60ارب ریال راہ خدا میں وقف کرنے والے موجودہ دور کے حاتم طائی

60ارب ریال راہ خدا میں وقف کرنے والے موجودہ دور کے حاتم طائی

ضیاء چترالی

حاتم طائی ثانی کہلانے والے حاجی سلیمان الراجحی کا شمار سعودی عرب کے مالدار ترین افراد میں ہوتا ہے۔ صدقہ و خیرات اور راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے دولت میں کمی نہیں، بلکہ روز افزوں اضافہ ہوتا ہے۔ حاجی سلیمان راجحی اس کا زندہ ثبوت ہیں۔

سلیمان الراجحی نے صفر سے زندگی کا آغاز کیا تھا

صفر سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے سلیمان الراجحی خیر کے کاموں میں حصہ لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ان کی وقف کردہ املاک کی مالیت 60 ارب ریال (223 ارب روپے) سے زائد ہے۔ جس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جبکہ نقد امداد اور صدقہ و خیرات اس کے علاوہ ہے۔

غریبی کے دور میں کھجوروں کے باغ میں مزدوری کے ماہانہ 6 ریال ملتے تھے ،قہوہ بھی بیچتے تھے

گزشتہ رمضان المبارک میں بھی انہوں نے چالیس ملین ریال نقد غریبوں کی امداد کےلئے دیدیئے۔ جو پاکستانی کرنسی میں پونے دو ارب روپے بنتے ہیں۔
سعودی جریدے ”مکہ“ کی رپورٹ کے مطابق سلیمان الراجحی نے اُس وقت کھجوروں کے باغوں میں مزدوری شروع کی تھی، جن ان کی عمر 12 برس تھی۔ اس وقت انہیں ماہانہ صرف 6 ریال معاوضہ ملتا تھا۔ مگر انہوں نے محنت سے کام جاری رکھا۔اس کے علاوہ وہ ساحل پر قہوہ بھی بیچتے رہے۔ ساتھ کچھ پیسے بھی بچاتے رہے۔

صرف 400 ریال میں کاروبار شروع کیا ، اس وقت دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں

پھر انہوں نے اپنے بھائی صالح الراجحی کے ساتھ مل کر صرف 400 ریال میں کاروبار شروع کیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کا شمار نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا کے مالدار ترین افراد میں ہونے لگا۔

اسکول کے دور میں پکنک کے لئے ایک ریال جمع نہ کر سکنے پر بہت روئے

سلیمان الراجحی 1929ءکو سعودی عرب شہر القصیم کے علاقے البکبریہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان نہایت غریب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان الراجحی کے اسکول میں پکنگ کا پروگرام بنایا گیا۔ ہر بچے سے ایک ایک ریال مانگا گیا۔ مگر سلیمان الراحجی کے اہل خانہ ان کیلئے ایک ریال کا بھی انتظام نہ کرسکے۔ جس پر سلیمان بہت رونے لگے۔ اس دوران اسکول کے امتحانات کا نتیجہ آگیا اور سلیمان نے کلاس میں پوزیشن لے لی تو ان کے ایک فلسطینی استاذ نے انہیں بطور انعام ایک ریال دے دیا۔ یہی ریال انہوں نے پکنگ کیلئے جمع کرا دیا۔

جریدہ فوربس کے مطابق وہ دنیا کے 107 ویں مال دار ترین شخص ہیں

جریدہ فوربس نے ان کے اثاثوں کی مالیت 8.4 ارب ڈالر لگایا اور انہیں دنیا کا 107 ویں مالدار ترین فرد قرار دیا۔ صفر سے بلینر بننے کا راز سلیمان الراجحی کی سخاوت اور خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔ انہیں قدرت نے حقیقی معنوں میں دریا دلی کی صفت سے نوازا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال القصیم میں واقع دنیا کا سب سے بڑا کھجوروں کا باغ ہے۔ اس باغ میں کھجور کے 2 لاکھ سے زائد درخت ہیں اور سلیمان الراحجی نے اسے باغ راہِ خدا میں وقف کر رکھا ہے۔ اس باغ میں 45 قسم کی کھجوریں ہوتی ہیں۔ یہاں کی سالانہ پیداوار 10 ہزار ٹن کھجوریں ہیں۔ اس باغ کی آمدنی سے دنیا کے مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر، خیراتی کام اور حرمین شریفین میں افطاری کے دسترخوان سجائے جاتے ہیں۔

مصرف الراجحی سعودی عرب کے سب سے بڑے بینکوں میں شامل ،اثاثوں کی مالیت 124 ارب ریال

سلیمان الراحجی کو ان کے بھائی نے جدہ شہر میں ایک کمرے کو بینک کا نام دے کر کام شروع کیا۔ مختصر عرصے میں ”مصرف الراجحی“ کے نام سے بینکوں کا ایک جال پورے سعودی عرب میں پھیل گیا۔
اب اس کا شمار سعودی عرب کے سب سے بڑے بینکوں میں ہوتا ہے۔الراجحی بینک کی پانچ سو برانچیں ہیں۔ جس کے اثاثوں کی مالیت 124 ارب ریال ہے۔

ان کی پولٹری کمپنی کا شمار دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے

اس کے علاوہ ان کی پولٹری کمپنی کا شمار بھی دنیا کی بڑی کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ سلیمان الراجحی کے بڑے پیمانے پر کیٹل فارم بھی ہیں۔ جبکہ الراجحی کے نام سے اور بھی کئی شعبوں میں ان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ مگر ان کی شہرت مالداری کے بجائے خیر کے کاموں میں دل کھول کے خرچ کرنا ہے۔

رفاہی خدمات پر شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا جا چکا ہے

انہوں نے اپنی دولت کا بیشتر حصہ ”موسسة سلیمان الراجحی الخیریة“ نامی رفاہی ادارے کو دے دیا ہے۔ جس پر سعودی حکومت کی جانب سے انہیں شاہ فیصل ایوارڈ کیلئے چنا گیا۔ خیر کے کاموں کیلئے ان کی وقف کردہ املاک کی مالیت کا اندازہ 60 ارب ریال لگایا گیا ہے۔ پھر 2010ءمیں سلیمان الراجحی نے اپنے بچوں، بیگمات اور عزیز و اقارب کو بلا کر اپنی بقیہ دولت ان سب میں تقسیم کر دی اور اپنے حصے میں جو کچھ آیا، اسے بھی سب اپنے رفاہی ادارے کے نام وقف کر دیا۔ مالدار ہونے کے باوجود سلیمان الراجحی اپنے فلسطینی استاذ کے احسان کو نہیں بھولے۔ انہوں نے استاذ کو ڈھونڈ نکالا۔ جن کے مالی حالات بہت خراب تھے۔ وہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد واپس فلسطین جانے کیلئے پر تول رہے تھے۔

جب راجحی نے اپنے اسکول کے فلسطینی استاذ کا احسان چکایا

راجحی فلسطینی استاذ کو گاڑی میں بٹھایا اور ان سے کہا کہ میرے اوپر آپ کا قرض ہے۔ استاذ نے کہا کہ مجھ مسکین کا کس پر قرض ہو سکتا ہے؟ راجحی نے اپنے استاذ کو یاد کرایا کہ برسوں پہلے آپ نے مجھے ایک ریال انعام دیا تھا۔ استاد مسکرایا کہ آپ اب وہ ایک ریال مجھے واپس کرنا چاہتے ہیں؟ راجحی نے ایک بنگلے کے سامنے گاڑی کھڑی کی اور استاذ سے کہا کہ یہ گاڑی اور یہ بنگلہ آپ کے ہیں۔ باقی تمام اخراجات کا بھی میں ذمہ دار ہوں۔ فلسطینی استاذ کی آنکھوں میں آنسو آئے اور کہا کہ یہ عالی شان بنگلہ اور یہ مہنگی گاڑی تو بہت زیادہ ہے۔ راجحی کا کہنا تھا کہ جب آپ نے مجھے ایک ریال انعام دیا تھا، اُس وقت میری خوشی آپ کی موجودہ خوشی سے زیادہ تھی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top