تحریر : ڈاکٹرمحمد یونس خالد
اولاد کی تربیت کے حوالے سے عام طور پرہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ کہ ہر انسان اپنے فہم اور مشاہدےکے مطابق اولاد کی تربیت کی کوشش کررہاہوتا ہے۔ جس میں کوئی نہ کوئی غلطی ضرور پائی جاتی ہے۔ مثلا بعض لوگ اولاد کی تربیت صرف مغربی طرزپرکررہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو دین سے بالکل بے بہرہ کردیتے ہیں۔ حالانکہ ایک مسلمان کی بنیادی ضرورت ہے، کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت دینی بنیادوں پر کرے۔
جامع تربیت ضروری کیوں
دوسری طرف بعض لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم وتربیت اس انداز سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ ان کو جدید علوم سے بالکل ناآشنا کردیا جاتاہے۔ حالانکہ یہ دوسری طرف کی انتہا ہے۔ ہمارا جدید نظام تعلیم بھی رٹے اور نمبروں کے حصول کی دوڑ لگوانے والا نظام تعلیم بن کررہ گیا ہے۔
چنانچہ لوگ نمبروں کے حصول کو ہی بچے کی تعلیم وتربیت کی آخری منزل سمجھنے لگتےہیں۔ اور بچے کی تربیت کے دیگرتمام پہلووں کو نظرانداز کردیاجاتا ہے۔ اب بچے موجودہ ایجوکیشن سسٹم کے تحت نمبرتو بہت اعلی حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کی پوری شخصیت کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
ان کو جذباتی توازن کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کو دینی اور اخلاقی وکرداری تربیت کی کمی کاسامنا ہوتا ہے وغیرہ۔یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ڈگریاں اور مارکس تو بہت بڑھ جاتے ہیں لیکن شخصیت سازی اور کردار سازی کا عمل پیچھے رہ جاتا ہے۔نیز ایسے بچوں میں پریکٹیکل دنیا کی اسکلز اورمہارتیں پروان نہیں چڑھتیں۔
بہرحال ان تمام انتہاؤں سے بچ کر ہمیں اپنے بچوں کی عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق جامع تربیت کی کوشش کرنی چاہیے۔ ذیل میں تعلیم وتربیت کے ان پہلووں پر روشنی ڈالی جائے گی، جن پر کام کرکے ہی والدین اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوسکتے ہیں۔ اوریہ اولاد کی جامع تعلیم و تربیت کے لئے نہایت ضروری ہیں۔
:جسمانی تربیت
ظاہر ہے جسم ہی وہ پیکر ہے جس میں تمام انسانی خصوصیات پروان چڑھ سکتی ہیں۔ جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہیں۔ اور ان تمام خصوصیات کا حامل جسم ہوتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک صحت مند دماغ صحت مند جسم میں پایا جاتا ہے۔ تو سب سے پہلے انسانی جسم کو صحت مند، متناسب، متوازن اور تہذیب یافتہ ہونا ضروری ہے۔
اگر تربیت کے معاملے میں انسانی جسم کو نظر انداز کیا جائے۔ صرف عقل وشعور کو بڑھانے پر توجہ دی جائے، تو یہ جامع تربیت کے خلاف ہوگا۔ جسم کو صحت مند، متناسب، مہذب اور متوازن بنانے کے لئے بنیادی طور پر تین چیزوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔
:خوراک
خوراک انسانی جسم کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس میں سمجھوتہ کرنا بچے کی نشوونما میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بچہ جب تک ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، تو قدرت کی طرف سے اس کی غذا ایک نالی کے ذریعے سے پہنچادی جاتی ہے۔ پیدائش کے بعد اس کے لئے سب سے بہترین اور مکمل غذا ماں کا دودھ ہوتاہے۔ بچے کو ماں کادودھ پلانے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔
اگرماں کا دودھ کم ہو تو ابتدائی چار ماہ تک بچے کو اوپر کا دودھ دینے کی بجائے ماں کو کوئی ایسی غذا دی جائے جس سے اس کا دودھ بڑھ جائے۔ چار ما ہ کے بعد ماں کے دودھ کے ساتھ دیگرنرم غذائیں آہستہ آہستہ دی جاسکتی ہیں۔ بچوں میں اچھی غذالینے کی عادت ابتدائی دنوں سے ہی ڈلوانے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ بعدمیں بچے صحت مند اورآئیڈیل غذا کو چھوڑ کر غیرصحت مند غذا وںکی طرف بھاگتے ہیں۔
اس وقت بچوں کی متوازن غذا کا مسئلہ معاشرہ کا اہم مسئلہ بن کررہ گیا ہے۔ کہ بچے وہ غذا نہیں لینا چاہتے جو ان کو لینا چاہیے۔ اس کی جگہ وہ جنگ فوڈز لینے کے لئے ضد کرتے ہیں۔ اس کا حل بچوں کی ڈانٹ ڈپٹ نہیں، بلکہ بچپن سے ہی اس کی غذا کے متعلق محتاط رہنا ہے۔
صحت مند غذاوں کی چارٹ تیار کیجئے
بچوں کے لئے آئیڈیل، متوازن اور صحت مند غذا کیا ہوتی ہے؟ اس عنوان کے تحت جین بیکر اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ”اچھی غذائی عادات کسی کی زندگی میں ابتداء ہی سے ڈالی جاسکتی ہے۔ ابتدائی 8سال غذائی عادات کو ڈھالنے اور بنانے کے لئے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ اور یہ اہم ہے کہ بچوں کے لئے مختلف النوع خوراک گھر پر ہی تیار کی جائیں۔ خوراک میں روٹی، دلیہ، اناج، پھل اور سبزیاں شامل ہونی چاہییں۔ اور یہ ہماری خوراک کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہیں۔
دوسری اہم کیٹیگری پروٹینز کی ہے۔ جس میں چکنائی کے بغیر گوشت، سویا پروڈکٹس اور دالیں شامل ہیں۔ اور آخری کیٹیگری جو شاذ ونادر استعمال کرنی چاہیے، وہ چکنائی، آئل اور میٹھا ہے۔ گھر میں ایسے سادہ کھانے پکائے جائیں جو سیچوریٹیڈہوں اورکولیسٹرول سے پاک ہوں۔ اورکھانوں میں نمک اور شکر اعتدال سے موجود ہوں۔ بڑھتے ہوئے بچوں کو کیلشیم کی زیادہ مقدار درکار ہوتی ہے۔ لہذا انہیں گہرے ہرے پتوں والی سبزیاں، تل اور مچھلی کھلانی چاہیے۔
:آرام
جسمانی نشوونما کے لئے متوازن غذا کے علاوہ مناسب آرام اور نیند بھی ضروری ہے۔ چنانچہ جسمانی تربیت میں بچوں کے مناسب آرام کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے۔ مناسب آرام سے مراد ہرانسان کے لئے اتنی نیند ہے، کہ اس کے بعد وہ اپنے آپ کو تروتازہ محسوس کرے۔ اس کو مزید سستی اور اونگھ کی سی کیفیت کا سامنا نہ کرناپڑے۔ بچپن میں نیند کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جبکہ بڑے ہونے کے بعد اس میں کمی آتی ہے۔ جو چوبیس گھنٹوں میں تقریبا چھ سے آٹھ گھنٹے کے درمیان ہونی چاہیے۔
نیند کے لئے کوئی لگابندھا اصول مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ بعض لوگ چھ گھنٹے سو کر اٹھنے کے بعد خود کو تازہ دم محسوس کرنے لگتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کو آٹھ گھنٹے سونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں یہ بھی خیال میں رہنا چاہیے کہ ضروری آرام سے زیادہ سونے سے بھی انسان سستی اور تکان کا شکار ہوسکتا ہے۔ اس لئے بچوں کی تربیت میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، کہ ان کو صحت مند رہنے کے لئے کتنی نیند کی ضرورت ہے۔
:ورزش
