وفاق المدارس العربیہ پاکستان ،مختصر جائزہ
HelpLavoro.it – Job Offer Delfino’s Animation Team – Search 10 Fitness animators (zumba, aerobics, water aerobics, ect) and sportsmen where to get trenbolone swedish hand job rachel roxx fitness handjob in enlargement-exercise-penis.info
محمد نعمان حیدر
کیا آپ یقین کریں گے کہ اربو ں کھربوں روپے تعلیمی شعبے میں لگانے کے باوجود حکومت اور نجی شعبے کوئی ایسی کارکردگی پیش نہ کر سکے جو ان کی نیک نامی اور پذیرائی کا باعث بن سکے۔ یہ دینی مدارس کا طرۂ امتیاز ہے کہ قلیل وسائل اور مخالفت کے باوجود نہ صرف قومی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ یہ ذکر ہے ’’وفاق المدارس العربیہ‘‘ کا جو پاکستان کے کونے کونے میں پھیلے مدارسِ دینیہ نیٹ ورک کی قیادت کرنے والا اور ان کے امتحانات لے کر نتائج وسند جاری کرنے والا پلیٹ فارم ہے۔
یہ خالص دینی، تعلیمی اور غیر سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا صدر دفتر ملتان میں واقع ہے۔ اس کا باقاعدہ قیام ربیع الثانی سن ۱۳۷۶ ہجری بمطابق اکتوبر 1959 میں عمل میں لایا گیا۔ علامہ شمس الدین افغانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے پہلے صدر مقرر کئے گئے جب کہ موجودہ صدر عالمِ اسلام کی نامور اور بااثر علمی شخصیت جسٹس (ر)مفتی محمد تقی عثمانی ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت اپنی علمی خدمات کے باعث ملکی وغیر ملکی سطح پر کئی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ اپنی بے شمار تصنیفات کے ساتھ وہ قومی وعالمی سطح کے کئی اداروں کے نمایندے بھی ہیں۔
وفاق المدارس کے بنیادی اغراض ومقاصد میں ملک کے تمام مدارس دینیہ کے کاموں کومربوط بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا، اُن کے لیے یکساں نصاب تعلیم، امتحانات اور سند کا اجرا، مدارس کے درمیان باہمی ربط وتعاون، جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیم کی ترویج واشاعت اور اساتذہ کیلئے تربیت کا انتظام کرنا شامل ہے ۔ آئیے! اس تحریر میں وفاق المدارس کی منفرد خصوصیات اور دلچسپ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں:
برصغیر میں دینی مدارس
جی ہاں آپ کو یاد ہوگا کہ جب لارڈ میکالے نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد نعرہ لگایا تھا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنے ہیں جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں گے لیکن ان کے دل و دماغ انگلستانی ہوں گے۔
اس کے جواب میں قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے ایک زبردست نعرہ لگایا تھا کہ ہم بھی ایسے نوجوان تیار کریں گے جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہوں گے لیکن ان کے دل و دماغ اسلامی ہوں گے،اور پھر انہوں نے دیوبند نامی قصبہ میں ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی جس کو دنیا “دارالعلوم دیوبند” کے نام سے جانتی ہے ، دیوبند کے اس مدرسے کا یہ سلسلہ چلتا چلتا برصغیر پاک و ہند کے چپے چپے میں پھیل گیا۔
وفاق المدارس دینی مدارس کا سب سے بڑا بورڈ
ملک بھر میں بیک وقت شفاف ترین امتحان کا انعقاد کرنے والا منفرد ادارہ ’’وفاق المدارس العربیہ ‘‘پاکستان کا سب سے بڑا امتحانی بورڈ ہے ۔ یوں تو مدارس کے کئی دیگر بورڈ بھی ہیں جن میں تنظیم المدارس اہلسنت، پاکستان، وفاق المدارس السلفیہ، وفاق المدارس الشیعہ اور رابطۃ المدارس پاکستان خاص طورپر قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن ان سب میں جو مقبولیت وفاق المدارس العربیہ کوحاصل ہے وہ شاید کسی کو حاصل نہیں۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گوگل پر صرف لفظ “وفاق” سرچ کرنے سے وفاق المدارس ہی کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ وفاق سے ملحق مدارس وجامعات کی تعداد 22559ہے۔
وفاق المدارس کے لیے عالمی اعزاز
وفاق المدارس نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ اپنی خدمات کو بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کروا چکا ہے۔ چناں چہ 7 جولائی 2014 کو رابطہ عالم اسلامی کے زیر اہتمام سعودی شہر جدہ میں ایک تقریب منعقدہوئی۔ جس میں سال 2014 (۱۴۳۵ہجری) میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ تریسٹھ ہزار پانچ سو چھپن (63556) حفاظ تیار کرنے پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو دنیا کے سب سے بڑے اعزاز ’’خدمتِ قرآن انٹرنیشنل ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا۔ وفاق المدارس کی جانب سے ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد حنیف جالندھری نے سعوی فرمانروا شاہ عبداللہ کے صاحب زادے، گورنر مکہ شہزادہ مشعل بن عبداللہ سے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس تقریب میں سعودی عرب کے علماء ومشائخ کے علاوہ مختلف وزارتوں کے افسران اور دنیا کے مختلف ممالک سے وفود اور اہم شخصیات نے شرکت کی۔
وفاق المدارس اساتذہ تربیتی ورکشاپس
پاکستان میں مدارس کا قیام
تقسیم پاکستان سے پہلے اور بعد میں پاکستان کے مختلف شہروں میں مدارس دینیہ کے لمبے جال بچھائے گئے اور اس کے لیے کسی حکومتی امداد یا حکومتی سرپرستی قبول نہیں کی گئی ۔ پاکستان کے باشعور مسلمانوں نے اپنی ذاتی آمدنی میں سے فی سبیل اللہ چندہ مہیا کیا اور یوں ان مدارس میں تعمیر کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ ان مدارس کے قیام کا مقصد علوم دینیہ کے پیاسے طلبہ کو سیراب کرنا اور پاکستان میں وراثت نبوی کے راسخ العقیدہ اور راسخ العلم رجال کار پیدا کرنا تھا۔
مدارس دینیہ کے قیام کا یہ سلسلہ ملک کے طول و عرض میں پھیل گیا بے پاکستان کے کونے کونے میں بے شمار مدارس قائم ہوئے ،چونکہ پاکستان میں مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے لوگ بستے ہیں اس لئے ہر مسلک کے الگ الگ مدارس قائم کیے گئے ہر مسلک کے تمام مدارس میں یکساں نظام تعلیم ہی پڑھایا جانے لگا۔ دوسرے مسالک کی طرح دیوبندی مکتب فکر کے بھی لا تعداد مدرسے ملک کے مختلف حصوں میں قائم ہوئے ، شاید سب سے پہلے دیوبند مسلک کے علماء نے اس جانب توجہ دی کہ کسی طرح ان کی فکر سے وابستہ تمام مدارس کو یکجا کیا جائے اور انہیں ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے ۔
مدارس کو یکجا کرنے کی ابتدائی کوشش
چنانچہ اسی مقصد کے لیے ملتان کی بڑی درس گاہ جامعہ خیرالمدارس میں مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ کی زیر صدارت 20 شعبان 1376ھ بمطابق 22 مارچ 1957ء کو اکابرین علماء دیوبند کا ایک اجلاس منعقد ہوا اور دو سال کے لیے مدارس کا ایک تنظیمی ڈھانچہ تیار کیا گیا جو دو سال تک اسی طرح کام کرتا رہا۔
وفاق المدارس العربیہ کا قیام
بعد ازاں 15_14 ربیع الثانی 1378ھ بمطابق 19-18 اکتوبر 1959ء کو باقاعدہ اجلاس منعقد ہوا جس میں تین سالہ قیادت کا انتخاب کیا گیا ہے اور اس تنظیمی ڈھانچے کا نام وفاق المدارس العربیہ پاکستان رکھا گیا، علامہ شمس الحق افغانی رحمتہ اللہ علیہ کو صدر ، مولانا خیر محمد جالندھری کو نائب امیر اول، علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ کو نائب امیر دوم، مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ کو ناظم اعلیٰ اور مولانا عبداللہ کو خازن مقرر کیا گیا خدا نے ان نفوس قدسیہ سے یہ مبارک کام لینا تھا سو لیا۔
وفاق کے صدور
1-مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ وفاق المدارس کے پہلے صدر ہیں جن کی صدارت کی مدت تین سال تین ماہ ہے ۔
2- دوسرے صدر مولانا خیر محمد جالندھری ہیں جو سات سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔
3-علامہ محمد یوسف بنوری وفاق المدارس کے تیسرے صدر ہیں جو چار سال چار ماہ تک اس منصب پر رہے۔
4- مولانا مفتی محمود چوتھے صدر ہیں جنہوں نے دو سال پانچ ماہ تک یہ ذمے داری نبھائی۔
5-مولانا ادریس میرٹھی پانچویں صدر ہیں جو آٹھ سال تک وفاق کے صدر نشین رہے۔
6-مولانا سلیم اللہ خان وفاق المدارس کے چھٹے صدر ہیں آپ ستائیس سال سات ماہ تک اس منصب پر فائز رہے۔
7_مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ساتویں صدر ہیں جو تین سال نو ماہ تک وفاق المدارس کے صدر رہے۔
8-وفاق المدارس کے آٹھویں صدر مولانا مفتی محمد تقی عثمانی ہیں جو تاحال صدر کے عہدے پر فائز ہیں ۔
وفاق المدارس کے ناظمین
1-مولانامفتی محمود(مدت، اٹھارہ سال سات ماہ )
2-مولانا ادریس میرٹھی( دو سال دو ماہ )
3-مولانا سلیم اللہ خان( آٹھ سال چھ ماہ )
4-مفتی احمد الرحمن( ایک سال سات ماہ)
5-مولانا حبیب اللہ مختار (سات سال چھ ماہ )
6- مولانا قاری محمد حنیف جالندھری (تاحال اس منصب پر فائز ہیں)
وفاق المدارس کا موجودہ نظم
اس وقت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر جسٹس (ر) مفتی محمد تقی عثمانی ہیں اور نائب صدر مولانا انوار الحق اکوڑہ خٹک والے ہیں ۔مرکزی ناظم اعلیٰ قاری محمد حنیف جالندھری ہیں۔ ان حضرات کی قیادت میں قافلہ وفاق رواں دواں ہے۔
وفاق المدارس سے الحاق شدہ مدارس کی تعداد
اس وقت پاکستان کے مدارس کا سب سے بڑا نیٹ ورک اور سب سے بڑا دینی تعلیمی بورڈ ہے ،اس بورڈ کے ساتھ اکیس ہزار چار سو باون (21452) مدارس دینیہ منسلک ہیں ان میں چھوٹے بڑے تمام ادارے بشمول شاخیں بھی ہیں ۔
اساتذہ اور زیر تعلیم طلباء کی تعداد
وفاق المدارس کے ساتھ منسلک مدارس میں ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار آٹھ سو تیرہ (166813) معلمین و معلمات تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان مدارس دینیہ میں مجموعی طور پر 2980693 طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
درس نظامی کے فضلاء وفاضلات کی تعداد
وفاق المدارس 1959 سے لے کر 2021 تک ترپن لاکھ پچیس ہزار پانچ سو پندرہ (5325515) طلبہ و طالبات امتحانات میں شریک ہوچکے ہیں۔
اب تک وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی تعداد ایک لاکھ چھیاسی ہزار ایک سو پچھتر (186175) ہے جبکہ فاضلات کی تعداد دو لاکھ پینتالیس ہزار آٹھ سو ترانوے (245893) ہے۔
حفاظ و حافظات کی مجموعی تعداد
وفاق المدارس العربیہ کے تحت حفظ قرآن کی تکمیل کرنے والے طلباء کی گیارہ لاکھ تینتیس ہزار چھ سو ستر (1133670) ہے جبکہ دو لاکھ چھیانوے ہزار پانچ سو چھ (296506) طالبات حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کرکے وفاق المدارس کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ پچھلے سال چار لاکھ اٹھارہ ہزار تین سو اکیاون (418351) طلبہ و طالبات کے داخلے موصول ہوئے اور (403042) چار لاکھ تین ہزار بیالیس طلبہ و طالبات شریک ہوئے جن کے لئے ملک بھر میں تیئس سو چھپن (2356) امتحانی مراکز قائم کیے گئے۔
وفاق کا مرکزی دفتر
وفاق المدارس العربیہ کا مرکزی دفتر شیر شاہ ملتان میں واقع ہے اور اس کا دائرہ کار اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے البتہ اگر کوئی ادارہ بیرون ملک سے وفاق کے دائرہ کار میں شامل ہونا چاہے تو وفاق اسے بھی خوش آمدید کہتا ہے وفاق کی اصل قوت اس کی مرکزی شوریٰ ہے وہی اس کے اغراض و مقاصد کی نگرانی کرتی ہیں اور عہدے داروں کا چناؤ کرتی ہیں ۔ وفاق المدارس ایک خالص تعلیمی اور غیر سیاسی ادارہ ہے بہ طور ادارہ کسی بھی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتا ہے اور نہ ہی سیاست کے لیے کوئی لائحہ عمل بناتا ہے۔
وفاق المدارس کے اغراض و مقاصد
وفاق المدارس کے اغراض و مقاصد کچھ یوں ہیں ؛
1-مدارس میں یکساں نصاب اور یکساں امتحانات اور کامیاب طلبہ کو اسناد مہیا کرنا ۔
2-مدارس و جامعات میں باہمی اتحاد قائم کرنا اور ایک مربوط نظام بنانا –
3-جدید عصری تقاضوں کے مطابق دینی تعلیمات کی ترویج اور نشر و اشاعت کی جد و جہد کرنا ۔
4-تربیت معلمین و معلمات کا موثر انتظام کرنا ہے۔
وفاق المدارس کا نصاب
وفاق المدارس العربیہ کے نصاب میں صحاح ستہ ، علوم حدیث، اصول حدیث، علم تاریخ ، علم لغت ، علم عروض و قوافی ، علم فرائض ، ترجمہ و تفسیر قرآن ، علم عقائد ، علم تجوید ، علم فقہ ، اصول فقہ ، علم منطق ، علم فلکیات ، علم فلسفہ ، علم صرف ، علم نحو ، علم ادب اور علم میزان شامل ہیں ۔درجہ متوسطہ(درس نظامی سے پہلے) میں انگلش ، اردو ، معاشرتی علوم ، ریاضی ، سائنس مطالعہ پاکستان اور فارسی جیسے علوم وفنون پڑھائے جاتے ہیں۔
امتحانات اور شفافیت
وفاق المدارس العربیہ پاکستان ایک ایسا مضبوط اور مستحکم ادارہ ہے کہ جس میں امتحانات کا عمل انتہائی صاف اور شفاف ہوتا ہے ،کراچی سے خیبر تک اور کوئٹہ سے گلگت و چترال تک ایک ہی تاریخ اور ایک ہی وقت میں پرچہ شروع ہوجاتا ہے اور ایک ہی پرچہ ملک کے طول وعرض میں پہنچایا جاتا ہے اور اجنبی علماء بغیر کسی لیت ولعل کے امانت اور دیانت داری سے امتحان دینے والے طلبہ کی نگرانی کرتے ہیں اور طلبہ اپنی محنت اور لگن کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت امتحانات دیتے ہیں ۔ نقل کا تو تصور ہی نہیں ہوتا ہاں اگر کوئی طالب علم یا طالبہ نقل کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کی رپورٹ فوری طور پر وفاق کے دفتر میں پہنچا کر اس کا پرچہ کالعدم کر دیا جاتا ہے اور اس کا رزلٹ نہیں شائع کیا جاتا۔
پرچوں کی مارکنگ
پورے ملک میں ہونے والے پرچوں کو وفاق کے مرکزی دفتر میں پہنچایا جاتا ہے اور پھر وہاں سے طلبہ کا پرانا رول نمبر کاٹ کر ایک نیا رول نمبر دیا جاتا ہے اور پھر ان پرچوں کی مارکنگ کے لیے ایک ادارہ متعین کیا جاتا ہے وہاں ملک کے طول و عرض سے اساتذہ کرام پرچوں کی چیکنگ کرتے ہیں اور ان چیک کرنے والے نگرانوں پر بھی نگران بٹھائے جاتے ہیں جو مارک شدہ پرچوں کو چیک کرتے ہیں اگر کسی کو اس کی استعداد کے مطابق نمبر کم یا زیادہ دیے گئے ہیں تو اس پہ بھی پوچھ گچھ ہوتی ہے اور آخر میں اس طرح پورے ملک میں یکساں نتائج پیش کیے جاتے ہیں۔
نمبرات کی تفصیل
نمبرات کے بھی درجات طے کیے جاتے ہیں ممتاز، جید جدا، جید ، مقبول اور راسب۔ البتہ بڑے اداروں میں مقبول اور راسبین کو داخلہ نہیں دیا جاتا اور راسبین کو اسناد نہیں جاری کی جاتیں۔
میڈیا سیل
وفاق المدارس العربیہ کی تعلیمی اور دینی سرگرمیوں کو ملحقہ مدارس اور عوام تک پہنچانے کے شعبہ ابلاغ بھی قائم ہے ، اس شعبے کی زیر نگرانی ماہنامہ “الوفاق” شائع ہوتا ہے جو وفاق المدارس کا ترجمان ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف سوشل میڈیا فورمز پر بھی وفاق المدارس العربیہ کے پیجز بنے ہوئے ہیں جہاں سے وفاق سے متعلق اپ ڈیٹس دئے جاتے ہیں ،گزشتہ چند سالوں سے مولانا طلحہ رحمانی کی قیادت میں وفاق المدارس کا میڈیا کا شعبہ بہت ہی متحرک کردار ادا کر رہا ہے ،مولانا طلحہ رحمانی نے وفاق المدارس کے ابلاغ کے شعبے کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ منظم اور فعال بنا دیا ہے ۔
وفاق المدارس کے کارنامے۔
وفاق المدارس اپنی نوعیت کا ایک منفرد تعلیمی بورڈ ہے۔ جس کے وسائل نہایت کم لیکن کارکردی نہایت شاندار رہی ہے۔ ذیل میں ہم چند نمایاں کارکردگی کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین امتحان کا اجرا
وفاق المدارس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ملک بھر میں ایک ہی تاریخ اور وقت میں نہ صرف امتحانات کا انعقاد کراتا ہے بلکہ ایک ماہ کے نہایت قلیل عرصے میں نتائج کا بھی اجراء کرتا ہے۔ پورے پاکستان میں ایسا کوئی بورڈ نہیں جو ہزاروں کی تعداد میں طلبہ وطالبات کے امتحان لینے کے بعد اتنی جلد نتائج جاری کرتا ہو۔ یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ ایک وقت میں پورے ملک یعنی شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گوٹھ، پکے اور کچے دشوار گزار راستوں میں بغیر ریاستی سرپرستی اور خاطر خواہ وسائل کے استعمال کے اپنے بل بوتے پر یہ کام انجام دینا کسی کارنامے سے کم نہیں۔ ماہِ رمضان سے کم وبیش دو ماہ قبل حفظ اور ایک ماہ قبل درسِ نظامی کی کلاسوں کا امتحان لیا جاتا ہے۔ یہ امتحان ماہ رجب کے اخیر یا شوال کے آغاز کے ساتھ ہی صرف چھ دنوں کے مختصر دورانیے میں اختتام پذیر ہو جاتے ہیں۔
جب وفاق المدارس کا ایک پرچہ آوٹ ہوا۔
یہاں ایک واقعہ ذکر کرنا قارئین کی معلومات میں اضافے اور وفاق المدارس کے مضبوط نظام کے حوالے سے اندازہ لگانے کے لیے فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ سن 2021 میں یہ بات وفاق سے وابستہ حلقوں میں بجلی بن کر گری کہ درسِ نظامی (عالم کورس) کے آخری سال میں حدیث شریف کا ایک پرچہ آؤٹ ہوگیا۔ کم وبیش 65 سالہ تاریخ میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ سامنے آیا تھا۔ ظاہر ہے لاکھ انسانی احتیاط کے باجود یہ بات بشری تقاضوں اور کوتاہیوں کو ظاہر کرتا ہے نہ کہ نظام کی خرابی کو۔ بہرحال، یہ وفاق کی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ اور پھر چیلنج سے کم نہ تھا کہ اب اس پرچے کا کیا کیا جائے۔ عموماً ایسے امتحان کینسل قرار دیئے جاتے ہیں اور اگلی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن یہاں اربابِ وفاق کی دانشمندی اور بصیرت، عزم وہمت کی بدولت راتوں رات وہ کام کر دکھایا کہ شاید ہی دنیا میں اس کی مثال ملے۔ وفاق المدارس نے چند گھنٹوں میں ہی اپنے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی معیار کے مطابق ازسرنو پرچہ بنوا کر موصلاتی مشاورت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اگلی ہی صبح ملک کے کونے کونے میں وہ پرچہ امتحانی مراکز میں پہنچا دیا۔
کرونا میں امتحان کا چیلنج اور وفاق المدارس کی سرخروئی۔
عالمی وبا کرونا وائرس کے دور میں سب سے متاثر ہونے والے شعبوں میں تعلیمی نظام بھی تھا۔ چناں چہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں اور امتحانی بورڈز نے بغیر امتحان، سابقہ کارکردگی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اور کچھ معیارات بناتے ہوئے اپنے طلبہ کو اگلے درجات پر پرموٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلکہ انہیں پوزیشنیں بھی دی گئیں۔ یقیناً یہ سن کر قارئین کو تعجب ہوگا کہ ایسے موقع پر بھی وفاق المدارس نے اپنے امتحانی نظام کو متاثر نہ ہونے دیا اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے مثالی امتحان کی شان دار روایت کو برقرار رکھا۔ جہاں چہار سو ہو کا عالم اور لاک ڈاؤن کا راج تھا وہاں یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا جسے بآسانی فراموش کر لیا جائے بلکہ یہ دینی مدارس کے بورڈ وفاق المدارس کا وہ تاریخ ساز کارنامہ اور روشن مثال تھی جسے مدارس کے ناقدین بھی اس کو سراہنے پر مجبور ہوگئے۔
وفاق المدارس کی سند کی اہمیت
