اس وقت والدین اور اساتذہ کیلئے بہت بڑا چیلنج تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان سامنے آیا ہے۔ اس کے پیچھے ایک پوری مافیاہے۔ جس کے سامنے تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور حکومتی ادارے بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں خود والدین اور اساتذہ کو کیا اقدامات کرنے چاہیں۔ آرٹیکل میں اسی موضوع کو تفصیل سے زیر بحث لایا گیاہے۔
“سرکاری سکول کی 11 طالبات سے آئس آمد”۔
یہ سنسنی خیز خبر چند ماہ پہلے میرے شہر ایبٹ آباد کے ہر سوشل میڈیا پیج کی زینت تھی۔ مکمل تفصیلات کچھ یوں تھی کہ ایبٹ آباد پولیس کو شک تھا کہ ایک گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی ایک طالبہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر آئس جیسے جان لیوا نشے کو سکول میں پھیلا رہی ہے۔ شک کی بنیاد پر سکول سٹاف کے ساتھ مل کر سکول کی طالبات کی تلاشی لی گئی اور 11 بچیوں کے بیگ سے آئس برآمد کی گئی۔ پولیس نے مبینہ طالبہ اور اس کے بھائی کو گرفتار کر کے مقدمہ شروع کر دیا تھا۔
آئس ایک جدید نشہ ہے جو مختلف کیمیکلز ملا کر کرسٹل فارم میں بنایا جاتا ہے۔ یہ چرس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ حالیہ برسوں میں تعلیمی اداروں میں اس کا استعمال تیزی سے بڑھتا دیکھا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں منشیات کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں چالیس لاکھ افراد بھنگ کا نشہ جبکہ 90 لاکھ افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں اور لاکھوں لوگ چرس اور شراب کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ 700افراد نشے کا شکار ہو کر اپنی زندگی ہار دیتے ہیں۔
منشیات کے بڑھتے استعمال کی بنیادی وجہ ہمارا پڑوسی ملک افغانستان بھی ہے جو پوری دنیا کو پاکستان کے راستے منشیات سمگل کرتا ہے اور اس کے نیتجے میں منشیات پاکستان کے ہر علاقے میں بآسانی دستیاب ہے۔
بچوں میں پڑھائی کا شوق کیسے پیدا کریں؟
اسکول اور منشیات
خیبرپختونخوا کے دو شہروں پشاور اور ہنگو میں انتظامیہ نے ستمبر 2022 میں طلبا و طالبات کا ڈوپ ٹیسٹ کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر کبھی عمل تو نہیں ہو سکا مگر طلبا کی جانب سے اس ٹیسٹ کی شدید مخالفت کی گئی جس سے واضح ہوتا ہے کہ طلباء نہیں چاہتے تھے کہ ان کا منشیات کا ٹیسٹ ہو۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کا یہ دعویٰ ہے کہ اسلام آباد کے پرائیویٹ سکولوں کے 53 فیصد طلبا منشیات کا عام استعمال کرتے ہیں۔ اس میں سیگرٹ نوشی بھی شامل ہے۔
ایک دوسرے سروے کے مطابق یونیورسٹیز میں ہر دس میں سے ایک طالب علم اپنی زندگی میں منشیات کا استعمال کبھی نہ کبھی کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 13 سال سے 25 سال کی عمر تک کے افراد نشے میں مبتلا ہیں۔
منشیات ہمارے سکولوں میں تیزی سے سرایت کرتی جا رہی ہے۔ فیشن کے طور پر اس کا آغاز ہوتا ہے اور لت لگنے کے بعد جرائم کی دنیا میں یہ لے جاتی ہے۔ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ آپ یا ہم اپنے بچوں کو سکول تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجتے ہیں اور وہ وہاں منشیات جیسی بری لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
بری صحبت
جب بچوں کے ہم عمر دوست یا کلاس فیلو نشہ کرتے ہیں تو اس سے آپ کے بچے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بچے اس کو فیشن کے طور پر اپنا لیتے ہیں۔
اس کے علاوہ جو بچے پہلے سے اس لت میں مبتلا ہیں وہ نفسیاتی طور پر ایک احساس جرم یا ندامت میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ اس گناہ میں دوسرے بچوں کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ برائی ان تک محدود نہ رہے۔
نفسیاتی مسائل
ماہرین کے مطابق جن بچوں کے والدین کے خانگی معاملات اچھے نہیں ہیں یا وہ بچے جو گھر کے مسائل کی وجہ سے الجھن میں رہتے ہیں وہ بھی نشے کی لت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ایسے بچے ایک کمزور ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ وہ ابتدا میں اسے ایک سکون آور چیز کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پھر منشیات کا مسلسل استعمال ان کی عادت بن جاتی ہے۔
نفسیاتی مسائل جنہیں ہم نظرانداز کردیتے ہیں۔
تعلیمی اداروں کا خراب ماحول
منشیات کی روک تھام نہ ہونے کی ایک وجہ تعلیمی ادارے بھی ہیں۔ تعلیمی ادارے مناسب سیکورٹی اور سختی نہیں کرتے جس کی وجہ سے بچوں میں باغیانہ روش پروان چڑھتی ہے اور وہ تعلیمی اداروں میں ایسی سرگرمیاں کرنے کو بہادری سمجھتے ہیں۔ عموماً والدین بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں جو تعلیمی اداروں میں بچوں پر سختی کی مزاحمت کرتے ہیں۔
بچیوں کا منشیات کی طرف بڑھتا رجحان
پہلے پہل صرف لڑکوں کا خطرہ تھا کہ وہ نشوں کی طرف راغب ہوں گے مگر اب اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ لڑکیاں بھی تیزی سے منشیات کی بری لت میں جھکڑتی جا رہی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق منشیات استعمال کرنے والوں میں ملکی سطح پر خواتین کی شرح 22 فیصد ہے۔ ان میں سکول ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طالبات کی تعداد نمایاں ہے۔
کچھ ماہ پہلے اسلام آباد کے ایک ایلیٹ سکول کی ایک وڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نشے میں دھت دو لڑکیاں ایک لڑکی پر اس لئے تشدد کر رہی ہیں کہ وہ نشہ کرنے میں ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ یہ صورتحال انتہائی الارمنگ ہے کہ طالبات میں منشیات کا استعمال بالخصوص آئس جیسے نشے کا استعمال سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔
ہاسٹلز بھی محفوظ نہیں
بورڈنگ اسکول اور کالج بھی منشیات کی لت سے پاک نہیں ہیں۔ بالخصوص کالج کے ہاسٹلوں میں منشیات استعمال کرنا ، اسلحہ کی نمائش کرنا اب عام سی بات ہے۔ دور دراز علاقوں سے والدین اپنے بچوں کو بہتر تعلیمی سہولیات کےلئے شہروں میں مہنگے اخراجات پر بورڈنگ تعلیمی اداروں میں چھوڑتے ہیں مگر ان میں سے ایک تہائی بچے چیک اینڈ بیلنس کے فقدان کی وجہ سے بری صحبت اور نشے کی لت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک منظم کاروبار
ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تعلیمی ادارے ہوں وہاں جوس شاپ ، فوڈ کیفے یا سنوکر کلب وغیرہ قائم کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح منشیات فروشوں نے تعلیمی اداروں کے آس پاس منظم نیٹ ورکس قائم کر رکھے ہیں جس سے وہ کروڑوں روپے کی آمدن حاصل کرتے ہیں۔ منشیات فروش چند نشے کی لت میں مبتلا طلبا و طالبات کا استعمال کر کے تعلیمی اداروں کے اندر تک اپنا نیٹ ورک منظم کر لیتے ہیں اور کمیشن یا مفت نشے کے لالچ میں طلبا و طالبات ٹریپ ہو کر ان کی مکروہ سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے اور بچیاں جسمانی استحصال کا بھی شکار ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کو منشیات فروشوں کے چنگل سے بچائیں
منشیات فروش آپ کے بچوں کی نفسیات استعمال کر کے انھیں نشے کی عادت لگاتے ہیں۔ پہلے پہل بچے کو اپنے دوستوں سے مفت میں نشہ ملتا ہے اور جب اس کی عادت پختہ ہو جائے تو اسے اپنا نشہ خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اپنے بچوں کو مناسب اخراجات دیں ، انھیں فضول خرچی کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ جس سکول میں آپ کا بچہ زیر تعلیم ہے ، اس سکول کا ماحول اور آس پاس کا ماحول جاننے کی کوشش کریں۔ آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ آپ کے بچے کی صحبت کن کے ساتھ ہے۔ اگر وہ مشکوک کردار والے لوگوں کی صحبت میں ہے تو اس کی صحبت فورا تبدیل کرائیں۔
بچوں کے ساتھ منسلک رہیں ، ان کے روزمرہ کے معمولات سے آگاہی حاصل کرتے رہیں ، ایسا فرق آنے ہی نہ دیں جو بچوں کو منشیات کی جانب راغب کرے۔
نشہ کرنے کی علامات
ان علامات سے آپ بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کہیں آپ کا بچہ منشیات کی لت میں مبتلا تو نہیں ہے۔
وزن کم ہو جانا۔
بھوک کا ختم ہو جانا۔
زرد رنگت اور آنکھوں کا زرد رہنا۔
گھر والوں سے دور اور چڑچڑا رہنا۔
صفائی پر خاص توجہ نہ دینا۔
غصہ کی شدت میں اضافہ ہو جانا۔
تعلیم میں دلچسپی کا ختم ہو جانا۔
چھوٹی موٹی چوریاں کرنا۔
جسم یا کپڑوں سے ناگوار بدبو آنا۔
نشہ چھڑانے کا علاج
اگر خدانخواستہ آپ کو کبھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑے تو اپنے ہوش و حواس قائم رکھیں اور تشدد کے بجاے ڈی ٹوکسی فیکیشن کے عمل پر توجہ دیں۔ یاد رہے تشدد سے نشہ کبھی نہیں چھڑایا جا سکتا۔ نشہ چھڑانے کے عمل کو ڈی ٹوکسی فیکیشن کہتے ہیں ، یہ علاج نشہ چھڑانے والے مراکز میں کیا جاتا ہے۔ یہ علاج دس دن کے دورانیے سے لے کر دو ماہ کے دورانیہ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے۔ جب مریض نشہ چھوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ شدید درد ، ذہنی کوفت اور جسمانی بیماریوں سے گزرتا ہے۔ اسے مسلسل نشے کی طلب رہتی ہے۔ اس دوران سائکاٹرسٹ مریض کا خیال رکھتے ہیں۔ مریض کو دینی تعلیم دی جاتی ہے ، اس کی کردار سازی کی جاتی ہے اور سب سے اہم اس کی اخلاقیات پر توجہ دی جاتی ہے۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ نشہ فروخت کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے اور تعلیمی اداروں کو اس لعنت سے پاک کرنے کےلئے فوری اہم اقدامات کرے۔