قومی سیرت کانفرنس 2022، آنکھوں دیکھا حال
عبدالخالق ہمدرد
12 ربیع الاول 1444ھ بمطابق 9 اکتوبر 2022ء بروز اتوار قومی سیرت کانفرنس سیرینا ہوٹل اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔ وفاقی وزارت مذہبی امور اس کا ہر سال اہتمام کرتی ہے۔ اس کانفرنس میں سال کے دوران سیرت پر لکھی جانے والی کتابوں اور وزارت مذکورہ کی جانب سے سیرت طیبہ کے موضوع پر منعقد کرائے جانے والے مقابلوں میں اول دوم سوم آنے والے مقالہ نگاروں کو انعامات دئے جاتے ہیں۔ عام طور پر صدر مملکت یا وزیر اعظم اس کے مہمان خصوصی ہوتے ہیں۔
الحمد للہ، مجھے کئی برسوں سے اس میں عربی سے اردو اور اردو سے عربی رواں ترجمہ کرنے کے لئے شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوتی رہی ہے۔ اس بار بھی مجھے یہ ذمہ داری ادا کرنی تھی، اس لئے صبح ساڑھے سات بجے موقع پر پہنچ گیا۔ جلسے کے انتظامات پورے تھے اور مذہبی امور کی وزارت کے اہلکار اور افسران تندہی سے رہی سہی کسر پوری کرنے میں لگے تھے۔
افسروں کی افسری کے تقاضے
پہلی نشست کا آغاز مقررہ وقت سے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہوا۔ اس میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی مہمان خصوصی تھے، اس لئے سارا انتظام خفیہ اداروں نے سنبھال لیا اور اندر موجود سب لوگوں کو ہوٹل سے باہر نکال کر دوبارہ نہایت اہتمام سے تلاشی لے کر اندر آنے کی اجازت دی۔ یہ ایک طویل اور تھکا دینے والا مرحلہ تھا کیونکہ ہم پاکستانی ابھی قطار بنانے کے عادی نہیں ہو سکے۔ دوسری بات یہ کہ اس طویل قطار میں سے بھی بعض لوگ بعض لوگوں کو نکال کر ساتھ لے جاتے اور ان کو دوسروں سے پہلے اندر داخل کرنے کی کوشش کرتے، حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ یہاں آنے والے سارے لوگ اندر جائیں گے مگر سوال یہ تھا کہ اگر سب اسی طرح قطار میں جائیں گے تو افسروں کی افسری کیسے ظاہر ہوگی؟؟
ڈاکٹر علی طارق صاحب انگریزی رواں ترجمے کے لئے تشریف لائے تھے اور ہم دونوں ایک ساتھ قطار میں لگے تھے۔ بڑے فاضل اور بے تکلف انسان ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں شعبہء سیرت سے وابستہ ہیں۔ ان سے اس موضوع پر تبادلہء خیال ہوا کہ ہمارے ہاں افسر شاہی بھی فوج ہی کی طرح ایک الگ دنیا ہے۔ یہ لوگ ساری زندگی سرکاری مراعات سے مستفید ہوتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ان کی رہائش گریڈ کے حساب سے سرکار کے ذمے، گاڑی سرکار کے کھاتے سے، نوکر چاکر سرکار کی جانب سے۔ پھر اختیارات کا نشہ اس پر مستزاد۔ ایسے میں عام افسران کی نفسیات اس ماحول سے متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتی ہیں؟؟؟ ایک ایسا آدمی جس کے ہر کام کے لئے نوکر موجود ہوں، بھلا وہ اپنے آپ کو ایک عام آدمی کے برابر کس طرح سمجھ سکتا ہے؟؟؟
جنرل صاحب کی ناگواری
اس نفسیات کا کئی بار مشاہدہ ہوا ہے۔ ایک بار میں ایک جنرل صاحب کا انٹرویو کرنے گیا۔ ہم ان کے ہاں پہلی بار گئے تھے۔ مکان تلاش کیا اور مجلس شروع ہوئی تو میں نے کہا کہ جنرل صاحب! ہم تو آگے جانے لگے تھے، ہمارا خیال تھا کہ آپ کا مکان شاید اندر گلی میں ہے۔ ان کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے بھئی میرا مکان بھلا گلی میں کیوں ہوگا؟ یعنی ان کا مکان گلی میں ہونا گویا عیب ہو گیا۔
ایک سفیر کی انسانوں کے درمیان رہنے کی خواہش
دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ ہم مرحوم اکرم ذکی کا انٹرویو کرنے گئے۔ ان کا مکان اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں تھا۔ وہ بذات خود بہت اچھے اور سمجھدار انسان تھے۔ کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہے اور ان کے پاس کتابوں کا بھی اچھا خاصا ذخیرہ تھا لیکن ان میں اردو کی شاید ہی کوئی کتاب ہو۔ مصاحبے کے آخر میں وہ کہنے لگے کہ میں کہیں انسانوں میں رہنا چاہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کی انسانوں سے کیا مراد ہے؟ کہنے لگے کسی ایسی جگہ رہوں جہاں میں لوگوں کو اور لوگ مجھے جانتے ہوں۔ مزید فرمایا کہ میں یہاں رہتا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ ساتھ والے گھر میں کون رہتا ہے اور انہیں بھی معلوم نہیں کہ یہاں کون رہتا ہے۔
غلام قوم کے لئے بنایا گیا افسر شاہی نظام ابھی تک قائم
