ضیاء چترالی
ایک سعودی بھائی لکھتے ہیں: میں مکہ مکرمہ سے اپنے ماموں کے ساتھ جدہ جا رہا تھا۔ اگر آپ جدہ سے مکہ جائیں تو ہائی وے کے کنارے ویرانے میں ایک مینار والی مسجد نظر آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: میں نے اپنے ماموں کے ساتھ حرم مکی میں جمعہ کی نماز ادا کی، اب ہم جدہ کی طرف رواں دواں تھے۔ گاڑی میں ڈرائیو کر رہا تھا۔ ماموں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ عصر کا وقت ہونے والا تھا۔ ہمارے دائیں طرف دور ویرانے میں سفید رنگ کی ایک مسجد نظر آئی، جس کا اکلوتا مینار قدرے دور سے نظر آتا تھا۔ مجھے جدہ سے مکہ اور مکہ سے جدہ بے شمار مرتبہ سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ کتنی ہی مرتبہ میری اس مسجد پر نظر پڑی تھی، لیکن کبھی اس مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ میں اب اس مسجد کے عین سامنے آ چکا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ مکہ جدہ روڈ پر بے شمار خوبصورت مساجد ہیں، جہاں ہر وقت بہت رونق رہتی ہے، مگر آج نہ جانے کیوں میرا رخ اسی ویران اور بے آباد مسجد کی طرف ہوتا چلا جا رہا تھا۔ میرے قدم آہستہ آہستہ بریک پر دباؤ ڈالنے لگے۔
ویران مساجد کی آبادکاری
گاڑی کا رخ جھاڑیوں کے درمیان مسجد کی طرف جانے والے راستے کی طرف موڑ دیا
میں نے سامنے دیکھا تو نیلے رنگ کی فورڈ گاڑی مسجد کے قریب کھڑی تھی۔ گاڑی کا وجود اس بات کا یقینی ثبوت تھا کہ کوئی شخص پہلے سے مسجد میں موجود ہے۔ میں نے چند لمحات سوچا اور پھر میرے اسٹیرنگ کا رخ مسجد کی طرف مڑ گیا۔ مسجد تک باقاعدہ راستہ نہیں تھا۔ سامنے ریت تھی اور جھاڑیوں کے درمیان ایک غیر واضح راستہ مسجد کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ میں آہستہ آہستہ مسجد کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ مسجد چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے درمیان ہے۔ گاڑی کھڑی کر کے میں نیچے اترا۔ ماموں بھی ہمراہ تھے۔ فضا پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
نوجوان شکستہ حال مسجد کے اکلوتے کمرے میں محو تلاوت تھا اور رو رہا تھا
ہم دونوں مسجد کے صحن میں داخل ہوئے تو دیکھا مسجد کے اکلوتے کمرے میں ایک نوجوان بڑی اونچی آواز میں قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا۔ وہ سورة الرحمن کی تلاوت کرتے ہوئے رو رہا ہے۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ ہم کیوں نہ مسجد کے باہر انتظار کریں اور اس نوجوان کی خوبصورت آواز میں تلاوت سنیں۔ میں کچھ دیر تلاوت سنتا رہا، پھر میرے ذہن میں خیال آیا کہ مسجد کے ہال میں داخل ہونا چاہئے۔ میں نے آگے بڑھ کر جھانکا۔ مسجد کی حالت بڑی ہی شکستہ تھی۔ گرد و غبار سے اٹی اس مسجد میں غالباً مدتوں کسی نے نماز نہیں پڑھی ہو گی۔
