Thursday, November 21, 2024
HomeFeaturesلوڈ شیڈنگ کا حل، شمسی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد

لوڈ شیڈنگ کا حل، شمسی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد

لوڈ شیڈنگ کا حل، شمسی توانائی کے منصوبوں پر عمل درآمد

نوید نقوی

پاکستان میں اس وقت بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پورا ملک پریشان ہے۔ طلب اور رسد کے واضح فرق کی وجہ سے پورا ملک لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہا ہے۔ بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ بجلی بنانے کے تمام درآمدی ایندھن کا مہنگا ہونا ہے۔ بالآخر وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے ملک میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد کی منظوری دیتے ہوئے اس کی جلد تعمیر کی ہدایت کی ہے۔

شمسی توانائی سے دس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی

وزیرا عظم کے اعلان کے مطابق ملک میں دس ہزار میگا واٹ بجلی شمسی توانائی کے ذرائع سے حاصل کی جائے گی۔
وزیر اعظم کی جانب سے یہ اعلان ملک میں مہنگے درآمدی ایندھن کی بجائے سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔

درآمدی فرنس آئل ،کوئلے اور آر ایل این جی کی قیمتیں بڑھنے سے بجلی کی لاگت بڑھ گئی ہے

پاکستان میں درآمدی فرنس آئل، کوئلے اور آر ایل این جی سے بنائی جانے والی بجلی اس وقت ملک میں انرجی مکس کا 60 فیصد ہے اور عالمی مارکیٹ میں ان تینوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے پاکستان میں بجلی بنانے کی لاگت میں اضافہ ہوا ہےجسے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں پورا سال سورج کی روشنی دستیاب ہے

جولائی اور اگست میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی زیادہ لاگت کی وجہ سے بجلی کے بل بہت زیادہ آئے جس کی وجہ سے عوام کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان شمسی توانائی سے بہت زیادہ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک کے بعض شمال مغربی علاقوں کے علاوہ قریب قریب سبھی علاقے خشک اور گرم ہیں۔
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں گرم و سرد موسموں کے علاوہ خشک صحرا، شدید بارشوں والے مون سون ایام اور کئی چھوٹے بڑے دریا ہیں۔ اس ملک میں سارا سال سورج کی روشنی دستیاب ہے۔

توانائی کے شعبے کے ماہرین ملک میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں جس میں شمسی اور ونڈ پاور شامل ہیں۔ تاہم پاکستان میں ان دونوں ذرائع سے بجلی پیدا کرنے میں ملک کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔

ملک میں 64 فیصد بجلی زمینی ایندھن ،27 فیصد پانی ،5 فیصد جوہری توانائی کی مرہون منت

تمام تر قدرتی نوازشات کے ساتھ ساتھ محض 1.16 فیصد بجلی کے حصول کا ذریعہ شمسی توانائی ہے۔ بجلی کی ملکی ضروریات کا چونسٹھ فیصد زمین سے حاصل ہونے والے ایندھن سے پورا کیا جاتا ہے۔ بقیہ بجلی ستائیس فیصد پانی کی قوت اور پانچ فیصد جوہری توانائی سے حاصل کی جاتی ہے۔ متبادل توانائی چار فیصد بجلی کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔

معاشی ماہرین کا اتفاق ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں نے اس ملک پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن اس کے باوجود متبادل توانائی کے بھاری مواقع دستیاب ہیں۔
ملک میں شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کا ملک کی مجموعی بجلی کی پیداوار میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیشنل گرڈ میں ڈالی جانے والی شمسی بجلی کے علاوہ انفرادی طور پر پاکستان میں گھریلو اور زراعت کے شعبے میں سولر پینلز سے بجلی پیدا کی جاتی ہے تاہم اس کا ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں بھی حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

نیشنل گرڈ اسٹیشن کو صرف 430 میگاواٹ شمسی توانائی سے فراہم ہوتی ہے

ماہرین شمسی توانائی کے شعبے میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہ ہونے کی وجہ حکومتوں کی توانائی پالیسی میں عدم تسلسل کو قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق اگر پاکستان میں موجود شمسی توانائی کے پوٹینشل کے صرف 0.07 فیصد کو قابل استعمال بنا لیا جائے تو یہ ملک کی توانائی کی ضرورت کو پورا کر سکتا ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کی پیداوار ملک کی بجلی کی پیداوار میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں بجلی کے نظام یعنی نیشنل گرڈ میں صرف 430 میگاواٹ شمسی توانائی فراہم کی جاتی ہے۔

پیک سیزن میں ملک کو 26 سے 27 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت

اس وقت پاکستان میں پیک سیزن میں 26000 سے 27000 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ ملک میں بجلی کی پیداوار اٹھارہ سے انیس ہزار میگاواٹ ہے۔ طلب اور رسد میں فرق کی وجہ سے تقریباً پورا پاکستان بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شکار ہے۔
حکومتی ادارے الٹرنیٹ انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ یعنی قابل تجدید توانائی کے ترقیاتی ادارے کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ملک میں چار سو میگا واٹ شمسی توانائی قائد اعظم سولر پاور پارک میں لگے چار پراجیکٹس سے نیشنل گرڈ میں فراہم کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ تیس میگاواٹ کے دو اور چھوٹے منصوبوں سے شمسی توانائی حاصل کی جاتی ہے۔

سولر اور ونڈ پاور سے2025 تک 25 فیصد ، 2030 تک 30 فیصد بجلی حاصل کرنے کا ہدف مقرر

حکومت کی قابل تجدید توانائی پالیسی 2019 کے مطابق، جس میں شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ذرائع شامل ہیں، 2025 تک 25 فیصد بجلی ان ذرائع سے حاصل کی جائے گی اور 2030 تک اس کی شرح 30 فیصد تک کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔امریکی ڈیپارٹمنٹ آف انرجی کی ایک رپورٹ کے مطابق بغیر کسی رکاوٹ کے روزانہ تقریبا 1 لاکھ 73 ہزار ٹیرا واٹ سورج کی توانائی زمین سے ٹکراتی ہے، جو دنیا بھر میں زیر استعمال توانائی کی مقدار سے 10 گنا زیادہ ہے۔

موجوہ پاکستان شمسی توانائی میں 44 ویں نمبر پر

ماہرین کے مطابق شمسی توانائی کی پیداوار کے لیے پاکستان دنیا بھر میں تیسرا موزوں ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں سال میں 315 دن دھوپ چمکتی ہے۔ مگر پاکستان شمسی توانائی پیدا کرنے والے ممالک کی فہرست میں ابھی 44 ویں نمبر پر ہے۔

شمسی توانائی سے حاصل چار سو میگا واٹ کے علاوہ سو میگا واٹ کے الیکٹرک شمسی توانائی سے حاصل کرتا ہے تاہم وہ نیشنل گرڈ میں شامل نہیں ہوتا۔ ملک میں قائد اعظم سولر پاور چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت لگایا گیا۔ لیکن اس پروجیکٹ کے بعد کسی بڑے پروجیکٹ پر کام نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں طلب کے مطابق اضافہ نہیں ہوا اور ملک میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے کی بجائے طویل ہوتا جا رہا ہے۔

شمسی توانائی کے شعبے میں کم پیش رفت کی وجہ پالیسیوں کا عدم تسلسل

پاکستان میں سولر پاور کے شعبے میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی کا بے پناہ پوٹینشل موجود ہے۔ ’پاکستان کے بہت بڑے حصے میں سورج کی روشنی پورا سال موجود ہوتی ہے۔
پاکستان میں شمسی توانائی کے شعبے میں ترقی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ حکومتی سطح پر پالیسی میں تسلسل نہ ہونا ہے۔ ’اس کی وجہ سے اس شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہو سکی اور نہ ہی اس کے بے تحاشا پوٹینشل کو ابھی تک قابل عمل بنایا جا سکا ہے۔‘
ملک میں سولر آلات کی لوکلائزیشن پر بھی کوئی کام نہیں ہوا جس کی وجہ سے مقامی طور پر ان کی تیاری کے ذریعے اس شعبے کو ترقی دینے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

سولر شعبے کی ٹیرف میں نظر ثانی کی ضرورت

سولر کے شعبے کی ٹیرف پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس کے ذریعے اس شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری کو ملک میں لایا جا سکے۔
قابل تجدید توانائی پالیسی پہلی بار 2002 میں متعارف کرائی گئی تاہم اس پر کوئی خاص پیش رفت نہ ہو سکی۔
’شمسی توانائی کے شعبے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو اس کا حکومتی ترجیحات میں شامل نہ ہونا رہا ہے۔ مثلاً گذشتہ حکومتوں میں جب گیس سستی تھی تو زیادہ تر پلانٹ گیس پر لگائے گئے اور ان سے بجلی کی ضرورت پوری کی گئی۔ حکومتوں کی جانب سے شمسی توانائی کے ذریعے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔

قائد اعظم سولر پارک منصوبے میں سست روی

بجلی کی طلب سے زیادہ پیداوار پاکستان کے لیے مسئلہ کیوں بن گئی ہے؟ جب سی پیک کے تحت قائد اعظم سولر پارک بنایا گیا تو منصوبے کی ورکنگ اتنی اچھی نہیں تھی اور نہ ہی اس میں سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھا گیا جس کی وجہ سے اس کی آؤٹ پٹ کم رہی۔
اس منصوبے سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پلان تھا تاہم اس سے چار سو میگاواٹ پیدا کیا جا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں یہ منصوبہ لگایا گیا وہاں گرد و آلود سے انھیں محفوظ رکھنے کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ’اس کی بجلی پیدا کرنے کی استعداد مطلوبہ سطح تک نہ پہنچ سکی۔‘
شمسی توانائی کے سلسلے میں جو اب تک بڑی رکاوٹ سامنے آئی ہے وہ حکومت کی جانب سے اس کے پلانٹ لگانے کے لیے آکشن کا پراسس متعارف کرانا تھا تاہم اس کے لیے قواعد و ضوابط ابھی تک جاری نہیں کیے جا سکے جس کی وجہ اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔
شمسی توانائی کے منصوبے میں آکشن طریقہ کار میں کمپنیوں سے بڈز طلب کی جاتی ہیں کہ وہ اتنی بجلی پیدا کریں گی جو حکومت لے گی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں قواعد کو ابھی تک نہیں طے نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ سے اس شعبے میں پیش رفت نہیں ہو رہی۔

وزیر اعظم کی اگلی گرمیوں سے پہلے 10 ہزار میگاواٹ کا حصول یقینی بنانے کی ہدایت

وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے ملک میں دس ہزار میگا واٹ شمسی بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کو اگلی گرمیوں سے پہلے مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان کے اعلان کے مطابق حکومت کے دفاتر اور ٹیوب ویل کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا وزیر اعظم کے اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دس ہزار میگاواٹ میں آف گرڈ اور آن گرڈ شمسی بجلی شامل ہے یعنی ایک طرف منصوبے لگا کر ان سے شمسی توانائی حاصل کر کے اسے نینشل گرڈ میں ڈالنا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ٹیوب ویلز، دفاتر اور گھروں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنا ہے جس کا نیشنل گرڈ سے کوئی واسطہ نہیں ۔

ان آئی جی سی ای پی پالیسی 2021 کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ایک نمبر دیا جاتا ہے کہ جس کے تحت اتنی بجلی پیدا کی جائے گی، تاہم دس ہزار میگا واٹ کے اس منصوبے میں آف گرڈ اور آن گرڈ دونوں طرح کی شمسی توانائی شامل ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک میں شمسی توانائی کے فروغ کے لیے سولر پینلز کی درآمد پر ٹیکس پر چھوٹ ہے۔
دس ہزار میگاواٹ بجلی کے شمسی توانائی کے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے کافی محنت کرنا پڑے گی کیونکہ آن گرڈ شمسی توانائی کے آکشن کے قواعد کو ابھی حتمی صورت نہیں دی جا سکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

نیپال کی ناقابل تسخیر مقدس چوٹی 

RELATED ARTICLES

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -

Most Popular

Recent Comments

عنایت شمسی on امی جان الوداع
Abdul Rauf mahar on قاری سعد نعمانی