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں اور اس سے افسر شاہی کا طبقہ بھی خالی نہیں لیکن یہاں عمومی بات ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ یہ نظام انگریزوں کا بنایا ہوا ہے اور انہوں نے یہ سب کچھ ایک غلام قوم کو قابو کرنے کے لئے بنایا تھا۔ اس لئے اس میں افسروں کے رعب داب اور اختیارات کا اظہار از بس ضروری تھا کہ جہاں سے افسر گزرے لوگوں میں ایک تھرتھلی مچ جائے۔ جن احباب نے غیر ملکوں کے سفر کر رکھے ہیں، وہ اس بارے میں زیادہ اچھی طرح بتا سکیں گے کہ آج برطانیہ میں افسر شاہی کو کیا مراعات حاصل ہیں اور کیا آج بھی وہاں دفاتر میں چپڑاسیوں، درجہء چہارم اور نائب قاصدوں کی فوج ظفر موج ہوتی ہے؟؟؟
صدر عارف علوی کی عمدہ گفت گو
خیر یہ بات تو ویسے ہی آ گئی۔ تلاشی کے بعد واپس ہال میں آئے اور صدر صاحب کی آمد کے بعد کانفرنس شروع ہوئی۔ دو چار لوگوں نے تقریریں کیں۔ ایک صاحب نے جوش خطابت میں عربی کا تیا پائنچا کیا حالانکہ ان کی علمی حیثیت کے مطابق ان کی عربی اس سے بہت اچھی ہونی چاہئے تھی۔ میں نے اپنا فرض نبھاتے ہوئے ان کی عربی کی بھی عربی میں ترجمانی کی کوشش کی۔ صدر صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے پر زور دیا اور اچھی گفتگو فرمائی اور آخر میں سچائی اور امانتداری پر بھی روشنی ڈالی۔
رابطہ عالم اسلامی کے ناظم عمومی محمد بن عبد الکریم العیسی صاحب نے بھی بعثت نبوی پر خوبصورت انداز میں اظہار خیال کیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کی زندگی کا ہر پہلو بے مثال ہے۔
کاش سیرت کانفرنس میں سیرتِ رسول کی رعایت ہوتی
نشست کے آخر میں انعامات تقسیم ہوئے اور پھر ظہرانے اور ظہر کا وقفہ ہوا۔ ہم بھی کھانے کے لئے گئے مگر جہاں گئے، وہاں ایسا لگا کہ یاجوج ماجوج ابھی یہاں سے گزرے ہیں۔ بڑی تگ ودو کے بعد ایک جگہ سے کچھ چاول حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی اور اس پر ایک کباب ڈاکٹر علی طارق اور ایک ایک انجان شخص نے رکھ دیا۔ بھیڑ بہت تھی۔ اس لئے کیا اصحاب جبہ ودستار، کیا سرکاری افسران و اہلکار اور کیا حاضرین بے کار، سبھی چلتے پھرتے کھانا کھاتے اور کچھ کھانا ٹھونستے نظر آئے۔
مجھے یہ منظر بہت ناگوار گزرا۔ خود ایک جگہ بیٹھنے کے لئے تلاش کی مگر رکابی ہاتھ پر رکھنے سے بہت تکلیف ہوئی۔ اس وقت مجھے اپنے ابا مرحوم کی ڈانٹ یاد آئی کہ “اگر تم اسی طرح ایک ایک لقمہ گن گر کھاؤ گے، تو اپنے ساتھیوں کی ہمرکابی کیسے کروگے؟” ابا جان، آپ ٹھیک کہتے تھے، میں نے وہ ہمرکاب آج تھوک کے حساب سے دیکھ لئے، جن کے ساتھ میں کھانے میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سیرت کے جلسے میں آنے والے سیرت کی روشنی میں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے، کھانا ہی کھا لیتے۔ افسوس۔
دوسری نشست کا وقت دو بجے تھا اور اس کے مہمان خصوصی وزیر اعظم شہباز شریف تھے لیکن وہ تشریف نہیں لائے اور ان کی جگہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب تشریف لائے اور جلسہ ساڑھے تین بجے شروع ہوا حالانکہ دعوت نامے کے مطابق یہ اختتام کا وقت تھا۔
مولانا فضل الرحمان کی سیرت پر خوب صورت گفت گو
اس نشست میں مولانا فضل الرحمن صاحب نے سیرت پر بہت خوبصورت گفتگو کی۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صورت اور سیرت دونوں میں بے مثال ہیں۔ آپ علیہ السلام کی صورت کو اپنانا ممکن نہیں کیونکہ کوئی بھی انسان آپ جیسا نہیں ہو سکتا لیکن آپ کی سیرت ہمارے لئے مشعل راہ ہے اور ہم اس کو اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی اور سرکاری زندگی میں اپنانے کے مکلف ہیں۔ اس تقریر کا ترجمہ بھی میں نے کیا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی باری
آخر میں ڈار صاحب کی باری آئی۔ اس وقت انگریزی ترجمے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لئے علی طارق صاحب نے میرا کام سنبھال لیا تو میں کیبن میں بیٹھا اونگھتا رہا بلکہ کچھ دیر کے لئے آنکھ بھی لگ گئی کیونکہ میں صبح نہیں سو سکا تھا۔
پانچ بجے کے بعد دوسری نشست بھی ختم ہو گئی اور لوگ چائے وائے کے لئے باہر نکلے مگر اس ہجوم میں بھی ہمیں چائے ملی اور نہ وائے۔ ایک جگہ سے کڑوی کافی کے چند گھونٹ ملے تو سستی دور کرنے کے لئے وہی پی لئے اور پھر گھر کی راہ لی۔
ربیع الاول کا اصل پیغام
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرت طیبہ کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اس پر راقم کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیے:
ربیع میں آیا ربیع والا ربیع بن کر
میں صدقے جاؤں غلام اس کا مطیع بن کر
نہیں اطاعت تو کچھ نہیں ہے یقین جانو
کرو اطاعت جیو جہاں میں وقیع بن کر