Saturday, November 23, 2024
Homeتاریخ اسلامیفلسطین کا مسئلہ اور رومی سلطنت سے پہلی عرب اسرائیل جنگ

فلسطین کا مسئلہ اور رومی سلطنت سے پہلی عرب اسرائیل جنگ

مسئلہ مقدس سرزمین فلسطین اور اس کی تاریخ کے کئی ادوار گزرے ہیں جن میں قبل از مسیح دور ، رومن عہد ، بازنطینی دور حکومت ، ایوبی دور ، عثمانی دور اور پھر اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کا موجودہ دور ہے۔

محض دو سکوائر کلومیٹر کا رقبہ دراصل اسرائیل فلسطین تنازعہ کا سبب ہے۔ اس دو سکوائر کلومیٹر رقبے میں مسلمانوں کی مسجد اقصی، یہودیوں کا گمشدہ ہیکل سلیمانی اور دیوار گریہ اور عیسائیوں کا ٹیمپل ماؤنٹ واقع ہے۔

یہ تینوں مذاہب کے مقدس ترین مقامات ہیں۔ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول تھی اور یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرش کےلئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پرواز کی تھی ۔ یہیں دیوار گریہ ہے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا اور یہیں وہ کہیں گمشدہ ہیکل سلیمانی ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے یہودیوں کی عبادت گاہ کے طور پر جنون اور انسانوں سے تعمیر کروایا تھا۔

اسرائیل فلسطین تنازعہ کیا ہے ؟ اس کے تاریخی اسباب کیا ہیں؟ یہودی لابی کیسے فلسطین پر قابض ہوئی ؟ ان تمام حقائق اور تاریخ کو جاننے کےلئے اس مضمون کا مکمل مطالعہ کریں۔

یہودیت کی تاریخ:

یہودیوں کےلئے مقدس آسمانی کتاب زبور اور بائبل میں لفظ بنی اسرائیل استعمال ہوا ہے ۔ قدیم بنی اسرائیل ان قبائل کا مجموعہ تھے جو شام اور کنعان کے علاقوں میں رہتے تھے اور بت پرستی کے قائل تھے ۔

یہ قبائل فاقوں اور قحط سالی کی وجہ سے مصر منتقل ہوئے ، جہاں وہ اقلیت میں تھے۔ فراعنہ مصر نے ان کو اپنے مقاصد کےلئے غلام بنا لیا اور

ان کا خوب استحصال کیا گیا۔

رعمسیس دوم کے عہد میں بنی اسرائیل کے ان قبائل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ رعمسیس کا حکم تھا کہ بنی اسرائیل کا ہر لڑکا پیدا ہوتے ہی قتل کر دے کیوں کہ جوتشیوں کی پیشن گوئی کے مطابق اس کا خاتمہ ایک اسرائیلی کرے گا۔

قتل کے ڈر سے موسی علیہ السلام کی والدہ نے ان کو دریائے نیل کے سپرد کر دیا اور موسی علیہ السلام کی ٹوکری دریائے نیل سے فرعون کے محل میں پہنچی۔ فرعون کی بیوی آسیہ نے موسی علیہ السلام کی پرورش کی اور بعدازں جب موسیٰ علیہ السلام پیغمبر بنے تو انھوں نے فرعون کو توحید کی دعوت دی اور بنو اسرائیل پر مضالم بند کرنے کا کہا۔

موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کو مصر سے نکال کر لے جا رہے تھے کہ فرعون نے ان کا پیچھا کیا اور دریا برد ہوا۔

موسیٰ علیہ السلام کنعان اور مصر کے درمیان صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے اور چالیس برس بعد انھوں نے یہودیوں کو وہ مقدس سرزمین دکھائی جہاں یہودیوں کو آباد ہونا تھا۔ یہ ایک ہزار قبل مسیح کی تاریخ ہے۔

بنو اسرائیل نے ارض فلسطین پر ایک مضبوط حکومت قائم کی جس کے بادشاہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام بھی گزرے ہیں۔

