عملی کام سے پہلے ذہنی تیاری ضروری کیوں؟

کام سے پہلے ذہنی تیاری

دنیا کے ہرکام کا خاکہ پہلے ذہن میں بنتا ہے۔ کام کیلئے ذہنی تیاری ہوتی ہے۔ پھر خارج میں وہ چیز وجود میں آتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ ذہن میں کوئی چیز وجود میں آئے بغیر خارج میں وجود میں آسکے۔ قرآن کریم میں اللہ رب العزت کی قدرت کے بارے میں ارشاد ہے:

 اذااراد کل شئی ان یقول لہ کن فیکون (سورۃ یسن 62)  جب اللہ تعالی کسی کام کوکرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو  اسےحکم دیتے ہیں کہ ہوجا۔پس وہ کام ہوجاتا ہے۔

 انسانوں کے لئے بھی یہی اصول  ہے۔ کہ جب  آدمی کوئی کام کرناچاہتا ہے، تو پہلے سوچتاہے۔ اور  ذہن میں اس کا خاکہ بناتا ہے۔ پھر  کوشش کے ذریعے اسے عملی جامہ پہناتاہے۔ لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ جس کا م کا ذہنی خاکہ جتنا زیادہ واضح ہوگا۔ پہلے سے طے شدہ اور منصوبہ بند ہوگا ۔وہ کام اتنا ہی کامیاب اور اچھے نتائج کا حامل ہوگا۔

منصوبہ بندی

اس کے برعکس جس کام کے لئے ذہنی آمادگی ، ذہنی تیاری اور منصوبہ بندی جتنی کم ہوگی۔ اس کی کامیابی کے امکانات بھی  اتنے ہی کم ہونگے۔ اگرہم یہاں کام سے مراد اولاد کی تربیت  لیں تو اس کااصول بھی یہی ہوگا۔

یعنی  والدین جب تک اپنے بچے کی بہترین تربیت کے لئے ذہنی طور پر تیاراور آمادہ ہوکر پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کریں گے۔ ان کی تربیت  کا عمل اتنا ہی ناقص رہے گا ۔اور نتائج اتنے ہی خراب نکلیں گے۔

اس لئے بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے لئے سب سے  پہلے  ذہنی تیار ی اور ساتھ منصوبہ بندی کرلیں۔ اور پھر اس منصوبہ بندی کے مطابق تربیت کے کام کو عملی جامہ پہناتے رہیں۔ تو وہ کامیاب والدین اور کامیاب اساتذہ کہلائیں گے۔جس کے نتیجے میں بچوں کی بہترین تربیت ممکن ہوسکے گی۔

ذہنی تیاری ضروری کیوں؟

آج پروفیشنل ازم کا دور ہے۔ دنیا کے تمام کامیاب پروفیشنلز مثلاانٹر نیشنل کھلاڑی، سائنس دان، ڈاکٹرز ، وکلا او راساتذہ وغیرہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی  کے لئے ذہنی تیاری اور منصوبہ بندی کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں ۔ جسمانی یا پریکٹیکل عمل شروع کرنے سے پہلے وہ ذہن  کی تیاری اور آمادگی پر بھرپور کام کرتے ہیں۔

جس سے ان  کی عملی کارکردگی بہتر اور دوام پذیر ہوجاتی ہے۔ یوں وہ اپنے  کاموں کو کامیاب نتائج سے ہمکنار کردیتے ہیں۔

روس کے انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو میچ کے لئے تیارکرتےہوئے1980 کی دہائی میں ایک ریسرچ کی گئی  ۔جس میں پہلے تمام کھلاڑیوں کو چار کیٹیگری میں  تقسیم کیا گیا۔  اور پھر تمام کو میچ جیتنے کی ٹریننگ دی گئی۔ ٹریننگ کے دو حصے تھے۔

ایک حصہ ان کھلاڑیوں کو ذہنی طورپر تیاراور آمادہ کرنے کے لئے  تھا۔ جبکہ دوسراحصہ کھیلوں کے لئے جسمانی تیاری، فزیکل پریکٹس اور ٹریننگ کا تھا۔یوں ان کھلاڑیوں کے مندرجہ ذیل چار گروپ بنادئیے گئے۔

چار گروپس

گروپ1: اس گروپ کو 100فیصدفزیکل ٹریننگ دی گئی۔ جبکہ ذہنی تیاری اورآمادگی کی کوئی ٹریننگ نہیں کرائی گئی۔

گرو پ 2:   اس گروپ کو 75  فیصدفزیکل ٹریننگ جبکہ 25فیصد ذہنی تیاری کی ٹریننگ دی گئی۔

گروپ 3:   اس گروپ کو 50 فیصد فزیکل ٹریننگ دی گئی ۔جبکہ 50 فیصد ذہنی تیاری کی ٹریننگ دی گئی۔

گروپ 4:  اس گروپ کو 25فیصد فزیکل ٹریننگ دی گئی۔ جبکہ 75فیصد ذہنی تیاری اور آمادگی کی ٹریننگ دی گئی۔

تحقیق کے نتائج

اس اسٹڈی کے حیران کن نتائج سامنے آئے ۔کھیلوں کے مقابلے جسمانی طورپر میدان میں اترکرہواکرتے ہیں۔ لیکن دیکھاگیا کہ حیران کن طور پر گروپ نمبر 4 کے رزلٹس سب سے اچھے تھے۔ اس گروپ کی جسمانی تربیت اور کھیل کی پریکٹس صرف 25فیصد ہوئی تھی۔ جبکہ باقی 75 فیصد ذہنی تیاری اور آمادگی کی  تربیت ہوئی تھی۔

اس اسٹڈی کا نتیجہ یہ نکالاگیا ۔کہ کسی بھی    ککام کیلئے ذہنی تیار ی بہت  ضروری ہے۔یعنی ہرکام کو شروع کرنے سے پہلے اس کے لئے ذہنی آمادگی ، ذہنی تیاری اور منصوبہ بندی پر تین گنا کام کرنا چاہیے۔ جبکہ باقی ایک چوتھائی پریکٹیکل  ٹریننگ اس کام کی بہترین انجام دہی کے لئے کافی ہے۔

دورحاضر میں تمام فوجی وغیرفوجی آفیسرز، پالیٹیکل لیڈرز اور انٹرنیشنل  مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی جسمانی تربیت سے پہلے بھرپور ذہنی آمادگی اور ذہنی تیاری کے لئے  تربیت دی جاتی ہے۔

  اور جن لوگوں کی ذہنی تربیت جتنی اچھی ہوتی ہے یعنی وہ ذہنی طورپر اپنی ذمہ داریوں  کی انجام دہی کے لئے جتنے زیادہ  تیار ہوتے ہیں اتنی  ہی بہتران کی عملی کارکردگی او ر پرفارمنس سامنے آتی ہے۔

ریسرچ پڑھنے کے لیے کلک کیجئے۔

:بچوں کی بہترین تربیت کے لئے والدین  ذہنی طورپر تیارہوں

دنیا کے کاموں  میں بچوں کی تربیت نہایت مشکل ، صبرآزما اور مستقل مزاجی  کا متقاضی کام ہے۔ جب تک والدین اپنے ذہن اور دل وماغ کو اس کام کے لئے سوفیصد آمادہ  کرکے منصوبہ بندی نہ کریں۔ تب تک موثر اورکامیاب پیرنٹنگ کرنا بہت مشکل کام  ہوگا۔

ذہنی تیاری اور آمادگی  اس لئے بھی ضروری ہے۔ کہ اس سے تربیت کرنے والے والدین میں مستقل مزاجی پیداہوگی ۔جو تربیت کے عمل کی بنیادہے۔

اگروالدین تربیت اولاد کے میدان میں بے صبری  اور عدم برداشت کا مظاہر ہ کریں گے۔ یا بچوں کے مشکل رویوں کو دیکھ کر ذہنی دباو میں آکر ڈی موٹیویٹ ہونگے۔ یا اس کام کے لئے زیادہ پرجوش نہیں رہیں گے، تو اس کی بنیادی وجہ ذہنی آمادگی اور تیاری کی کمی ہے۔ 

جس کے نتیجے میں تربیت کا سارا  منصوبہ متاثر ہی نہیں  ہوگا، بلکہ پہلے سے کی گئی ساری محنت اکارت ہوجائے گی۔اگرآپ ذہنی طورپر تیار نہیں ہوں گے تو ہوسکتا ہے تربیت کے کام کو وقت کا ضیاع یا غیر اہم سمجھنے لگیں۔

جس کا لازمی نتیجہ اس کام میں عدم دلچسپی، مستقل مزاجی کے فقدان اور تربیت  کی ناکامی کی صورت میں نکل آئے  گا۔

:ذہنی طورپر آمادہ لوگوں کی خصوصیات

یہاں والدین کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ذہنی تیاری بھی کوئی آسان کام نہیں کہ اسے اہمیت ہی نہ دی جائے۔ اور وہ خودبخود حاصل ہو۔ بلکہ اس کو سیکھنے اور روزانہ کی مشق کے ذریعے ہی آپ خود کو ذہنی طور پرمضبوط اورحقیقت پسند بناسکتے ہیں۔ یہاں ذہنی آمادگی کی چند خصوصیات اور علامات  ذکر کی جاتی ہیں ۔

نمبر1:      ذہنی طور پر کسی کام  کو کرنےکے لئے آمادہ اور تیار لوگ عقل اور جذبات میں توازن قائم کرناسیکھتے ہیں۔ وہ جذبات کی رو میں بہہ کرعقل کے تقاضوں کو معطل نہیں کرتے۔ بلکہ دونوں میں توازن رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔

نمبر2:   ذہنی طور پرآمادہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کا بھرپوراحساس وادراک رکھتے ہیں۔ ان کے لئے فرائض کی ادائیگی نہ صرف مشکل نہیں ہوتی۔ بلکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے عمل کو انجوائے بھی کرتے ہیں۔

نمبر3:   ذہنی طور پر کسی کام کے لئے آمادہ لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھنے میں تامل نہیں کرتے۔ بلکہ خوش دلی سے اپنی غلطی قبول بھی کر لیتے ہیں اور  پھر اس کی اصلاح پربھی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

نمبر4:  ایسے لوگ مشکلات سے گھبراکر پیچھے نہیں ہٹتے۔ بلکہ مشکلات کو اپنے لئے چیلنج اور مواقع سمجھ کر ان کاسامنا کرنے کے لئے مضبوط ارادے سے کھڑے رہتے ہیں۔

 نمبر5:  ایسے لوگ مسائل کاحل نکالنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ کبھی بھی حالات سے مایوس نہیں ہوتے۔ اگر مسائل درپیش بھی ہوں توجرات سے ان کا حل نکالنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔

 

:کام کیلئے ذہنی تیاری کے چند مفیدطریقے

کسی بھی کام کو عملی طورپر شروع کرنے سے پہلے ذہنی طورپر اپنے آپ  کو اس کے لئے  تیارکرنے  کے لئے دنیا میں آج کل بے شمار ٹیکنیکس اور ٹپس پر عمل کیا جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت کے لئے ذہنی تیاری اور آمادگی  کے مراحل میں والدین کی آسانی کے لئے یہاں  چندٹپس اور ٹیکنیکس بتائی جاتی ہیں۔

کام کیلئے ذہنی تیاری مراقبہ یاسوچ کو مرکوز کرنا

 اس ٹیکنیک کو استعمال کرنے والاکسی پرسکون جگہ پر، پرسکون انداز سے بیٹھ جاتا ہے یا لیٹ جاتاہے۔ اپنی تمام ترتوجہ اپنے کام کے مرکزی نکتے پر مرکوز کرتا ہے۔ اور پھرلمبی لمبی سانسیں آہستہ آہستہ  اندر لے جاتا ہے ۔ اندرروکتا ہے اور پھر  آہستہ آہستہ سانس باہر پھینکتاہے۔

اس عمل کا فائدہ روحانی او ر جذباتی دونوں سطح پر ہوتا ہے۔، روزانہ  اس عمل کو دہرانے کے نتیجے میں  انسان  ذہنی طورپر آسودہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ غیر ضروری جذباتیت اور طبیعت میں اشتعال کم یا ختم ہوجاتاہے۔ ذہنی دباو میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔اور انسا ن کا ذہن ردعمل کی کیفیت سے نکل کرشعوری عمل کی کیفیت میں آجاتاہے۔

یہ عمل روزانہ کی بنیاد پرجب بارباردہرایاجاتاہے تو انسان کی نفسیاتی  صحت اچھی ہوتی چلی جاتی ہے۔  مزاج موزوں اور متوازن ہوجاتا ہے۔ جو بچوں کی اچھی تربیت کی بنیادی اور لازمی شرط ہے۔کام کیلئے ذہنی تیاری

:مثبت خودکلامی  اورکام کیلئے ذہنی تیاری 

ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے کے لئےیہ بھی ایک بہترین طریقہ ہے ۔کہ اوپر ذکرکردہ مراقبے کے بعداپنے د ل ودماغ میں مثبت جملوں کی خاموش گونج پیداکریں۔ اچھے اور مثبت جملوں سے خودکلامی کریں۔اپنے دل ودماغ کو دل ہی دل میں ایسے مثبت جملے سنائیں۔

جنہیں باربارسن کر دل اس کام کو اچھے طریقے سے کرنے پر نہ صرف آمادہ ہوجائے بلکہ اس پر ثابت قدمی بھی دکھائے۔اور اس کام انجوائے کرنے لگے۔ ایسا کرنے سے انتہائی مشکلات پیش آنے پر بھی ثابت قدمی رکھنے کی موٹیوشن برقراررہے۔

:موجود لمحے پر فوکس کریں

انسان کو اپنے مقصدمیں کامیابی کے لئے طویل المدت اہداف اور شارٹ ٹرم گولز ضرورسیٹ کرنے پڑتے ہیں ۔لیکن جس وقت وہ کام پروسس میں ہوتو موجودہ لمحے کو فوکس کرنا ضروری ہے۔ ورنہ  بعض اوقات مشکل حالات آنے پر گولز پورے نہ ہوں۔ تو انسان مایوسی کا شکارہوکرآئندہ کوشش کوبھی ترک کرسکتاہے۔

لہذا بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین کی ذہنی تیاری کا یہ بھی اہم حصہ ہے ۔کہ موجوہ لمحے پر خوب توجہ دیں اور اپنی تمام ترکوششیں اس پروسس کو کامیاب بنانے پر صرف کریں۔

: کام کا ذہنی تصور تخلیق کریں

ماہرین نفسیات کاخیال ہے کہ کسی کام کی حقیقی شکل اور اس کے ذہنی تصور کے درمیان انسانی دماغ فرق نہیں کرپاتا۔ اسی وجہ سے بہترین پرفارمنس کے لئے کام کو شروع کرنے سے پہلے اس کا ذہنی تصور دماغ میں پیداکرکے جمانا اور پھرکام کو شروع کرنا بہترین ٹیکنیک ہے۔ جس کو ویجویلائزیشن کہاجاتاہے ہے۔

جب دماغ پرسکون ہو توعملی کام کوشروع کرنے سے پہلے اپنے دماغ میں اس کام کا ذہنی تصورپیداکرنا یا اس کو ویجویلائز کرنا بہت مفید  ہوتاہے۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت کو عملی طورپر شروع کرنے سے پہلے ویجویلائزیشن کی تکنیک سے مدد لیں توان کی کارکردگی بہت اچھی ہوسکتی ہے۔

 :اپنے ذہن میں ہرحالت کیلئے لچک اور گنجائش برقرار رکھیے

بعض اوقات انسان کوئی ٹارگٹ سیٹ کرتا ہے اور اس کے لئے سنجیدہ کوششیں بھی کرتاہے۔ لیکن کئی وجوہات اور مجبوریوں کی وجہ سے وہ ٹارگٹ حاصل نہیں ہوپاتا۔ ایسے وقت کے لئے  ذہن میں لچک اور گنجائش رکھنے کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ورنہ انسان مایوسی کا شکار ہوکرآئندہ کی کوشش بھی ترک کرسکتاہے۔

اس تکنیک کو اگرہم بچوں کی تربیت پر اپلائی کریں۔ تو والدین کو چاہیےجہاں وہ ذہنی طورپراپنے آپ کو تربیت کے لئے پوری طرح تیار کریں۔ وہاں یہ بھی ذہن رکھیں کہ وہ ایک جیتے جاگتے انسان اور اس کی نفسیات وجذبات سے ڈیل کررہے ہیں کسی جامد مشین سے نہیں۔

لہذا ایسا بہت ممکن ہے۔ کہ وہ تربیت کے اصولوں کو اپلائی کرکے اچھے نتائج اور رزلٹ حاصل کرنا چاہیں لیکن پھر بھی رزلٹ کسی وجہ سے حاصل نہ ہوسکے ۔ایسے وقت کے لئے اپنے ذہن میں لچک اور گنجائش ضروررکھیں۔ کہ کسی بھی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہے۔

اور جب ایسا ہوتو اپنی حکمت عملی پردوبارہ غورکرکے اسے تبدیل بھی  کیاجاسکتا ہے۔ اس لچک اور گنجائش کا فائدہ یہ ہوگا، کہ آپ مایوس ہوکراپنی ذمہ داری چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہونگے بلکہ کوشش جاری رکھیں گے۔

بچوں کی تربیت شروع کرنے سے پہلے ذہنی تیاری اور ذہنی آمادگی کی یہ چند ٹپس اور ٹیکنیکس ہیں۔ جو آپ کے ساتھ شئیر کی گئیں۔  امید ہے کہ ان شا اللہ یہ تربیت کے لئے سنجیدہ والدین کے لئے بہت  مفیدثابت ہونگی۔ مزیدپڑھیے

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top