Tuesday, November 12, 2024
HomeLatestزندگی اس مبارک سفر میں تمام ہو

زندگی اس مبارک سفر میں تمام ہو

زندگی اس مبارک سفر میں تمام ہو
عابد محمود عزام

مکہ اور مدینے کی زیارت ہر مسلمان کا خواب

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے دیدار کا ارمان ہر مسلمان کے دل میں موجزن رہتا ہے۔ حرمین شریفین میں گزرا ہر ہر لمحہ اتنا پرلطف، پرکیف اور پرنور ہوتا ہے کہ ان کیفیات کو صرف بیان کیا جاسکتا، محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنے، غلاف کعبہ سے لپٹنے، حجر اسود کو بوسہ دینے، مسجد حرام میں نمازیں ادا کرنے، صفا و مروہ کی سعی کرنے، مقام ابراہیم و حطیم میں نوافل ادا کرنے، گنبد خضریٰ کو تکتے رہنے، روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہو کر درود سلام کا نذرانہ پیش کرنے اور ریاض الجنۃ میں نماز ادا کرنے سے انسان کو روحانیت کی ایسی دولت میسر آتی ہے کہ دنیا میں اس کا کوئی بدل ہی نہیں ہے۔
غار ثور، غار حرا، مسجد عائشہ و مسجد جعرانہ، جبل رحمت، میدان عرفات، مزدلفہ، مسجد نمرہ، منیٰ، جنت البقیع، مسجد قباء، مسجد قبلتین و مسجد جمعہ، مقام غزوہ احزاب، جبل احد سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بہت سے مقامات کی زیارت کرنا ہر امتی کی دلی تمنا ہوتی ہے۔ ان مقامات سے ہماری تاریخی عقیدت و محبت وابستہ ہے۔ ان کی زیارت سے دل جوش ایمانی سے لبریز ہو تا ہے اور عقیدت و محبت میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ آنکھوں سے بے اختیار اشک رواں ہو جاتے ہیں اور بار بار زیارت کی تڑپ بڑھتی جاتی ہے۔ رب تعالیٰ کا بے انتہا شکر ہے کہ اس نے مجھے بھی عمرہ کی سعادت سے نوازا اور مجھے بھی ان مقدس و محترم مقامات کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

خانہ کعبہ پر پہلی نظر انسان کو دنیا وما فیھا سے بے خبر کر دیتی ہے

 خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔ جوں جوں قدم مطاف کی طرف بڑھتے ہیں، تمام سوچیں ایک جگہ مرتکز ہوجاتی ہیں۔ انسان دنیا و مافیھا سے بے خبر ہوجاتا ہے۔ پورا وجود اآنکھ بن کر بیت اللہ کو تکنے میں مصروف ہوتا ہے۔ لبیک کی صدائیں جسم میں سنسناہٹ اور ہلچل پیدا کر دیتی ہیں۔ قدم لرزتے اور ڈگمگاتے محسوس ہوتے ہیں۔ اپنے گناہوں، غلطیوں اور پشیمانیوں سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ آنسو موتیوں کی طرح لڑی بن کر گرنے لگتے ہیں۔یہاں ہر کوئی دل میںیہ احساس لیے حرم شریف کی جانب رواں ہوتا ہے کہ ہم اس قادر مطلق کی بارگاہ میں حاضر ہو رہے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں،جس کے آگے شہنشاہ و گدا سب سجدہ ریز ہوتے ہیں۔
اس عظیم بارگاہ میں حاضری کی سعادت ملنے پر آنکھیں احساس تشکر سے بے اختیار اشک بار ہو جاتی ہیں۔ ہر کوئی اس ذات باری تعالیٰ کے دربار میں انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ بت بنا کھڑا ہوتا ہے۔سب کے پاس فقط جھکا ہوا سر، لڑکھڑاتی زبان،دعا کے لیے بلند ہوتی آوازیں،آنسو بہاتی ہوئی آنکھیں، خشیت الہٰی سے معمور دل اور پاکیزہ خیالات ہوتے ہیں۔

بے خودی کی کیفیت

 یہاں فرط انبساط کے ساتھ ساتھ شکر گزاری اور انکساری و عاجزی کے روح پرور لمحات گزرتے ہیں۔ خانہ خدا کو دیکھ کر دل کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان مردوخواتین کعبہ کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ حرم کعبہ میں دیوانہ وار ہر ملک اور ہر نسل کے لوگ طواف میں مصروف ہوتے ہیں۔ بادشاہ و فقیر سب ہی دو سفید چادریں زیب تن کیے بیت اللہ کا طواف کرنے میں مگن ہوتے ہیں اور والہانہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ تمام تکلیفیں اور مصائب خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔یہاں گزرا ہر ہر لمحہ زندگی کا انمول بن جاتا ہے۔
انسان پر ایک بے خودی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ بہتے ہوئے اشک موتیوں میں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں ہر ہر لمحہ ایمان تر و تازہ ہوتا رہتا ہے۔ ہر تکلیف، پریشانی اور تھکاوٹ میں سرور اور لطف آتا ہے۔ ہر کوئی یہی تمنا لیے ہاتھ بلند کرتا ہے کہ یا اللہ اس مقام سے دور نہ کرنا۔ دور ہوجائیں تو بار بار بلاتے رہنا۔ یہاں سے دور جانا بے انتہا تکلیف دہ ہوتا ہے۔

جوں جوں مدینہ قریب آتا ہے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہو جاتی ہیں

جب عاشقان نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں، ایک پرسکون اور پر مسرت احساس چہرے پر عیاں ہوجاتا ہے۔ دل مطمئن اور آنکھیں روشن ہونے لگتی ہیں۔ خود بخود زبان سے نعتیہ کلام اور درود و سلام کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں۔ جوں جوں مدینہ منورہ قریب آتا ہے، دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ انسان خود کو روحانی فضائوں میں محسوس کرتا ہے۔ اپنی قسمت پر رشک آنے لگتا ہے کہ مجھ سا گناہ گار امتی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہونے جارہا ہے، لیکن اپنی حالت دیکھ کر شرمندگی بھی ہوتی ہے اور یہ خوف بھی دامن گیر ہوتا ہے کہ میرا کوئی عمل ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار نہ گزرے۔

مسجد نبوی کے میناروں پر نگاہ پڑتے ہی آنسو چھلک پڑتے ہیں

جب مسجد نبوی کے میناروں پر نگاہ پڑتی ہے تو فرط جذبات اور محبت و عقیدت کے آنسو چھلکنے لگتے ہیں۔گنبد خضریٰ پر نظر جاتی ہے تو درود و سلام کا ورد مسلسل جاری ہو جاتا ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری پر ہر عید سے بڑھ کر خوشی و مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے سامنے ہر خوشی کم ہے۔دل روحانیت سے سرشار اور ایمان میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سامنے پا کر دل کی کیفیت سرشار ہوجاتی ہے۔ہر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دُرود و سلام کے گلدستے نچھاور کر رہا ہوتا ہے۔ سر شُکر گزاری میں جھکا جا رہا ہوتا ہے۔

ریاض الجنہ میں زائر کے جذبات سینے کی حدود سے باہر نکلنے کو بے تاب ہوتے ہیں

الجنۃ میں جگہ پانے پر دل غیرمعمولی رفتار میں دھڑک رہا ہوتا ہے۔ ریاض الجنۃ میں نوافل پڑھنے کی سعادت بہت بڑی سعادت ہے۔ روضہ اطہر کی جالیوں سے لے کر منبر رسول تک ریاض الجنت کا حصہ ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی مسجد میں ایک جگہ تحریر ہے کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ یہاں نوافل ادا کرنے کی خواہش ہر کسی کی ہوتی ہے اور اس سعادت کے لیے لوگ گھنٹوں انتظار کرتے ہیں۔ یہاں آکر کبھی روضہ مبارک پر، کبھی مصلے اور کبھی منبر رسول پر نظریں جم جاتی ہیں۔ جذبات سینے کی حدود سے باہر آنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ کھل کر رونے کو جی چاہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتے ہیں۔ آنکھیں چشمہ بن کر پھوٹ پڑتی ہیں۔ایسا کیوں نہ ہو، یہ جگہ ہی ایسی ہے۔ یہیں تشریف فرما ہو کر ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو درس دیا کرتے تھے۔

واپسی کا تکلیف دہ سفر

باب جبریل سے سامنے سڑک کی طرف جائیں تو سامنے جنت البقیع کا بڑا گیٹ ہے۔ خلیفہ سوئم سیدنا عثمان غنیؓ یہیں آرام فرما رہے ہیں۔چند قدم آگے حضرت فاطمہؓ کا مرقد ہے ۔ جنت البقیع کا دروازہ نماز فجر کے بعد زائرین کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا یہاں ہمہ وقت جم غفیر رہتا ہے۔ ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے علاوہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی یہیں آسودہ خاک ہیں۔

مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ سے بھی واپسی کا سفر بہت ہی تکلیف دیتا ہے۔ یہاں سے جانے کا وقت قریب آتا ہے تو بے تحاشہ رونے کو دل چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جدائی کا درد برداشت نہیں ہوگا، مگر برداشت کرنا پڑتا ہے۔ نم اآنسوئوں کے ساتھ یہاں سے لوٹنا پڑتا ہے۔ صاحب استطاعت لوگوں کو زندگی میں ایک بار مکہ مدینہ ضرور جانا چاہیے۔ اپنے لیے، عزیزواقارب، دوست احباب اور سب کے لیے ڈھیروں دعائیں کریں۔ہر کوئی یہاں جا کرایک ایسے روحانی تجربے سے روشناس ہوتا ہے کہ جس کی لذت لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔یہ ایسے مقامات ہیں کہ جو ان کو ایک بار دیکھ لے، دل چاہتا ہے کہ ان سے کبھی بھی جدا نہ ہو اور ساری زندگی یہیں گزار دی جائے۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی