اردوکا ڈی این اے
امجد چشتی
(آغازِ اردو کے نظریات پر مغز ماریاں )
اردو زبان کے وطن،خاندان اور پیدائش کی بابت جس قدر موشگافیاں ہوئیں ،شاید ہی کسی اور زبان کے بارے میں کی گئیں ہوں ۔ اردو زبان کہاں پیدا ہوئی اور ارتقاء کیسے ہوا اس کا حتمی و قطعی فیصلہ نہیں ہو پایا بلکہ عمومی تصور ہے کہ یہ ایک کھچڑی زبان ہے جو ہندی ،عربی ،فارسی ،ترکی اور بہت سی علاقائی بولیوں کے الفاظ سے وجود میں آئی ۔ کوئی زبان اور علاقہ نہ رہا جس سے اردو کے تعلقات استوار نہ کرائے گئے ۔ بہت سے دانشور وں اور محققین نے اردو زبان کو کسی اور زبان اور خطے کی جائز یا ناجائز اولاد ثابت کر کے ہی داعیٗ اجل کو لبیک کہا ۔ البتہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس کا تعلق زبانوں کے سب سے بڑے خاندان ’’ ہند آریائی خاندان ‘‘ سے ہے اور اس کی جنم بھومی برِصغیر ہے ۔ ذیل میں چند ایسی ہی عرق ریزیوں کا بیان ہے جن میں اردو کے کو جانچا جاتا رہا ۔
اردو ، بنت ِ پنجابی
اردو کی اصل تک پہنچنے میں سب سے مقبول نظرئیے کا تصور حافظ محمود شیرانی نے دیا ہے ۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’ پنجاب میں اردو‘‘ میں اردو کا مولد پنجاب کو قرار دیا ہے ۔ لکھتے ہیں ’’ اردو اپنی صرف ونحو میں پنجابی و ملتانی کے قریب ہے ۔ دونوں میں اسماء و افعال کے آخر میں الف آتا ہے اروو دونوں جمع اور تذکیر و تانیث کے طریقے ایک جیسے ہیں ۔ جبکہ ساٹھ فیصد الفاظ بھی مشترک ہےں ۔ ‘‘ ڈاکٹر انور سدید اور ڈاکٹر جمیل جالبی ایسے نابغوں نے بھی حافظ شیرانی کے اس خیال کی تائید کی ہے ۔ تاہم مولوی عبدالحق اس تصور سے مشتعل ہوئے اور مضحکہ اڑایا ۔ یہ امر دل چسپ ہے کہ اکبر کے دور سے پہلے پنجاب نام کا کوئی خطہ نہ تھا ۔
اردو ، دخترِ دکن
نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’ دکن میں اردو ‘‘ میں دعویٰ کردیا کہ اردو زبان دکن میں ہندوءوں اور مسلمانوں کے باہمی میل جول،بول چال اور لین دین کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔ ان کا موٗقف ہے کہ عربوں اور مسلمانوں کے تجارتی روابط دکن میں قدیم دور سے چلے آرہے تھے ۔ جب عرب قبیلے دکن میں آئے تو مقامی باشندوں سے تجارتی و سماجی بندھنوں کے نتیجے میں ایک نئی زبان معرض ِ وجود میں آئی جو اردو کی ابتدائی صورت تھی ۔ ان کے مطابق اردو کا اصل وطن صرف اور صرف دکن ہے ۔
ڈاکٹر مسعود حسین خان اپنی کتاب ’’ تاریخ ِ زبان ِ اردو ‘‘ میں بضد ہیں کہ اردو کا پنجابی سے علاقہ نہیں ۔ موصوف دہلی کے نواح میں بولی جانے والی بولیوں ہریانی،برج، کھڑی بولی اور میواتی کو اردوکی نانیاں دادیاں گردانتے گئے ۔ اب بھلا ڈاکٹر شوکت سبزواری اردو کی کسی زبان سے رشتہ داری کروانے میں پیچھے کیوں رہیں ۔ اس ضمن میں ’’ اردو زبان کا ارتقاء ‘‘ میں وہ اردو کو ’’ اُ پ بھَرَنش ‘‘ زبان سے ماخوذ کر کے سرخرو ٹھہرے ۔
بِرج بھاشا بطور خالائے اردو
اردو عناصر خمسائی رکن محمد حسین آزاد کہتے ہیں کہ ہماری اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے ۔ برج بھاشا سے اردو تک کے سفر میں وہ شاہجہان کے کردار کے بھی قائل ہیں ۔ گویا ان کے دعووں سے لگتا ہے کہ برج ، اردو کی ماں نہیں تو خالہ ضرور ہے ۔
مرہٹی ،اردو کی سگی بہن
ادب کے اک اور صاحب تحقیق ڈاکٹر سہیل بخاری نے ان تمام نظریات کو رد کرکے مہاراشٹر کی ’’ پراکرت ‘‘ زبان کو اردو کا ماخذ قرار دیا اور اردو کی تحقیق میں اپنا نام اس بہانے لکھوایا ۔ اسے مرہٹی (مراٹھا )زبان بھی کہتے ہیں ۔ پراکرت اصل میں سنسکرت کی بازاری زبان ہے ۔ سنس بمعنی خالص گویا سنسکرت ادبی زبان تھی ۔ ان کے الفاظ میں اردو ،مرہٹی کی سگی بہن ہے ۔ ساتھ ساتھ یہ عقدہ بھی کھولا کہ اردو ویدوں سے بھی قدیم زبان ہے ۔ اور یہ کہ رگ وید میں اردو الفاظ کی موجودگی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
دراوڑی زبان ،اردو کی سیکنڈ کزن
ڈاکٹر سلیم اختر عین الحق فرید کوٹی سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب آریا ہندوستان آئے تو ہڑپہ اور موہنجودڑو کے مہذب لوگوں سے پالا پڑا جو دراوڑی زبان بولتے تھے ۔ انہوں نے نو وارد آریاءوں کی زبان کو بھی متاثر کیا ۔ چنانچہ یہی دراوڑی زبان اردو کی بھی اساس بنی اور اسی پرقصرِ اردو استوار ہوا ۔
اردو ، بیسیوں ماءوں کی اکلوتی بیٹی
میر امن دہلوی نے کافی مصلحت آمیز خیال دیا ۔
’’ اکبر کے دور میں چاروں طرف سے اقوام قدر دانی اور فیض رسانی کی سن کر جمع ہوئیں مگر ہر ایک کی گویائی او ربولی الگ تھی ۔ اکٹھا ہونے اور آپس میں لین دین ، سودا سلف اور سوال و جواب کےلئے اردو زبان مقرر ہوئی ‘‘
رام بابو سکسینہ بھی قدرے اختلاف کے ساتھ امن دہلوی سے اتفاق کرتے تھے ۔ ڈاکٹر فرما ن فتح پوری بھی لگ بھگ یہی سمجھتے تھے کہ جب دہلی آباد ہوا تو ذی علم و قابل لوگ جمع ہوئے ۔ قدیم ہندی متروک ہونے لگی ،محاورے میں فرق آنے لگا اور اردو کی ترقی ہوئی ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سے الفاظ اردو کے اپنے اور کون سے گھُس بیٹھئیے ہیں ۔ ہماری سادگی ہے کہ عربی و فارسی اصطلاحات کو مقامی اردو سمجھتے ہیں ۔ گویا جو حملہ آور جتنا پرانا ہوتا جائے اتنا ہی ’’ اپنا ‘‘ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ لیکن امیر خسرو لائقِ تحسین و آفرین ہیں کہ ان کی زبان میں عربی الفاظ نہ ہونے کے برابر تھے ۔ یہی خالص مقامی اردو تھی ۔ اردو دنیا کی ایسی عجیب اور باقاعدہ غریب زبان ہے جو ہمیشہ غلط فہمیوں میں گھرِ ی رہی ۔ اپنے بیگانے شک کی نظروں سے دیکھتے رہے ۔ بیچاری کی شکل و صورت ہر دور میں بہت سوں کو دھوکہ دیتی رہی ۔ اس کے آغاز و ارتقاء کی نسبت بڑے بڑے ادیب،محقق اور دانشور بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہے اور اب تک بھٹک رہے ہیں ۔ اگر کبھی اردو کے اصل کا سراغ لگنے کی راہ نظر آتی تو ’’ نقوشِ سلیمانیہ ‘‘ اور د تا تریہ کیفی کی’’ کیفیہ ‘‘ ایسی تصانیف مخمصے اور تذبذب میں ڈالتی رہیں ۔ اردو کی ابتدا ء اور نوعیت کی بابت جتنا کھوجتے جائیں اتنے ہی نئے انکشافات منصہ شہود پہ آتے جائیں گے ۔ کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں ۔
کسے یاد رکھیں کسے بھول جائیں ۔ کہہ سکتے ہیں کہ اردو نے ہر زبان سے الفاظ مستعار لئے اور اپنے کرلئے ۔ جواباََ ان زبانوں کے مورثین نے اردو پر اپنے اپنے مزاجوں کے رنگ چڑھائے ۔ اس بات کی وضاحت معین نقوی کی اس نظم سے کی جاسکتی ہے ، ملاحظہ ہو
اردو کو فارسی نے شرابی بنا دیا عربی نے اس کو خاص تُرابی بنا دیا
اہلِ زباں نے اس کو بنایا بہت ثقیل پنجابیوں نے اس کو گلابی بنا دیا
دہلی کا اس کے ساتھ ہے ٹکسال کا سلوک اور لکھنوء نے اس کو نوابی بنا دیا
بخشی ہے کچھ کرختگی اس کو پٹھان نے اس حسن ِ بھوربن کو صوابی بنا دیا
باتوں میں اس کی ترکی بہ ترکی رکھے جواب یوں ترکیوں نے اس کو جوابی بنا دیا
قسمت کی بات آئی جو تورانیوں کے ہاں سب کی نظر میں اس کو خرابی بنا دیا
حروفِ تہجی ساری زبانوں کی ڈال کے اردو کو سب زبانوں کی چابی بنا دیا
ہم اور ارتقاء اسے دیتے بھی کیا معین اتنا بہت ہے اس کو نصابی بنا دیا
اردو اور پشتو
اردو اور دیگر زبانوں کے مباحث میں دیکھیں تو پشتو زبان اور پشتو بولنے والوں کی قناعت،بے نیازی اور حوصلے کو سلام کرنا پڑے گا کہ جب خطے کی تمام زبانیں اردو سے رشتہ داریاں جتانے پہ بضد ہیں تو پشتو والوں نے ایسے دعووں کا ( دیگر معاملات حیات کی طرح )سوچا تک نہیں ۔ اس طرح اردو کے طلبا اور محققین اک مزید زبان کے مطالعہ اور تحقیق کی اذیت سے محفوظ رہے ۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ )