سفیر قرآن، شیخ عبد الباسطؒ عبدالصمد
ضیاء چترالی
شیخ عبد الباسطؒ عبد الصمد سلیم داؤد 1927ء میں مصر کی گورنری قنا کے گاؤں المراعزہ میں پیدا ہوئے۔ عصر حاضر کے قرائے کرام میں جتنی شہرت اور عوامی مقبولیت قاری عبد الباسط کے حصے میں آئی، اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بلاشبہ وہ اپنی وفات کی تین دہائیاں بعد بھی سب سے زیادہ سننے جانے والے قاری ہیں۔
آنجہانی ملکہ الزبتھ شیخ عبد الباسط کی تلاوت سنتی تھیں
قاری عبد الباسطؒ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ غیر مسلم بھی ان کی تلاوت شوق سے سنتے ہیں، جن میں برطانیہ کی آنجہانی ملکہ الزبیتھ بھی شامل ہیں۔ بہت سے غیر مسلم قاری صاحب کی تلاوت سن کر اسلام قبول کر چکے ہیں۔
قاری عبد الباسط جیسی مقبولیت کسی لیڈر یا مذہبی پیشوا کے حصے میں نہیں آئی
دنیا کے تمام ممالک میں بسنے والے مسلمان، قاری صاحبؒ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ایسی مقبولیت دورِ حاضر کے کسی بھی لیڈر، رہنما اور مذہبی پیشوا کو حاصل نہیں۔
قاری عبد الباسط کو ان کی دلوں کو موہ لینے اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز کی وجہ سے ”صوت مکہ“ اور ”کتاب الٰہی کے سفیر“ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔
دس سال کی عمر میں حفظ کیا ،1951 میں مصری ریڈیو کے قاری مقرر ہوئے
انہوں نے 10 برس کی عمر میں شیخ محمد الامیر کے پاس قرآن کریم حفظ کیا اور چار سال میں قرأت سبع عشرہ کا کورس مکمل کیا۔ 1951ء میں انہیں مصری ریڈیو میں تلاوت کیلئے مقرر کیا گیا۔ پھر ایک برس بعد وہ مصر کی معروف مسجد جامع امام شافعیؒ کے قاری مقرر ہوگئے۔
سن1958 میں شیخ محمود البنا کے نائب بنائے گئے
1958ء میں انہیں قاہرہ کی جامع مسجد سیدنا حسینؓ میں شیخ محمود البنا کا نائب مقرر کیا گیا۔ اسی دوران قاری عبد الباسط کی ریکارڈنگ کا دنیا بھر میں چرچا ہوگیا۔ عرب دنیا میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑنے کے بعد ان کی کیسٹیں دیگر اسلامی ممالک میں شوق سے سنی جانے لگیں۔
متعدد بار پاکستان آئے ،وفات سے کچھ عرصہ قبل جنرل ضیاء الحق کے جنازے میں شریک ہوئے
قاری صاحب متعدد بار پاکستان بھی آئے تھے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل بھی وہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے جنازے میں شرکت کے لئے پاکستان آئے تھے اور بیماری کے باوجود سورة الشمش کی تلاوت کی تھی۔ واپس وطن پہنچ کر ہی بیمار ہو کر قاہرہ کے ایک اسپتال میں داخل ہو گئے اور 30 نومبر 1988ء کو دنیائے قرأت کا یہ بے تاج بادشاہ دنیا رخصت سے ہو گیا۔
ان کے جنازے میں خلقت کا سمندر امڈ آیا۔ جن میں قاہرہ میں تعینات تمام اسلامی ممالک کے سفرا کے علاوہ مختلف ممالک کے سربراہان اور وفود بھی شامل تھے۔ جو قاری صاحب کے جنازے میں شرکت کیلئے قاہرہ پہنچے تھے۔
کثرت تلاوت کی وجہ سے گھر کا نام “بیت القرآن” پڑ گیا
آخری وقت قاری عبد الباسط نے اپنی اولاد اور اہل خانہ کو وصیت کی کہ قرآن کریم کو لازم پکڑو۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے گھر میں تلاوت ہمیشہ کا معمول ہے اور ان کے گھر کو ”بیت القرآن“ کہا جاتا ہے۔
سات بیٹے ،چار بیٹیاں ، سب حافظ قرآن ہیں ، پوتی قاریہ سمیہ عالمی شہرت یافتہ ہیں
قاری عبد الباسط کے سات بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ یہ سب قرآن کریم کے حافظ اور قاری ہیں۔ مگر شہرت سب سے چھوٹے بیٹے شیخ یاسر اور شیخ طارق کو حاصل ہوئی ہے، یہ دونوں مصر کے نامور قرآء میں شمار ہوتے ہیں۔ شیخ عبد الباسط کی پوتی قاریہ سمیہ بھی اپنے دادا جیسی تلاوت کر کے عالمی شہرت حاصل کر چکی ہیں۔
واحد قاری جس نے تمام بڑے اسلامی ممالک کے سفر کئے
قاری عبد الباسطؒ کو ان کی زندگی اور وفات کے بعد کئی ملکی اور غیر ملکی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ دنیا کے واحد قاری ہیں، جنہوں نے تقریباً تمام بڑے اسلامی ممالک کے سفر کئے اور مشرق و مغرب میں کلام الٰہی سنا کر لوگوں کے دلوں کو گرمایا۔
دادا اور والد بھی اچھے قاری تھے
قاری عبد الباسط کو قرآن کریم سے شغف وراثت میں ملا تھا۔ ان کے دادا شیخ عبد الصمد کا شمار بھی اپنے وقت کے بڑے قاریوں میں ہوتا تھا، جبکہ ان کے والد شیخ محمد بھی اچھے قاری تھے۔ ان کے دو بھائیوں نے بھی حفظ قرآن کے ساتھ تجوید کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ مگر عالمی شہرت اور لازوال مقبولیت حق تعالیٰ نے قاری عبد الباسط کو ہی عطا فرمائی۔
بچپن میں ریڈیو پر شیخ رفعت کی تلاوت سننے کے لئے تین کلومیٹر پیدل چل کر جاتے
قاری صاحب کا اپنے ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ”مجھے قرآن سے بے حد محبت تھی اور ہمیشہ خدا سے یہ دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے ایک معروف قاری بنا دے۔ اس دور میں ہمارے گھروں اور اطراف میں ریڈیو موجود نہ تھے، صرف بعض قہوہ خانوں میں ریڈیو ہوتے تھے۔ میں قرآت سننے کیلئے لمبا سفر پیدل ہی طے کیا کرتا تھا۔ اس دور کے دو مشہور قاری جو ریڈیو پر تلاوت کیا کرتے تھے۔ وہ شیخ رفعت اور شیخ شعشاعی تھے۔ شیخ رفعت ہفتے میں دو بار ہفتہ اور جمعہ کے دن تلاوت کیا کرتے تھے اور ان دونوں مواقع پر شیخ رفعت کی آواز سننے کے لیے میں تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پیدل جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے قاری حضرات سے مستفید ہونے کیلئے رات کے جلسوں میں شرکت کیا کرتا تھا۔
انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے اپنے علاقے کے مکتب خانے میں ہی قرآن پاک حفظ کیا۔ اس دور میں ہمارا دیہات شہر میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ میں نے اپنے والد محترم سے بات کی کہ میری خواہش ہے کہ علم قرآت سیکھوں اور ملک کا ایک معروف قاری بنوں۔ میرے والد نے جب میری یہ بات سنی تو میری حوصلہ افزائی کی۔ میرِے بڑے بھائی الازہر یونیورسٹی میں گئے اور انہوں نے دوسرے علوم کی تعلیم حاصل کی۔
میرے والد مجھے علوم قرآنی کے لحاظ سے مشہور علاقے ”طنطا“ بھیجنا چاہتے تھے، لیکن شمالی علاقوں سے ایک عالم ہمارے گاوٴں میں آیا اور اس نے بچوں کو قرآنی تعلیم دینے کی خواہش کا اظہار کیا، جسے ہمارے علاقے کے لوگوں نے بڑی پذیرائی دی۔ میں نے بھی انہی صاحب سے قرآت سبع سیکھی۔ انہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ مجھے بے حد شوق ہے اور میرے اندر قرأت سبع کو سیکھنے کی صلاحیت بھی ہے، اسی لئے انہوں نے اس بارے میں میری حوصلہ افزائی کی۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے دس قرأتوں کی تعلیم دیں، مگر میں خود سات پر قانع تھا۔ وہ معلم مجھے رات کے قرآنی جلسوں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے اور مجھے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے۔
قاہرہ میں پہلی بار دس منٹ تلاوت کے لئے وقت دیا گیا لوگوں کے اصرار پر ڈیڑھ گھنٹے پڑھتا رہا
میں نے قرآن کو دس سال کی عمر، قرآت سبع کو 12 سال اور عشرہ کو 14 سال کی عمر میں اللہ کے کرم سے سیکھا۔ قرآن کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم معانی کو بھی سیکھتے تھے۔ جب میری عمر 19 سال تھی، سن 1951ء میں پہلی بار مجھے قاہرہ جانے کا موقع ملا ۔ اس وقت میں حافظ قرآن تھا اور شہر کے”صعید“ نامی حصے میں رہائش پذیر ہوا، وہاں پر بعض لوگ مجھے جانتے تھے، اس لیے انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی مجالس میں شرکت کروں اور قرآن پڑھوں، لیکن میں وہاں پر اجنبی ہونے اور وہاں پر معروف قاری حضرات کی موجودگی کے باعث میرے اوپر ایک انجانا سا خوف طاری تھا۔
وہاں پر موجود مجھ سے پہلے سے آشنا ایک عالم نے درخواست کی کہ میں دس منٹ کے لئے قرآن کی تلاوت کروں۔ میں دس منٹ قرآن پڑھنے کے لئے آمادہ ہو گیا، مگر جب میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو مجھے ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ خدا کی جانب سے یہ توفیق تھی اور مسجد لوگوں سے بھر گئی۔ مجھے بار بار پھر سے قرأت کرنے کے لئے کہا گیا اور یوں میں تلاوت کرتا چلا گیا۔ دوسرے دن بھی مجھے قرآن پڑھنے کے لئے دعوت دی گئی، جسے میں نے قبول کر لیا۔
قرآت کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں حاصل کی
قاری صاحبؒ کا کہنا تھا کہ میرے والد مجھے علوم قرآنی کے لحاظ سے مشہور علاقے ”طنطا“ بھیجنا چاہتے تھے، لیکن شمالی علاقوں سے ایک عالم ہمارے گاوٴں میں آیا اور اس نے بچوں کو قرآنی تعلیم دینے کی خواہش کا اظہار کیا، جسے ہمارے علاقے کے لوگوں نے بڑی پذیرائی دی۔ میں نے بھی انہی صاحب سے قرآت سبع سیکھی۔ انہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ مجھے بے حد شوق ہے اور میرے اندر قرأت سبع کو سیکھنے کی صلاحیت بھی ہے، اسی لئے انہوں نے اس بارے میں میری حوصلہ افزائی کی۔ وہ چاہتے تھے کہ مجھے دس قرأتوں کی تعلیم دیں، مگر میں خود سات پر قانع تھا۔ وہ معلم مجھے رات کے قرآنی جلسوں میں اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے اور مجھے اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے تھے۔ میں نے قرآن کو دس سال کی عمر، قرآت سبع کو 12 سال اور عشرہ کو 14 سال کی عمر میں خدا کے کرم سے سیکھا۔
شیخ عبد الباسط کی ریڈیو آمد کی کہانی
قاہرہ میں محافل قرأت کے بعض منتظمین کہ جنہیں میں نہیں جانتا تھا، انہوں نے مجھے بلوایا اور پوچھا کہ ”آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟“ میں نے جواب دیا ”میں صعید کے ارمنت نامی دیہات کا رہنے والا ہوں۔“ انہوں نے مجھ سے کہا ”آپ ریڈیو پر تلاوت کیوں نہیں کرتے، اس سے آپ کو شہرت بھی ملے گی؟“ میں نے جواب دیا میں صعید میں تو مشہور ہوں، انہوں نے کہا بجائے اس کے کہ ایک علاقے میں شہرت حاصل کرو، تمام دنیا میں معروف ہو جاوٴ گے۔ میں نے جواب دیا مجھے اس سلسلے میں اپنے والد محترم اور دوسرے بزرگوں سے بات کرنی ہو گی۔ انہوں نے مجھ سے کہا خدا پر توکل کرو اور ریڈیو پر آوٴ۔ مجھے بھی اس بات کا احساس تھا کہ اس دعوت کو قبول کرنے سے میرے لئے ترقی کے دروازے کھل جائیں گے، اس لئے میں نے ان کی بات مان لی۔
ریڈیو اسٹیشن پیدل جاتے
اس زمانے میں شیخ الضباع قرآنی جلسوں کے مسئول تھے اور انہوں نے قرأت اور قرآنی علوم کے متعلق کتب بھی لکھی تھیں۔ جب شیخ کو پتہ چلا کہ میں قرآت سبع حفظ کر چکا ہوں تو انہوں نے مجھے مبارک باد دی اور مجھ سے وعدہ کیا کہ مجھے ریڈیو پر وقت دیا جائے گا۔ اس کے بعد میں تقریباً ہر ایک مہینے کے بعد ریڈیو پر تلاوت کیا کرتا تھا۔ میں فجر کی نماز کو حضرت زینبؓ کے مقام پر پڑھتا اور خیابان علوی میں واقع ریڈیو اسٹیشن تک پیدل جایا کرتا تھا۔ میں صبح 6 بج کر پانچ منٹ سے لے کر 7 بجے تک تلاوت قرآن کیا کرتا تھا۔
شروع میں تلاوت میں شیخ مصطفی اسماعیل ،شیخ رفعت اور شیخ شعشاعی کے اثرات تھے
سن 52ء میں جب مجھے پہلی بار حج پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی تو وہاں پر میری تلاوت کی کیسٹ بھی ریکارڈ کی گئی اور حرم شریف میں بھی مجھ سے تلاوت کرائی گئی۔ اس وقت میری تلاوت پر شیخ مصطفی اسماعیل، مرحوم شیخ شعشاعی اور شیخ رفعت جیسے قاری حضرت کے اثرات تھے۔
کسی دوسرے کی تقلید چھوٹی عمر میں کی جاتی ہے
یہ ایک بنیادی قاعدہ ہے کہ جب بھی قرآن پاک کو دل سے پڑھا جائے تو دل کو اچھا لگتا ہے اور خود قاری پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ میں قرآن کو ایک خاص انداز میں پڑھا کرتا تھا اور یہ انداز میں نے کسی سے نہیں اپنایا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ اس مخصوص روش کو اب مصر، ملائیشیا، انڈونیشیا اور دوسرے ممالک پر اپنایا گیا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ کوئی میری تقلید کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی میں تقلید کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں کروں گا، کیونکہ تقلید کی عمر چھوٹی ہوتی ہے اور تقلید کرنے والا شخص جلد ہی دوسرے قاری حضرات کی نقالی کرکے تھک جاتا ہے۔
تلاوت کےلئے اسٹوڈیو اور محفل میں سے کونسا موزوں ؟
قرآن کی تلاوت کو ترقی دینے اور اس کام کو جاری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہر قاری اپنے لئے مخصوص طرز تلاوت اپنائے۔ دوسری طرف اچھی آواز قدرت کا ایک تحفہ ہوتی ہے اور مائیکرو فون تو صرف ایک وسیلہ ہوتا ہے جو آواز میں ایک قوت پیدا کرتا ہے اور اسے دور دور تک لوگوں تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ اس لئے آواز کا خوب ہونا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ قرآن کا قاری کسی اسٹوڈیو میں بیٹھ کر جہاں ناظرین یا سامعین کے لئے تلاوت کر سکتا ہے، وہیں کسی مجلس میں موجود حاضرین کے سامنے بیٹھ کر بھی تلاوت کر سکتا ہے۔ بعض اوقات اچھی قرآت کے لئے اسٹوڈیو موزوں جگہ ہوتی ہے اور بعض اوقات کسی مجلس میں حاضرین کے سامنے۔ یہ سب قاری کی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کرتے وقت فرشتے نازل ہوتے ہیں اور وہاں خدا تعالیٰ کی رحمت برستی ہے۔ مسجد میں تلاوت کرتے ہوئے انسان کو احساس ہوتا ہے کہ ایک نورانی فضا اردگرد چھائی ہوئی ہے۔
مصری صدر جمال عبد الناصر کا روسی صدر سے وعدہ
یہ جولائی 1968ء کی بات ہے۔ ایک بار مصری صدر جمال عبد الناصر سوویت یونین کے سرکاری دورے پر اپنے وزراء کے وفد کے ساتھ گیا۔ اسرائیل سے جنگ کے پیش نظر مصری صدر روس سے مدد مانگنے وہاں پہنچے تھے۔ روس پہنچ کر وہاں کے حکام سے مذاکرات کا دور چل رہا تھا، باتوں باتوں میں سوویت یونین کے صدر نے جمال عبد الناصر سے طنزیہ انداز میں پوچھا: ”جمال! ہمارے لیے کیا لائے ہو؟“ سوویت یونین کمیونسٹ ملک تھا، یعنی وہ لوگ خدا کے وجود سے ہی منکر تھے۔ جمال عبد الناصر نے کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا ”جب اگلی بار آؤں گا تو ایک تحفہ لاؤں گا۔“ روسی صدر نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں انتظار کروں گا۔“
جب شیخ عبد الباسط کو بہ طور تحفہ روسی صدر کے سامنے پیش کیا گیا
کچھ عرصہ بعد جمال عبد الناصر کو دوبارہ سوویت یونین کے دورے پر جانا پڑا تو انہوں نے حکم دیا کہ قاری عبد الباسط الصمد (جو اس وقت دنیا کے سب سے مشہور قاری تھے) کو بلایا جائے اور ان کو اس وفد میں شامل کیا جائے۔ جب وفد سوویت یونین پہنچا اور پہلے کی طرح جب دونوں صدور آپس میں بیٹھے تو حسب سابق سوویت یونین کے صدر نے پوچھا: ”جمال عبد الناصر! ہمارے لیے کیا لائے ہو؟ آپ نے کہا تھا کہ اگلی بار آپ کیلئے ایک تحفہ لاؤں گا، ایسا کیا تحفہ ہے؟ جو آپ ہمیں دو گے۔“ جمال عبد الناصر نے پراعتماد انداز میں جواب دیا کہ آپ کیلئے واقعی ایک تحفہ لایا ہوں۔ سوویت یونین کے صدر نے اشتیاق سے پوچھا ”وہ کیا تحفہ ہے؟“ جمال عبد الناصر نے قاری عبد الباسط کو بلایا اور سوویت صدر کے سامنے کھڑا کیا اور کہا کہ ”یہ تحفہ ہے۔“ وہ حیران ہوا اور پوچھنے لگا ”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“ جمال عبد الناصر نے قاری عبد الباسط کو کہا ”ان کو تلاوت قرآن سنائیں۔“ اس وقت سوویت یونین کی تمام کابینہ اور بڑے بڑے وزرا اور مصر کا سرکاری وفد ایک بڑے ہال میں بیٹھا تھا۔
قاری عبد الباسط ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ قاری صاحب خود فرماتے ہیں کہ میں نے دل ہی دل میں دعا کی کہ خدایا! میں تیرے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے کبھی پریشان نہیں ہوا، لیکن آج میرے سامنے تجھے نہ ماننے والے اور تیرے قرآن کا انکار کرنے والے بیٹھے ہیں اور جو اپنی طاقت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں تو میری زبان میں ایسی تاثیر دیدے، جو ان کے دلوں میں اتر جائے۔
قرآن سن کر روسی صدر اور کابینہ ارکان رو پڑے
کہتے ہیں کہ میں نے آنکھیں بند کرکے تلاوت شروع کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیسے پڑھا؟ کہاں سے پڑھا؟ ہاں اتنا ضرور معلوم ہے کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے آنسو بہہ رہے تھے۔ جب قاری عبد الباسط نے تلاوت شروع کی تو کچھ دیر بعد جمال عبد الناصر نے چپکے سے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے سوویت صدر کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ جَب انہوں نے پیچھے نظریں دوڑائیں تو مصری وفد کے ساتھ ساتھ پوری سوویت کابینہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو جمال عبد الناصر نے اپنے روسی ہم منصب سے پوچھا کہ قرآن تو ہمارا ہے۔ ہماری آنکھوں سے آنسو بہیں تو سمجھ آتا ہے، لیکن آپ کیوں رو رہے تھے؟ سوویت صدر کہنے لگے ”جمال عبد الناصر! سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا، لیکن پتہ نہیں کیوں دل پگھل رہا ہے اور بے اختیار آنسو بہے جا رہے ہیں۔“
(بحوالہ: اعجازِ آلقرآن)