میں آگے بڑھا، نوجوان نے فرش پر جائے نماز بچھا رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں قرآن کریم کا چھوٹا سا نسخہ تھا، جس سے وہ تلاوت کر رہا تھا۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا، مسجد بالکل خالی تھی۔ میں نے نوجوان کو پیچھے سے آواز دی اور سلام کیا۔ نوجوان نے گردن موڑ کر ہماری طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر تعجب کے آثار تھے۔ مجھے یوں لگا کہ ہم نے اسے تنگ اور پریشان کیا ہے۔ وہ بڑے مزے میں تلاوت کر رہا تھا۔ اس نے سلام کا جواب دیا۔
میں نے پوچھا: کیا آپ نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے؟ کہنے لگا: نہیں۔ میں نے کہا: نماز عصر کا وقت ہو چکا ہے۔ ہم نماز پڑھنے کے لیے رکے ہیں۔ کیا خیال ہے مل کر نماز ادا نہ کر لی جائے۔ اس نے موافقت میں سر ہلایا۔ ہم تین تھے۔
ویران مساجد کی آبادکاری
نوجوان کسی سے پراسرار انداز میں آہستہ کہہ رہا تھا “خوش ہوجا با جماعت نماز ہونے لگی ہے”
میں نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان قبلہ کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے، لیکن وہ کسے دیکھ کر کیوں مسکرا رہا ہے؟ میں نے سوچا۔ اچانک میں نے سنا: وہ نوجوان اپنے منہ سے دبے لفظوں میں کسی سے باتیں کر رہا ہے۔
میرے کانوں نے سنا، وہ کہہ رہاتھا: ”أبشر! الآن بدأت صلاة الجماعة … یعنی خوش ہوجا، اب باجماعت نماز بھی ہونے لگی ہے۔“ ماموں نے میری طرف تعجب سے دیکھا، میں نے ماموں کو نظر انداز کرتے ہوئے نماز پڑھانی شروع کر دی، مگر نماز میں بھی میرا ذہن اسی کلمہ پر اٹکا رہا۔ ”أبشر (تجھے خوشخبری ہو) اور باجماعت نماز بھی ہونے لگی ہے۔“
ویران مساجد کی آبادکاری
مسجد میں کوئی نہیں تھا پھر وہ کس سے باتیں کر رہا تھا ؟
وہ کس سے باتیں کر رہا تھا؟ ہمارے سوا تو اس مسجد میں کوئی بھی نہیں۔ یہ مسجد تو بالکل خالی ہے۔ کیا یہ نوجوان پاگل اور دیوانہ ہے؟
ہم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کیا۔ وہ ابھی تک اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا: ”میرے بھائی! تم کیسے ہو؟“ کہنے لگا: ”میں بالکل خیریت سے ہوں۔“ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور کہا: اللہ تمہیں اور مجھے معاف کرے۔ نماز کے دوران بھی تمہارا ہی خیال رہا۔ آخر کیوں؟ اس نے پوچھا۔ میں نے کہا: جب میں اقامت کہہ رہا تھا، میں نے سنا۔ تم کسی سے باتیں کر رہے تھے: ابشر…. اور باجماعت نماز بھی ہونے والی ہے۔“
نوجوان کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔ کہنے لگا: اس میں پوچھنے والی بات یا پریشان ہونے والی کون سی بات ہے؟ میں نے مسکراتے ہوئے کہا: کوئی بات نہیں، مگر تم یہ تو بتاﺅ کہ بات کس کے ساتھ کر رہے تھے؟ وہ قدرے مسکرایا۔ پھر زمین کی طرف دیکھا، کچھ دیر خاموش رہا۔ گویا وہ سوچ رہا ہے کہ مجھے بتائے یا نہ بتائے۔