جسمانی صحت کے لئے متوان غذا اور مناسب آرام کے علاوہ جسمانی ورزش بھی ضروری ہے۔جسمانی ورزش سے خوراک جزوبدن بن جاتی ہے۔ اور پسینہ نکلنے سے جسم کے فاسد مواد خارج ہوجاتے ہے۔اگرا نسان کھا پی کر سویا رہے یا بیٹھا رہے اور ورزش نہ کرے۔ تو اس کے بے شمار نقصانات ہیں۔ اس سے غذا جسم کو نہیں لگتی۔
جسم متوازن نہیں رہتا بلکہ بے ہنگم ہوجاتا ہے۔انسان موٹاپے کا شکار ہوجاتا ہے۔اس کے علاوہ انسان نفسیاتی طور پر بھی غیرمتوازن ہوجاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ بچہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ باہر میدان میں نکل کر جسمانی مشقت والا کھیل کھیلے ۔خوب بھاگ دوڑ کرے، پسینہ نکالے اور اپنے جسم کو خوب تھکائے۔اس سے اس کے جذبات اور عقل وشعور پر انتہائی مثبت اثرات پڑیں گے۔
خوراک، آرام اور ورزش کے علاوہ جسمانی تربیت میں ایک اور اہم چیز صفائی ستھرائی ہے۔ صفائی ستھرائی کو دین میں آدھا ایمان کہاگیا ہے، کہ اس کے بغیر ایمان ہی نامکمل رہ جاتا ہے۔ اور جسمانی لحاظ سے اس کی اہمیت یہ ہے، کہ اس سے بہت سی بیماریوں سے بچاجاسکتاہے۔ صفائی کا خیال رکھنے والا انسان جسمانی وروحانی دونوںطورپر تروتازہ رہتا ہے۔ اللہ اور اس کی مخلوق میں ہردلعزیز بن جاتا ہے۔لہذا جسمانی صفائی بچے کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہونا چاہیے ۔ مزیدپڑھیے۔
:جذباتی تربیت
انسان کے ذہنی وفکری عمل اور نتیجے میں ظاہر ہونے والے کردار اور رویے کو نفسیات کا نام دیا جاتا ہے۔ جذبات جمع ہے جذبہ کی یہ عربی زبان سے اردو میں آیا ہے۔ عربی میں جذب یجذب باب(ض) سے مصدر ہے ،جس کے معنی کسی چیز کو اپنی طرف کھینچنے کے آتے ہیں۔جذبات اس وقت پیداہوکر موثر ہوجاتے ہیں، جب بیرونی عوامل انسانی شعور کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اورشعور یا حواس ان بیرونی عوامل کے زیراثر چلے جاتے ہیں۔
جذبات کا مرکز انسانی قلب ہوتا ہے۔ یہیں جذبات بنتے ہیں پنپتے ہیں اور بعض اوقا ت یہ جذبات انسانی عقل وشعور اور حواس کو بھی اپنے قابو میں کرلیتے ہیں۔ مثلاجب انسان سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اچھی چیز ہے اسے کھاؤتو وہ کہتا ہے کہ میرا دل نہیں کررہا۔ حالانکہ کھانا تو منہ کا کام ہے دل کا نہیں۔
لیکن جب تک دل اجازت نہ دےمنہ اپنا کام انجام نہیں دیتا۔ یہی مثال شعور اور تمام حواس کی ہے، کہ جب تک جذبا ت انسانی حواس پر قابض رہتے ہیں۔ تب تک حواس اور شعور اپنا کام سر انجام نہیں دے پاتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی کردار پر اس کے جذبات کا گہرا اثرہوتا ہے۔ انسانی جذبات میں اہم ترین جذبات یہ ہیں۔ مثلا محبت ،نفرت، غصہ ا ورپیار، خوشی وغم، تکالیف کا احساس، تجسس اور جذباتی کیفیت میں ہونا وغیر ہ۔ نیز حسد ورشک، بغض وکینہ، تکبروریا، صبر وشکر، ہمدردی وغم گساری اور تواضع وانکسار ی وغیر ہ بھی انسان جذبات میں داخل ہیں۔
جذبات کیا ہیں؟
جذبات کو متوازن بنانے پر کام کیجئے
جب تک نفسیات اور جذبات پر کام نہ کیا جائے، ان کو اچھی طرح سمجھ کرمتوازن نہ بنایاجائے۔ تب تک انسان کا ظاہری کرداراور رویہ بھی اعلی اور مثالی نہیں بن سکتا۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیاکہ جذبات دراصل خارجی عوامل کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ بچوں میں جذباتی توازن پیداکرنے اور نفسیات پر کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے ماحول کو درست کیا جائے۔ بچے کو جب اچھا ماحول ملتا ہے جس میں نیک جذبات کی پرورش کی جاتی ہو۔ تو بچہ میں نفسیاتی طور پر توازن پیدا ہوجاتاہے۔
