استاد نعمان علی خان کے خطبے کا ترجمہ
(مترجمہ؛ربیعہ فاطمہ بخاری)
(پہلی قسط)
یہ سال کا اختتام ہے، کرسمس بریک، نیو ائیر بریک، آپ میں سے بہت سے بچّے اسکولز سے فارغ ہیں اس لئے مسجد معمول سے زیادہ بھری ہوئی ہے۔ اور مجھ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ یہاں بہت سے بچّے موجود ہیں توکیا آپ ایک خطبہ دے سکتے ہیں اور انہیں نماز پڑھنے کی تلقین کر سکتے ہیں؟ اس لئے کہ بچّے گھر پہ ہیں اور وہ والدین کی بات نہیں مانتے، اور نماز نہیں پڑھتے۔ کیا آپ کسی بھی طرح انہیں نماز پڑھنے پہ آمادہ کر سکتے ہیں؟
آج میں صرف بچّوں سے باتیں کروں گا۔ اور آپ میں سے وہ بچّے، جو نماز پڑھنے کیلئے مسلسل کوشاں ہیں، لیکن آپ کا نماز پڑھنے کو جی نہیں چاہتا، امّی آپ کو ہر وقت برا بھلا کہتی ہیں، بار بار نماز پڑھنے کیلئے اٹھنے کا کہتی ہیں کہ اٹھّو، اٹھّو، نمازپڑھو، چھٹیاں ہیں، گھر پہ ہو، تمہارے پاس نماز نہ پڑھنے کا کیا بہانہ ہے؟ چلو مسجد چلیں۔۔۔!
اور آپ اپنے پیر گھسیٹتے ہیں اور آپ سخت ناراض ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں تو آپ اکتائے ہوئے انداز میں اپنی ڈیلے گھما رہے ہوتے ہیں. ہیں نا۔۔! ایسا ہی کرتے ہیں نا۔۔!
انسان کی اندرونی کیفیت اور بیرونی کا فرق
چلیں آپ کے والدین سے ایک لمحے کیلئے بات کرتے ہیں۔ جب آپ اپنے بچّوں کو نماز پڑھنے کیلئے مجبور کرتے ہیں، ان پہ دباؤ ڈالتے ہیں اور نماز نہ پڑھنے پہ برا بھلا کہتے ہیں اور وہ کسی نہ کسی طرح نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وہ 13، 14 یا 15 سال کے ہیں۔ آپ کو شاید ان کا نماز پڑھنا اچھّا محسوس ہو رہا ہو لیکن انہیں اچھّا نہیں لگ رہا ہوتا۔
اور ہمارے مذہب کی بنیاد صرف ظاہری اعمال نہیں ہیں بلکہ ہمارے دین کی بنیاد ہماری اندرونی کیفیّات ہیں کہ ہمارے اندر کیا وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ وہ زیادہ اہم ہے۔ اس لئے صرف اس بنیاد پر کہ آپ ایک ایسا رویّہ دیکھ رہے ہیں، جو آپ اپنے بچّوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم نے واقعتاً کوئی بہت اچھّا کام اپنے بچّوں کیلئے سرانجام دے دیا ہے۔ ایک لحاظ سے یہ اچھّا بھی ہے۔
نماز کی ترغیب
لیکن یہ سب مصنوعی ہے، صرف ایک بیرونی کیفیّت ہے۔ یہ ایک ایسے درخت جیسا عمل ہے، جو باہر سے تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر سے بالکل کھوکھلا ہو۔ اللّٰہ پاک نے اس دین کی بنیاد کچھ یوں بیان کی ہے۔ کہ یہ ایک ایسے درخت کی مانند ہے، جس کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ اور اس کی شاخیں آسمان کو چھوتی ہیں۔
جب کوئی بھی انسان نماز کے حوالے سے سستی کا شکار ہو۔ اور میں تین، چار یا چھ سال کے بچّوں کی بات نہیں کر رہا۔ میں ان بچّوں کی بات کر رہا ہوں، جو اب باشعور ہیں، جو ذہانت سے بھرپور سوالات ہوچھ سکتے ہیں، جو اس قابل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کے ماں باپ اور وہ خود ایک ہی جیسی گیمز کھیل سکتے ہوں، وہ ایک ہی ٹی۔وی شو دیکھ سکتے ہیں، جہاں وہ اس قابل ہو چکے ہیں۔
کہ مختلف مظاہر کو ایک بلند سطح پہ سمجھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کے جیسی دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔ یعنی ایک حد تک وہ آپ جتنی شعوری سطح پہ پہنچ چکے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ وہ ہھر بھی بچّے ہیں، ان کے اذہان مکمّل طور پہ پروان نہیں چڑھے، ابھی وہ قدرے کم تر سطح پر ہیں۔ تاہم وہ ایک حد تک ذہین اور سمجھدار انسان بن چکے ہیں۔ اور اب وہ اپنی صلاحیّتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ اپنا پسند کرنے کا حق خود استعمال کر رہے ہیں۔ اپنے لئے سوچ رہے ہیں۔
تو آپ سب نوجوان مرد اور خواتین، جو حاضرین میں موجود ہیں (میں آپ کو بچّے کہہ کے مخاطب نہیں کروں گا، میں آپ کو نوجوان مرد اور خواتین کہہ کے پکاروں گا)۔ چلیں ہم یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے آپ کے والد آپ سے مخاطب ہیں، یا آپ کی امّی۔ یا میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے بچّوں سے مخاطب ہوں۔ اور میں اس وقت ممبر پہ خطبہ نہیں دے رہا بلکہ اپنے گھر میں اپنے بچّوں کے ساتھ مخاطب ہوں۔ تو میں انہیں کیسے بتاؤں گا کہ نماز پڑھو؟
نماز کی تلقین کی ابتداء کیسے کریں
میں کچھ اس طرح آغاز کروں گا ؛
“ایک وقت ایسا تھا میری جان۔۔! جب میں تمہیں نہیں جانتا تھا۔ تم موجود ہی نہیں تھے، تم میرے لئے کچھ نہیں تھے، میں تمہارے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا۔ قرآنِ کریم میں ہے کہ انسان پہ ایک وقت بھی تھا، جب اسے بالکل یاد نہیں کیا جاتا تھا۔ اور مجھ سمیت کسی کو بھی تم یاد نہیں تھے، میں نہیں جانتا تھا کہ تمہارا نام کیا تھا۔ میں تم سے بالکل محبّت نہیں کرتا تھا کیونکہ تم میرے لئے بالکل صفر تھے، کچھ بھی نہیں تھے۔ پھر بالکل اچانک سے تم میری زندگی میں آ گئے۔ یہاں تک کہ جس وقت مجھے علم ہوا کہ تمہاری ماں تمہیں جنم دینے والی ہے۔
تم اس کے رحم میں پرورش پا رہے تھے، تب بھی مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم کس طرح کے ہو گے۔ مجھے کچھ تھوڑی سی گھبراہٹ تھی کہ شاید تم میرے جیسے ہو گے، لیکن مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ بلکہ جب تم ایک شیر خوار تھے، تب بھی میں بس اتنا جانتا تھا کہ تمہیں بھوک لگی ہے یا کبھی تم سے سخت بو آتی ہے اور بس، اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا تھا۔
ہاں، اب جبکہ تم بڑے ہو گئے ہو اور ہم آپس میں گفتگو کر سکتے ہیں، ایک ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان یہ رشتہ ہمیشہ سے موجود نہیں تھا. اور ہمارا یہ رشتہ ہمیشہ کیلئے ایسا رہے گا بھی نہیں۔ ہمارے پاس بہت تھوڑا وقت ہے، جو ہم نے اکٹھّے گزارنا ہے۔ تم بلوغت کے بالکل قریب آ چکے ہو۔
درحقیقت جب تم شیرخوار تھے، تب سے اب تک کا وقت صرف ایک مہینے جتنا لگتا ہے۔ یوں جیسے میں نے پلکیں جھپکیں اور تم یہاں تک پہنچ گئے۔ ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا اور تم جوان ہو جاؤ گے، یونیورسٹی چلے جاوء گے، ملازمت کرنے لگو گے، تمہاری شادی ہو جائے گی۔ یہ سب کچھ ہو گا، ان شاء اللہ۔ اور جب یہ سب ہو جائے گا تو تم میرے پاس گھر واپس نہیں آؤ گے۔
تم میرے ساتھ اتنا وقت نہیں گزارو گے۔ تمہاری ملازمت ہو گی، اپنا خاندان ہو گا، اپنی بیوی ہو گی/ شوہر ہو گا۔ تمہاری اپنی زندگی ہو گی۔ تو ہمارے پاس اکٹھّا گزارنے کے قابل وقت بہت ہی کم ہے۔ اور اس محدود وقت میں بھی تم سکول جاتے ہو، میں کام پہ جاتا ہوں، ہم نے خریداری کرنا ہوتی ہے اور بہت کچھ۔
تو ہمارے پاس آپس میں گفت و شنید کیلئے شاید روزانہ کے بیس منٹ بھی بمشکل ہوتے ہیں۔ اور جب تم بڑے ہو جاؤ گے تو تمہیں صرف وہ لمحات یاد آئیں گے جو ہم نے اکٹھّے گزارے ہوں گے۔ کیونکہ ہم چوبیس گھنٹے ایک ساتھ نہیں ہوتے۔
نماز کی ترغیب
ایک انسان کسی دوسرے انسان کو مکمل نہیں جانتا
تو جو بات میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ میں تمہیں بہت کم جانتا ہوں۔ بہت ہی کم۔ کیونکہ کوئی بھی ایک انسان کسی بھی دوسرے انسان کو مکمّل طور پہ نہیں جان سکتا۔ تم مجھے ہر وہ بات نہیں بتاتے، جو تم سوچتے ہو نہ ہی میں تمہیں ہر وہ بات بتاتا ہوں، جو میں سوچتا ہوں۔ لیکن ایک ایسی ہستی ہے جو تمہیں اس وقت بھی جانتی تھی، جب تم میرے لئے کچھ بھی نہیں تھے.
اور وہ ہستی تم سے اس وقت بھی محبّت کرتی تھی، جب اس دنیا کی مخلوقات میں سے کوئی بھی تم سے محبّت نہیں کرتا تھا کیونکہ تم اس دنیا میں موجود ہی نہیں تھے۔۔۔
(جاری ہے)
یہ بھی پڑھیں