اسلام میں صدقہ کی ترغیب اور اہمیت کسی سے مخفی نہیں،اور ساتھ ساتھ صدقہ کو دفع ِ بلا کا ذریعہ بھی فرما دیا گیا ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ صدقہ بلاؤں کو ٹالتا ہے‘‘۔یعنی جب ایک مسلمان صدقہ ادا کرتا ہے اور کسی کی حاجت پوری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اسے مصائب و آفات سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔
مسلم معاشرے میں صدقے کا رجحان
صدقے کے بارے میں اسلام کی انہیں تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں صدقہ و خیرات کا کافی رواج ہے، بالخصوص مصائب و آلام کے وقت صدقہ کا بہت زیادہ اہتمام کیاجاتا ہے،اور کیاجانا بھی چاہیئے، لیکن اس سلسلہ میں نادانستہ اور غیر محسوس طور پر ایک غلط روایت معاشرہ میں سرایت کرتی جارہی ہے کہ پریشانی یا تکلیف کی صورت میں صدقہ دینے کی روایت ذبیحہ یعنی اللہ کے لیے جانور کی قربانی کرنے کے ساتھ مخصوص ہوتی جارہی ہے۔
صدقے کے حوالے سے ایک غلط رواج
ہمارے معاشرہ میں یہ روایت کیسے چل پڑی ، اس کا کیا تاریخی پس منظر ہے اس بحث میں ہم نہیں جائیں گے ، ہوسکتا ہے کہ قدیم ہندوستانی تہذیب میں جان کی بَلی دینے کا رواج ہے، یہ اسی کا کچھ اثرات ہوں، یا ہمارے زمانہ کے عامل حضرات جو کالے بکرے ذبح کرواتے رہتے ہیں اس سے یہ غلط فہمی پروان چڑھی ہو کہ جان پر کوئی مصیبت آن پڑے یا جان کو کوئی خطرہ ہو تو کسی جاندار کی قربانی پیش کردو تو اس مصیبت سے نجات مل جائے گی ۔
اسلام میں صدقے کا وسیع تصور
سب سے پہلے توہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں صدقہ کا تصور (concept)بہت عام ہے ، راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی صدقہ ہے جو بظاہر چھوٹا عمل ہے ۔ اسلام کی نظر میں کسی کو گھر بنا کر دے دینا بھی صدقہ ہے،کسی فرد کو نیکی کی بات بتانا بھی صدقہ ہے جو ایک انفرادی عمل ہے اور لوگوں کی تعلیم و تربت کےلئے اجتماعی نظم قائم کرنا بھی صدقہ ہے جیسے اسکول یا مدرسہ قائم کردینا۔اسی طرح کسی کو انفرادی طور پر دوائی دلانے سے لیکر مفاد عامہ کے لئے ہسپتال بنوادینا یہ سب صدقہ میں شامل ہے۔
صدقے کا مقصد ضرورت مند کی حاجت روائی
دوسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ صدقہ کا مقصد ضرورت مند کی حاجت روائی ہے اور پیٹ بھرنا یقینا ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن اس میں انسان کے پاس بہت سے اختیارات ہوتے ہیں وہ دال روٹی سے بھی پیٹ پھر سکتا ہے،وہ روٹی پانی میں بھگو کر یا پیاز کے ساتھ کھاکر بھی اپنے پیٹ کی آگ بھجا سکتا ہے اس کیلئے گوشت کھانا کوئی بنیادی ضرورت نہیں ہے، برخلاف اسکے دیگر بنیادی ضروریات ایسی ہیں کہ جن میں محتاجگی زیادہ ہے لیکن ہم ان کو نظر انداز کردیتے ہیں ان میں علاج معالجہ ، بچوں کی تعلیم اور رہائش سرِ فہرست ہیں۔
چنانچہ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنے معاشرہ سے اس غلط روایت کو ختم کریں اور صدقہ کی روح اور اس کے حق کو سمجھ کر صدقہ ادا کرنے کی کوشش کریں،جس کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے حقیقی ضرورت مند کو تلاش کیا جائے،پھر اس کی ضرورت معلوم کی جائے اور حسبِ توفیق اس کے ساتھ تعاون کیا جائے،یقیناایسے صدقہ کا ثواب اور اس کے اثرات روایتی طریقہ سے کئے جانے والے صدقہ سے کہیں زیادہ ہوں گے ۔
مسلم معاشرے کی بنیادی ضرورت
ساتھ ساتھ اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ دیگر بنیادی ضروریات کی طرح مسلمان کی ایک بنیادی ضرورت قرآن پاک کی تعلیم ہے جوکہ آجکل مسلمانوں کے صدقات کا بہترین مصرف ہے،بالخصوص جہاں حکومتی سطح پر قرآنی تعلیم کا انتظام نہ ہو وہاں مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے طور پر قرانی مکاتیب اور قرآن کی تعلیم کا انتظام کریں تاکہ مسلمانوں کے بچے اور بڑے سب کے سب قرآن کی تعلیم سے بہرہ ور ہوسکیں۔اس میدان میں ہمارے دینی مدرسے بہترین کام کر رہے ہیں ،اور الحمدللہ ملک کے کونے کونے میں کام کر رہے ہیں ، اگر اہل خیر حضرات اپنے اپنے قریبی مدارسِ اور مکاتیب کے ساتھ تعاون کریں گے تو یہ ان کی طرف سے ایک بہترین صدقہ ہوگا جس کا نفع پورے مسلم معاشرے کو پہنچے گا ۔