وفاق المدارس العربیہ اعلیٰ درجے کی تعلیم پر شھادۃ العالمیہ کی ڈگری جاری کرتا ہے جو کہ روایتی تعلیم ماسٹر (M.A) کے مساوی ہوتی ہے۔ ۱۹۸۲ میں پاکستان کے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (موجودہ HEC)نے اسے ایم اے عربی اور اسلامیات کے مساوی تسلیم کیا تھا۔ جس کے بعد وفاق کی سند کے حامل مدارس سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات امام، خطیب، قاری، عربی ٹیچر، اسلامیات ٹیچر، اسلامیات لیکچرار، ریلیجیس ٹیچر، مفتی، قاضی جیسے مناصب کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں۔ طلبہ وطالبات وفاق کی شھادۃ العالمیہ کی سند حاصل کرنے کے بعد ’’سند معادلہ‘‘ کے حصول کے بعد نہ صرف مذکورہ ملازمتوں بلکہ اس سے بڑھ کر یونیورسٹی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی داخلہ لینے کے اہل ہوتے ہیں۔
اب تک بے شمارمدارس کے فارغ التحصیل طلبہ وفاق ہی کی شھادۃ العالمیہ کی ڈگری کی بنیاد پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس کے لیے معادلہ کی ضرورت پڑتی ہے جس کا طریقۂ کار ذرا مشکل ضرور ہے مگر یہ آگے سہولت اور آسانی کی کئی راہیں کھول دیتا ہے۔ واضح رہے کہ شھادت العالمیہ کی ڈگری سے قبل بھی تین ڈگریوں پر معادلے کا ضابطہ موجود ہے جس کی بنیاد پر عصری تعلیم کے مراحل کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ تفصیلات وفاق المدارس کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
وفاق المدارس اور دیگر معاصر بورڈ سے متعلق غلط فہمی
یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جو دینی تعلیم، مزاج، عصر حاضر کے تقاضوں سے شناسائی نہ ہونے کی بنیاد پر دینی ودنیاوی حلقوں میں خلیج کا باعث بن سکتی ہے۔
وفاق المدارس العربیہ اپنے اسلاف کی روایت پر چلتے ہوئے خالصتاً دینی علوم کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ اِس کا اپنا لگا بندھا سسٹم ہے جس پر عمل درآمد اپنے معیار کے مطابق کیا جا رہا ہے جس کی پورے پاکستان میں نظیر نہیں۔ دوسری جانب وفاق المدارس العربیہ سے رجسٹرڈ کچھ ایسے مدارس بھی ہیں جو عصر حاضر کے تعلیمی تقاضوں اور ٹیکنالوجی کے دور میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم پر بھی زور دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنے مدارس میں اس سلسلے کو شروع کرنے کے بعد افادۂ عام کے تحت وقت کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی سفارشات وفاق المدارس کو بھیجیں۔
اپنے منشور سے موافقت نہ ہونے کی بنا پر وفاق المدارس نے اختلاف کیا۔ چناں چہ ان مدارس کا الحاق وفاق سے برقرار نہ رہ سکا اور راہیں جدا ہوگئیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ہر تعلیمی، کاروباری، معاشرتی، معاشی معاملات کا حصہ رہا ہے اور آیندہ بھی رہے گا۔ مگر ناعاقبت اندیش لوگوں نے اس کو علمی سے زیادہ ذاتی نزاع کا مسئلہ بنا کر شور وغوغا کر دیا۔ یہاں یہ بات یقیناً قارئین کے لیے دلچسپی کی حامل ہوگی کہ انھیں مدارس میں سے ایک نے اپنے نظام پر ایسا کام کیا کہ دو سال سے بھی کم عرصے میں اس نے ’’الغزالی یونیورسٹی‘‘ کی داغ بیل ڈال کرحکومتی ایوانوں کو بھی حیران کر دیا۔ عمق نظر سے دیکھا جائے تو یہ کریڈٹ مدارس کے نظام کو ہی جاتا ہے کیوں کہ اربابِ مدارس کا ماننا ہے کہ اختلاف بھی رحمت کا باعث ہے جس کے ثمرات وبرکات بعد میں کھل کر سامنے آتے ہیں۔
۔