کیمبرج یونیورسٹی کا بڑا اعتراف
ضیاء چترالی
جمعرات کے روز برطانیہ کی مشہور دانشگاہ کیمبرج نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ غلاموں کی تجارت سے اس نے بڑے مالی فوائد حاصل کئے۔ روئٹرز کے مطابق یہ اعتراف یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی ایک طویل تحقیق میں کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ افریقی سیاہ فاموں کی خریدو فروخت کی بہتی گنگا میں کیمبرج یونیورسٹی طویل عرصے تک اشنان کرتی رہی۔ جبکہ برٹش بینک اور چرچ آف انگلستان کا بھی اس میں کردار مرکزی نوعیت کا رہا۔
برطانوی دانش گاہ نے افریقی غلاموں کی تجارت سے مالی فوائد حاصل کئے
برطانیہ کے بے شمار کنگلے افریقی غلاموں کی تجارت سے مالدار ہوگئے۔ تقریباً 8 صدیاں پہلے قائم ہونے والی کیمبرج یونیورسٹی کے پاس اگرچہ اپنی غلاموں کی کوئی منڈی نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ مالی تعاون کرنے والے تقریباً سبھی سیٹھ غلاموں کی تجارت کے دھندے سے وابستہ تھے۔ جس سے یونیورسٹی کو بے پناہ مالی فوائد حاصل ہوئے۔ تحقیق میں ان صاحب ثروت خاندانوں کے نام بھی ذکر کئے گئے ہیں جو یا تو غلاموں کی تجارت کرتے تھے یا انہیں افریقہ سے پکڑ کر لاتے اور ان سے محنت مزدوری کراتے، جس سے یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے مالدار ہوگئے۔
یونیورسٹی کی ڈونر بڑی کمپنیاں بھی دھندے میں شامل تھیں
افریقہ سے لوگوں کو پکڑ کر لانے والی بڑی بڑی برطانوی کمپنیاں بھی کیمبرج یونیورسٹی کے ڈونرز میں شامل تھیں۔ یہ تو آپ کے علم میں ہی ہوگا کہ افریقہ کے ساحلی علاقوں سے لوگوں کو کس طرح پکڑ پکڑ کر یورپ لے جایا جاتا اور پھر ان آزاد انسانوں کی ایسی ہی منڈیاں سجتی تھیں، جیسے اپنے یہاں بقرہ عید میں مویشی منڈیاں سجتی ہیں۔ یہ ظالم اپنے بحری جہاز ساحلوں پر کھڑا کرکے افریقی بستیوں پر شب خون مارتے اور انسانوں کو ہانگ کر جہازوں میں سوار کرتے، جو ذرا بھی بدمعاشی کرتا پکڑ کر سمندر میں پھینک دیتے۔ یورپ میں آباد سیاہ فام انہی غریبوں کی اولاد ہیں۔
ایک زمانے میں کیمبرج میں غلام بنانے کی تعلیم بھی دی جاتی تھی
کیمبرج یونیورسٹی ایک زمانے تک لوگوں کو پکڑ کر غلام بنانے اور پھر انہیں ٹریٹ کرنے کی تعلیم دیتی رہی۔ غلاموں کی تجارت کی مختلف انواع اور زیادہ سے زیادہ پرافٹ حاصل کرنے کے طرق نصاب کا حصہ تھے۔ اس پر لیکچر دیئے جاتے تھے۔ ویلیام نامی شخص اٹھارہویں صدی میں کیمبرج یونیورسٹی کا حصہ تھا۔ وہ بعد میں برطانیہ کا وزیر اعظم بنا۔ اس کا بزنس ہی غلاموں کی تجارت تھا۔ اپنی ’’غلطی‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے کیمبرج نے اگلے برس اس ظلم عظیم پر ایک نمائش منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
صرف 1800ء سے 1810 تک 30 لاکھ افریقی جہازوں میں برطانیہ لائے گئے
برطانوی جریدے انڈپنڈنٹ (The Independent) نے لندن کی ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس وقت برطانیہ کے 25 فیصد مالدار خاندانوں کی دولت وثروت غلاموں کی تجارت سے حاصل شدہ ہے۔ انگریز افریقہ سے کتنے لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ انڈپنڈنٹ کے مطابق برطانوی بحری جہازوں میں 1800ء سے1810ء تک صرف 10 سال میں 3 ملین یعنی 30 لاکھ لوگوں کو لے جایا گیا۔ اِس کے نتیجے میں برطانیہ کے ہر کونے میں رہنے والا شخص مالدار ہوگیا۔ اس وقت یہ سب سے نفع بخش کام تھا۔ یہ صرف برطانویوں کا پسندیدہ مشغلہ نہیں تھا، بلکہ باقی یورپی قومیں بھی اس حوالے سے کسی سے پیچھے نہیں تھیں۔
بحری جہازوں کے عرشے کے اوپر ریلنگ کے ساتھ غلام زنجیروں کے ساتھ باندھے جاتے
افریقہ کے ساحلوں سے ڈچ اور انگریز جہاز راں اپنے جہازوں کے عرشے کے نیچے اجناس بھر لیتے تھے۔ عرشے کے اوپر جہاز کی ریلنگ کے ساتھ چہار اطراف افریقی غلام زنجیروں سے باندھ دیئے جاتے۔ غلاموں کی اس ایکسپورٹ کا حساب بہت آسان تھا۔ آدھے بھی اگر زندہ سلامت غرب النہد یا لیور پول کی بندرگاہ تک پہنچ گئے تو نقصان کا سودا نہیں تھا۔ غلاموں کے تاجر اس سودے کیلئے افریقی دیہاتوں میں جب گھستے تو صحت مند ’’مال‘‘ کو زنجیروں میں جکڑ کر بندرگاہ کی طرف بلکل ایسے ہی لے کر چل پڑتے جیسے مویشیوں کا کوئی ریوڑ ہو۔
موسم کی خرابی یا بیماری کی صورت میں افریقیوں کو سمندر میں پھینک دیا جاتا
جہاز پر غلام کی زندگی موسم طے کرتی تھی۔ موسم خراب ہوا، کوئی بیمار ہوا تو اسے زندہ سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ سفر طویل ہوا پانی راشن کی کمی ہوئی، تب بھی کمزور نظر آتے غلام سمندر برد ہوتے۔ جو زندہ بچ جاتے ان کیلئے یورپ امریکہ کی ایک کسمپرسی کی مشقت بھری غلام زندگی انتظار کرتی۔
امریکا میں 1619 یا 1555 میں افریقیوں کو پکڑ لانے کا آغاز ہوا
جناب مسعود ابدالی صاحب لکھتے ہیں کہ مورخین کے مطابق امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز 1619 میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا۔ کچھ مسلم محققین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555 میں شروع ہوا جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے۔ اس صدی کے آغاز پر ممتاز امریکی مورخ ڈاکٹر کمبیز غنی بصیری (Kambiz Ghanea Bassiri)نے دعویٰ کیا کہ افریقی غلاموں کے علاوہ مسلم تاجر اور مبلغین بھی شمالی امریکہ آئے تھے۔ ڈاکٹر بصیری امریکی ریاست اوریگن کے رییڈ (Reed) کالج میں علم المذاہب کے استاد ہیں اور انہوں نے اس موضوع پر A History of Islam in America کے عنوان سے ایک کتاب بھی تصنیف کی ہے۔
غلاموں سے بھرا پہلا جہاز 1619 کو ورجینیا میں لنگر انداز ہوا
افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام ’’گلوں‘‘ کی صورت میں پہلے ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے، جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انہیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بنا پر یہ گھنائونا کاروبار Atlantic Slave Tradeکہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619 میں ورجینیا میں لنگر انداز ہوا۔ اس کے بعد سے ’’افریقیوں کا شکار‘‘ ایک قومی کھیل بن گیا۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکو و تیمور جیسے غارت گروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں، مگر یہاں طریقہ وارادت بالکل ہی انوکھی تھی کہ جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوتے اور نہتی بستیوں کو منہ اندھیرے گھیر کر عورتوں بچوں سمیت سارے لوگ ہانک کر جہاز پر لاد دیئے جاتے۔
سن 1898 تک ایک کروڑ افریقی غلام بنا کر امریکا لائے گئے
دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قزاق کم سن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر ان کے درمیان ’’کثرت اولاد‘‘ کا مقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔ 1898 تک ایک کروڑ افریقی غلام بنا کر امریکہ لائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے 20 لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے، جبکہ ’’گڑبڑ‘‘ کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو ان کے پیروں میں وزنی پتھر باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔
زیادہ تر غلام بحر احمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا، گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ سینیگال، لائیبیریا، کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔
غلاموں ایک تہائی تعداد مسلمانوں کی ہے
بحر احمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ عمدہ خدوخال کی بنا پر حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت محبوب تھیں۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ ان غلاموں کی فروخت کے لئے ورجینیا، شمالی کیرولینا، جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلام منڈیاں قائم کی گئیں۔ اس وقت امریکہ بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13 کالونیوں پر مشتمل تھا جنہوں نے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ 1776 میں انہی 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی شکل اختیار کرلی۔ امریکہ کے پرچم پر 13 سرخ و سفید پٹیاں انہی ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
غلاموں کی تعداد مالکوں سے زیادہ ہوئی تو قابو کرنے کے لئے ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے
1625 میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی، جب کہ 1660 تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی، یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے، جنہیں قابو میں رکھنے کے لئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔
پھانسی کی کثرت کی وجہ سے پھندے کی تیاری منافع بخش کاروبار بن گیا
سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی اور یہ سزا اس شدت و کثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کے لئے رسی کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ جلادی کا کام ’’مجرم‘‘ کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا تھا، یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو پھندہ لگاتا۔ اس دور میں Get the ropeیعنی (پھانسی کیلئے) رسی لائو دھمکی کا استعارہ تھا، جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مار ڈالنا، خنجر بھونک کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا، غلاموں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریا برد کردینا بھی اس دور کی عام سزا تھی۔
غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرنے والے آج انسانیت کا درس دیتے ہیں
بس یوں سمجھئے کہ افریقہ سے پکڑ کر امریکہ لائے جانے والے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اس کا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آج یہی لوگ ہمیں انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے ہیں۔ جن کی رگوں میں دوڑنے والا لہو بھی غلاموں کے خون پسینے کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ پھر اعتراض اسلام پر کرتے ہیں کہ اس نے غلامی کو باقی رکھا؟ اسلام نے بے شک باقی رکھا، لیکن کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی، بلکہ بہانے بہانے غلاموں کی آزادی کے دروازے کھول دیئے اور پھر انہیں جو حقوق دیئے، ان کے ہوتے غلام کو غلام کہنا بھی برائے نام ہی ہے۔