طلبہ حکومت کا ایک سال!
ضیاء چترالی
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا تھا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا!
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مفکر پاکستان کا یہ شعر حقیقی مومن کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جو قومیں معاشی، سماجی یا کسی بھی طرح کی غلامی کا طوق گلے میں پہن لیں، وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتیں، صرف اپنے اوپر یقین ہی مومن کو وہ طاقت دیتا ہے، جو ہر طرح کی زنجیریں توڑ کر کسی قوم کی تقدیر بدل سکتی ہیں، اقبال کا یہ شعر پہلے پڑھتے تھے تو لگتا تھا وہ قرون وسطیٰ کے مسلمانوں کی بات کر رہے ہیں، لیکن بالآخر ہمارے پڑوس افغانستان میں بھی ایک ایسی حکومت نہ صرف وجود میں آئی، بلکہ اس نے تمام تر پابندیوں اور سازشوں کے باوجود ایک برس کامیابی سے مکمل کرلیا ہے۔
امریکی فوج کا 15 آگست 2021 کو افغانستان سے انخلاء مکمل ہوا تھا
امریکی فوج کا گزشتہ برس 15اگست کو افغانستان سے انخلا مکمل ہوا تھا، اس لئے طلبہ حکومت نے اس دن کو آزادی کے دن کے طور پر منایا اور مختلف شہروں میں شہریوں نے ریلیاں نکالیں، طلبہ نے بھی اس موقع پر افغان روایت کے طور پر ہوائی فائرنگ کرکے خوشی کا اظہار کیا، اس موقع پر وزیر اعظم حسن اخوند نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ دن باطل پر حق کی فتح اور غاصبوں، ان کےغلاموں سے ملک کی آزادی کا ہے، انہوں نےعالمی برادری کو ایک بار پھر تعلقات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کسی ملک کیلئے خطرہ نہیں، بیرونی ممالک کو افغانستان کے ساتھ مثبت سیاسی، تجارتی روابط رکھنے چاہئیں۔
امریکا نے شکست کے بعد افغانستان کا ناطقہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی
امریکہ گزشتہ برس افغانستان میں شکست کھا کر نکل تو گیا تھا، لیکن اس نے اپنی شکست کھلے دل کے ساتھ قبول کرنے کے بجائے پہلے دن سے افغانستان کا ناطقہ بند کرنے کی کوششیں شروع کردیں، جنگ سے تباہ حال افغانستان کے اثاثے منجمد کردئیے گئے، عالمی برادری پر دبائو ڈال کر طلبہ حکومت کو تسلیم کرنے سے روک دیا گیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں بھی نئی افغان حکومت کی نمائندگی پر روک لگا دی گئی، تاکہ ان کی آواز کسی فورم پر بلند نہ ہو، تجارتی پابندیاں لگا دی گئیں، پہلے دن سے نئی افغان حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ جنگ بھی شروع کی گئی، کبھی خواتین کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی نسلی اقلیتوں کے مسئلے کو ہوا دی گئی۔
افغان حکومت روس ،چین و دیگر ممالک سے تعلقات بہتر بنا رہی ہے
افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے اور حکومت کو تسلیم نہ کئے جانے کے باعث پہلے سے تباہ حال افغانستان میں معاشی مسائل کا بڑھ جانا فطری امر تھا، امریکہ شاید یہ سمجھتا تھا کہ اس طرح طلبہ حکومت کو چاروں طرف سے گھیر کر ناکام کردیا جائے گا اور افغان عوام تنگ آکر ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، یا پھر طلبہ امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے، لیکن طلبہ حکومت نے اپنے عزم اور جذبہ ایمانی کی بدولت ان تمام مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کیا، رب العالمین اپنے اوپر بھروسہ رکھنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا اور اب جبکہ ایک سال مکمل ہوگیا ہے، آہستہ آہستہ طلبہ کے لئے نئے راستے کھلتے جا رہے ہیں، روس اور چین کے ساتھ طلبہ حکومت کےتعلقات میں تیزی سے بہتری آئی ہے، بالخصوص روس سے سستا تیل اور اجناس خریدنے کے لئے افغان وزیر صنعت نور الدین عزیزی اور دیگر حکام ماسکو کے دورے پر گئے ہیں، اسی طرح چین بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہا ہے۔
آج کا افغانستان پہلے سے کہیں زیادہ پر امن اور محفوظ ہے
اگرچہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیم افغانستان میں وقتاً فوقتاً حملےکرتی آرہی ہے، تاہم طلبہ حکومت ان کے مسلسل تعاقب میں ہے اور ان حملوں میں کمی آرہی ہے۔
آج کا افغانستان اُس وقت سے کہیں زیادہ محفوظ ہے، جب یہاں اتحادی افواج موجود تھیں، عدالتیں فوری انصاف دے رہی ہیں، جس سے معاشرے سے عام جرائم ختم ہوگئے ہیںیہ سال افغانستان میں گزشتہ چالیس برسوں کے دوران سب سے پرامن سال رہا، اغوا برائے تاوان کا خاتمہ کیا گیا ہے، کاروبار کے لئے محفوظ ماحول دستیاب ہے، شاہراہوں پر سفر بھی مکمل محفوظ ہے، سرکاری اداروں میں رشوت کا قلع قمع کیا گیا ہے، فنڈز کی قلت کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں پانی و بجلی کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں، سڑکوں کی تعمیر و مرمت کا کام جاری ہے، ان اقدامات کے ذریعے طلبہ حکومت افغان عوام کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
طالبان افغانستان کے راستے بجلی اور گیس پاکستان لانے کے منصوبے میں تیزی لانے کے لئے کوشاں
حکومت نے عالمی پابندیوں کے باوجود بہترین سفارت کاری کا بھی مظاہرہ کیا ہے، طلبہ قیادت نے پاکستان، ترکی، قطر، چین، روس، ازبکستان، ایران، سعودی عرب سمیت کئی ممالک کے دورے اور ملاقاتیں کی ہیں، طلبہ حکومت وسط ایشیائی ریاستوں سے بجلی اور گیس پاکستان لانے کے منصوبوں میں بھی تیزی لانے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے، ان منصوبوں کی تکمیل سے افغانستان کو رائلٹی کی مد میں بھی بھاری رقم ملے گی، ازبکستان کے تعاون سے حیراتان سے مزار شریف اور وہاں سے پشاور تک ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر بھی توقع ہے کہ اس سال کام شروع ہوگا، جس سے پاکستان اور افغانستان نہ صرف وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں بلکہ آگے روس سے بھی منسلک ہو جائیں گے، یہ سب کچھ افغانستان میں امن کی بحالی سے ممکن ہو رہا ہے، جو طلبہ حکومت سے پہلے خواب لگتا تھا، طلبہ حکومت نے امریکہ کی طرف سے سازشوں اور پابندیوں کے باوجود جس طرح ایک سال کامیابی سے پورا کیا ہے، اس سے ان کا اعتماد اور تجربہ دونوں میں اضافہ ہوا ہے اور امید کی جانی چاہئے کہ اگلا سال اس سے کہیں بہتر ہوگا، دنیا میں بدلتے حالات بھی طلبہ حکومت کو فائدہ پہنچائیں گے، کیوں کہ یوکرائن جنگ کے بعد اب دنیا پھر دو بلاکوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے، جس سے افغانستان جیسے ملک کے لئے نئی راہیں کھل سکتی ہیں اور جن عالمی طاقتوں نے افغان حکومت کے خلاف محاذ بنا رکھا ہے، انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