اقبال مسیح ، بارہ برس کا ایک گمنام ہیرو
جبران عباسی
چھ سو روپے کے قرض کے بدلے چار سالا اقبال کو غلام بنا دیا گیا اور وہ زنجیروں میں قید کارپٹ فیکٹری میں کام کرنے لگا۔ اس نے جب بھاگنے کی کوشش کی تو پولیس والوں نے پکڑ کر خوب تشدد کیا اور پھر سے مالک کے حوالے کر دیا۔ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر نہ صرف وہ خود اس درد ناک غلامی سے آزاد ہوا بلکہ اس نے تین ہزار اپنے جیسے غلام بچوں کو بھی آزاد کروایا اور دنیا کا سب سے کم عمر ترین لیبر لیڈر بن گیا۔
کون تھا یہ اقبال، جس کا اقبال کبھی بلند نہ ہو سکا، اقبال کا انجام کیا ہوا تھا۔ چائلڈ لیبر کی اس سنسنی خیز ظلم کی مکمل داستان جاننے کےلئے اس مضمون کا مکمل مطالعہ کریں۔
پاکستان میں معصوم بچپنا بھی مصائب جھیلنے میں گزرتا ہے
ہماری زندگی میں سب سے معصوم ہمارا پچپنا ہوتا ہے جس میں ہم ہر غم سے آزاد جیو اور جینے دو کی پالیسی پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہمارے والدین ہماری معصوم سی خواہشیں، تعلیم اور صحت کےلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔
مگر پاکستان میں لاکھوں بچوں کا پچپن ایسا نہیں ہے۔ وہ محض پیدا ہی مصبتیں جھیلنے کےلئے ہوتے ہیں۔
ملک میں ایک کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ،چائلڈ لیبر کا شکار
ایک نجی تنظیم “سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چلڈرن” کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ دو لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔
عالمی ادارۂ محنت کے مطابق یہ بچے زیادہ تر قالین بننے، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت، ، گھریلو ملازمت اور اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ پر ملازمت کرتے ہیں۔
اندرون پنجاب اور سندھ میں چائلڈ لیبر کے کئی دلخراش واقعات آئے روز سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ بچے یہاں نہ صرف جسمانی مشقت کرتے ہیں بلکہ ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ غربت کے شکار خاندان جب قرض دار کا سود سمیت قرض نہیں چکا پاتے تو اپنے بچے قرض مالکان کے حوالے کر دیتے ہیں جو ان بچوں کا سستی لیبر کے طور پر استحصال کرتے ہیں۔ایسی ہی کچھ کہانی اقبال مسیح کی ہے۔
اٹلی کا اسکول کم عمر ترین لیبر لیڈر اقبال مسیح کے نام ،بچوں کا عجیب خراج تحسین
اٹلی کے شہر مونزہ میں ایک سکول کا نام جب تبدیل کر کے اقبال مسیح ایلمنٹری سکول رکھا گیا تو وہاں کے بچوں نے اقبال مسیح کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
“ہم نے تمہاری دکھ بھری کہانی سنی اور اب ہم یہ جان گئے کہ تم ایک بہادر بچے تھے۔ تم سارے بچوں کے حقوق کے لیے لڑے، لیکن تم بدقسمت بھی تھے۔ ہم تمہیں یاد رکھنے کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے سکول کو تمہارا نام دینا چاہتے ہیں۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارا یہ سکول ہر ایک کے لیے امن اور انصاف کا گہوارا ہوگا۔”
اقبال مسیح 1983 میں پنجاب کے ضلع گجرانوالہ کے شہر مرید کے میں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا خاندان انتہائی غریب تھا۔ اقبال کے والد نے اپنے بھائی کی شادی کےلئے ایک مقامی کارخانہ دار سے چھ سو روپے کا قرض لیا تھا۔ جب وہ یہ قرضہ چکا نہ پایا تو اس نے اپنے چار سالہ بیٹے اقبال کو کارخانہ دار کے سپرد کر دیا۔
کارپٹ فیکٹری میں بیڑیوں میں قید دس سالہ محنت کش بچے کے فرار کی کہانی
اقبال کارخانہ دار کی کارپٹ فیکٹری میں دیگر غلام بچوں کے ساتھ کام کرنے لگا۔ یہ بچے بھاگ نہ جائیں اس لئے ان کو سخت نگرانی میں رکھا جاتا اور بیڑیاں ڈال دی جاتیں تھیں۔ چھ سال تک اقبال مسیح اس کارخانہ میں کام کرتا رہا مگر اس کا چھ سو روپے کا قرض نہ اتر سکا۔
جب اس کی عمر دس سال ہوئی تو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں چائلڈ لیبر کو غیر قانونی اور سنگین جرم قرار دے دیا۔ اقبال کو اس فیصلے سے ہمت بندھی اور اس نے سوچا وہ بھاگ جائے۔ اسے قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ یوں اقبال فرار ہو گیا۔
مگر قانونی تحفظ اقبال کےلئے محض ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا۔ تحفظ دینے والی پولیس نے ہی اقبال مسیح کو پکڑ کر تشدد کر کے دوبارہ کارخانہ دار کے حوالے کر دیا ۔ جس نے اقبال مسیح کو زنجیریں ڈال کر دوبارہ سے کام پر لگا دیا۔
لیکن جب آزادی کی تمنا دل میں تڑپ اٹھے تو زور کتنا ہی بازوؤں قاتل میں کیوں نہ ہو انسان ہر قیمت پر قفس سے آزادی کا خواب تعبیر کر کے رہتا ہے۔
بالآخر اکتوبر 1992، اقبال کو وہ موقع پھر مل ہو گیا جس کا اسے بےصبری سے انتظار تھا۔ وہ کارپٹ فیکٹری سے بھاگ نکلا اور ایک ٹریکٹر ٹرالی میں سوار ہو گیا۔ یہ ٹریکٹر ٹرالی اسے بین الاقوامی شہرت تک لے گئی تھی۔
یہ ٹریکٹر ٹرالی ایک اجتجاج میں جا رہی تھی ، وہاں اقبال مسیح کی ملاقات ایک سوشل ورکر احسان سے ہوئی۔ اقبال نے اپنی ساری روداد احسان کو سنائی اور پھر احسان کے کہنے پر اقبال نے اپنے اوپر بیتی ظلم کی داستان پورے جلسہ عام میں پیش کی۔
یوں اقبال کو آزادی نصیب ہوئی، احسان نے اسے ایک سکول میں داخل کر دیا۔ یہ سکول خود اسی مقصد کےلئے بنا تھا جہاں غلام بچوں اور دیگر مستحق بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔
اقبال نے چار سالہ تعلیم اپنی ذہانت کی بنا پر صرف دو سال میں مکمل کی اور وہ مقبول بھی ہو گیا۔ اس نے چائلڈ لیبر کے خلاف ایک تحریک شروع کر دی۔
اقبال مسیح کی جدو جہد سے مختلف فیکٹریوں سے تین ہزار بچے آزاد ہوئے
اقبال مسیح بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ تنظیم کا سپوک پرسن بن گیا اور ہر جگہ مزاحمتی تحریک شروع کر دی۔ تنظیم نے اقبال مسیح کو مظلوموں کی آواز بنا دیا۔
اقبال مسیح نے اندرون ملک اور بیرون ملک مختلف سیشنز میں شرکت کیں اور ہر جگہ اندرون پنجاب کی فیکٹریوں میں رکھے گے غلام بچوں کی روداد سنائی۔
اقبال مسیح کی تحریک کی وجہ سے کارپٹ انڈسٹری اور پاکستان کی سفارتی ساکھ پر منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔ دنیا نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ وہ چائلڈ لیبر کے خلاف موثر قانون سازی کرے۔
انٹرنیشنل مارکیٹ میں پاکستانی کارپٹ کی مانگ میں زبردست کمی سامنے آئی کیونکہ بین الاقوامی کمپینوں نے یہ کہہ پر پاکستان قالین خریدنے سے انکار کر دیے کہ ایسے قالین جو بچوں کی محنت سے بنائے گے ہوں ناقابل خرید ہیں۔
یوں بین القوامی دباؤ کے نیتجے میں پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف چھاپے شروع ہو گئے اور محض دو ہی سالوں میں تین ہزار سے زائد بچے جو کارخانہ داروں نے محبوس کر رکھے تھے رہا کروائے گے۔ یوں اقبال ان بچوں کےلئے رحمت کا فرشتہ ثابت ہوا۔
اقبال مسیح کی عالمگیر سطح پر پذیرائی
اقبال مسیح کو عالمگیر سطح پر کافی شہرت حاصل ہوئی۔ 1994 میں اسے بوسٹن امریکہ میں ریبوک ہیومن رائٹس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس موقع پر اقبال مسیح نے کہا تھا۔
