اردو کو حقیقی معنوں میں قومی زبان بنانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
شیر ولی خان اسیر
جس وقت برصغیر پاک و ہند میں آزادی کی تحریک چلی تھی اس کی بنیاد ہمارا دین اور اس کی روایات تھیں۔ ماضی میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا حکمرانوں اور اکثریتی قوم کے امتیازی سلوک نے ہمیں ایک علحیدہ قوم ہونے کا احساس دلایا تھا۔ اس احساس سے تحریک آزادی کا جنم ہوا۔
ہمارے بزرگوں کی تخلیق کردہ اردو زبان جس کی ترقی کا دور شروع ہو چکا تھا، اس تحریک کی آواز بنی۔ مختصر یہ کہ برصغیر میں ہم نے ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اپنا تشخص اور آزادی برقرار رکھنے کی جد و جہد کا آغاز اردو زبان کے ذریعے سے کیا اور اپنی منزل پاکستان کی صورت میں حاصل کیا۔ آج بھی یہی تین عناصر ہمارے تشخص اور تحفظ کی ضمانت ہیں۔ پاکستان قائم ہے اور قائم رہے گا۔ اسلام ابدی مذہب ہے اور قیامت تک زندہ اور اپنے زرین اصولوں پر قائم رہے گا اور اردو ہماری قومی یکجہتی کا ایک مضبوط وسیلہ اور قومی ترقی کی ضامن ہے کیونکہ اس کی نشونما میں مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ ہندو ، سکھ، انگریز اور علماء نے بھی بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس لیے بابائے قوم نے اردو کو ملک کی قومی زبان قرار دیا تھا۔
افسوس! قیام پاکستان کے بعد اردو کو اس کا جائز مقام نہیں دلایا جا سکا
پاکستان بننے کے بعد ہم نے عملی طور پر نہ اسلام کے لیے کچھ کیا، نہ پاکستان کے لیے کوئی خاص کام کیا اور نہ اردو زبان کو اس کا آئینی مقام دلا سکے۔ شاید ہماری ملکی قیادت غلط ہاتھوں میں چلی گئی جو غیر ملکی آقاؤں کی باقیات تھے۔ ہم پاکستانی قوم بننے کی بجائے سندھی، بلوچ، پنجابی، سرئیکی، ہزارہ، پختون ، کشمیری وغیرہ وغیرہ قومیتوں کے گھروندوں میں گھس کر رہ گئے۔
قوم کا زرین وقت ہنر کے بجائے ایک بدیسی زبان سیکھنے میں برباد ہوگئی
مسلمان قومیت سے نکل کر سنی، شیعہ اور پھر مزید مذہبی ٹکڑیوں میں بٹتے گئے اور ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے کے درپے رہے۔ اپنی زبان کی پرورش کی جگہہ بدیسی زبان انگریزی کو اپنی ترقی اور تہذیب و تمدن کا معیار بنا کر انگریزی سیکھنے میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ اردو نظر انداز کر دی گئی۔ اسے قومی زبان کی عملی حیثیت نہ دے سکے۔قوم کا زرین وقت ہنر سیکھنے کی جگہہ غیر ملکی زبان سیکھنے میں برباد ہوگئی۔ انگریزی زبان ہماری ذہانت و قابلیت کا معیار بن گئی۔ ہماری اجتماعی نا اہلی کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ زندگی کے کسی بھی شعبے میں ہم نے کوئی کار نمایاں انجام نہیں دیا۔ لے دے کر ہم نے ایک ایٹم بم بنایا تھااور پھر اس کے خالق کے ساتھ جو سلوک روا رکھا اس سے ہمارا سر شرم سے ہمیشہ جھکا رہے گا۔
آئیے عہد کرتے ہیں
ماضی کی ناکامیوں پر غور کرنے سے ہمیں واضح نظر آ رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کے نظریے کو ٹھکرا دیا ہے۔ پاکستان کے آئین کو پس پشت ڈالا اور دین اسلام کو اپنے اپنے مخصوص مذہبی گروہوں کے مفادات کے لیے نہ صرف استعمال کیا بلکہ اس کی تشریح بھی اسی تناظر میں کی۔ ہمیں اپنی ان غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی ہوگی ورنہ ہمارا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ آئیے ہم قائد اعظم رح کے فرمودات، آئین پاکستان اور معزز عدالتوں کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا عہد کریں کہ آج سے ہم :
1۔ اپنی قومی پہچان کی اہم ترین نشانی قومی زبان اردو کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنے کی جد وجہد کا عملی طور پر آغاز کریں گے۔
2۔ اپنے تمام خطوط اور پیغامات اردو رسم الخط میں لکھیں گے۔ رومن میں لکھنے سے اجتناب کریں گے۔
3۔ نجی اور سرکاری تقریبات میں وعظ و تقاریر اردو میں کریں گے۔
4۔ اپنے بچوں کے ساتھ روزمرہ کی گفتگو مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں کرنے کی مشق کریں گے۔
5۔ اپنی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ اردو کے عملی نفاذ کی قرارداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کرکے منظور کرائیں گے۔
6۔ کوئی بھی حکم نامہ جو انگریزی میں ہو قبول نہیں کریں گے۔
7۔ اعلےٰ ملازمت کے لیے مقابلے کے امتحانات کا اس وقت تک بائیکاٹ کریں گے جب تک وہ اردو زبان میں نہیں ہوں گے۔
8. اپنی معزز عدلتوں کو بار بار یاد دلاتے رہیں گے کہ وہ نفاذ اردو سے متعلق آئین پاکستان اور اپنے حکم ناموں پر عمل درآمد کروائیں۔