میں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا:برادر عزیز! یہ تو مجھے یقین ہے کہ تم مجنون نہیں ہو۔ تمہاری شکل و صورت بالکل صحت مند لوگوں جیسی ہے۔ تم نے ہمارے ساتھ ابھی ابھی نماز ادا کی ہے۔ تمہاری حرکات و سکنات بالکل ٹھیک ہیں۔
ویران مساجد کی آبادکاری
میں مسجد سے باتیں کر رہا تھا ، نوجوان کا عجیب جواب
اس نے ایک مرتبہ پھر میری طرف دیکھا اور گویا ہوا: میں مسجد کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔
اس کی یہ بات میرے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھی…. میں نے سوچنا شروع کر دیا کیا یہ شخص پاگل اور دیوانہ ہے؟ میں نے اس سے کہا: ہاں ہاں! تم مسجد کے ساتھ باتیں کر رہے تھے۔ کیا پھر مسجد نے تمہیں جواب دیا؟ وہ ایک مرتبہ پھر مسکرایا اور کہنے لگا: مجھے یہی توقع تھی کہ تم میرے بارے میں یہ خیال کرو گے یا الزام لگاﺅ گے کہ میں دیوانہ ہوں۔ کیا پتھر بھی باتیں کیا کرتے ہیں؟! یہ مسجد تو اینٹوں اور پتھروں کی بنی ہوئی ہے۔ اب مسکرانے کی باری میری تھی۔ میں نے کہا: تمہاری بات درست ہے۔ بلاشبہ پتھر تو باتیں نہیں کرتے، نہ ہی تمہاری کسی بات کا جواب دیتے ہیں…. تو پھر ان سے باتیں کیوں کر رہے تھے؟
اس نے ایک بار پھر زمین کی طرف دیکھا، گویا وہ ابھی تک سوچ رہا ہے، غور و فکر کر رہا ہے۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں اٹھائے بغیر مجھ سے کہا: میں ان لوگوں میں سے ہوں، جو مساجد کے ساتھ پیار اور محبت کرتے ہیں۔ میں جب بھی کسی ایسی مسجد کو دیکھتا ہوں، جو قدیم یا پرانی ہے۔ جس میں لوگوں نے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہے، تو میں اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہوں، میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں، جب کبھی لوگ اس میں نماز ادا کیا کرتے تھے اور وہ مؤمنین کے سجدوں سے آباد تھی۔
میں اپنے آپ سے کہتا ہوں: یا اللہ! یہ مسجد اب نمازیوں کو ترس گئی ہوگی۔ اس کی تمنا اور خواہش ہوگی کہ اس میں کوئی نماز ادا کرے۔ یہ پتھروں سے بنی ہوئی مسجد کبھی تسبیحات سنتی تھی، ذکر الٰہی سنتی تھی۔ اس مسجد کا درد میں دل کی گہرائی سے محسوس کرتا ہوں۔ اللہ کے ذکر کے لیے اس کی چاہت، اس کی تمنا ہوگی کہ لوگ اس کی دیواروں کے اندر اپنے خالق و مالک کی عبادت کے لیے، سجدے کرنے کے لیے آئیں۔
مسجد تمنا کرتی ہوگی کہ ایک بار پھر وہ قرآن کریم کی تلاوت سنے اور اس کے درو دیوار پھر سے قرآن کی صداؤں سے آشنا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایسی مساجد جو اب آباد نہیں ہیں، وہ سوچتی ہوں گی، کہاں گئے وہ نماز پڑھنے والے؟ وہ دیگر مساجد کے درمیان خود کو غریب تصور کرتی ہوں گی۔ وہ تمنا کرتی ہوں گی کہ کوئی راہ چلتا مسافر اس میں کوئی ایک آیت ہی پڑھ لے، کوئی ایک سجدہ ہی کر لے۔ کوئی راہ گیر، مسافر، کوئی گزرنے والا، اس میں آ کر ایک مرتبہ تکبیر کی صدا لگا دے۔
ویران مساجد کی آبادکاری
اے مسجد گواہ رہنا !