شہر یروشلم حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہی 957 قبل مسیح کے لگ بھگ آباد کیا تھا اور یہاں ایک معبد بنوایا۔

بنو اسرائیل کے مجموعی طور پر 12 قبائل تھے۔ جن کے پاس اپنی اپنی زمینیں تھی۔ 722 قبل مسیح میں ساسانی سلطنت نے شمالی اسرائیل پر قبضہ کر لیا اور محض 2 قبائل اب یروشلم پر حکمرانی کر رہے تھے۔

چھٹی قبل مسیح بنو اسرائیل کےلئے مشکل صدی ثابت ہوئی۔ اس صدی میں بابلی سلطنت نے یہودیوں کی تمام سلطنت پر قبضہ کر لیا۔

587 قبل مسیح میں بابل والوں نے یہودیوں کو بے دخل کرنا شروع کر دیا اور یہودی مختلف ممالک میں ہجرت کرنے لگے جن میں مصر اہم ہے۔

539 قبل مسیح میں فارسیوں نے بابلی سلطنت کو ختم کر دیا اور اب تمام زمینوں پر وہ قابض ہو گے۔ فارسیوں نے مذہبی رواداری کو ترجیح دی اور یہودیوں کو ان کی زمینیں واپس عطا کیں۔ یہودیوں کی عظیم عبادت گاہ کی ازسر نو تعمیر کروائی۔ اسی دور میں بنی اسرائیل نے اپنی شناخت یہودیوں سے کرنا شروع کر دی ۔

334 قبل مسیح میں سکندر اعظم مقدونیہ سے مڈل ایسٹ پر حملہ آور ہوا اور فارسیوں کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ یہودیوں نے سکندر اعظم کی فوج میں شمولیت اختیار کی اور اس کے ساتھ دنیا بھر کا سفر کیا۔

جب سکندر اعظم ہندوستان سے واپس آیا اور بابل میں فوت ہو گیا تو یہودیوں نے سکندر اعظم کے بسائے شہر سکندریہ میں سکونت اختیار کر لی۔

پہلی صدی قبل مسیح تک یہودی قدرے مستحکم ہو چکے تھے۔ وہ یروشلم کے براہ راست حکمران تھے اور ایشیا اور یورپ میں ان کی آبادکاری بھی ہو چکی تھی۔

30 قبل مسیح کو رومن سلطنت نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ رومیوں نے یونانیوں اور یہودیوں سے کافی مراعات واپس لے لیں۔ یہودیوں نے مصر خاص کر سکندریہ شہر میں بےشمار بغاوتیں کیں مگر وہ ناکام ہوتے گے یہاں تک کہ 115 عیسوی میں سکندریہ شہر میں 50 ہزار یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔

تاہم تاریخ میں آگے بڑھنے سے قبل یہودیوں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے تنازعہ سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جنہیں یہودیوں کی ایما پر صلیب زدہ کیا گیا تھا۔

یہودی اور حضرت عیسی علیہ السلام

حضرت عیسی علیہ السلام کو جس وقت یروشلم میں نبوت عطا کی گئی بیت المقدس پر رومیوں کا قبضہ تھا اور یہ ایک رومی صوبہ تھا۔ یہودی حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات سے خوش نہ تھے بلکہ وہ ان پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھاتے تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کو نجات ہندہ ماننے سے انکار کر دیا اور ان نو مسیح تسلیم نہ کیا۔

یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہودیوں نے رومی گورنر کو حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف بھڑکایا اور رومیوں نے ان پر حملہ کیا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب زدہ کر دیا گیا تاہم ان کی روح اس سے قبل ہی پرواز کر چکی تھی ۔ یہودیوں نے رومیوں کے ذریعے ہر ممکنہ طریقے سے یسوع مسیح کے پیروکاروں کو اذیتیں پہنچائی۔

یہودیوں کی فلسطین سے بےدخلی

اسے حضرت عیسی علیہ السلام کی بددعا ہی سمجھیے کہ 66 عیسوی میں یہودیوں نے رومیوں کے خلاف بغاوت کر دی۔ 70 عیسوی میں رومیوں نے بغاوت ختم کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ ہیکل سلیمانی کو بھی جلا دیا گیا۔ بیشتر یہودی قتل ہوئے اور بہت سارے فرار ہو گے۔

115 عیسوی کو یہودیوں نے رومیوں کے خلاف دوسری بغاوت کی اور 135 عیسوی کو تیسری اور آخری بغاوت کی۔ آخری بغاوت میں 5 لاکھ یہودیوں کا قتل عام کیا گیا ، 50 یہودی قصبے اور 985 گاؤں جلا ڈالے گے اور یہودیوں کو یروشلم سے مکمل بےدخل کر دیا گیا۔

رومن بادشاہ ہیڈراین نے یہودیوں کی مذہبی کتاب توریت پر پابندی لگا دی ، یہودی علما کو پھانسیاں دے دی گئی ، عبرانی زبان بولنے اور لکھنے پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ اس نے یہودا خطے کا نام تبدیل کر کے اسے شامی فلسطین رکھ دیا ۔

بچے کچھے یہودی فلسطین سے فرار ہوئے اور عراق ، ترکی ، سپین ، جنوبی اٹلی ، جنوبی فرانس ، یونان اور سائپرس وغیرہ کے علاقوں میں منتقل ہو گے۔ اسے تاریخ میں Jews diaspora کہا گیا ہے۔

تیسری سے چھٹی صدی عیسوی تک یہودیوں کے حالات انتہائی ابتر تھے ۔ یورپ پر مختلف لادین قبائل حملہ آور ہو رہے تھے اور یہودیوں کو سخت اذیت مل رہی تھی۔

ان قبائلیوں مثلاً vesigoth , fransic , Germanic , Russ قبائل نے عیسائیت کو قبول کر لیا تھا اور یہ اب یہودیوں سے حضرت عیسی علیہ السلام کی شہادت کا انتقام سختی سے لے رہے تھے۔ بازنطینی سلطنت میں رومی اور یورپ میں نئی عیسائی ریاستوں نے یہودیوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا کہ انھیں اسلامی سپین کی صورت میں ایک پناہ گاہ مل گئی۔

مسلم اسپین اور یہودی : 700 تا 1200 عیسوی

سپین میں جب اموی خلافت قائم ہوئی تو انھوں نے یہودیوں کو وسیع پیمانے پر قبول کیا اور انھیں مراعات دیں۔ یہودیوں کو فوجی مشقت سے آزاد کیا گیا ، ان کی اپنی عدالتیں اور عبادت گاہیں قائم ہوئی تھیں۔

یہودیوں نے مسلمانوں کےلئے بھی علمی ، ادبی و سائنسی خدمات فراہم کیں ۔ کئی یہودی علما جیسے موسی بن مامون ، یہوداہ حلوی (شاعر، فلسفی)، ابن عزرا (مذہبی ماہر)، موسی ڈی لیون (صوفیانہ) وغیرہ نے نمایاں مقام حاصل کیا تھا۔

دوسری طرف مشرق وسطی اور عرب ممالک میں بھی یہودی خوشحال زندگی گزارنے لگے تھے۔ مسلمانوں نے ان کو مکمل آزادی دی تھی ۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کا امن معاہدہ قائم کیا تھا اور بیت المقدس جب مسلمانوں کے دائرہ اختیار میں آ گیا تو یہودیوں کےلئے اس کے بند دروازے پھر سے کھل گے ۔

یہ کہنا بجا نہ ہو گا دوسری صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی تک یہودیوں کےلئے خدا نے زمین تنگ رکھی اور اگلے چار سو سال تک انھوں نے مسلمانوں کی زیر سرپرستی خوشحالی کا دور گزارا۔

صلیبی جنگیں اور یہودی

عیسائیوں نے گیارھویں صدی عیسوی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں چھیڑے رکھی ہیں۔ اس جنگوں کا مقصد بیت المقدس کو فتح کرنا ، مشرق وسطی میں عیسائیت کی حکومت قائم کرنا تھا۔ پہلی صلیبی جنگ میں جب عیسائی افواج نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انھوں نے وہاں مسلمانوں اور یہودیوں کو بیدردی سے قتل کیا۔ یہودیوں کو یورپ کے ممالک سپین ، جرمنی اور فرانس سے بھی جلا وطن ہونا پڑا اور وہ پولینڈ اور لتھوانیا میں آباد ہوئے۔

یہودیوں یورپ میں : 12 ویں صدی سے 15 ویں صدی تک

یہ عرصہ یہودیوں پر خاصا تنگ رہا ، 1215 میں پوپ انوسنٹ سوم نے یہ اعلان کیا کہ یہودیوں کو ایک مخصوص لباس ، ٹوپی اور نشان پہننا ہو گا تاکہ وہ دور سے پہچانے جا سکیں ۔ مغربی یورپ کی سرزمین پر یہودیوں کے عرصہ حیات جو تنگ کئے رکھا گیا ۔ انھیں صرف مخصوص علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت تھی جسے گیٹوز کہا جاتا تھا۔ اکثر و بیشتر ان پر بچوں کی گوشت خوری کا الزام لگایا جاتا اور ان کی نسل کشی کرنے کےلئے حملے کئے جاتے تھے۔ مغربی یورپ سے یہودیوں نے مشرقی یورپ میں آباد کاری کی۔

یہودیوں : 15 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک

15 ویں صدی میں جب یورپ میں چرچ کا اثر و رسوخ کم ہوا تو یہودیوں کو راحت نصیب ہوئی۔ ہالینڈ ، جرمنی ، آسٹریا ، انگلینڈ ، ہیپسبرگ ایمپائر میں ان پر دروازے کھولے گے۔ دراصل ان ممالک کو امیر افراد اور کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی اور یہودی یہ ضرورت پوری کر سکتے تھے۔ ابھی بھی یہودیوں کا شمار دوسرے درجے کے شہریوں میں ہوتا تھا تاہم انقلاب فرانس کے بعد انھیں شہریت دے دی گئی۔

یہودی : اٹھارویں صدی کے بعد

یورپ میں اٹھارہویں صدی میں انقلابی تبدیلیاں آئیں اور بادشاہت کو ختم کر کے جمہوری نظام حکومت متعارف کروایا گیا ۔ ان حکومتوں نے یہودیوں کو شہریت دی اور انھیں کافی راحت نصیب ہوئی۔

انیسویں صدی میں 1.5 ملین یہودی مغربی یورپ میں اور 5 ملین یہودی روس اور مشرقی یورپ میں آباد تھے۔ جب روس میں انتشار شروع ہوا تو ان کی اکثریت ہجرت کر کے مغربی یورپ میں پناہ گزین ہوئی۔

یہودیوں کو اب یہ احساس ہونے لگا کہ وہ دنیا کے قدیم مہاجر ہیں جو پچھلے دو ہزار سال سے غیر اقوام کے رحم و کرم پر ہیں ۔ یہودیوں کے اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق یہ زمین فلسطین تھی جو ان کی promised land ہے۔ اہم مسلہ یہ تھا کہ فلسطین عثمانی سلطنت کے پاس تھا ، اگرچہ عثمانی سلطنت میں مذہبی رواداری تھی تاہم یہودیوں کےلئے خودمختار ریاست قائم کرنا ناممکن سا خواب تھا۔

عثمانیوں نے 1856 میں ایک قانون پاس کیا جس میں غیر ملکیوں کو عثمانی سلطنت کی حدود میں زمین خریدنے کی اجازت دی گئی تھی جس سے یہودیوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور کافی زمین فلسطین میں خریدیں تاہم یہ مجموعی فلسطین کا ایک فیصد بھی نہیں تھی۔

1881 میں عثمانیوں نے عیسائیوں اور یہودیوں پر زمین کی خریداری کرنے پر پابندی نافذ کر دی تھی۔ یہودیوں کو عثمانی سلطنت میں آباد کاری کی اجازت بھی دی گئی لیکن اس شرط کہ ساتھ کہ وہ فلسطین کے علاوہ کہیں بھی آباد ہو سکتے ہیں ۔ یہودیوں نے اپنا مقام استنبول رکھا اور وہاں اپنی لابی شروع کر دی۔

1904 میں یہودیوں پر زمین خریدنے کی پابندی ختم کر دی گئی اور اب انھوں نے وسیع پیمانے پر منظم انداز میں زمین خریدنا شروع کر دی تھی۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کھائی ۔ اتحادیوں نے عظیم ترک خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے اور کچھ علاقے عربوں کو دے دیے اور کچھ پر خود قبضہ کر کیا تھا۔

یوں فلسطین کا کنٹرول برطانیہ کے ماتحت آ گیا ۔ 1917 میں بالفور معائدہ کا اعلان کیا گیا اور یہودیوں نے برطانیہ نے وعدہ کیا کہ وہ ان کےلئے ایک قومی گھر فلسطین کو بنائیں گے۔

1920 سے 1940 تک لاکھوں یہودی فلسطین میں آباد کئے گے ۔ مقامی فلسطینیوں سے ان کی زمینی اونے پونے داموں میں زبردستی خریدیں گئیں یا انھیں بے دخل کر دیا گیا تھا۔

اس آباد کاری میں ہٹلر کے دور میں اضافہ ہوا جس نے پچاس لاکھ یہودیوں کو ہولو کاسٹ میں مار دیا تھا۔

برطانیہ نے اپنی زیر نگرانی فلسطین میں یہودی آباد کاری کروائی اور فلسطین کو تقسیم کر کے دو آزاد ممالک اسرائیل اور فلسطین کا منصوبہ پیش کیا۔

ابتدائی منصوبے کے مطابق 56 فیصد فلسطین اسرائیل ہو گا اور 44 فیصد علاقہ فلسطین ہو گا جبکہ یروشلم کو ایک انٹرنشینل سٹی کا سٹیٹس حاصل ہو گا کیوں کہ یہ ہر مذہب کے پیروکاروں کےلئے مقدس ہے۔

اقوام متحدہ کا یہ منصوبہ یہودیوں نے تسلیم کر لیا مگر عرب اقوام کےلئے یہ ناقابل قبول تھا۔ یہودی جو صرف مہاجر تھے ان کےلئے الگ ریاست کی تشکیل ان کے سینے میں ایک خنجر پیوست کرنا تھا۔ عربوں کو اس وقت ہوش آیا جب یہودی فلسطین میں اپنے قدم جما چکے تھے اور اپنی فوج تک بھی تشکیل دے چکے تھے۔

14 مئی 1947 کو صہیونیت نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا ۔ اسی دن پانچ عرب ممالک سعودی عرب ، مصر ، شام ، لبنان اور عراق نے نوزائیدہ فلسطین کے خلاف اعلان جگ کر دیا اور تل ابیب پر فضائی حملہ کیا۔ اسرائیلی نہ صرف جلدی سنبھل گے بلکہ انھوں نے عربوں کو ذلت آمیز شکست بھی دے ڈالی۔ جنگ کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو جلا وطن کر دیا گیا اور فلسطین کے قیام میں بھی رکاوٹ ڈال دی گئی۔ جنوری 1949 میں جب آرمسکٹ معائدہ ہوا فلسطینی غزہ کے علاؤہ دیگر کئی اہم علاقے کھو چکے تھے۔

فلسطین اسرائیل تنازعہ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی