Wednesday, November 20, 2024
HomeColumnsبلوچستان کے خوبصورت رنگ اور معدنی وسائل پاکستان کا اثاثہ

بلوچستان کے خوبصورت رنگ اور معدنی وسائل پاکستان کا اثاثہ

بلوچستان

نوید نقوی

یوں تو وطن عزیز کا ذرہ ذرہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا کے چند خوبصورت ترین اور قدرتی وسائل کی دولت سے مالامال ممالک میں ہمارا پاکستان بھی شامل ہے لیکن صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا اور تمام صوبوں میں خوبصورت ترین صوبہ ہے۔

بلوچستان

بلوچستان کا رقبہ اور محل وقوع

تین لاکھ47 ہزارمربع کلو میٹر رقبے پر محیط پاکستان کا یہ بڑا اور خوبصورت صوبہ زیادہ تر بے آب وگیاہ پہاڑوں،تاحد نظر پھیلے ہوئے صحراؤں، ریگستانوں اورخشک وبنجر میدانی علاقوں پرمشتمل ہے،اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جبکہ مغرب میں ایران واقع ہے۔
اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔ قابل کاشت اراضی کل رقبے کا صرف 6 فیصد ہے،جو آبپاشی کے محدود وسائل کی وجہ سے صوبے کی اناج کی ضرورت پوری نہیں کرتی حالانکہ یہاں کی آبادی بہت کم ہے۔ اس لیے خوراک کے حوالے سے یہاں کی عوام کو دوسرے صوبوں خاص طور پر پنجاب پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔

ملک کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل ،صرف 6 فیصد آبادی والا صوبہ

بلوچستان ملک کے تقریباََ44 فیصد رقبے پرمشتمل ہے،مگراس کی آبادی ملک کی کل آبادی کا صرف ساڑھے 6فیصد ہے اس کا صدر مقام کوئٹہ ہے یہ شہر اپنی تاریخی، ثقافتی و تہذیبی حیثیت سے ایک خاص مقام رکھتا ہے افغان سرحد کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہاں تجارتی سرگرمیاں صوبے کے باقی شہروں کی نسبت زیادہ ہیں۔ اس صوبے کو دنیا کا امیر ترین خطہ بھی بنایاجاسکتا ہے،اسی لئے بعض بین الاقوامی طاقتیں اس پرحریصانہ نظر جمائی ہوئی ہیں اور بلوچستان ان کی سازشوں کا گڑھ بنا ہوا ہے، علیحدگی پسندی اوردہشت گردی کو ہوا دینے والی بھی یہی قوتیں ہیں ان کی دلچسپی کا محور بلوچستان کے غریب اورپسماندہ عوام نہیں بلکہ قدرتی وسائل ہیں جنہیں وہ اپنے تصرف میں لانا چاہتی ہیں لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے بیرونی طاقتوں کی تمام سازشوں کو ناکام کرتے ہوئے صوبے میں امن و امان کا قیام یقینی بنایا ہے۔

بلوچستان

دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا قدیم ترین جنگل

بلوچستان بیش بہا قدرتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے ساتھ چھوٹے بڑے قدرتی جنگلات، بلند و بالا پہاڑوں، آب شاروں، جھیلوں اور دیگر متعدد پرفضا مقامات کی وجہ سے بھی منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ زیارت کوئٹہ سے 125 کلو میٹردُور سطح سمندر سے 8850 فٹ کی بلندی پر واقع تاریخی اہمیت کا حامل مقام ہے۔ صنوبر کے جنگلات کے حوالے سے بھی اس کی خاص شناخت ہے۔ یہاں دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کا قدیم جنگل واقع ہے، جو 12600 ایکڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا شمار دنیا کے قدیم جنگلات میں ہوتا ہے۔ اس جنگل میں 5 ہزار سال پرانے درخت بھی موجود ہیں۔

قائد اعظم ریزیڈنسی زیارت اور پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک

اس کی دوسری وجہ شہرت قائد اعظم ریزیڈنسی بھی ہے۔ ہنگول نیشنل پارک کراچی سے 190کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہ پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہےجو صوبے کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ 2004 میں مکران کوسٹل ہائی وے کی تعمیر کے بعد سیاح بڑی تعداد میں یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ پیر غائب کوئٹہ سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی سلسلے میں واقع وادی بولان میں ایک پُرفضا سیّاحتی مقام ہے۔ یہاں کی زمین کھجور کے درختوں سمیت مختلف درختوں، جڑی بوٹیوں سے آباد ہے۔

بلوچستان

اخروٹ اور چلغوزے کے باغات

شین غر کوئٹہ سے 380 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک تاریخی شہر شیرانی میں ایک پُرفضا تفریحی مقام ہے۔ جہاں اخروٹ، پستے اور چلغوزوں کے باغات موجود ہیں۔ کوہِ سلیمان بلوچستان کے شہر ژوب میں کوہِ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا خالص چلغوزے کا جنگل واقع ہے۔اس کے علاوہ زیتون کے جنگلات بھی موجود ہیں تخت سلیمان بھی یہیں موجود ہے۔

بئہ جھیل اور 9 ہزار سالہ قدیم انسانی تہذیب مہر گڑھ

ہنّہ جھیل بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے شمال کی طرف تقریباً 12کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بولان کوئٹہ سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر بولان پاس ایک پہاڑی درّہ ہے۔ اس انتہائی دل فریب درّے میں قدرتی چشموں کا پانی سالہا سال سے رواں دواں رہتا ہے۔
مہر گڑھ سبّی شہر سے تقریبا 55کلومیٹر دور قدیم انسانی تہذیب مہرگڑھ موجود ہے۔9ہزار سال قدیم یہ تہذیب اپنی منفرد حیثیت کی وجہ سے دنیا میں ایک الگ پہچان رکھتی ہے۔

مولہ چٹوک اور ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک

ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کوئٹہ سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر ہے 27 ہزار421 ہیکٹر پر مشتمل یہ خوب صورت پارک ہے۔ مولہ چٹوک خضدار شہر سے شمال مشرق میں 65 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک خوب صورت مقام بھی قدرت کا حسین شاہ کار ہے۔

وادی شعبان ودیگر سیاحتی مقامات

کوئٹہ سے تقریباً60 کلو میٹر کے فاصلے پر وادی شعبان واقع ہے یہ بھی خوبصورتی میں کمال ہے۔ ضلع ہرنائی میں زردالوکا تفریحی مقام جوکوئٹہ سے تقریبا چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ان مقامات کے علاوہ بھی کھجوری، مچھ کی کوئلہ کانیں، تاریخی ریلوے ٹریک، چمن کی مشہور خوجک ٹنل، ایشیا کا بلند ترین ریلوے اسٹیشن کان مہتر زئی، کیچ میں سسّی پنّوں کا قلعہ، لسبیلہ میں شیریں فرہاد کا مزار، پسنی کے سمندر میں واقع قدرتی جزیرہ استولہ، فاطمہ جناح پارک، نوری نصیر خان کمپلیکس میں قائم عجائب گھر، جبلِ نورالقرآن، اسپن کاریز اور لیاقت پارک جیسے مقامات شامل ہیں۔

بلوچستان

صوبے میں دریافت شدہ 40 قیمتی معدنیات

بلوچستان میں اب تک تقریباََچالیس انتہائی قیمتی زیرزمین معدنیات کے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ سو سال تک ملکی ضروریات پورا کرنے کے لئے کافی ہیں، ان میں تیل،گیس، سونا،تانبا،یورینیئم، کولٹن، خام لوہا، کوئلہ، انٹی مونی، کرومائٹ، فلورائٹ‘ یاقوت، گندھک ، گریفائٹ ، چونے کاپتھر، کھریامٹی، میگنائٹ، سوپ سٹون، فاسفیٹ، درمیکیولائٹ، جپسم، المونیم، پلاٹینم، سلیکاریت، سلفر، لیتھیئم اور اربوں ڈالرز کی کئی دوسری قیمتی دھاتیں شامل ہیں۔

مقامی آبادی قدرتی وسائل سے محروم کیوں ؟

تقریباً سنہ پچاس سے اس صوبے سے کوئلے اور گیس کو بھی بھاری مقدار میں نکالا جا رہا ہے اور ملکی ضروریات و معیشت میں بلوچستان کا یہ خزانہ اہم کردار ادا کر رہا ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے اس خزانے کے فوائد سے مقامی آبادی محروم ہے اور زیادہ تر یہاں کے سردار اور غیر مقامی سرمایہ دار کمپنیاں فائدہ اٹھائے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔

ریکوڈک کے تانبے اور سونے کے ذخائر

بلوچستان میں ریکوڈک میں تانبے کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جہاں سے سالانہ دو لاکھ ٹن تانبا اور سالانہ اڑھائی لاکھ اونس سونا نکالا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس منصوبے کو کامیابی سے ہم کنار کر لیتے ہیں تو نہ صرف اس صوبے کے عوام کی تقدیر بدل جائے گی بلکہ پاکستان کو مجموعی طور پر بے شمار فوائد ہوں گے اور ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہو سکیں گے لیکن اس کے لیے ہمیں یہ عزم بھی کرنا ہوگا کہ مقامی عوام کو ان کا حصہ ان کی دہلیز تک پہنچائیں گے تاکہ شر پسند عناصر اپنے مذموم پروپیگنڈے میں ناکام ہو سکیں اور پاکستان کی سلامتی پر آنچ نہ آئے۔
سینڈک میں بھی اربوں ڈالرز کے معدنی ذخائر ہونے کا ثبوت مل چکا ہے اور اس پروجیکٹ کو بھی کامیاب کرنا پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔

بلوچستان کے ساحل کی اسٹریٹجک اہمیت

بلوچستان کاساحل اپنے سٹریٹجک محل وقوع کے علاوہ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے،گوادر، پسنی، جیوانی او راور ماڑا کے نزدیک سمندر میں تیل اورگیس کے بے پنا ہ ذخائر کی تصدیق ہوئی ہے ساحل مکران کے آس پاس قدرتی گیس کے ذخائر جبکہ بحیرہ عرب کے ساتھ ہماری سمندری حدود میں تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ تمام ذخائر اربوں ڈالرز مالیت رکھتے ہیں اور ہمارے سمندر میں بھی تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔

زیارت اور قلات کے ایلومینیئم کے وسیع ذخائر

زیارت اور قلات کے علاقوں میں ایلومینیم کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ مسلم باغ ، لسبیلہ اور خضدار میں کرومائیٹ کے ذخائر بھی کافی مقدار میں موجود ہیں۔ سیسہ اور جست بھی انہی علاقوں میں بڑی مقدار میں موجود ہے۔ پلاٹینم بھی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ فلورائٹ دلبندین اور قلات کے علاقوں میں کافی مقدار میں موجود ہے۔
چونے کا قیمتی پتھر بھی بلوچستان میں بھرا پڑا ہے۔ بلوچستان میں طرح طرح کے منرلز پائے توجاتے ہیں لیکن ان کو ملکی معیشت کے لیے استعمال میں لانے کے لیے ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔

چاغی اور لسبیلہ کے خوب صورت پتھر جنہیں تراشنا کسی کو نہیں آتا

بلوچستان کے خوبصورت پتھر جیسے چاغی کا آنکس ماربل اور لس بیلہ کی سبز اور لال سرپنٹین Serpentine جیسے شاندار پتھروں کو تراشنا پاکستان میں کسی کو نہیں آتا۔ کراچی میں جولوگ اس سے برتن، ظروف اور جانور تراشتے ہیں وہ فن کاری نہیں جانتے ۔ یہی پتھر جب چین اور اٹلی جا کر تراشے جاتے ہیں تو انسان سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔ کاش اگر ہم خام پتھر باہر بھیجنے کے بجائے اسے دیدہ زیب برتنوں، مجسموں اور سجاوٹی اشیا میں تراش کر باہر کے ملکوں کو بھیجنے کے قابل ہوجائیں تو کس قدر منافع ہو۔
پاکستان میں آج بھی ساٹھ ہزار بیرل تیل روزانہ نکلتا ہے جبکہ ضرورت اس سے پندرہ بیس گنا زیادہ کی ہے۔ اسی طرح گیس بھی ضرورت سے بہت کم نکلتی ہے جبکہ مزید نکالی جاسکتی ہے۔ مگر بوجوہ ایسانہیں ہورہا اور اپنے وسائل ڈھونڈنے کے بجائے ہم عرب ممالک اور آئی ایم ایف کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ہماری صنعتوں کا دیوالیہ نکل گیا ہے اور ہم دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ لیکن اگر ہم ہمت کریں تو بہت جلد پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔

بلوچستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر

ہم نے ایٹمی طاقت بننے کا عزم کیا اور تمام تر مخالفت کے باوجود آج ہمارا ایٹمی پروگرام جدید ترین اور محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے۔ کوئلہ توانائی پیداکرنے کاایک اوراہم ذریعہ ہے۔ صوبہ بلوچستان کے علاقوں ڈھکی، ہرنائی، کنگری، مچھ، زیارت، چمالانگ اور ابھیگم میں کوئلے کے وسیع ذخائر ہیں جن کا اندازہ 217 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ 40 کلومیڑ طویل کوئلے کی کنگری کانوں میں اعلیٰ قسم کا کوئلہ موجود ہے۔ جس کے ذخائر کا تخمینہ 6ملین ٹن لگایا گیا ہے۔ پاکستان جو اپنی توانائی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اربوں ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ اگر کوئلے کے ان ذخائر سے فائدہ اٹھایا جائے تو اس سے توانائی کے مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ آئیں مل کر بلوچستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تمام اکائیوں کو آپس میں محبت کی لڑی میں پرو دیں اور ملک دشمن عناصر کو ناکام کریں بلوچستان کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے اور پاکستان کی سلامتی بھی بلوچستان سے وابستہ ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی خبریں اور معیشت کے استحکام کا چیلنج

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی