شیخ یوسف القرضاوی ،طنطا کا چاند دوحہ میں چھپ گیا
(حصہ اول)
ضیاء چترالی
عالم اسلام کا امام رخصت ہوگیا۔ علم کی دنیا کا چراغ بجھ گیا۔ مصر کا آفتاب قطر میں ڈھل گیا۔ طنطا کا چاند دوحہ میں چھپ گیا اور مسلم امت یتیم ہوگئی۔ دنیائے اسلام کے نامور عالم دین، مفکر و مدبر، رہنما و پیشوا، مفتی اعظم و مرشد اعلیٰ علامہ یوسف عبداللہ القرضاوی انتقال فرما گئے۔ إنا لله وانا اليه راجعون.
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سوشل میڈیا پر یہ خبر سن کر سکتے میں آگیا۔ گوکہ گزشتہ 10 برس کے دوران شیخ پر متعدد بار لکھنے کا موقع ملا۔ عرب دنیا کی مقبول ترین شخصیت کی کتب پر پابندی سے لے کر ان پر دہشت گردی کے فتوے تک، ہر موقع پر رپورٹس و فیچرز تحریر کرتا رہا۔ لیکن اب سمجھ نہیں آرہا ہے کہ شیخ قرضاوی کی ہمہ جہت شخصیت پر کیا لکھوں اور کہاں سے بات سے شروع کروں۔ شاید ایک دو قسطوں میں اسے سمیٹنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
علامہ قرضاوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اس دور کے سب سے بڑے عالم تھے۔ ان کا آبائی تعلق مصر سے تھا۔ لیکن گزشتہ 4 دہائیوں سے آپ قطر میں قیام پذیر تھے اور وہیں آج پیر کے روز ان کا انتقال ہوگیا۔
شیخ قرضاوی 170 معرکۃ الآرا کتابوں کے مصنف تھے
شیخ یوسف القرضاوی 170 معرکۃ الآراء کتب کے مصنف تھے۔ جس سے ان کی علمی جلالت و بزرگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان کی اکثر کتابوں کے ترجمے دنیا کی مختلف زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں، دروس و خطابات کی ویڈیو اور سی ڈیز کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر آپ کے چاہنے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
الجزیرہ پر آپ کا پروگرام “الشریعۃ والحیاہ” بیک وقت 60 ملین لوگ سنتے تھے
چینل پر آپ کا پروگرام ’’الشریعۃ و الحیاۃ‘‘ عرب دنیا کا سب سے مقبول پروگرام تھا۔ جسے 60 ملین لوگ بیک وقت سنتے اور استفادہ کرتے تھے۔ علامہ قرضاوی کے شاگردوں، معتقدین، چاہنے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ جو عالم عرب کے علاوہ یورپ، افریقہ و امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس دورِ فسوں میں آپ دنیا کے سب سے بڑے مجتہد، مجدد، فقیہ اسلامی اسکالر اور مفکر مانے جاتے تھے۔ یہ الگ بات کہ سعودی عرب نے انہیں اپنا سب سے بڑا اعزاز ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ سے نوازنے کے بعد سیاسی وجوہ کی بنا پر دہشت گرد قرار دے دیا۔
والد شاعر اور سیاست دان تھے ،9 برس میں قرآن حفظ کیا
علامہ یوسف عبداللہ القرضاوی 9 ستمبر 1926ء کو مصر کے مغربی صوبے کے گائوں صفط تراب میں پیدا ہوئے، دو سال کی عمر ہوئی تو والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ شیخ القرضاوی کے والد عبد الرحمن یوسف القرضاوی شاعر اور سیاسی رہنما تھے۔ والد کی وفات کے بعد آپ نے اپنے چچا کے ہاں پرورش پائی۔ خاندان والے انہیں دکاندار یا بڑھئی بننے کو کہتے تھے۔ تاہم وہ اس دوران میں قرآن مجید حفظ کرتے رہے۔ 9 برس کی عمر میں حفظ مکمل کرلیا۔
اسکول میں پورے مصر میں دوسری پوزیشن حاصل کی
حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد شیخ قرضاوی عالم اسلام کی مشہور دانش گاہ جامعہ ازہر کے اسکول میں داخل ہوگئے۔ ہائی اسکول میں مصر بھر میں دوسری پوزیشن لی۔ اس کے بعد آپ جامعہ ازہر کے شعبہ اصول الدین میں داخل ہوئے اور1953 میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اس بیج میں آپ کی پہلی پوزیشن تھی اور کلاس کے ساتھیوں کی تعداد 180 تھی۔ اس کے بعد آپ شعبہ علوم عربیہ میں داخل ہوئے اور ایک سالہ کورس کرکے 1954 میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اس بار بھی کلاس میں پہلی پوزیشن آپ کی تھی۔ جبکہ کلاس کے ساتھیوں کی تعداد 500 تھی۔
جامعہ ازہر سے 1973 میں پی ایچ کی ڈگری حاصل کی
بعدازاں 1958 میں شیخ نے عرب لیگ کے ذیلی ادارے معهد الدراسات العربية العالية سے عربی ادب پر ڈپلومہ کیا۔ پھر 1960 میں علوم القرآن و السنۃ میں دوبارہ ماسٹر کیا۔ 1973 میں آپ نے اپنا پی ایچ ڈی جامعہ ازہر کے شعبہ اصول الدین سے مکمل کیا۔ آپ کے مقالے کا عنوان ’’الزكاة و اثرها في حل المشاكل الاجتماعية‘‘ (معاشرتی مسائل کے حل میں زکوٰۃ کا کردار) تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ مصر کی وزارت مذہبی امور سے وابستہ ہوگئے۔
اس دوران آپ مصرکی وزارت برائے مذہبی امور میں کام کرتے رہے۔
اخوان المسلمون کے بانی حسن البناء کے عقیدت مند تھے
شیخ یوسف القرضاوی اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کے عقیدت مند تھے، ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا، ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو مشتعل کر دیا۔
جمال عبد الناصر کے دور میں تین مرتبہ گرفتار ہوئے
علامہ کی زندگی نشیب وفراز سے بھرپور تھی۔ اخوان المسلمون سے فکری وابستگی کی وجہ سے جیل آپ کا دوسرا گھر تھا۔ پہلی بار 1949 کے شاہی دور میں گرفتار ہوئے۔ پھر جمال عبد الناصر کے سیاہ دور میں 3 بار آپ کو جیل جانا پڑا۔ پہلی بار جنوری 1954 میں گرفتار ہوئے۔ پھر اسی سال نومبر میں دوبارہ حراست میں لئے گئے اور 20 مہینے تک قید میں رہے۔
جامعہ قطر کے اسلامی شعبے کے بانی سربراہ تھے
1961 میں شیخ قطر چلے گئے اور وہاں معہد الدینی کے مدیر مقرر ہوئے۔ بعدازاں انہیں قطری شہریت سے بھی نوازا گیا۔ 1977 میں انہوں نے جامعہ قطر کو جوائن کیا اور وہاں اسلامی شعبے کی بنیاد رکھ کر اس کے سربراہ بن گئے۔ آپ 1990 تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جامعہ قطر کے سیرت النبی مرکز کے بھی آپ مدیر تھے۔ اس کے علاوہ بھی آپ قطر کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وہ الجزائر کی یونیورسٹیوں سے بھی وابستہ تھے۔
حسنی مبارک حکومت کے خاتمے کے بعد 2011 میں دوسری دفعہ آبائی وطن مصر گئے
2011 میں جب مصر میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو آپ نے 1981 کے بعد پہلی مرتبہ اپنے آبائی وطن میں قدم رکھا اور پہلی مرتبہ عوامی سطح پر آپ نے ایک مجمع عام سے خطاب کیا، جس میں تقریبا 25 لاکھ افراد شریک تھے۔ جمعہ کی نماز بھی آپ نے پڑھائی اور حسنی مبارک کے خلاف احتجاج کا خیر مقدم کیا۔ (جاری ہے)
عالم اسلام کے ممتاز عالم دین علامہ یوسف قرضاوی انتقال کر گئے