Tuesday, December 3, 2024
HomeSelf developmentشہرت اور مقبولیت چہروں کی محتاج نہیں 

شہرت اور مقبولیت چہروں کی محتاج نہیں 

شہرت اور مقبولیت چہروں کی محتاج نہیں

تحریر؛۔ جاویدایازخان

بے شک ہمارے رب نے انسان کو “احسن تقویم ” قرار دیا ہے ، کہتے ہیں کہ خوبصورتی چہرے میں نہیں بلکہ دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے ، کسی نے شاعر نے کہا تھا
” ہر چہرہ کسی کا حبیب ہوتا ہے “

ہر معاشرے میں خوبصورتی کا ایک خاص ، مختلف اور علحیدہ ہی معیار ہوتا ہے۔ کہتے ہیں عشق کی دنیا میں مشہور لیلیٰ کالی ہونے کے باوجود مجنوں کی نظر میں دنیا کی سب سے خوبصورت خاتون تھی ۔

یہ بھی پڑھیں : حسن اخلاق

دوسروں کو دکھانے کے لئے زندگی مت گزاریں

اپنے محبوب کی شخصیت کا سراپا چاہنے والے کی آنکھ میں اس کے دل اور ذہن سے ابھرتا ہے ۔ ایک فوٹو گرافر نے اپنی دکان کے باہر بورڈ لگایا ہوا تھا۔ جس پر درج ذیل تین تحریریں لکھی ہوئی تھیں بیس روپے میں آپ جیسے ہیں، ویسی فوٹو بنوائیں۔ تیس روپے میں آپ اپنے آپ کو جیسا سوچتے ہیں ویسی فوٹو بنوائیں۔ پچاس روپے میں آپ لوگوں کے سامنے جیسے دِکھنا چاہتے ہیں ، ویسی فوٹو بنوائیں ۔ مرتے وقت اس فوٹو گرافر نے بتایا کہ مجھ سے ہمیشہ لوگوں نے پچاس روپے والی فوٹوز بنوائی ہیں، اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے اکثر لوگ پوری زندگی دوسروں کو دکھانے کے لئے گزاردیتے ہیں۔ ساری زندگی دکھاوا کرتے ہیں۔ اور بیس روپے والی زندگی نہیں گزارتے۔

آپ جیسے ہیں ویسے ہی رہنا سیکھیں زندگی آسان ہو جائے گی

آپ جیسے بھی ہیں ، بہت اچھے ہیں بیس روپے والی آسان اور حقیقی زندگی گزاریں زیادہ خوش رہیں گے ۔اس واقعہ سے مجھے ساٹھ سالہ پہلے کا رشید فوٹو گرافر یاد آگیا جس کو پیار سے سب” کالو “فوٹو گرافر کہتے تھے آج ہم تصاویر کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، ہمارے ہر بچے کے ہاتھ میں کیمرہ موجود ہے لیکن اس وقت کیمرے اور فوٹو گرافر کی اہمیت اتنی تھی کہ لوگ فوٹو بنوانے کے لیے کئی کئی دن تیاری کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھئیے: مزاج ، مائنڈ سیٹ اور یقین کا کامیابی میں کردار

فوٹو گرافر سے پسند کی تصویر بنانے کی خواہش اور حقیقت سے فرار کی روش

ہماری دوکان کے ساتھ ہی تحصیل آفس ،عدالتیں ،پولیس اسٹیشن اور پوسٹ آفس ہوتا تھا،سب لوگوں کو کسی نہ کسی سلسلے میں فوٹو کھنچوانے کی ضرورت پڑتی تھی تو رشید فوٹو گرافر نے ہمارے دادا جی سے درخواست کی کہ اسے اپنی دوکان کے سامنے اپنا کیمرہ رکھنے کی اجازت دیں جو دے دی گئی۔
دوسرے دن وہ ایک بینچ ،ایک پرانہ کوٹ ایک لکیردار پرانی شرٹ ،بغیر شیشوں والی عینک اور چند پرانی ٹائیاں اور کیمرہ لیکر آگیا۔
کیمرے کے ساتھ پستول کی پیٹی جس کے سامنے والے حصے میں کاغذ کی بنی مصنوعی گولیاں لگائی ہوئیں تھیں، بینچ کے پیچھے ایک پردہ ہوتا جس پر خوبصورت سینری بنی ہوتی جو بیک گراونڈ کو خوبصورت بناتی اور بینچ کے دونوں سروں پر دو مصنوعی پھولوں کے گلدان سجے ہوتے تھے۔

پرانے وقتوں کا تین ٹانگوں والا کیمرہ

اس زمانے میں تین ٹانگوں والا اونچا کیمرہ ہوا کرتا تھا ۔ اس کا منہ آگے کو نکلا ہوا ہوتا تھا جس کے پیچھے لمبا سا کالا سیاہ کپڑا لٹکا ہوتا تھا اس کپڑے میں وہ فوٹو گرافر اپنا منہ ڈال کر ڈھک لیتا تھا تاکہ اندھیرا ہو جاے اور تصویر بناتا تھا پھر اسے دھوتا اور پھر پنسل سے اس کی نوک پلک ٹھیک کرکے ایک دن بعد اسے دیتا تھا۔
اس زمانے میں یہ ایک مکمل ٹیکنالوجی سمجھی جاتی تھی اور فوٹو گرافر ایک فنکار تصور کیا جاتا تھا ۔

جب کوئی فوٹو بنوانے آتا تو وہ اسے پہلے تیاری کراتا اور شیو بنوانے کا کہتا، شیو بنانے والے خلیفہ جی نے بھی ساتھ ہی ایک کرسی اور شیشہ رکھا ہوا تھا آدھے گھنٹے میں شیو اور بال بنا دیتا تھا اور ساتھ ہی سرمہ ڈال کر آنکھیں گہری کر دیتا تاکہ تصویر میں نظر آئیں ، پھر وہ اسے پرانی شرٹ پہناتا اور ایک پرانی ٹائی لگاتا اور گرمی کے باوجود کوٹ پہنا کر بینچ پر بیٹھا دیتے اور اس کو پوز بنا بنا کر سیٹ کرتا، بار بار اس کالے کپڑے کے اندر منہ ڈالتا اور گھنٹہ بھر لگا کر اسے مبارک باد دیتا کہ آپکی تصویر بن گئی ہے اور ہر ایک کو خوشخبری سناتا کہ آپکی تصویر سب سے بہترین اور خوبصورت بنی ہے ایک یا دو دن کا وقت دیتا کہ آکر لے جانا۔

شوقین نوجوان اپنے گلے میں پستول اور کاغذکی گولیوں کی پیٹی ڈال کر تصویر بنواتے اور اسے رنگوں سے مزین کراتے جو یہ فوٹو گرافر ایک برش سے بڑی محنت سے رنگوں می ڈھالتا اور ایک سیاہ فام کو بھی سرخ و سفید کر دیتا اور سفید بالوں کو سیاہ کردیتا ،بوڑھوں کو جوان بنا دیتا ۔

لوگ اپنا اصل چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے

رشید فوٹو گرافر کہتا تھا “لوگ اپنا اصل چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے “وہ ایسا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں، میرے فوٹو میں جو نظر آرہے ہیں وہ ویسے ہوتے نہیں وہ اپنی تصویر اپنی شکل کی بجاے اپنے ذہن سے بنواتے ہیں ۔رشید فوٹو گرافر کا دور گزر گیا تصویر اور کیمرے نے ترقی کرلی لیکن لوگوں کی یہ خواہش آج بھی باقی ہے ۔

دنیا میں خوب صورتی کا معیار ایک نہیں مختلف ہے

یاد رہے دنیا بھر میں خوبصورتی کا کوئی ایک معیار نہیں ہے ہر علاقے اور کلچر کے معیا الگ الگ ہیں کہیں ناک پتلی اور کہیں موٹی پسند کی جاتی ہے کہیں رنگ گورے کی بجاے کالا اور آنکھیں بڑی کی بجاے چھوٹی ،گردن لمبی کی بجاے چھوٹی، ہونٹ پتلے کی بجائے بےتحاشا موٹے، بال لمبے کی بجاے چھوٹے، پلکیں اور بھنویں تک مختلف پسند کی جاتیں ہیں۔

بیوٹی پارلر کا کلچر کیسے فروغ پایا ؟

اپنی تصویر کو فلٹر لگا کر اپنی مرضی کے مطابق کر لینا اب کوئی کمال نہیں رہا یہ سب موبائل ایب خود کر دیتی ہے ۔اچھا اور خوبصورت نظر آنے کے شوق نے لوگوں میں بیوٹی پارلر کے کلچر کو عروج دیااور مرد وخواتین اب بن سنور کر جب بیوٹی پارلر سے نکلتی ہیں تو ہر دفعہ اپنے چہرے پر کئی چہرے سجا لیتی ہیں بسا اوقات تو ان کی شناخت اور پہچان تک ممکن نہیں ہوتی۔ بچے اپنی ماوں کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں کہ ناجانے یہ کون ہے ؟

یہ بھی پڑھیں: کردار کی اہمیت اور کردار سازی کے رہنما اصول

سرجری کے ذریعے چہرے بدلنے کا رواج

یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا اور بات یہاں تک جا پہنچی کہٍ صاحب حیثیت لوگ اپنے چہرے بدلنے کے لیے پلاسٹک سرجری کرا کر اپنے چہرے کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کے لیے بےتحاشا رقم خرچ کر نے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اپنے چہرے کے خدوخال اپنی پسند سے بنواتے ہیں۔

بیوٹی کریموں کے بعد رنگ گورا کرنے والے انجکشن کا بڑھتا رجحان

بیوٹی کریموں کے بعد اب رنگ گورا کرنے کے انجکشن کا رواج بڑھتا چلا جارہا ہے وہ چہرے تو سفید کر لیتے ہیں مگر ہاتھ پاوں کی رنگت ویسی ہی رہتی ہے ،گورا رنگ ،نیلی آنکھیں ،لمبا قد ،پتلی کمر ،دبلا پتلا اور سمارٹ ہونا ہر ایک کی خواہش بنتا جارہا ہے، خوبصورت بننے کےلیے مختلف طریقوں کا استعمال جنوں کی حد تک بڑھ چکا ہے اور کئی خواتین سرجری سے لیکر امپلانٹس اور خطرناک کیمیکلز تک کا ستعمال کر رہی ہیں جن کی باعث ان کو بسا اوقات خطرناک صورتحال سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے اور وہ جلدی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں ۔

خدا کی بنائی ہوئی صورت ہمیں کیوں پسند نہیں ؟

سوال یہ ہے کہ آخر خدا کی بنائی ہوئی بہترین تخلیق ہمیں پسند کیوں نہیں آتی ؟ ہم ایسا کیوں نظر نہیں آنا چاہتے ہیں جیسے ہم پیدا نہیں کئے گئے یا جیسا ہمیں نہیں بنایا گیا ؟ یا جیسا ہمیں دنیا دیکھنا چاہتی ہے ؟ہم ویسا رہناکیوں نہیں چاہتے جیسا ہمیں خدا نے پیدا کیا ہے ؟اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے چہرے اور صورت بھی اپنی مرضی کے چاہتے ہیں جس کے لیے ہم نے ذہن اور دل میں اپنے اپنے الگ الگ معیار مقرر کر رکھے ہیں۔

آپ میں اعتماد ہو تو آپ خود کو سب سے خوب صورت سمجھیں گے

خدارا اپنے اوپر اعتماد رکھیں کہ آپ دنیا میں سب سے زیادہ خوب صورت ہیں اور اللہ نے آپ کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے ۔دنیا میں اس ذات سے بڑا مصور کوئی نہیں ہے ،زندگی مختصر اور عارضی ہےاور آپ کا چہرہ اور جسم خدا نے سب سے خوبصورت بنایا ہے جو بچپن سے بڑھاپے تک بدلتا رہتا ہے جسے ہمارے رب نے “احسن تقویم ” قرار دیا ہے، اسے مت بدلیں، لوگوں کی باتیں سنکر خدا کے عطا کردہ حسن کو ضائع یا ختم کرنے سے گریز کریں ۔

خوب صورتی کی مذموم مقابلہ بازی سے دور رہئے

خود بھی خوبصورتی کی اس مقابلہ بازی سے بچیں اور باقی اپنے ارد گر کے لوگوں کو بھی خود اعتمادی دلائیں تاکہ ہر فرد اپنی خداداد شکل وصورت پر فخر کر سکے ۔دنیا میں بے شمار لوگ ہیں جن کی قابلیت اور صلاحیت کو ان کی شکل صورت سے زیادہ سراہا جاتا ہے ۔ ذرا غور کریں بے شمار،شاعر ،ادیب ،دانشور ، نعت خوان ،قاری ،گلوکار ،مقرر،کھلاڑی ،ادکار اور فنکار اپنی شکل و صورت سے نہیں اپنی مدھر آواز ، خوب صورت تحریر اورعمدہ کارکردگی کی خوبصورتی سے مقبولیت کی بلندی کو چھو جاتے ہیں اور لوگوں کی دلوں کی دھڑکن بن جاتے ہیں ۔ان کی آواز اور ان کی تحریریں اور ان کی کارکردگی ہی ان کی اصل خوبصورتی اور شہرت کا اصل راز ہوتی ہیں ۔

محبتوں کاسفیر۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی