تقریبا پانچ ماہ قبل (تیس نومبر) مصنوعی ذہانت (آرٹیفشل انٹیلی جینس یا اے آئی) سے مسلح ایپ جیٹ جی پی ٹی متعارف ہوا تو اس نے ہلچل مچا دی۔ عام لوگ خوش ہو گئے مگر بہت سے ادارے اور سرکاریں پریشان ہو گئے۔ چالیس کروڑ سے زائد افراد اسے مفت ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اب تک اتنی تیزی سے کوئی پروگرام ڈاؤن لوڈ نہیں ہوا۔
نیا ورژن 25 ہزار الفاظ تک کا مضمون لکھ کر دے سکتا ہے
یہ پروگرام مائیکرو سافٹ کے تعاون سے سان فرانسسکو کی ایک کمپنی اوپن اے آئی نے متعارف کروایا۔اب تو اس کا تازہ اور پہلے سے بہتر ورژن جی پی ٹی فور کے نام سے آ گیا ہے۔یہ ورژن آپ کو پچیس ہزار الفاظ تک کا مضمون جھٹ پٹ لکھ کے دے سکتا ہے۔ورچوئل گیمز کی کاپی کر سکتا ہے اور ہاتھ سے بنے اسکیچ کی مدد سے آپ کے لیے ویب سائٹ یا پیج تخلیق کر سکتا ہے۔فروری میں مائیکرو سافٹ کے حریف گوگل نے بارڈ کے نام سے اپنا اے آئی پروگرام لانچ کر دیا اور اس کی دیکھا دیکھی مارچ کے وسط میں چینی کمپنی بیدو نے بھی اپنا اے آئی پروگرام ارنی کے نام سے پیش کر دیا۔مگر بیشتر صارفین کہتے ہیں کہ جو مزہ چیٹ جی پی ٹی میں ہے وہ فی الحال کسی اور اے آئی پلیٹ فارم پر نہیں۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسان کی تیز رفتار نقالی کرنے والا پروگرام
چیٹ سے مراد ہے بات چیت ، گفتگو ، گپ شپ۔جی پی ٹی مخفف ہے جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر۔ یعنی ایسا پروگرام جو اپنے اندر ذخیرہ شدہ معلومات بروئے کار لاتے ہوئے ذخیرہ شدہ منطقی ذہانت کی مدد سے انسان کی بخوبی تیز رفتار نقالی کر سکے۔اس پروگرام کو طرح طرح کا ڈیٹا اور معلومات پلا پلا کے اس کی یادداشت اسقدر تیز کر دی گئی ہے کہ یہ کسی بھی طرح کا اسکرپٹ بنا سکتا ہے۔طرح طرح کے سوالات کے درست یا نیم درست جوابات پل بھر میں فراہم کر سکتا ہے۔نئے ایپس کی پروگرامنگ کر سکتا ہے۔شاعری کر سکتا ہے۔گویا الہ دین کے افسانوی چراغ کی قریب ترین تعبیر ہے۔
مصنوعی ذہانت سے مختلف شعبوں کو لاحق خطرات اور خوف
مگر ہر نئی ایجاد آسانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خوف بھی پیدا کرتی ہے۔انہونے پن کا خوف ، روائیتی پیشے نگل جانے کا خوف، روزگار چھن جانے کا خوف۔ جب آٹوموبیل انڈسٹری وجود میں آئی تو کوچوانوں نے مظاہرے شروع کر دیے۔ پاکستان میں نوری نستعلیق متعارف ہوا تو کاتب گھبرا گئے۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت سے مسلح پروگرام ، پلیٹ فارمز اور ایپ بھی نیندیں اڑا رہے ہیں۔
سوشل سائنسز، تدریس ، ترجمے اور ٹیلی مارکیٹنگ کے شعبے اولین متاثرین میں شامل
عالمی ادارہِ محنت آئی ایل او کے تخمینے کے مطابق اس سال دنیا میں دو سو آٹھ ملین مزید افراد بے روزگار ہو رہے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرام اگر وسیع پیمانے پر اپنائے جاتے ہیں تو اولین متاثرین میں سوشل سائنسز کی تدریس، ترجمے اور ٹیلی مارکیٹنگ کے شعبے ہوں گے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اساتذہ کی بڑی تعداد بے روزگار ہو جائے گی مگر انھیں نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے سرقے اور نقالی پر زیادہ بہتر انداز میں گرفت ہو سکے گی۔اساتذہ چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرامز سے تعلیمی مواد کی تیاری میں مدد لے سکیں گے۔ورلڈ اکنامک فورم کا اندازہ ہے کہ سن دو ہزار پچیس تک مصنوعی ذہانت پر مبنی پلیٹ فارمز پچاسی ملین افراد کے روزگار پر اثرانداز ہوں گے البتہ ڈیٹا اینالسز ، مکینیکل تدریس، انفارمیشن سیکیورٹی اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ سمیت بیسیوں شعبوں میں ستانوے ملین نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔مسقبلِ قریب میں آنے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک سرکردہ عالمی انویسٹمنٹ مینیجمنٹ کمپنی سٹینلے مورگن نے اپنے چیٹ جی پی ٹی پلیٹ فارم کی تیاری کا کام شروع کردیا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ بہت سے پرانے پیشے ختم، نت نئے پیشے جنم لیں گے
یقیناً مصنوعی ذہانت کے بتدریج پھیلاؤ سے روزمرہ زندگی میں بہت سے پیشے ختم ہو جائیں گے اور ان کی جگہ نئے پیشے ابھریں گے۔ مگر بہت سے شعبے اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔مثلاً چیٹ جی پی ٹی کسی مقدمے کی تیاری میں وکیل کی مدد توکر سکتا ہے البتہ عدالت کے روبرو جرح نہیں کر سکتا۔میڈیکل اسٹور کے کاؤنٹر پر کوئی فارماسسٹ ہی ڈاکٹری نسخے کے مطابق درست مقدار اور تناسب سے دوا تیار کر سکتا ہے۔جسمانی محنت کے شعبوں مثلاً ٹیکسٹائل ورکرز ، عماراتی معمار ، بڑھئی یا ہاتھ سے کام کرنے والے ہنرمند بدستور فعال رہیں گے اور دست کاری کی اتنی ہی اہمیت رہے گی جتنی ایک مشینی قالین کے سامنے ہاتھ سے بنائے قالین کی ہوتی ہے۔جن کارکنوں کی ملازمت مصنوعی ذہانت کھا جائے گی ان میں سے بھی بیشتر نئی مہارت حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔جیسے کاریں عام ہونے کے بعد بہت سے گاڑی بان اور کوچوان ڈرائیور اور آٹومکینک بن گئے۔جیسے نوری نستعلیق متعارف ہونے کے بعد بیشتر کاتبوں نے بھی حرفی کمپوزنگ سیکھ لی۔
مصنوعی ذہانت کے بے لگام پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مختلف ممالک میں قانون سازی شروع
جوں جوں مصنوعی ذہانت کا چلن بڑھ رہا ہے اس کے بے لگام پھیلاؤ کو باقاعدہ بنانے کے لیے قانون سازی بھی شروع ہو گئی ہے۔مثلاً چین میں مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی سے متعلق کمپنیوں پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ نہ صرف سائبر اسپیس ایجنسی میں رجسٹر ہوں۔بلکہ مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات و پلیٹ فارم فارمز کو کس طرح کا ڈیٹا کن کن ماخذوں سے فیڈ کیا جا رہا ہے ۔اگر اس میں شہریوں کا ذاتی ڈیٹا بھی شامل ہے تو کیا اس کے استعمال کی پیشگی اجازت لی گئی ؟کوئی ایسا ڈیٹا فیڈ تو نہیں ہو رہا جس کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز سے ریاست ، حکومت یا حکمران پارٹی کے خلاف معاندانہ جذبات ، علیحدگی پسندی و دھشت گردی کو بڑھاوا مل سکے۔ایسی صورت میں تادیبی کارروائی ناگزیر ہے۔چین میں ویسے بھی گریٹ فائر وال کے سبب چیٹ جی پی ٹی جیسے پروگرامز کی ڈاؤن لوڈنگ مشکل بنا دی گئی ہےاٹلی پہلا مغربی ملک ہے جس نے مذکورہ سوالات کا تسلی بخش جواب ملنے اور مصنوعی ذہانت کو قانون و ضوابط کے احاطے میں لانے تک چیٹ جی پی ٹی طرز کے پلیٹ فارمز کے ملکی حدود میں استعمال پر عارضی پابندی عائد کردی ہے۔یورپی یونین حدود و قیود وضع کرنے کے لیے اے آئی ایکٹ کے قابلِ قبول مسودے پر تیزی سے کام کر رہی ہے۔ امریکی کانگریس میں بھی اس بابت قانونی سازی پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔برازیل کی سینیٹ کے روبرو بھی یہی معاملہ ہے۔
مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بچ جانے والے وقت کا مصرف کیا ہوگا؟
مجھ جیسے بڈھوں کو ایک اور فکر لاحق ہے۔یہ جو ہمارا وقت مصنوعی ذہانت بچائے گی اس بچے ہوئے وقت کا ہم کیا کیا کریں گے؟ ہم نے تو اپنی ذہانت سے اس کرہِ ارض اور اس کی مخلوق کی ایسی تیسی کر دی۔اس نقصان کی بھرپائی میں مصنوعی ذہانت کیا مدد کرے گی۔کیلکولیٹر آنے سے پہلے ہم خود ضرب جمع تقسیم کی دماغی ورزش کرتے تھے۔موبائل فون آنے سے پہلے ہمیں تمام ضروری فون نمبر یاد رہا کرتے تھے۔موبائل فون سے سہولت تو بہت ہو گئی۔مگر عمومی یادداشت اور سمپل دماغی سلوشنز بھی ٹیکنالوجی کے حوالے ہو گئے۔ آنکھیں بھی چہروں کی پڑھائی سے ہٹ کے اسکرین کی غلام بن گئیں۔تو کیا ہمارے دماغوں کے باقی حصوں کے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے یا بہت کچھ اچھے کا دروازہ کھلنے جا رہا ہے؟