جب میں اس معاملے پر غور و فکر کرتا ہوں تو اپنے آپ سے کہتا ہوں: اے مسجد! تو گواہ رہنا، میں تمہاری یہ خواہش اور شوق ضرور پورا کروں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ وہی ایام واپس لے آﺅں جب لوگ یہاں آ کر نمازیں ادا کرتے ہوں گے۔ میں دو رکعت پڑھتا ہوں، پھر اونچی آواز میں قرآن پاک کا کم از کم ایک پارہ ضرور پڑھتا ہوں۔ اب یہ نہ کہنا کہ تمہارا یہ عمل عجیب و غریب ہے۔ یہ بات اچھی طرح جان لو کہ میں مساجد سے محبت کرتا ہوں۔
اس نوجوان کی باتیں سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے زمین کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ میری آنکھوں میں آنسو دیکھے…. اس کی خوبصورت گفتگو، اس کا احساس، اس کی سوچ، اس کی فکر، اس کا یہ عجیب و غریب عمل کہ وہ مہجور اور بے آباد مساجد میں جاتا ہے، وہ مساجد جن میں لوگ نماز پڑھنا چھوڑ چکے ہیں، یہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کے دل مسجدوں کے ساتھ اٹکے ہوئے ہیں۔ میں اس کی طرف دیکھتا رہا، سوچتا رہا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں اس سے کیا کہوں، بس میں نے اسے دعا دینے پر اکتفا کیا۔ اسے سلام کیا اور کہا: ساتھی! مجھے بھی اپنی نیک اور صالح دعاؤں میں ضرور یاد رکھنا۔
اے اللہ! میں نے مسجد کی تنہائی کو دور کیا تو قبر میں میرے والد کی وحشت کو دور کر دے
بات یہیں تک ختم نہیں ہوئی۔ اچانک میں نے محسوس کیا، میرے لیے یہ امر حیران کن تھا۔ میں مسجد سے نکل رہا تھا، میں نے دیکھا ابھی تک وہ نیچی نظروں سے زمین کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا: کیا آپ جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ کیا دعا مانگتا ہوں؟ میں ان مہجور مساجد میں سے نوافل پڑھ کر اپنے رب سے کیا طلب کرتا ہوں؟ میں نے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھا۔ کہنے لگا: میں رب العالمین سے یہ دعا مانگتا ہوں:
”اے میرے رب! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے تیرے عظیم ذکر اور تیرے قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے اس مسجد کو محبت، پیار اور انس دیا ہے، محض تیری رضا کے لیے اس مسجد کی تنہائی اور اداسی کو ختم کیا ہے۔ تو اے میرے رب اس عمل کے بدلے میں قبر میں میرے والد کی وحشت و تنہائی اور گھبراہٹ کو دور کر دے، اسے انس عطا فرما۔ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا مہربان ہے۔ میں نے جب یہ الفاظ سنے تو میں ہچکیاں لے کر بچوں کی طرح رونے لگا۔
ویران مساجد کی آبادکاری
مساجد کو آباد کرنے کی لذت
قارئین کرام! یہ کس قسم کا نوجوان تھا، اس کے والدین کتنے خوش قسمت تھے کہ ان کا بیٹا ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کر رہا ہے۔ ان کے لیے دعائیں کر رہا ہے۔ اس کے والدین نے اس کی کتنی عمدہ تربیت کی ہے۔
ذرا غور کریں کہ ہم نے اپنی اولاد کی تربیت کس طرح کی ہے؟ کبھی کبھار ایسی مساجد جو اب بے آباد اور بے رونق ہو چکی ہیں۔ جن میں لوگوں نے نماز پڑھنی چھوڑ دی ہے۔ ان کو آباد کرنے کی اور ان میں نماز پڑھنے کی کوشش کریں۔ آپ کو عجیب سی لذت، سرور اور چین آئے گا۔
رب تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے:
ترجمہ: ”اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا تو صرف اسی کا کام ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا، نماز کو قائم کرتا رہا، زکوٰة ادا کرتا رہا اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔ امید ہے ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے۔“ (التوبة: 18)
(بحوالہ: المجانین، الشبكة العربية للصحة النفسية الاجتماعية، الکاتب: صالح الأحمد و المترجم: عبدالمالك)