا معاشرہ:آج اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ نرمی جیسے وصف سے خالی ہے نرم دلی کا عنصر ہمارے معاشرے سے ختم ہو چکا ہے ۔ حلم، برداشت ،رواداری جیسی صفات آج ہمارے معاشرے میں ناپید ہو چکی ہیں نرم دلی تو کجا آج معاشرے کا یہ عالم ہے کہ ہمارے دل پتھر کی مانند سخت ہو چکے ہیں ۔آج ہمارا معاشرہ مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہے۔آج جسے دیکھو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔نرم دلی   جیسے اوصاف ہمارے معاشرے سے عنقا ہو چکے ہیں۔عوام کی تو بات ہی چھوڑیں خواض میں بھی نرمی مزاج ونرم دلی کا   عنصر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔ آپ کسی بھی چینل پر آمنے سامنے دو مختلف مکاتب فکر کے علماء کو بیٹھے دیکھ لیں اندازہ  ہو جائے گا کہ آج ہماری قوم اور معاشرہ کس ڈگر پر چل نکلا ہے۔کوئی کسی کی بات سمجھنا تو درکنار  سننے تک کو تیار نہیں۔نرمی مزاج اور دل کی نرمی کے بجائے درشتی ،تند خوئی،اور سخت مزاجی لہجوں میں رچی بسی نظر آئے گی۔ایسے میں معاشرے  کی بہتری کا سوچنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

دل کی سختی کیا ہے ؟

جب کسی انسان کے دل پر نصیحت اثر نہ کرے اور اسے گناہوں کو اختیار کرنے میں مزا آتا ہو اور گناہ سرزد ہونے پر نہ تو شرمندگی ہو اور نہ ہی توبہ کرنے کو دل چاہے ایسے شخص کو جان لینا چاہیئے کہ وہ قساوت قلبی یعنی (دل کی سختی )کا شکار ہو چکا ہے ۔

دل کی سختی کے اسباب

دل کی سختی کے اسباب میں زیادہ کھانا ،زیادہ ہنسنا ،زیادہ بولنا اور گناہوں کی کثرت دل کی سختی کا سبب ہوا کرتی ہے ۔

دل کی سختی کا علاج

ایک شخص نے نبی ﷺ کی بارگاہ میں آکر دل کی سختی کی شکایت کی تو سرکار ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ تو مسکین کو کھانا کھلایا کر اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اللہ تجھ سے دل کی سختی کو دور کردے گا ۔اس حدیث کی رو سے نرمی دل کا حصول مسکین کو کھانا کھلانے اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہو سکتا ہے ۔

ایک حدیث پاک ہے کہ کہ نبی ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اے میرے صحابہ دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے کہ لوہے کو لگا کرتا ہے صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ اس دل کو کیسے صاف کیا جائے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تو موت کو کثرت سے یاد کرا کر اورت تلاوت کلام پاک کیا کر تیرا دل پاک صاف ہو جائے گا ۔جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا دل صاف ہو اور نرم بھی ہو جائے اسے چاہیئے کہ ان دونوں باتو ن پر عمل کرے

:قرآن کریم کا اعلان اور نرم مزاجی:قرآن کریم ذکر حکیم میں اللہ تعالی سورہ العمران کی آیت نمبر159 میں رسولﷺ سے ارشاد فرماتے ہیں۔ترجمہ تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب آپ ان کے لئے  نرم دل ہوئے اور اگر تند مزاج  یا سخت دل ہوتے  تو وہ ضرور تمہارے  گرد سے پریشاں ہو جاتے۔کنزالایمان اللہ تعالی رسولﷺ کو مخاطب فرماکر کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ ﷺ کے مزاج میں نرمی کے بجائے  سختی ہوتی تو لوگ آپ  سے دور ہو جاتے۔یہ مزاج کی نرمی اور نرم دلی کا ہی کمال تھا کہ صرف 23 سال کی تبلیغ کے نتیجے میں دین اسلام دنیا کے دور دراز کونوں میں پہنچا۔اللہ تعالی نے نبی کریمﷺ کو خلق عظیم عطا فرمایا۔نرم مزاجی اور دل کی نرمی  آپﷺ  کی طبیعت کا خاصہ تھی۔امام ترمذی فرماتے ہیں کہ نبیﷺ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت و کشادگی رہتی تھی آپ ﷺ کے اخلاق وبرتاؤ میں ہمیشہ نرمی ہوتی آپﷺ سے معاملہ کرنا بڑا آسان ہوتاتھا ( شمائل محمدیہ حدیث353)

دل کی سختی کا علاج

آپ ﷺ کی نرمی مزاج کی وجہ  سے سخت سے سخت دل بھی آپ ﷺ کا گرویدہ ہو جاتا۔آپ ﷺ کا لہجہ بہت نرم تھا۔نرمی ونرم مزاجی کا عالم یہ تھا کہ کبھی بھی کسی کوڈانٹتے نہ تھے۔ حضرت انس آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں 10 سال تک رہے آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی نامناسب کام ہو جاتا توآپﷺ اس کام کرنے والے کو مورد الزام نہ ٹھہراتےاور نہ ہی یہ کہتے کہ تم نے یہ کیا کر دیا  تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا بلکہ فر ماتے اللہ کو ایسا ہی منظور تھا۔اس لئے اگر کسی سخت دل شخص سے واسطہ پڑ جائے تو آپ نرمی  مزاج  اور نرم دلی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ایسا کرنے سے سخت سے سخت دل انسان بھی آپ کا گرویدہ ہو جائے گا

اس کی نرم دلی نے مجھے مار ہی ڈالا

حالانکہ سخت دل تھا میں اپنی جگہ بہت

اللہ نرمی کوپسند کرتا ہے: اللہ تعالی نے جب فرعون کی جانب حضرت موسی علیہ السلام کو بھیجا تو موسی علیہ السلام سے فرمایا کہ ترجمہ”تو اسے نرمی سے نصیحت کرنا  اس امید پر شاید کہ وہ  نصیحت قبول کرلے یا ڈر  جائے” اندازہ کیجئے کہ جس نے خدائی کا جھوٹا دعوہ کیا خود کو اللہ کا شریک  نہیں بلکہ نعوذباللہ رب کہلوایا یعنی ازروئے قرآن وہ ظلم عظیم سے بھی بڑے  کفر کا ارتکاب کر بیٹھا ایسے شخص کے لئے بھی اللہ تعالی موسی علیہ السلام  سے فرماتے ہیں کہ اس سے نرمی  سے بات کرنا۔کتنے بڑے ہیں حوصلے  پرور دگار کے۔ اللہ تعالی کتنے بڑے حلیم ہیں کہ  پھر بھی کہ رہے ہیں کہ اس سے نرم  لہجے سے بات کرنا ۔ سبحان اللہ کیسا نرمی کا معاملہ اللہ کی طرف سے اختیار کیا جارہا ہے۔کیا ہم اپنے دشمن کے ساتھ نرم مزاجی کا ایسا معاملہ روا رکھتے ہیں؟

نرم مزاجی پر اشعار

تونے چاہا ہی نہیں حالات بدل سکتے تھے

آنسو میرے تیری آنکھوں سے بھی نکل سکتے تھے

تونے جانا ہی نہیں الفاظ کی تاثیر کو

نرم لہجے سے تو پتھر بھی پگھل سکتے تھے

سیرت النبیﷺ:سیرت رسولﷺ میں ہمیں یہ واقعہ ملتا ہے کہ ایک شخص کا نبی علیہ السلام کی طرف کچھ ادھار تھا  وہ شخص وقت مقررہ سے قبل ہی بارگاہ رسالت میں آپہنچا اور بڑی سختی کے ساتھ مطالبہ کرنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمر نے نبیﷺ سے ٖفرمایا کہ مجھے حکم دیا جائے کہ میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں۔نبی ﷺنے فرمایا عمر ایسا نہیں کرتے تمہیں چاہیئے تھا کہ اس سے کہتے کہ نرمی سے مطالبہ کرے اور مجھے کہتے کہ اس کا ادھار ادا کروں۔اب جاؤ اور اسے ادھار لوٹاؤ اور ہاں کچھ زیادہ بھی دینا کیونکہ اسے تکلیف پہنچی۔

فرمان رسولﷺ:ام المومنین حضرت عائشہ سےمروی ہے کہرسولﷺ نے فرمایا کہ جب کسی طرز عمل رویئے یا معاملے میں نرمی آجائے تو یہ نرمی اس عمل کو نہایت خوبصورت اور مزین بنادیتی ہے اور اس کے برعکس کسی عمل اور رویئے سےنرمی نکل جائے اور اس کی جگہ سختی آجائے تو وہ اچھے سے اچھے عمل کو بھی بد صورت اور کم درجہ بنا دیتی ہے(صحیح مسلم حدیث254)

نرمی پر اور نرم دلی پر احادیث:حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ اے اللہ جو شخص میری امت کے کسی معاملے کا ولی بنا اور پھر اس نے ان پر سختی کی تو  ،تو بھی اس پر سختی فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کاولی(ذمہ دار یا صاحب امر) بنا پھر اس نے ان سے نرمی برتی تو ،تو بھی اس سے نرمی فرما۔صھیح مسلم حدیث(1828)حدیث بخاری ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچے تو نرمی کرے  .خریدے تو نرمی کرے اور جب اپنے حق کا مطالبہ کرے  تو بھی نرمی اختیار کرے۔ (بخاری جلد دوم حدیث2076)صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ بے شک اللہ تعالی نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے۔اور نرمی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں فرماتابلکہ نرمی کے سوا کسی شے پر عطا نہیں فرماتا(صحیح مسلم حدیث6601)   جب تک کوئی شخص نرم مزاجی  کا برتاؤ جاری رکھتا ہے تو اللہ تعالی خیر وبرکت کا نزول اس کی جانب جاری رکھتے ہیں اور جیسے ہی وہ نرم مزاجی کے معاملے میں کوتاہی برتتا ہے تو اللہ تعالی خیر وبرکت کو اس کی جانب سے روک لیا کرتے ہیں

جو نرم لہجے میں بات کرنا سکھا گیا ہے

وہشخص امداد مجھ کو کندن بنا گیا ہے

محبتوں کے نگر سے آیا تھا جو پیامی

گرا کے دیوار نفرتوں کی چلا گیا ہے

اسلئے ۔آج کے دور میں اپنے اندر نرمی کا  وصف پیدا کرنے کی بڑی ضرورت ہے ۔ نرم لہجے سے انسان کامیابیوں کو پا لیتا ہے ۔آج ہمارے معاشرے سے نرمی کا عنصر کلی طور پر نکل چکا ہے ۔ نرم مزاجی کو معاشرے میں رائج کرنا آج کے دور کی  اہم ضرورت ہے

ارتکاب گناہ پر نرمی:جو لوگ گناہ اور معیصت میں مبتلا ہو کر رسولﷺ  کی باگاہ میں حاضر ہو کر  اقرار جرم کرلیتے ان پر بھی نبیﷺ نرمی اور شفقت فرماتے۔ایک غامدیہ عورت نے نبیﷺ کے سامنے آکر  عرض کیا یارسولاللہﷺ میں نے گناہ کیا ہے آپ ﷺ مجھے پاک کردیجئے۔آپ ﷺ نے اسے واپس کردیا۔وہ دوسرے دن آکر پھر بولی خدا کی قسم میں زنا سے حاملہ ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا اچھا اگر ایسا ہے تو واپس جاؤ اور بچہ پیدا ہونے کے بعد آنا۔بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت اسے ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی۔عرض کیا کہ میرے بچہ پیدا ہو گیا ہے۔فرمایا جاؤ اسے جاکر دودھ پلاؤ جب رضاعت ختم ہوجائے تب آنا وہ عورت رضاعت ختم ہونے کے بعد آئی  تو ااس بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا کہنے لگی یارسول اللہ ﷺ اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور اب یہ روٹی کھاتا ہےپھر آپ ﷺ نے بچہ لے کر ایک مسلمان شخص کے حوالے کیا اور عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا۔آپ اندازہ لگائیں کہ مزاج نبوت میں کس قدر نرمی ہوا کرتی تھی کہ با ر بار آنے کے باوجود اس عورت سے نرمی کا برتاؤ جاری رکھا گیا بات بات پر نرمی بار بار نرمی یہ تھا نبوت کا وہ مزاج  جس پہ آج بڑے بڑے مفکر  انگشت بدنداں ہیں۔بقول غالب

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشہ کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں  جسے

نرمی کی فضیلت:رسول پاک ﷺ کا ارشاد عالی پاک ہے کہ جو دل کی نرمی سے محروم رہا وہ کل خیر سے محروم رہا۔مسلم ص 1072  ھدیث 6598  دل کی نرمی جس شخص کو عطا کی گئی گویا کہ اسے بھلائیاں ہی بھلائیاں عطا کر دی گئیں۔نرمی دل کے حامل لوگوں کو اللہ تبارک وتعالی بھی پسند فرماتے ہیں اور رسول پاکﷺ کی بارگاہ اقدس میں وہ مقبول ہوتے ہیں۔سیدنا عبداللہ ابن مسعودسے روایت ہے کہ فرمایا رسولﷺ نے کہ کیا میں تمہیں ایسے شخص کے بارے میں خبر نہ دوں جس پر جہنم حرام ہے؟پھر فرمایا جہنم نرم خو ، نرم دل اور آسان خو شخص پر حرام ہے۔نرمی دل اور نرم خوئی والے شخص کے بارے میں اس حدیث مبارکہ میں  جنت کی بشارت ہے۔آج جہاں ہم حصول جنت کی خاطر تگ ودو کرہے ہیں تو اس میں نرمی دل کے عنصر کو بھی شامل حال کرلیناچاہیئے.

حرف آخر:نرمی ،محبت  ،پیاراور نرم مزاجی جیسی صفا ت کو اپنے اندر پیدا کریں ۔یہ وہ لازوال صفات ہیں کہ انسان دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اس کی یہ صفات  اسے دوسروں کی نگاہ ودل میں  ہمیشہ کے لئے زندہ رکھتی ہیں۔ نرمی اختیار کیجئے اس لئے کہ جو درخت طوفان میں جھک جایا کرتا ہے وہ سلامت رہتا ہےاورسختی سے کھڑے رہنے والے درخت جڑوں سے اکھاڑ دیئے جاتے ہیں۔ سختی کا علاج  نرمی ہے اور نرمی کی مار کا کوئی علاج نہیں بقول محسن نقوی

 مجھے یقین ہے  محسن وہ پتھر ٹوٹ جائے گا

میں اس کے سخت لہجے پر محبت مار آیا ہوں

مزید پڑھیں سوچ کو بدلیں خود کو بدلیں

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی