ماہ رمضان نیکیوں کا پیغام
مولانا محمد سرور عا صم
رمضان کا ہم سے تقاضا
رمضان المبارک ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ دیکھنا کہیں ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری تمام تر فضیلتیں سمیٹنے سے محروم نہ رہ جانا ، شاید یہ زندگی کا آخری رمضان ہو ، دوبارہ ایسا بابرکت مہینہ نصیب میں نہ ہو،کیا تم دیکھتے نہیں کتنے ہی ایسے ہیں جو تمہارے ساتھ سحری و افطاری میں شریک ہونے والے اور قیام رمضان میں ساتھ کھڑے ہونے والے تھے لیکن ، آج نظر نہیں آرہے! کیوں؟ اس لیے کہ ان کا مقررہ وقت پورا ہو چکا ہے، عنقریب، تمہاری باری بھی آنے والی ہے، پھر کیوں نہ اس زندگی کے بقیہ لمحات و ساعات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو بدل دیں! معصیت و نافرمانی کی دلدل سے نکل کر زہد و تقویٰ کے تالاب میں غوط زن ہوں۔
ہم اپنی زندگی میں انقلاب کے لئے کیا کریں ؟
ہم اپنی زندگیوں میں کسی طرح انقلاب لائیں؟ رب کریم نے ہمیں ایک بہترین موقع عطا کیا ہے اور وہ ’’ماہ رمضان‘‘ ہے۔ ا ہم بات یہ ہے کہ کس طرح اس ماہ کے شب و روز گزاریں، تاکہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے اعمال اس کے ہاں مقبول قرار پائیں؟اس کے لئے درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھا جائے:
صدق دل سے توبہ
سب سے پہلے اپنی سابقہ زندگی پر ایک نظر ڈالیں کہ جس قدر بھی گناہ ہوئے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی ہے، خواہ قولاً ہے یا عملاً تو ان سب سے اللہ تعالی سے سچے دل سے توبہ کریں، توبہ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ گناہ کے کاموں سے لوٹنا، گناہ کا اعتراف اور آئندہ کبھی نہ کرنے کا عزم کرنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری بُرائیاں دور کردے گا اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔
توبہ کرتے ہوئے ہو سکے تو خوفِ الٰہی سے چند قطرے آنسوؤں کے بھی شامل کر لیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جو اللہ کے ڈر سے رویا۔‘‘نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا سایہ عطا کرے گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے تنہائی میں اللہ یاد آئے اور اس کے آنسو جاری ہو جائیں۔‘‘
حصول تقویٰ کی کوشش
گناہوں کو چھوڑنے اور نیکی کے کام کرنے پر طبیعت کا مائل ہونا اور اپنے گناہوں کے انجام سے ڈر کر ان سے بچنے کی کوشش کرنا تقویٰ ہے اور ماہ رمضان کا بڑا اور اہم مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ) ’’اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کر دیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔
تقویٰ اختیار کرنے کے دنیاوی و اُخروی بہت زیادہ فوائد ہیں جن کا تذکرہ قرآن و سنت میں جا بجا ملتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ آسان کردیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘
رسول اللہ نے فرمایا:۔ (ترجمہ) ’’اللہ سے ڈرو، اپنی پانچوں نمازیں ادا کرو، اپنے (رمضان کے) مہینے کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوٰۃ ادا کرو، اپنے حاکموں کی اطاعت کرو، تو تم اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
اپنے روزے کی حفاظت کریں
روزے کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر ہم نے اس سلسلے میں سستی و کوتاہی کا ثبوت دیا اور صحیح طریقے سے روزے کی حفاظت نہ کر سکے تو ہم اس کی فضیلتوں اور برکتوں سے محروم رہ سکتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ (روزے کے اجر و ثواب کو ختم کرنے والے اعمال مثلاً) جھوٹ، بہتان، چغلی، غیبت اور لڑائی جھگڑے سے بچا جائے، خصوصاً زبان کی حفاظت کی جائے اور تقویٰ اختیار کیا جائے۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا:۔ ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام (اللیل) کرنے والے ایسے ہیں جنہیں بیداری کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘ یعنی جو شخص بھی مذکورہ خرافات سے نہیں بچتا اس کا روزہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ نیز نبی کریمؐ نے فرمایا:۔ ’’جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
قیام اللیل کی پابندی
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مربوط کرنے کا اہم ذریعہ قیام اللیل ہے اور رمضان میں قیام اللیل فضیلت کے لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا:’’جو شخص ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرتا ہے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘
یہاں ایک بات کا خیال رہے کہ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ’’قیام رمضان اکیلے اور گھر میں کرنا زیادہ بہتر ہے، لہٰذا ہم گھر میں قیام کریں گے‘‘ لیکن وہ بیچارے ساری رات بستر پر سوئے ہی گزار دیتے ہیں۔ (اِلاماشاء اللہ) اور بعض حضرات قیام رمضان باجماعت کو سنت سمجھنے سے ہی انکاری ہیں! ایسے حضرات کی اصلاح کے لئے اس لمبی حدیث کا ایک حصہ پیش خدمت ہے جو آپؐ نے قیام رمضان کے بارے میں فرمایا تھا:۔’’یقیناً جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھ کر فارغ ہو جاتا ہے تو بقیہ رات (بھی ثواب کے لحاظ سے) قیام ہی میں شمار کی جاتی ہے۔‘‘
تلاوت قرآن مجید کی کثرت
رسول اللہ نے فرمایا:’’قرآن (کثرت سے) پڑھا کرو، کیونکہ قیامت والے دن یہ اپنے (پڑھنے والے) ساتھیوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اجر و ثواب کے لحاظ سے ماہ رمضان میں کیا ہوا ہر عمل زیادہ افضل ہے۔ اس لیے اس ماہ میں تلاوت قرآن کا ثواب بھی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ باعث اجر و ثواب ہے ۔
ذکر الٰہی کی کثرت
لغویات و فضولیات کو ترک کر کے ہمیشہ اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رکھنا چاہئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ اپنے تمام اوقات میں اللہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔‘‘ صبح و شام کے اذکار کی پابندی بھی کرنی چاہئے، جیسا کہ دیگر دلائل سے ثابت ہے۔
نیک اعمال پر مداومت کا عزم
جو سلسلہ رمضان کی مبارک ساعتوں میں قائم کیا جائے وہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی برقرار رہنا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو شخص رمضان میں قیام اللیل اور اشراق وغیرہ تک کی پابندی کرتا تھا وہ غیر رمضان میں فرض نماز بھی چھوڑ بیٹھے اور پھر اسی معصیت و نافرمانی کی دلدل میں جاگرے جہاں پہلے پھنسا ہوا تھا اور مہینے بھر کے ’’اعمال صالحہ‘‘ کی کمائی اکارت کر دے۔ (والعیاذباللہ) اس لیے ضروری ہے کہ اس مبارک مہینے میں اپنا احتساب کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے صراط مستقیم کا انتخاب کر لیں اور اپنا ہر لمحہ ہر لحظہ قرآن و سنت کے مطابق گزار کر آخرت میں اللہ کے ہاں سرخرو ہو جائیں (انشاء اللہ)اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے دین کے لئے چن لے اور ہم سے راضی ہو جائے۔ (آمین)
(بہ شکریہ روزنامہ نوائے وقت)