” ہم جیسے جبری مشقت کرنے والے بچوں کے لیے بی ایل ایل ایف اور احسان اللہ نے وہ کام کیا ہے جو آپ لوگوں کے لیے ابراہم لنکن نے کیا تھا۔ آج آپ آزاد ہیں اور میں بھی آزاد ہوں”۔
کینیڈا میں اقبال مسیح سے متاثر ہو کر ایک تنظیم “فری دا چلڈرن ” کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس تنظیم نے پاکستان میں بیس سکول قائم کئے تھے۔
اقبال مسیح کی زندگی پر اطالوی مصنف فرانسکو ڈی ایڈمو نے ایک ناول “اقبال” بھی لکھا تھا۔ اس ناول میں اقبال کو استعماریت کے خلاف مزاحمت کی علامت پیش کیا گیا۔
امریکا،اسپین میں ہر سال 16 اپریل کو اقبال ڈے منایا جاتا ہے
سنہ 1996 سے سپین اور امریکہ میں ہر سال سولہ اپریل کو “اقبال ڈے” منایا جاتا ہے۔ اس دن اقبال مسیح کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔
اٹلی نے اپنے ایک پرائمری سکول کا نام اقبال مسیح پر رکھا اور اور ورلڈ چلڈرن پرائز فار ہیومن رائٹس سے بھی نوازا۔
سنہ 2009 میں امریکی کانگریس نے اقبال مسیح ایوارڈ جاری کیا جو بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے لوگوں کو ملتا ہے۔
سنہ 2014 میں جب بھارتی خاتون کیلاش سیتارٹھی کو چائلڈ لیبر کے خلاف جہدوجہد کرنے پر نوبل انعام دیا گیا تو انھوں نے اپنی تقریر میں یہ ایوارڈ اقبال مسیح کے نام کیا تھا۔
سنہ 2017 سے سپین کی سالامانکا یونیورسٹی ہر سال 16 اپریل کو اقبال ڈے مناتی ہے۔
درجنوں تنظمیں اور ایوارڈ اقبال مسیح کی جہدوجہد سے انسپائر ہو کر تشکیل دیے گے۔ رہتی دنیا تک اقبال میسح کا ستارہ اقبال پر رہے گا۔
کارپٹ مافیا کے ہاتھوں اقبال مسیح کا 13 سال کی عمر میں قتل
جب دنیا اقبال مسیح کی عظمت اور جہدوجہد کو مزاحمت کا استعارہ بنا رہی تھی تو اقبال مسیح پاکستان کی کارپٹ اور چائلڈ لیبر مافیا کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ اقبال مسیح نے پاکستانی کارپٹ مافیا کی کروڑوں روپوں کی انڈسڑی کےلئے مشکلات کھڑی کر دی تھیں۔ چائلڈ لیبر کی صورت میں جو انھیں سب سے سستی لیبر دستیاب تھی وہ اب ناممکن نظر آ رہی تھی۔
کارپٹ مافیا کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ وہ اقبال مسیح سے اپنے خسارے کا حساب لے لے۔
سولہ اپریل 1995 کو اقبال مسیح جب محض تیرہ برس کا تھا اور اپنے گاؤں میں بچوں کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا کہ اسے ہیروئن کے نشے میں مبتلا ایک شخص محمد اشرف نے گولیاں ماری کر ہلاک کر دیا۔ اس قاتلانہ حملے کے پیچھے وہی کارپٹ مافیا تھا جس کے خلاف اقبال نے مزاحمتی تحریک شروع کر رکھی تھی۔
اقبال چار سال کی عمر میں ایک غلام بنا، دس سال کی عمر تک غلامی کی بیڑیوں میں جکڑا رہا اور محض تین برس میں اس نے کارپٹ مافیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، تین ہزار بچوں کو اس غلامی سے آزاد کروایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے زندگی اگر مختصر بھی ہو مگر آپ کے ارادے مضبوط ہوں تو ہر منزل آسان ہے۔
بدقسمتی سے چائلڈ لیبر آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس وقت بھی ہزاروں بچے زنجیروں میں قید کسی اقبال مسیح کے منتظر ہیں۔ ہاں اگر اقبال مسیح ظلم کا پہاڑ ریزہ ریزہ نہ کر سکا مگر اس نے اسے اپنی جگہ سے سرکایا ضرور تھا۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستانی بچے میتھ میں کیوں کمزور ہیں؟ ماہرین سر جوڑ کے بیٹھ گے