اوپر جن جذبات وکیفیات کا بیان ہوا یہ سب فطری طور پر بچے کی جبلت میں پیدائش کے وقت سے موجود ہوتے ہیں۔ ایک مربی کاکام صرف ان میں توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اچھے جذبات کو پروان چڑھانا اور برے جذبات پر کنٹرول کرنا بچے کو سکھانا پڑتا ہے۔ جب والدین اور مربی بچے کو مناسب ماحول فراہم کرتے ہیں۔ اس بچے کو گھر میں والدین کی طرف سے پیار ملتا ہے محبت ملتی ہے۔ غلطی پر غیر ضروری غصے کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ پیار سے سمجھادیا جاتا ہے۔
جذبات پر عقل کو حاوی رکھئے۔
جذبات پر عقل کو حاوی رکھا جاتا ہے، اور بچے کو بھی یہی کچھ سکھایا جاتا ہے۔ تو نتیجے میں بچے بھی نفسیاتی اور جذباتی طور پر متوازن ہوجاتے ہیں۔ ان کی نفسیات اور جذبات نارمل انسان کے ہوتے ہیں۔ اس کا ذہنی عمل اور کردار دونوں درست کام کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات اور خواہشات کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوتا۔ بلکہ اپنے جذبات وخواہشات کو عقل کی روشنی میں پرکھنا جانتا ہے۔
مسلمان والدین کا شیوہ یہ ہونا چاہیے، کہ جذبات وخواہشات کو سب سے نیچے رکھ کر عقل کو ان پر حاوی رکھیں۔ جذبات وخواہشات کے تقاضوں کو عقل کی میزان پر پہلے تول لیں پھر ان پر عمل کریں۔ اور عقل پر وحی الہی کو حاکم بنائیں۔ توایک مناسب تناسب وجود میں آئے گا۔ اسی بات کی توفیق ہونے پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔کہ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے اس قابل بنایا کہ میں خواہشات وجذبات کو عقل کی ترازو میں تولتاہوں۔
اور عقل کو وحی الہی کے اصولوں پر پرکھتا ہوں۔یوں زندگی کے فیصلوں اور رویوں میں سب سے اوپر شریعت ہوتی ہے، پھر عقل اورپھر جذبات وخواہشات کا نمبر آتاہے۔
بچوں کی تربیت میں یہی ترتیب ملحوظ رکھیں
والدین اور مربیوں کو چاہیے کہ بچوں کی تربیت میں یہی ترتیب ملحوظ رکھیں۔ کیونکہ ایک مسلمان کی نظرمیں فائنل اتھارٹی شریعت الہی ہے۔ شریعت کے بعد دوسرا نمبر عقل کا ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کے اندر یہ امتیازی جوہررکھا ہے جو دیگرمخلوقات سے اس کو ممتاز کردیتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے اس کو جزاء وسزا کا مکلف بھی بنایا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بچوں کو بھی اپنے جذبات وخواہشات کو عقل کے تناظر میں پرکھنا سکھادینا چاہیے۔
جو والدین اپنے بچوں کو یہ ترتیب سکھانے میں کامیاب ہوگئے یقینا وہ اپنی تربیت میں کامیابی کے اعلی مرتبے کو پہنچ گئے۔ جذباتی طور پر بچوں کی متوازن شخصیت کو پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ والدین ان کو غیر مشروط محبت سے ہمکنار کریں۔اپنے بچوں کے ساتھ خوشگوار اور مضبوط تعلقات استوار کریں۔
خود بھی خوش رہیں اور بچوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ بچوں پر بھرپور اعتمادکا اظہار کریں۔ ان کی صلاحتیوں اور کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھنا بچے کی صحت مند نفسیات کے لئے زہر قاتل ہے۔
بچوں میں جذباتی توازن کیسے پیدا کریں؟
والدین خود بھی جذباتی توازن برقراررکھیں۔
والدین کا جذباتی اور نفسیاتی طور پر متوازن رویہ بچوں کے سامنے ایک نمونہ ہوتاہے۔ اس کو دیکھ کربچے خود کو بہتر کرسکتے ہیں اور جذباتی طور پر متوازن بنا سکتے ہیں۔ ورنہ اگر خدانخواستہ خود والدین جذباتی اور نفسیاتی طور پر نارمل نہ ہوں۔ بلکہ شدید جذباتی اور نفسیاتی بحران کا شکار ہوں۔ وہ بہت جلد غصہ میں آتے ہوں۔غصہ میں آپے سے باہر ہوجاتے ہوں۔
کبھی اپنے چہرے سے خوشی کااظہارنہ کرتے ہوں۔ تو یقینا ان کے بچو ں پر اس کا براہ راست اثر پڑے گا ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ والدین خود ابنارمل ہوں اور بچہ کو نارمل ہونا سکھا سکیں ۔ چنانچہ ایسے والدین کے لئے مشورہ ہے کہ وہ اپنے اوپر کام کریں۔ اگر بچپن میں کہیں خود ان کی اپنی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں ہوپائی تھی، یا وہ کسی بحران کا شکار ہوکر نفسیا تی عارضے یا جذباتی طور پر کسی انحراف کا شکار ہوگئے تھے۔
اب بچے کی نفسیاتی اور جذباتی تربیت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے پہلے اپنے اوپر کام کریں۔ اپنے جذبات کو متوازن بنائیں۔گھر اور بچے کا ماحو ل درست ہو تو بچہ خود بخود نارمل ہوگا۔ انشاء اللہ
:سماجی تربیت
انسان اور سماج کے درمیان نہایت قریبی رشتہ ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سماج انسان کی فطر ی ضرورت ہے۔ اسی فطر ی ضرورت کے پیش نظرانسان ابتداسے ہی گھر خاندان اور پھر معاشرہ ترتیب دیتا رہا ہے۔اسی معاشرتی انسیت کی وجہ سے امام غزالیؒ نے انسا ن کو سماجی حیوان قراردیا۔
اب معیار یہ ہے کہ جو انسان جتنا زیادہ سوشل ہو گا انسانوں سے پیار کرے گا۔ ان کے دکھ درد اور خوشی غمی میں شریک ہوگا۔انسانوں کے ساتھ ملنا جلنا،اٹھنا بیٹھنا اور باہمی تعامل کو پسند کرے گا، وہ اتنا ہی سوشل کہلائے گا۔ اور زندگی کے میدان میں اتناہی کامیاب رہے گا۔
اسی ضرورت کے پیش نظر بچے کی سماجی تربیت نہایت ضروری ہے۔ جو والدین خود جتنے سماجی اور انسان دوست ہونگے، لوگوں سے اچھے تعلقا ت کی اہمیت کو نہ صرف جانتے ہونگے۔ بلکہ بھرپور طریقے سے نبھاتے بھی ہونگے، اتنے ہی ان کے بچے بھی سوشل ہونگے۔
آج کل سوشل جینئس ہوناباقاعدہ ایک اصطلاح بن چکا ہے ۔ یہ خصوصیت آج کے انسان کی کامیابی کی ضمانت کہلاتی ہے۔ چنانچہ اپنے بچوں کو سوشل جینئس بنانا والدین کی تربیت کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔
معاشرے کا ابتدائی یونٹ گھر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر ایک فیملی یا جوائنٹ سسٹم میں ایک سے زائد فیملیاں بھی ہوتی ہیں۔ گھرمیں والدین کے علاوہ بہن بھائی، چچا تایا، پھوپھی خالہ،بھانجے بھتیجے، کزنزاور دیگر رشتہ داربھی ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کو سماج سے جوڑییے۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو رشتوں کی پہچان کروائیں ۔ان کی اہمیت بتلائیں اوربچوں سے محسوس کروائیں۔ چھوٹے بڑے کی تمیز اور ادب آداب جو دین نے ہمیں سکھائے ہیں اور وہ ہماری اقدار کا حصہ ہیں بچوں کو ان کی تلقین کریں۔ اور گھر میں اس کا ماحول بنائیں۔ گھر اور خاندان سے باہر نکل کر پڑوسی، دیگر محلہ دار پھر شہر اور پھر پور ے معاشر ے سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔
آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ تقریبا پور ی دنیا ایک معاشرہ کاروپ اختیارکر چکی ہے۔ چنانچہ اپنے معاشرے سے جڑنا اور اپنے معاشرے کے افراد سے مانوس رہنا ہر شہر ی کی ذمہ داری بھی ہے اور ضرورت بھی بن چکی ہے۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو سوشل بنائیں۔لوگوں سے ملنے جلنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ان کو دوست بنانے کا موقع دیں، البتہ دوستوں کے انتخاب میں ان کی ضرور مدد کریں۔ کہ دوست وہ ہونے چاہییں جو زندگی کے بڑے مقصد میں ہمارے دست وبازو ہوں نہ کہ اس میں رکاوٹ ہوں۔
اس حوالے سے نبی کریم ﷺ کی ہد ایت بھی موجودہے آپ فرماتے ہیں:المرء علی دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل” انسان اپنے دوست کا ہم مذہب ہوتا ہے۔ تم میں سے ہر شخص کو یہ دیکھ لینا چاہیے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی کررہا ہے۔
بچوں کے دوستوں کے بارے میں والدین محتاط ہوں
اس حدیث میں واضح ہدایت موجود ہے کہ دوست دیکھ بھال کربنانے چاہییں۔ معاشرے میں ہرآدمی سے ملاتوجاسکتا ہے لیکن ہر ایک کو دوست نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کے لئے یہ معیار ہونا چاہیے کہ جو شخص زندگی کے بڑے مقصد میں آپ کا ہمنوا ہوسکتاہے۔ وہ دوست بنانے کے قابل ہے اور جو اس میں رکاوٹ ہے وہ دوست بنانے کے قابل نہیں۔
دوست آن باید کہ گیرد دست دوست
در پریشانی و درماندگی
اب ظاہر ہے بچوں کو اس معیار کی سمجھ تو نہیں ہوتی ،چنانچہ والدین کو اس سلسلے میں اپنے بچوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اسی طرح رشتہ داروں کے ہاں آنے جانے کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو فون کال کروائیں۔ نیز لوگوں میں گھل مل کررہنے میں ان کی مدد کریں۔ اس سے ان میں خود اعتمادی بڑھے گی جو انسان کی کامیابی کااہم راز ہے۔
تاہم ان تمام کاموں میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ کہیں زیادہ سوشلائز بنانے کے چکر میں زندگی کا اصل مقصد ہاتھ سے نہ جانے پائے۔
ظاہر ہے بچے نے اپنے والدین اور اساتذہ کی مدد سے اپنی زندگی کے کچھ اہداف اور ٹارگٹس متعین کئے ہونگے۔ زندگی کا ہر وہ کام جو انسان کو اس کے مقصد زندگی، وژن اور نصب العین کی طرف بڑھارہا ہو وہ قابل ستائش ہے۔ اور ہروہ کام جو اسےزندگی کے اصل مقصد اور ہد ف تک پہنچنے میں رکاوٹ بنے وہ کام حوصلہ شکنی کے قابل ہے۔
:ذہنی وشعوری تربیت
عقل وشعور اللہ تعالی کی خاص عطا ہے جس کے بل بوتے پر انسان دیگر مخلوقات سے برتر ہے۔ اور عقل وشعور کی وجہ سے ہی انسان ترقی کے اوج کما ل پر پہنچ چکا ہے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے اس خداداد شعوراورعقل کو جلا بخشنے کی شعوری کوشش کی جاتی ہے۔
جب عقل وشعور کو علم کی روشنی مل جاتی ہے، تووہ اپنا جوہر دکھلانے لگتاہے۔ یوں انسان ترقی کے مدارج طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ موجودہ زمانے میں انسان کی دنیاوی ترقی اور اس کی چکاچوندخداکی دی ہوئی عقل وشعور کو علم کی روشنی سے منور کرنے اور سائنس وٹیکنالوجی کے استعمال کی ہی مرہون منت ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی اور عصری تعلیم کے علاوہ ایک اور علم وحی الہی ہے ۔جس کو ہم قرآن و حدیث کا علم کہتے ہیں۔ اس علم کے پیکیج سے وجود میں آنے والے نظام کودین یا شریعت کہا جاتا ہے۔وحی پر مبنی علم کا یہ دائرہ سائنس وٹیکنالوجی اور جدید علم سے کہیں ماوراء اور فائق ہے۔
جہاں جاکر جدید علم یا سائنس وٹیکنالوجی کے حدود ختم ہوجاتے ہیں، وہاں سے وحی الہی کا دائرہ شروع ہوجاتا ہے۔ بہرحال سائنس وٹیکنالوجی اور وحی الہی کی شکل میں دونوں علموں سے انسانی روح ا ورشعور کو رہنمائی مل جاتی ہے۔
بچوں کی تربیت میں دینی وعصری علوم سے رہنمائی
اولاد کی ذہنی وشعوری تربیت میں ان دونوں علموں سے استفادہ کرنا عہدحاضر میں نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ان دونوں کے ملاپ سے ایسا جوہر پیدا ہوتا ہے۔ جوانسانی حیات اورلازوال کامیابیوں کے لئے ضروری ہے۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولا د کی ذہنی تربیت کے سلسلے میں سنجیدہ ہوجائیں۔
ان کے عقل وشعور کو وحی الہی کے نور سے منور کرنے کا انتظام کریں اور ساتھ ہی دنیاوی ترقی کے حصول کے لئے ان کو جدید علم سے بھی آراستہ کریں۔ اس سلسلے میں کسی ایک علم کو چھوڑ دینا ذہنی وشعور تربیت کے عمل کو تشفی نہیں دے سکتا۔
تاہم ان دونوں کی آئیڈیل ترتیب یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بچے کو دین کا علم سکھا یا جائے ۔بچہ جیسے ہی بولنے لگ جائے اس کو کلمہ طیبہ سکھایا جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: افتحو ا علی صبیانکم اول کلمۃ بلاالہ الا اللہ ولقنوھم عندالموت لاالہ الا اللہ (38)” اپنے بچوں کو اول کلمہ لاالہ الا اللہ سکھاؤ اور موت کے وقت بھی انہیں لاالہ الا اللہ کی تلقین کرو۔
ایک دوسری حدیث میں فرمایا: من ربی صغیراً حتی یقول لا الہ الا اللہ لم یحاسبہ اللہ (39)”جو شخص اپنی اولاد کی اس طرح تربیت کرے، کہ وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگے تو اللہ تعالی اس کا حساب کتاب نہیں کریں گے۔“
پہلے قرآن سکھائیے پھر اسکول پڑھائیے۔
اس بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ فرماتے ہیں: سب سے پہلے مسلمان بچے کو قرآن سکھانا چاہیے۔ ضروریات دین کی تعلیم دینی چاہیے، خواہ اردو میں یا عربی میں ۔مگر انگریزی سے قبل ہو۔ یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ آنکھ کھلتے ہی ان کو انگریزی میں لگادیا جائے،اول تو قرآن شریف پڑھاؤ۔“(40)
شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ”بچپن میں ایک مرتبہ بچوں کو قرآن کریم ضرور پڑھاؤ۔ اس کے قلب کو قرآن کریم کے نور سے منور کرو۔ اس کے بعد اس کو کسی بھی کام میں لگاؤ ان شا ء اللہ قرآن کریم کے انواروبرکات اس کے اندر شامل حال ہونگے۔ تجربہ یہ ہے کہ جو بچے مکتب میں قرآن کریم پڑھ کرجاتے ہیں۔ تو وہ کسی بھی ماحول میں چلے جائیں ایمان کا بیج ان کے دل کے اندر محفوظ رہتا ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بچے کو دینی تعلیم اور جدید تعلیم دونوں سے آراستہ کرنا چاہیے۔ دونوں کی اپنی اپنی ضرورت ہے بچے کو کسی ایک علم سے محروم کرنا اس کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ البتہ ترتیب میں دینی علم مقدم ہے کہ شروع اسی سے کیا جائے۔ اور پھر اس کو دنیا کی اعلی تعلیم بھی دلائی جائے۔
اس سے انشاء اللہ بچے شعوری طور پر تشفی محسوس کریں گے۔ اوریہ بچے والدین کے لئے دنیا میں سہارا نیک نامی کا ذریعہ اور آخرت کے لئے صدقہ جاریہ اور سرخروئی کا سبب بنیں گے۔ مزید پڑھیے
Masha Allah. Good efforts. May Allah bless you.
Masha ALLAH Very good effort to resolve Parenting & Tarbiyah